اسلام ٹائمز: حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام کے قائد علامہ فضل الرحمٰن کا ایرانی سفیر سے ملنا تعلقات کے ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی تکفیری قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کے اس بہتے ہوئے دھارے میں شامل ہو جائیں۔ آج جس قسم کی ہوا چل رہی ہے اس نے پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کے چہروں سے نقاب اتار پھینکا ہے۔ پاکستانی ریاست کو بھی چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران سے غیر معمولی نوعیت کے تعلقات استوار کرے، تاکہ مشرق کے یہ دو ممالک مل کر کرہء ارض کی تقدیر بدل دیں اور ان کی آب و تاب سے مشرق کے افق پر ایک نیا سورج ابھرتا ہوا نظر آئے۔ تحریر: سید تنویر حیدر
اسرائیل کے قیام کے بعد سے، اسرائیل کے نصاب میں، اسرائیل کے سب سے بڑے جس دشمن کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا وہ ”ملکِ پاکستان“ تھا۔ اس کی ایک وجہ اسرائیل اور پاکستان کا نظریاتی بنیادوں پر قیام اور دوسری وجہ اس نوزائیدہ مملکت پاکستان کا مشرق کے افق سے جنم لینا تھا۔ وہی مشرق جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ:
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
aسرائیل اپنے لیے، مشرق سے ابھرتی ہوئی کسی زندہ قوت کے مقابلے میں بے جان عالم عرب سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ وہی عالم عرب جس کے بارے میں اقبال نے ہی کہا تھا کہ:
”عرب ز نغمہء شوقم ہنوز بی خبر یست“
گویا اہل عرب میں وہ ذوق ہی نہیں تھا جو شاعر مشرق کے انقلابی اور آفاقی کلام کو اپنے متخیلہ کی زینت بنا سکتا۔ اسرائیل کی پاکستان کے حوالے سے تشویش میں اس وقت اور اضافہ ہوا، جب پاکستان ایک ایٹمی قوت بن گیا۔ اگرچہ پاکستان نے یہ صلاحیت اپنے ازلی دشمن بھارت کے مقابلے میں ”نیوکلیئر ڈیٹرنس“ قائم کرنے کیلئے حاصل کی تھی، لیکن ایک اسلامی ملک کے ہاتھوں میں ایٹم بم کا محض آجانا ہی ”گریٹر اسرائیل“ کا خواب دیکھنے والے صیہونیوں کے خوابوں کے محل پر ایٹم بم گرنے کے مترادف تھا۔ وجہ یہ کہ اسرائیلی خوب جانتے تھے کہ جس ملک کے چند ہوا بازوں نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی فضائیہ کو ناکوں چنے چبوائے تھے، اگر یہ ملک اسرائیل کے خلاف کچھ بڑا کرنے پر آمادہ ہو گیا تو اسرائیل کا کچھ نہیں بچے گا۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کے ایک سابق آرمی چیف اسلم بیگ نے ایران کو، امریکا کو اس کے گھٹنوں پر لانے کا آسان حل یہ بتایا تھا کہ اسرائیل کو اپنے نشانے پر لے لیا جائے۔ گویا ہر پاکستانی کے دل میں بیت المقدس سے محبت اور غاصب صیہونی حکومت سے نفرت کا معیار بہت بلند ہے۔ اگرچہ امریکا کی آشیرباد سے پاکستانی پر مسلط حکمرانوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ عرب حکمرانوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کریں اور اس ضمن میں کئی کوششیں بھی کی گئی ہیں، لیکن حالات نے انہیں اس قسم کی کسی خواہش پر عمل درآمد نہیں کرنے دیا۔
ہمارے حکمرانوں کے اسرائیل کے حوالے سے اس قسم کے خیرسگالی کے جذبات کے باوجود اسرائیل نے کئی بار انفرادی طور پر اور بھارت سے مل کر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو عراق کی طرز پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ لمحہ موجود میں پاکستان و ہندوستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ممکنہ جنگ کی خبروں کے درمیان ایک بار پھر اسرائیل اپنا کوئی کردار ادا کرنے کیلئے تیار کھڑا ہے۔ آج کے منظرنامے میں اسرائیل جسے اپنا ”دشمن نمبر ون“ سمجھتا ہے وہ تو ایران ہی ہے۔ ایران بھی عالم مشرق کا وہ ملک ہے جو عملی میدان میں اسرائیل کے خلاف صف آراء ہے اور جس نے اسرائیل کے خلاف اپنے جہاد کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے اس حفاظتی حصار کو توڑ دیا ہے، جو اس نے اپنی حفاظت کی غرض سے اپنے اردگرد قائم کر رکھا تھا۔ اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل اسی ایران کے حوالے سے اپنے ایک الہامی شعر میں کہ دیا تھا کہ:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہء ارض کی تقدیر بدل جائے
