Islam Times:
2025-09-18@13:03:15 GMT

حالات حاضرہ؛ طوفان الاقصی یمن اور امریکی شکست

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

‍‍‍‍‍‍

تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: حالات حاضرہ پہ علامہ ڈاکٹر میثم ہمدانی سے گفتگو
مہمان تجزیہ نگار: علامہ ڈاکٹر میثم ہمدانی
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 4 مئی 2025

موضو عات گفتگو:
 
طوفان الاقصی کے بعد ایک سال اور سات ماہ کے دورانیہ پر ایک نظر؟
یمن مقاومت کر رہا ہے، کیا امریکہ غیر اعلانیہ شکست قبول کر چکا ہے؟
سعودی عرب کے وزیر دفاع خالد بن سلمان نے ایران کا دورہ کیا ، رہبر انقلاب کوکس کا پیغام دیا اور کیا پیغام دیا تھا؟
پاک بھارت تنازعے میں  ایران کی مصالحت کی پیشکش
کیا اسرائیل ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کرے گا؟
ایران امریکہ مذاکرات، کیا نتیجہ نکلے گا؟
خلاصہ گفتگو و اہم نقاط:
طوفان الاقصی کے بعد مادی نقصانات کے باوجود معنوی طور پہ ملت   فاتح ہوئی ہے
ماضی کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے وجود کو خطرہ نہیں ہوا
چوہتر برس میں پہلی بار اسرائیل کا وجود خطرے میں آچکا ہے
مقاومت و مزاحمت سلامت ہے جب تک اسرائیل کا خاتمہ ہوتا
مقاومت و مزاحمت کی حکمتِ عملی تبدیل ہوسکتی ہے مگر  جاری رہے گی
اسرائیل اور صیہونی اپنی نابودی کے خوف کا شکار ہوچکے ہیں
طوفان الاقصیٰ نے تاریخ کا رُخ موڑدیا ہے
سینچری ڈیل کہیں غرق ہوچکی ہے،
یورپ سمیت دنیا فلسطینی ریاست کو ماننے کے لئے تیار ہوچکی ہے
افغانستان کے بعد امریکہ یمن میں بھی شکست سے دوچار  ہوچکا ہے
یمن میں امریکہ کو آپریشن بہت مہنگے پڑرہے ہیں
متحدہ عرب امارات اور عرب ممالک نے یمن کے خلاف آپریشن میں امریکی حمایت نہیں کی
امریکہ کو  یمن  میں غیر  اعلانیہ شکست ہوچکی ہے
عالمی رائے عامہ بھی یمن کی حمایت میں سازگار ہوتی جارہی ہے
 موجودہ حالات میں سعودی وزیر خارجہ کا دورہ ایران بہت اہمیت کا حامل ہے
یہ ایک اعلیٰ  سطحی وفد تھا جس کی سربارہی ولی عہد کررہے تھے
رہبرِ معظم سے ملاقات بھی خصوصی اہمیت اور توجہ کا مرکز رہی
لگتا یہ ہےسعودی وفد کا دور ہ ایران سے قُربت  بڑھانے کی سوچ کا اظہار لگتا ہے
اس دورہ کے بعد فلسطین کے حوالہ سے سعودی موقف بہت  بہتر ہوا ہے
پاک بھارت تنازعے میں  ایران کی مصالحت کی پیشکش کا مثبت قدم ہے
اس وقت بھارتی میڈیا  ایران کے  خلاف بھی  بہت زہر اُگل رہا ہے
پاکستانی ذمہ داران  کاایران کے بارے میں اپنے موقف کو مزید دوستانہ کرنے کی ضرورت ہے
ایرانی پاک بھارت تنازعے کو امریکی سازش کے طور پہ لے رہے ہیں
پاکستانی ذمہ داران کو امریکہ کے منافقانہ کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہے
اسرائیل کا ایران کے ایٹمی اثاثوں کا نقصان پہچانانا ممکن ہے
ایران کے متعدد ایٹمی مراکز ہیں، اس لئے ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنا نا ممکن ہے
ایران امریکہ مذاکرات ایک روٹین کے مذاکرات ہیں
امریکہ کے لئے ناممکن ہے کہ ایران کو مذاکرات کے ذریعے ڈکٹیٹ کرسکے
ایران امریکہ مذاکرات  میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوگا
ٹرمپ انتظامیہ اس مذاکرات کے ذریعے اپنے بیرونی مسائل کو دبانا چاہتا ہے
 
 
 
 
 
 
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: طوفان الاقصی ایران کے کے بعد

پڑھیں:

امریکی انخلا ایک دھوکہ

اسلام ٹائمز: العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان

عراق سے امریکی افواج کی تعداد میں کمی یا انخلاء کے بارہا اعلانات کے باوجود زمینی حقیقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اب بھی اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کے وسیع منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عراقی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ میڈیا جسے "جزوی انخلاء" کے طور پر پیش کرتا ہے، وہ دراصل ایک طرح کی حکمت عملی ہے، جس سے محفوظ علاقوں میں دوبارہ تعیناتی اور منتقلی۔ اس انخلا کے اعلان سے وہ عوامی دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی طرف سے ممکنہ خطرات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ عین الاسد اور اربیل کے علاقوں جیسے اڈوں کا نہ صرف فوجی کردار ہے، بلکہ ایک وسیع لاجسٹک اور اسٹریٹجک کردار بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے علاقے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے اور عراق کے اہم وسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے عراق میں بدستور رہنا چاہتا ہے۔ ایک عراقی یونیورسٹی کے تجزیہ کار اور پروفیسر "صلاح العمشانی" کے خیالات کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عراق میں امریکی موجودگی پر تنقیدی اور دستاویزی نظر رکھتے ہیں۔

امریکہ عراق سے اپنی افواج کے "بتدریج انخلاء" کی بات کرتا ہے، اس عمل کی نوعیت کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کیا واشنگٹن واقعی عراق چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے یا یہ صرف محفوظ اور کم مہنگے علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ ترتیب کا خواہشمند ہے۔؟ "اسلام ٹائمز" کے ساتھ انٹرویو میں سیاسی تجزیہ کار اور عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر، صلاح العمشانی نے وضاحت کی ہے کہ کسی کو سرکاری امریکی پروپیگنڈہ سے بے وقوف نہیں بننا چاہیئے، کیونکہ امریکہ کا عراق سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جو اعلان کیا گیا ہے، وہ صرف ان علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ تعیناتی ہے، جو خطے میں امریکی مفادات کے مطابق ہیں۔ امریکی عراق میں موجودگی کو تربیت اور فوجی مشاورت کا نام دیتے ہیں۔

امریکی افواج کو مشیر یا ٹرینر کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی فوج میں ایسے افسران اور کمانڈر موجود ہیں، جن کا تجربہ بہت سے امریکی مشیروں کی عمروں سے بھی زیادہ ہے۔ ایک ٹینک ڈرائیور یا ایک عام سپاہی راتوں رات مشیر کیسے بن سکتا ہے۔؟ ہمیں بنیادی طور پر ایسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عراقی فوج کی مدد کے لیے نہیں بلکہ اپنی افواج تیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود داعش کا تجربہ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے۔ "العمشانی" کے خیال میں شمالی عراق میں افواج کی منتقلی کا مطلب نہ صرف انخلا کے معاہدے کی پاسداری نہيں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کا سیاسی فریب بھی ہے۔ امریکہ 2020ء سے عوام کی رائے اور عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کے انخلاء کے دباؤ کا شکار ہے۔ آج اربیل یا شمالی عراق میں افواج کی منتقلی بھی معاہدوں کی بظاہر پاسداری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔

عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر نے  "عین الاسد" بیس کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اڈہ عراق میں سب سے بڑا امریکی اڈہ ہے اور بدقسمتی سے سنی علاقوں میں واقع ہے۔ جہاں کچھ مقامی سیاست دان امریکی موجودگی کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ایجنڈوں میں امریکہ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ تاہم رائے عامہ کے دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی دھمکیوں نے امریکہ کو اپنی افواج کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اربیل کو اب بھی ایک خاص حیثیت کیوں حاصل ہے۔؟ جس پر "العمشانی" نے جواب دیتے ہوئے کہا: اربیل امریکی جاسوسی مراکز کی پناہ گاہ اور عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مشتبہ سرگرمیوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ اسی علاقے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کانفرنسیں منعقد کی گئیں، مقامی حکام کی نظروں کے سامنے جنہوں نے نہ صرف ردعمل ظاہر نہیں کیا، بلکہ خود ایسی ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی۔

وہ اس واقعے کی مقبول جہت پر بھی زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراقی رائے عامہ امریکی موجودگی کے سخت مخالف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس موجودگی نے ملک کے رہنماؤں اور مہمانوں کے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس موجودگی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ "صلاح العمشانی" نے مزید کہا: جسے امریکہ "جزوی انخلاء" کہتا ہے، وہ درحقیقت ایک سیاسی شو ہے۔ امریکہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر کبھی قائم نہیں رہا۔ جیسا کہ وہ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہوگیا ہے۔، کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عراق کے ساتھ معاہدے پر قائم رہے گا؟ وہ دن آئے گا، جب آزاد عراقی مزاحمت کریں گے اور امریکیوں کو 2011ء کی طرح ملک سے نکال باہر کریں گے۔

آخر میں، العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • فلسطینی جنگلی جانور ہیں، امریکی وزیر خارجہ کی بوکھلاہٹ
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  •  امریکی ریاست یوٹا میں بگولوں سے کئی مکانات تباہ
  • امریکی ریاست میں بگولوں کے باعث کئی مکانات تباہ
  • ایران پر دباو کیلئے ہر حربہ آزمائیں گے، مارکو روبیو