سٹی42: سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان نے کہا ہے کہ بھارت کی دھمکیوں کے بعد پاکستانی قوم کا اتحاد ہماری مسلح افواج کیلئے تقویت کا باعث ہے،ہم افغانستان میں روس جیسی سپرپاور کو شکست دینے اور دنیا کا نقشہ بدل کے 10اسلامی ریاستوں کا قیام ممکن بنانے والے شہداء کے وارث ہیں۔

 سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان کا کہنا تھا کہ اپنی خاندانی روایات کو قائم رکھتے ہوئے اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ہر جارحیت کا سامنا کریں گے،حلقے کے دیرینہ مسائل کے حل کے ساتھ تعمیر و ترقی کے نئے منصوبوں کیلئے بھی بھر پور کوششیں جاری ہیں اور ان شا اللہ عوام جلد مزید خوشخبریاں سنیں گے ۔

پی ایس ایل 10: لاہور قلندرز اور کراچی کنگز میں آج جوڑ پڑے گا

ان خیالات کا اظہا ر انہوں نے حلقہ این اے 97 کے طویل دورے کے دوران مختلف برادریوںکے عمائدین ، کسانوں اور تاجروں سے ملاقاتوں میں گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ہمایوں اختر خان نے حلقے میں انتقال کر جانے والوں کے گھروں میں جا کر اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی بھی کی ۔

ہمایوں اختر خان نے کہا کہ حلقے کے مسائل کے حل کیلئے بھر پو را خلاص اور نیک نیتی سے کام کر رہے ہیں اور الحمد اللہ خدا کی ذات نے اس میں کامیابیاں بھی عطا کی ہیں ۔ ہم نے حلقے میں تین سیاسی دفاتر قائم کئے ہیں جو عوام کی بھر پور معاونت میں مصروف ہیں ۔

9سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کرنے والا ملزم عمر گرفتار

ملاقاتوں کے دوران پاک افواج سے بھر پور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ اگر بھارت نے جارحیت کی تو ساری قوم اپنی افواج کے شانہ بشانہ لڑے گی۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: ہمایوں اختر خان

پڑھیں:

خاک سے اٹھتے خواب: ایران و پاکستان کا اتحاد

کبھی کبھی تاریخ آہیں بھرتی ہے اوراس آہ میں، وقت کے ساحلوں پرلمبااورگہراایک دکھ رہتاہے جس میں اتناوسیع،اتناسب استعمال ہوتا ہےکہ سب سے زیادہ فصیح زبان والے بھی خاموش ہوجاتے ہیں۔یہ وہ آہ تھی جوایران کے جنوبی ساحل سے اٹھی تھی،جہاں شہید رجائی بندرگاہ ،جوکبھی تجارت اورقومیت کاقابل فخرسپاہی تھا،شعلے اوردھوئیں کے ستون کے نیچے گرگیا۔اس کا آغازسائرن سےنہیں ہوا،بلکہ غفلت کی خاموش آواز سے ہواایک چنگاری،نظرنہ آنے والی ،بےخوف، ذخیرہ شدہ آگ کےدل میں بسی ہوئی ہے۔ سوڈیم پرکلوریٹ،ایک نام جو شاید صرف جنگ میں تجارت کرنے والوں کیلئے جانا جاتا ہے،انتظارمیں بیٹھے تھے۔ جب بیدار ہواتواس نے سرگوشی نہیں کی بلکہ یہ گرجا۔
اس کے بعدآسمان تاریک ہوگیا۔ زمین، ایک بارسمندرکی ہواکواس نے چوما،پھرآگ تھوکنے لگی اوراس غیظ وغضب کے درمیان،ایک قوم کھڑی رہی،اس کی سانسیں غم اورکفرکے درمیان پھنس گئی،اس کی روح اپنے ہاتھ کی حماقت سے جھلس گئی۔ایک لمحے میں چالیس سے زیادہ جانیں لےلی گئیں ایک ہزارسےزائدزخمی ہوگئےجن میں درجنوں عمربھرکیلئے معذور ہوگئے، وہ مردجو مرنےکیلئےنہیں بلکہ اپنے خاندانوں کاپیٹ پالنے کیلئے کام کررہے تھے۔ وہ عورتیں جو آسمان کو خوف سے دیکھتی تھیں،اب ان کے بچوں کے خواب دھواں بن گئے ہیں۔ پھربھی،حقیقی تباہی تعداد میں نہیں ہے،بلکہ اس کے بعدہونے والی خاموشی میں ہے۔باپ کی خالی کرسی پر،ایک غم زدہ بندرگاہ کے اوپرسیاہ آسمان میں ان کا سب کچھ لٹ گیا۔ اس علم میں کہ یہ درد ٹالنے کے قابل تھاکہ حکمت کوپناہ دی گئی،وہ فرض ٹل گیا۔
ہم جانتے ہیں کہ دنیاکے افق پرکبھی کبھارایسے واقعات ظہورپذیرہوتے ہیں جونہ صرف انسانی جانوں کی ارزانی کانوحہ بن جاتے ہیں، بلکہ تہذیبوں کے جگرچاک کرتے ہوئے بین الاقوامی منظرنامے پرگہرے ارتعاشات بھی پیداکرتے ہیں۔ایران کی شہیدرجائی بندرگاہ پر حالیہ ہولناک دھماکہ بھی انہی سیاہ ابواب میں رقم ہوا، جس نے سوالات کے نئے بھنورمیں قوم کو ڈال دیاہے۔
فضاؤں میں دھواں بکھرتاہے،زمین پر تپتی چنگاریاں برس رہی ہیں،اورایک قوم اپنے زخمی خوابوں کے ساتھ حیرت و استعجاب اورحسرت میں گم ہے۔ایران کی عظیم تجارتی بندرگاہ شہید رجائی پرہونے والادھماکہ صرف ایک معمولی حادثہ نہیں،بلکہ ایک تہذیبی نقیب ہے،جوتدبرسے محروم حکمرانی کے نقائص کوعیاں کرتاہے۔بندرعباس کے ساحلوں پرگونجتی یہ قیامت،جس میں چالیس سے زائدجانیں نذرہوئیں اورہزاروں زخمیوں کاخون رائیگاں بہا،اس امرکی غمازی کرتی ہے کہ سائنس،طاقت اورترقی کی دوڑمیں انسانیت کوکس بے دردی سے قربان کردیاگیاہے۔
ایران کی سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ، شہیدرجائی،ایک خوفناک دھماکے کی لپیٹ میں آگئی،جس میں چالیس سے زائدافراد جاں بحق اورایک ہزارسے زیادہ زخمی ہوئے۔ابتدائی تحقیق کے مطابق،یہ سانحہ بندرگاہ پرذخیرہ شدہ بیلسٹک میزائلوں کے ٹھوس ایندھن،خاص طورپرسوڈیم پرکلوریٹ،کی نامناسب سنبھال کے نتیجے میں پیش آیا۔یہ واقعہ نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہے بلکہ ایران کی معیشت اوربین الاقوامی وقار کیلئے ایک کاری ضرب بھی ہے۔عالمی برادری نے تعزیتی پیغامات بھیجے اورامدادفراہم کی،لیکن سوال اب بھی برقرارہے کہ اس حساس موادکوعوامی مقام پر ذخیرہ کرنے کی جسارت کیسے ہوئی۔اس حادثے نے ایران کے جوہری مذاکرات پربھی گہرے سائے ڈال دیئے ہیں اور معیشت کی نازک ڈور کو مزید کمزورکردیاہے۔
ایران کی سب سے بڑی تجارتی شہیدرجائی بندرگاہ،جوخلیج فارس کے ساحل پرواقع ہے۔یہ ملک کی80فیصد درآمدات اور برآمدات کامرکز ہے،جس میں تیل،خوراک،اورصنعتی سامان شامل ہیں۔اس کی جغرافیائی پوزیشن اسےبین الاقوامی تجارت کیلئےاہم بناتی ہے۔ شہید رجائی بندرگاہ، بندرعباس کے پہلومیں،ہمیشہ سے ایران کے تجارتی بیڑے کامرکزی ستون رہی ہے۔تاریخی طورپریہ خطہ،قدیم زمانے میں بندر سیران کے نام سے معروف،تجارتی قافلوں اور سمندری راستوں کاسنگم رہاہے۔ جدید دور میں، 1980ء کی دہائی میں، ایران-عراق جنگ کے دوران بھی یہ بندرگاہ ایرانی معیشت کی شہ رگ بنی رہی،جب دیگر راستے جنگ کی لپیٹ میں تھے۔ایران نے شہیدرجائی بندرگاہ کوجدیدخطوط پراستوار کرکے اسے عالمی تجارت کامرکز بنانے کاخواب دیکھامگرحالیہ دھماکہ اس خواب کی بنیادوں میں دراڑڈال گیاہے۔
دھماکاخطرناک کیمیائی موادکے ذخیرہ گاہ میں آگ لگنے کے بعدہوا،جس نے پورے علاقے کو تباہ کردیا۔ابتدائی رپورٹس میں اسے ’’حادثاتی‘‘قراردیاگیا،مگرتحقیقات جاری ہیں ۔ انتہائی المناک واقعہ میں ہلاکتیں زیادہ تربندرگاہ کے ملازمین،فائر فائٹرزاورقریبی رہائشیوں میں ہوئیں۔ زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے،جس سے طبی سہولیات پر دباؤبڑھ گیا ہے۔ یہ سانحہ ہمیں یاددلاتاہےکہ اقوام کی عظمت صرف عسکری قوت یااقتصادی ترقی سے نہیں بلکہ تہذیبی بلوغت،احتیاط اور دانشمندانہ حکمرانی سے مشروط ہوتی ہے۔شہیدرجائی کاحادثہ اس تلخ تاریخی حقیقت کوایک بار پھر آشکار کرتاہےکہ جب طاقت کے زعم میں حکمت اور تدبر قربان ہوجائیں توعظیم ترین تعمیرات بھی لمحوں میں مٹی کاڈھیربن سکتی ہیں۔
بین الاقوامی برادری نے تعزیتی بیانات بھیجے، فائرفائٹنگ جہازروانہ کیے گئے،مگرسوال اپنی جگہ قائم ہے کیاصرف تعزیت کافی ہےجب عقل، دانش اوراحتیاط خودکشی پرآمادہ ہوں ؟ یہ سانحہ ہمیں یہ سبق دیتاہےکہ تہذیبیں صرف قوت کے بل پرزندہ نہیں رہتیں انہیں شعور، تدبراوراصولوں کے خمیرسے سینچا جاتا ہے۔ شہید رجائی کے زخمی ساحل آج تاریخ سے یہی صدائیں دے رہے ہیں۔ ایرانی حکومت کاکہناہےکہ کیمیائی موادکی غلط ذخیرہ کاری سے آگ پھیلی، جودھماکے کاباعث بنی۔یہ موادصنعتی یافوجی مقاصد کیلئے استعمال ہوتاہے۔ سوشل میڈیاپردعوے ہیں کہ چین سے درآمد شدہ راکٹ ایندھن بندرگاہ پرذخیرہ کیاگیاتھا،جو ایران کے فوجی اتحادوں کی طرف اشارہ کرتاہے۔ایرانی شہریوں نے سوشل میڈیاپر سوال اٹھائے ہیں کہ اتناخطرناک مواد آبادی کے قریب کیوں رکھا گیا؟ ایرانی عوام حکومت کی شفافیت اورانتظامی کوتاہیوں کونشانہ بنارہے ہیں۔ اقتصادی بحران کاخطرہ پیداہوگیا ہے کیونکہ اس حادثے کے بعدبندرگاہ کی عارضی بندش سے خوراک اورادویات کی سپلائی متاثر ہوسکتی ہے،خاص طورپرچونکہ ایران پہلے ہی معاشی پابندیوں کے زیرِاثرہے۔تاہم ہنگامی اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے فائرفائٹرز اور ریسکیوٹیموں کو فوری طورپرتعینات کیاگیاہے، مگر آگ کے پھیلائو کی رفتارنےصورتحال کو کنٹرول سے باہر کردیاہے۔
بین الاقوامی انٹیلی جنس اداروں،بالخصوص ایمبری انٹیلی جنس کے انکشافات نے اس حادثے کومحض ایک تکنیکی غفلت کا نتیجہ ماننے سے انکارکیاہے۔ان کے مطابق،حادثے سے قبل وہاں وہ مخصوص کنٹینرزموجودتھےجن میں بیلسٹک میزائلوں کیلئے استعمال ہونے والا ٹھوس راکٹ ایندھن ذخیرہ کیاگیاتھا۔یہ’’سوڈیم پر کلوریٹ‘‘ پر مبنی مواد،جوکہ انتہائی آتش گیر ہے، دراصل مارچ2025ء میں ایران کےپرچم بردارایک جہاز کے ذریعے اتاراگیاتھا۔یہ انکشاف اس سانحے کو محض مقامی غفلت کانہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست اوراسلحہ کی دوڑ کے خطرناک باب کاحصہ بناتاہے۔وہ مثل بیساختہ ذہن میں آتی ہے کہ:
جوآگ لگائے گا اپنے آشیانے کو
اسی کی دہکتی چتا ہوگی سامان عبرت
ایمبری انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق بندرگاہ پربیلسٹک میزائلوں کیلئے مخصوص ٹھوس راکٹ ایندھن کاذخیرہ تھا،جسے نہایت غیرمحتاط اندازمیں رکھاگیا۔سوڈیم پر کلوریٹ ،جوآتش کاایساناچ دکھاسکتاہے کہ آسمان کے چراغ بھی جھرجھری لے لیں،وہاں پڑا سلگتا رہااورآخر کاراپنی ہلاکت خیزطبعیت کامظاہرہ کرگیا۔یوں محسوس ہوتاہے جیسے وقت کے صفحے پر ایک بار پھروہی کہانی لکھی جارہی ہے جس میں غرورِ طاقت کاانجام عبرت کا سامان بن جاتاہے۔ محاورہ ہے:جنہیں چاہے ہوائے دہر، بنادے خاک کاذرہ۔
جنوبی ایران کے ساحلوں پرواقع شہر بندر عباس کی یہ بندرگاہ،جوایرانی معیشت کا دھڑکتا ہوادل تصورکی جاتی ہے،وہاں یہ ہنگامہ خیزلمحے میں،آتش وآہن کی لپیٹ میں آگئی۔ دھماکہ، جیساکہ ابتدائی تحقیقات سے مترشح ہوتا ہے، بندرگاہ کے اس گوشے میں برپاہواجہاں خطرناک کیمیائی موادکاذخیرہ موجودتھا۔المیہ یہ ہےکہ اس موادکی حفاظت میں وہ احتیاطی تدابیر روانہیں رکھی گئیں جوایک باشعوراورسائنسی ترقی یافتہ قوم سے متوقع تھیں۔
کیاایران بندرگاہ کوفوجی مقاصدکیلئے استعمال کررہاتھا؟اگرہاں،تویہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ خطرناک مواد کو محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنے کیلئے بین الاقوامی معیارات موجودہیں۔ایران نے ان پرعمل کیوں نہیں کیا؟انتظامی کوتاہیوں کاجواب بھی دینا ہوگا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیاحادثے کوایران کی داخلی سیاست یابیرونی دباؤ کیلئے استعمال کیاجاسکتاہے؟ مثال کے طورپر،اصلاح پسندوں اورقدامت پسندوں کے درمیان تنائوکی خلیج بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بقول شاعر:
یہی اندازہیں قیصروں کے،یہی اطوارچلے آتے ہیں۔(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • بھارت پاکستان کیخلاف جھوٹا پروپیگنڈا کر رہا ہے: ہمایوں اختر خان
  • پوری قوم متحد ہے اور پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے‘ مسلح افواج بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینگی، ریاض حسین پیرزادہ
  • ابدالی ویپن سسٹم کے کامیاب تجربے سے ملک کا دفاع مزید مضبوط ہوا ہے، سردار ایاز صادق
  • گورنر سندھ کی ابدالی ویپن سسٹم کی کامیاب تربیتی لانچ پر مسلح افواج، سائنسدانوں اور انجینئرز کو مبارکباد
  • گورنر سندھ کی ابدالی ویپن سسٹم کی کامیاب تربیتی لانچ پر مسلح افواج، سائنسدانوں اور انجینئرز کو دلی مبارکباد
  • خاک سے اٹھتے خواب: ایران و پاکستان کا اتحاد
  • یمنی فوج کی ایک روز میں دوسری کارروائی، حیفہ پر ہائپر سونک میزائل حملہ
  • پاکستان کی مسلح افواج اور عوام دفاع وطن کے لیے متحد، آرمی چیف کا کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب
  • پاکستانی عوام متحد، تمام اقلیتیں مسلح افواج کیساتھ ہیں: کھیئل داس کوہستانی