آج اسلامی جمہوری ایران کے ہاتھوں کرہء ارض کی تقدیر بدلنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ آج ایران نے دنیا کے نقشے پر اپنا ایک چھوٹا سا وجود رکھنے والے یمن کے ہاتھوں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کی ”سونڈ“ میں دم کر رکھا ہے۔ اسرائیل اور اسرائیل کے خاتمے کیلئے ایران کے تشکیل کردہ محور مقاومت کے مابین لڑی جانے والی جنگ مرحلہ بہ مرحلہ شدت اختیار کر رہی ہے۔ اگر اس معرکے میں کسی کی کمی محسوس کی جا رہی ہے تو وہ پاکستان کی کمی ہے، جو لگتا ہے بھارت کی کسی بڑی شرارت سے پوری ہو جائے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگوں میں پاکستان کے برے وقتوں کا ساتھی ہمیشہ ایران ہی رہا ہے۔ ان جنگوں میں ایران نے ہی پاکستان کو ”لاجسٹک سپورٹ“ دی تھی۔ ایران ان جنگوں میں پاکستان کو تیل اور دوسری ضروریات کی اشیاء فراہم کرتا رہا تھا۔ حتیٰ کہ اس وقت کی اخباری اطلاعات کے مطابق 65ء کی جنگ کے دوران پاکستانی زخمیوں کو خون دینے کیلئے تہران میں لائنیں لگ گئی تھیں۔ راجیو گاندھی کے دور میں جب پاکستان اور بھارت بالکل جنگ کے دھانے پر پہنچ چکے تھے، امام خمینیؒ کے اس بیان پر انڈیا حملے سے باز آیا تھا کہ ”کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ ایران پر حملہ تصور ہوگا“۔
آج بھی کشمیر کے حوالے سے ایران کے جاندار موقف کی بنا پر انڈیا کے میڈیا نے ایران پر آگ برسانا شروع کر دی ہے۔ اسرائیل اور انڈیا کے مابین قربت نے ایران اور انڈیا کے مابین رقابت کو جنم دیا ہے، بلکہ اب یہ رقابت، رقابت سے زیادہ مخاصمت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس مخاصمت نے پاکستان اور ایران کی عوام کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر دیا ہے۔ حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام کے قائد علامہ فضل الرحمٰن کا ایرانی سفیر سے ملنا تعلقات کے ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی تکفیری قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کے اس بہتے ہوئے دھارے میں شامل ہو جائیں۔ آج جس قسم کی ہوا چل رہی ہے اس نے پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کے چہروں سے نقاب اتار پھینکا ہے۔ پاکستانی ریاست کو بھی چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران سے غیر معمولی نوعیت کے تعلقات استوار کرے، تاکہ مشرق کے یہ دو ممالک مل کر کرہء ارض کی تقدیر بدل دیں اور ان کی آب و تاب سے مشرق کے افق پر ایک نیا سورج ابھرتا ہوا نظر آئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کے پاکستان کی اسرائیل کے کے مابین ایران کے مشرق کے تھا کہ رہی ہے اور ان
پڑھیں:
مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مشرقی یروشلم پر بطور مسلمان اپنے حقوق سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اردوان نے یہ بات دارالحکومت انقرہ میں ترکی کی وزارت خارجہ کی نئی عمارت کے سنگ بنیاد کی تقریب میں کہی۔
اردوان نے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ ترکی کی یکجہتی کا اعادہ کیا اور عہد کیا ہے کہ مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
ترک رہنما نے غزہ کے لیے اپنے ملک کی حمایت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ “ہمیں غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا جو اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم آج اور کل ان لوگوں کے خلاف ڈٹے رہیں گے جو ہمارے خطے کو خون کے سمندر میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور جو ہمارے جغرافیہ میں عدم استحکام کو ہوا دیتے ہیں۔
قطر میں ایک ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے بعد واپسی پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، اروان نے فلسطینی ریاست کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دوبارہ اٹھانے کا وعدہ کیا۔
دوحا میں عرب اسلامی کے ہنگامی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل پر معاشی دباؤ ڈالنا ہو گا ماضی نے ثابت کیا دباؤ مؤثر ہوتا ہے۔
صدر اردوان نے گذشتہ ہفتے قطر میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر اسرائیل کے حملے پر اسرائیلی وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ “نظریاتی طور پر نیتن یاہو ہٹلر کے رشتہ دار کی طرح ہیں”۔
اروان اس سے قبل نیتن یاہو کا ہٹلر سے موازنہ کر چکے ہیں اور اسرائیلی حکومت کو “قتل کا نیٹ ورک” کہہ چکے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں “فرنٹ آف انسانیت” فلسطین کے لیے وسیع تر حمایت حاصل کرے گا۔