Express News:
2025-09-20@03:10:14 GMT

ایک محنت کش صحافی کی یادیں

اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT

جبار مرزا ہماری صحافت کے محنت کش ہیں۔ قلم کبھی ہاتھ سے نہیں رکھتے۔ ادھر ہم ابھی ان کی ایک کتاب سے نبرد آزما ہوتے نہیں کہ دوسری آ جاتی ہے۔ ان کی کتابوں کی فہرست بنانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ گھٹنے توڑ کر بیٹھنے والا کوئی محنتی طالب علم ممکن ہے کہ یہ کارنامہ کر پائے۔ وہ کثیر التصانیف ایسے ہیں کہ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ہی ان کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ البتہ ان میں اور مرزا صاحب میں ایک فرق ہے۔

مرزا صاحب ساری محنت خود کرتے ہیں جب کہ ہارون صاحب اپنے ساتھ دوسروں کو بھی محنت پر آمادہ کرتے ہیں۔ خیر، یہ اپنے اپنے مزاج اور اسلوب کی بات ہے۔ ہمارے دوست ہارون الرشید تبسم درجنوں لوگوں کو متحرک کر کے سیکڑوں کتابوں کے مصنف بنے ہیں تو مرزا صاحب نے یہ سارا بوجھ خود ہی اٹھایا ہے۔ جہاں تک مرزا اور مغل ہونے کا تعلق ہے، ہمارے ان دونوں دوستوں کے اجداد مشترک ہیں البتہ جبار مرزا صاحب نے اپنے جد اورنگ زیب عالمگیر جیسا مزاج پایا ہے۔ اس بزرگ کی گھڑ سواری کرتے کرتے کمر دوہری ہو گئی لیکن جنگوں کی قیادت ہمیشہ خود کی۔ کسی دوسرے حتی کہ اولاد پر بھی اعتماد نہیں کیا۔ ہمارے مزرا صاحب تو پھر مصنف ہیں، مصنف اپنی تصنیف میں شرک تو کبھی برداشت کرتا ہی نہیں ہے۔

جبار مرزا صاحب سے ذاتی تعلق تو بہت بعد میں بنا، درجنوں کتابوں کے مصنف وہ پہلے ہی بن چکے تھے۔ ایوان صدر میں میرے قیام کے شاید آخری دنوں کی بات یے، ان کی دو کتابیں موصول ہوئیں، ان میں ایک ' قائد اعظم اور افواج پاکستان ' تھی، حکم یہ تھا کہ اسے صدر مملکت یعنی صدر ممنون حسین کو پیش کر دیا جائے۔

حکم کی تعمیل ہو گئی۔ صدر صاحب نے ورق گردانی کی اور پسند فرمایا۔ تب تک مرزا صاحب اس کم ترین کو مطالعے کے قابل شاید نہیں سمجھتے ہوں گے، اس لیے وہ اس کتاب کے افادے سے محروم رہا۔ اس بڑے گھر سے فراغت کے بعد انھوں نے مجھے اس قابل سمجھا اور اپنی محبت کی سرگزشت عنایت کی۔ یہ کتاب یعنی ' جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں' کے عنوان سے شائع ہو کر مقبولیت کے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔

خیر، ان کی محبت کا ایک تذکرہ بہ عنوان ' پہل اس نے کی تھی' بھی مقبولیت حاصل کر چکا ہے لیکن ان دو تذکروں میں فرق کیا ہے، اس کا اندازہ یوں نہیں ہے کہ اس کی اشاعت ان دنوں کی بات ہے جب ان سطور کے لکھنے والے کو وہ سرکاری اہل کار سمجھتے تھے، کتاب خوانی کے مرتبے پر فائز نہیں سمجھتے تھے۔ 2019 کے آس پاس ان کی ایک کتاب ' کشمیر کو بچا لو' کے عنوان سے شائع ہوئی۔

ہمارے صحافیوں میں ایک خرابی ہے، صحافت کرتے کرتے خوش قسمتی سے وہ مصنف بن جائیں تو لٹریری ٹچ انھیں بگاڑ دیتا ہے اور ان کی کتابوں کے ناموں سے سنجیدگی بلکہ خشکی ٹپکنے لگتی ہے لیکن مرزا صاحب کے صحافتی پس منظر نے ان کے عوامی بلکہ عام فہم انداز پر کبھی آنچ نہیں آنے دی جو کشمیر والی کتاب کے نام سے واضح ہے۔یہی صحافت کی خوبی اور اس کا طرہ امتیاز ہے۔ کشمیر پر ہمارا مقدمہ تاریخی اور دستاویزی ثبوت بھی رکھتا ہے اور یہ ثبوت بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن تعلق خاطر کے وہ ثبوت جن کا تعلق لوگوں یعنی رشتے ناتوں سے ہو، اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر مسلم ہے۔

اس کتاب میں مرزا صاحب نے ایسے ہی ثبوتوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں جیسے راول پنڈی صدر میں جو مشہور اور تاریخی تانگہ اسٹینڈ تھا، وہاں سے ٹانگے چلا کرتے تھے جو ہمارے کشمیر کے اس خطے تک جاتے جس کی پہچان آج مقبوضہ کشمیر کے نام سے کی جاتی ہے۔ تعلق خاطر کے ایسے ثبوت ہی ہوتے ہیں جو قانونی اور دستاویزی ثبوتوں کو بھاری بھرکم بناتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ دعویٰ جو سیاسی بنیاد پر کیا جا رہا یے، وہ ناقابل تردید انسانی، تہذیبی اور تجارتی رشتوں میں گندھا ہوا ہے۔ اس کتاب میں مرزا صاحب نے کشمیر کے ساتھ پاکستان کے رشتوں کی ایسی بنیاد کے بارے میں بتایا ہے جو دیگر ہر ثبوت سے بڑھ کر ہے۔

