ٹیرف ابھی لاگو ہونا شروع ہوئے ہیں، یہ ٹیرف ہمیں امیر بنا دیں گے،ڈونلڈ ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ چین کے ساتھ تجارتی خسارے پر پیسہ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور میں 8 سال تک امریکہ کا صدر رہوں گا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے این بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ تیسری مدت کیلئے ابھی باضابطہ میٹنگ نہیں کی،وقت آنے پر کرینگے اور جانشین کا اعلان نہیں کیا،ابھی اس پر بات کرنا قبل ازوقت ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان امن نہیں ہو سکتا لیکن معاہدہ ہو سکتا ہے، چین کے ساتھ تجارتی خسارے پر پیسہ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔
ایران کے ساتھ معاملات پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہناتھا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، ایران کا ایٹمی پروگرام کسی صورت قبول نہیں ہے ، وزیراعظم کارنی سے کینیڈا کے امریکا کے ساتھ الحاق کی بات کرونگا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ملک میں کچھ ایشیا کی قیمت بڑھ سکتی ہیں، لیکن توانائی کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی۔
امریکی صدر کا کہناتھا کہ میں ہر چیز کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن مجھے یہاں آئے ہوئے ابھی صرف تین ماہ سے کچھ ہی زیادہ عرصہ ہواہے ، ٹیرف ابھی لاگو ہونا شروع ہوئے ہیں، یہ ٹیرف ہمیں امیر بنا دیں گے۔ ہم ایک بہت امیر ملک بننے جا رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کرنے کی کہا کہ
پڑھیں:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران اسرائیل کشیدگی سے خود کو دور کیوں رکھ رہے ہیں؟
جمعہ 13 جون کی صبح جب اسرائیلی طیاروں نے ایران پر بمباری کی تو مشہور جریدے دی گارڈین نے لکھا کہ ’امریکا نے خود کو اس جنگ سے جلد علیحدہ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ اس اسرائیلی جارحیت سے مشرق وسطیٰ میں مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اسرائیل کے اس یکطرفہ اقدام نے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے شروع کیے گئے مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: اس سے قبل کہ دیر ہو جائے ایران کو کشیدگی کم کرنے پر بات کرنی چاہیے، ٹرمپ
امریکی وزیر خارجہ (سیکریٹری آف اسٹیٹ) مارکو روبیو نے اپنے بیان میں اسرائیلی جارحیت کو یکطرفہ اقدام قرار دیا اور کہا کہ ایران کے خلاف اس حملے میں ہم ملوث نہیں ہیں اور ہمارا مقصد خطے میں صرف امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
اس کے علاوہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ 13 جون سے کہہ رہا ہے کہ اگر ایران امریکی مفادات پر حملہ نہیں کرتا تو ہم اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
لیکن اگروسیع تناظر میں ایران اسرائیل جھڑپوں میں صدر ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کے غیر جانبداری کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو جو چیزیں سمجھ آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ امریکا اس جنگ میں مکمل طور پر غیر جانبدار تو نہیں بلکہ میزائل فراہم کرنے میں اسرائیل کا مددگار ہے اور دوسری طرف سفارتی اور باضابطہ طور پر امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ سفارتی سطح پر اس جنگ کے حامی نظر نہیں آتے۔ جس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور سیاسی حکمت عملی کے کلیدی نکات درج ذیل ہیں۔
ٹرمپ سفارتکاری کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتے ہیںمزید پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کرنے کا اسرائیلی منصوبہ مسترد کردیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری مواد کی افزودگی کے لیے ایران کو نیوکلیئر ڈیل کی پیشکش کی اور اس کے لیے سفارتی مذاکرات پر زور دیا ہے، خاص طور پر عمان میں مذاکرات کے امکانات کو ترجیح دی۔
انہوں نے اسرائیل سے کہا کہ وہ ایران پر حملوں کو روکے تاکہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔
بی بی سی کی خبر کے مطابق امریکی انتظامیہ اور صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی جانب سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے قتل کی تجویز کو مسترد کیا۔
اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کے بیانات، جیسے کہ ’خونریز جنگ‘ کو ختم کرنے کے لیے معاہدے کی حمایت، ان کی اسرائیلی جارحیت سے انحراف کی پالیسی کو ظاہر کرتے ہیں۔
’سب سے پہلے امریکا‘ پالیسیصدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا کو غیر ملکی جنگوں سے نکالیں گے اور مشرق وسطیٰ میں نئے تنازعات سے گریز کریں گے۔ ان کے حامی ایران اسرائیل جنگ میں امریکی شمولیت کے خلاف ہیں۔
سفارت کاری کی گنجائش رکھناصدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے تعلقات ایران اور غزہ کے معاملات پر اختلافات کی وجہ سے زیادہ اچھے نہیں تھے لیکن نیتن یاہو کی ایران پر فوجی کارروائی نے امریکی صدر کو مزید پریشانی میں مبتلا کیا۔ صدر ٹرمپ اس معاملے میں مذاکرات کی گنجائش رکھنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ اسرائیل کی محدود حد تک حمایت کرنا چاہتے ہیںصدر ٹرمپ اسرائیل کے حامی تو ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ امریکا اس کی جنگ کا براہِ راست فریق بنے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور بھارت کی جنگ رکوائی، ایران و اسرائیل کے درمیان بھی جلد معاہدہ ہوگا : ڈونلڈ ٹرمپ
کونسل آن فارن ریلیشنز تھنک ٹینک کے ایلیٹ ایبرامز لکھتے ہیں کہ ’ٹرمپ نے پہلے اسرائیل کے حملے سے آگاہی ظاہر کی، پھر خود کو الگ کر لیا، پھر تعریف بھی کی، یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ وہ شریک دکھنا چاہتے ہیں، ملوث نہیں‘۔
جغرافیائی اور تجارتی سیاسی حکمت عملیصدر ٹرمپ تجارت بڑھانے پر زور دینے والے رہنما ہیں۔ وہ ایک علاقائی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی جنگ جو عالمی تیل منڈیوں کو متاثر کرے، تاہم صدر ٹرمپ کے متضاد بیانات، جیسا کہ ایک طرف شمولیت سے انکار، دوسری طرف اسرائیل کی حمایت اس بات کو ظاہر کرتی ہے حالیہ بحران بے حد پیچیدہ نوعیت کا حامل ہے جبکہ صدر ٹرمپ اپنی ’امن ساز‘ میراث کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران اسرائیل تنازع اور ٹرمپ ایران اسرائیل کشیدگی ٹرمپ الگ تھلگ کیوں