کچھ روز ہوتے ہیں، سید ضمیر جعفری کے بارے میں ان کی کتاب ' مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف ' منصہ شہود پر آئی تھی۔ اس کتاب میں جعفری صاحب کے مزاج اور زندگی کی ساری جھلکیاں انھوں نے سپرد قلم کر دی ہیں جنھیں پڑھتے صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ جعفری صاحب آ رہے، وہ جا رہے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ انھوں نے سید ضمیر جعفری کے بارے میں دلچسپی رکھنے والے محقق کو معلومات کے بنیادی ذریعے تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ اس کا فہم اور قابلیت ہے جس سے کام لے کر وہ ہماری مزاحیہ شاعری کے بادشاہ کا تاج محل تعمیر کر سکتا ہے۔

کچھ ایسا معاملہ ہی ان کی تازہ کتاب کا ہے جو ' صحافتی یادیں' کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ یادیں قلم بند کرنے کے لیے حافظے کی سلامتی ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مرزا صاحب کا حافظہ کمال کا ہے۔ چند برس ہوتے ہیں، ہماری بھابی صاحبہ یعنی رانی کا انتقال ہو گیا جو ان کی نصف بہتر اور محبت تھیں۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی ان کے دن کا آغاز رانی کی قبر پر فاتحہ خوانی سے ہوتا ہے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے تو وہ جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں، خود پر قابو پا کر آگاہ کرتا ہے کہ رانی کو بچھڑے ہوئے اتنے سال، اتنے ماہ، اتنے دن اور اتنے گھنٹے ہو گئے ہیں۔ رانی سے بچھڑنے کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے یوں گزرا ہے کہ اس کا حساب کتاب ان کی نوک زباں پر آ گیا ہے۔

مرزا صاحب راول پنڈی اور اسلام آباد کی صحافت کے بزرگوں میں سے ہیں۔ ان کے مشاہدے سے ایسا بہت کچھ گزرا ہے، آج کے صحافی جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ افراد، ادارے اور سماج۔ یہ سب یادیں ایسی ہیں جن کے تال میل سے اس خطے اور یہاں کے لوگوں کے مزاج، افتاد طبع اور اہم واقعات کی تفصیلات سے نہ صرف یہ کہ تاریخ بلکہ ہمہ قسم کے تذکرے مرتب کیے جا سکتے ہیں۔

غرض مرزا صاحب نے اس کتاب میں ایسے ایسے واقعات قلم بند کر دیے ہیں جو پڑھنے والے کو حیران کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی حیرت کی بات ہے کہ یہاں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے تھے، باہمی لین دین اور خرید و فروخت کے معاملات میں ان کی خواہشات نا آسودہ رہ جاتیں تو وہ درمیان میں ڈاکوؤں کو لے آتے۔ ایسے ہی کسی معاملے میں ایک بار ایسا ہوا کہ ایوب خان سے دشمنی کی شہرت رکھنے والے ڈاکو خانو ڈھرنالیہ(محمد خان) کے بیٹے نے خود مرزا صاحب کا دروازہ کھٹکھٹا دیا پھر اس شخص یعنی اپنے مد مقابل اور ڈاکو کے بیٹے کے ساتھ مرزا صاحب نے جو سلوک کیا، وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ہاتھ سے کبھی قلم نہ رکھنے والے مرزا صاحب نے تو اتنا بہت کچھ لکھ کر اپنے حصے کا کام کر دیا ہے اور علامہ عبد الستار عاصم نے اپنی روایت کے مطابق بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسے شائع کر دیا ہے۔ اب جو اسے پڑھنا، سمجھنا، لطف لینا اور عبرت پکڑنا چاہتا ہے، اس کے لیے صلائے عام ہے۔ باقی اس کی قسمت اور مرضی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس کتاب میں میں ایک کی بات ہے اور

پڑھیں:

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔


حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔


جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔


یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔


اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔


یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔


لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔


دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔


تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔


مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد: پاک چائنا فرینڈشپ سینٹر میں بین الاقوامی کتاب میلے کے دوران ایک اسٹال پربچے کتابیں منتخب اور خرید رہے ہیں
  • دفاعی معاہدہ ایک رات میں نہیں ہوا، کئی ماہ کی محنت کا نتیجہ ہے ،اسحاق ڈار
  • سبز مستقبل کی بنیاد: پنجاب نے بچوں کےلیے ماحولیاتی کہانیوں کی کتاب متعارف کرادی
  • اسلام آباد میں گدھا کانفرنس ، محنت کش جانور کومعاشی اثاثہ تسلیم کرنے کا مطالبہ
  • توہین رسالت کے مقدمے میں گرفتار مرزا محمد علی اڈیالہ جیل منتقل 
  • توہین رسالت کے مقدمے میں گرفتار مرزا محمد علی اڈیالہ جیل منتقل
  • افروز عنایت کی کتاب ’’سیپ کے موتی‘‘ شائع ہوگئی
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتار پور کو صفائی کے بعد سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں