جبار مرزا ہماری صحافت کے محنت کش ہیں۔ قلم کبھی ہاتھ سے نہیں رکھتے۔ ادھر ہم ابھی ان کی ایک کتاب سے نبرد آزما ہوتے نہیں کہ دوسری آ جاتی ہے۔ ان کی کتابوں کی فہرست بنانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ گھٹنے توڑ کر بیٹھنے والا کوئی محنتی طالب علم ممکن ہے کہ یہ کارنامہ کر پائے۔ وہ کثیر التصانیف ایسے ہیں کہ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ہی ان کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ البتہ ان میں اور مرزا صاحب میں ایک فرق ہے۔
مرزا صاحب ساری محنت خود کرتے ہیں جب کہ ہارون صاحب اپنے ساتھ دوسروں کو بھی محنت پر آمادہ کرتے ہیں۔ خیر، یہ اپنے اپنے مزاج اور اسلوب کی بات ہے۔ ہمارے دوست ہارون الرشید تبسم درجنوں لوگوں کو متحرک کر کے سیکڑوں کتابوں کے مصنف بنے ہیں تو مرزا صاحب نے یہ سارا بوجھ خود ہی اٹھایا ہے۔ جہاں تک مرزا اور مغل ہونے کا تعلق ہے، ہمارے ان دونوں دوستوں کے اجداد مشترک ہیں البتہ جبار مرزا صاحب نے اپنے جد اورنگ زیب عالمگیر جیسا مزاج پایا ہے۔ اس بزرگ کی گھڑ سواری کرتے کرتے کمر دوہری ہو گئی لیکن جنگوں کی قیادت ہمیشہ خود کی۔ کسی دوسرے حتی کہ اولاد پر بھی اعتماد نہیں کیا۔ ہمارے مزرا صاحب تو پھر مصنف ہیں، مصنف اپنی تصنیف میں شرک تو کبھی برداشت کرتا ہی نہیں ہے۔
جبار مرزا صاحب سے ذاتی تعلق تو بہت بعد میں بنا، درجنوں کتابوں کے مصنف وہ پہلے ہی بن چکے تھے۔ ایوان صدر میں میرے قیام کے شاید آخری دنوں کی بات یے، ان کی دو کتابیں موصول ہوئیں، ان میں ایک ' قائد اعظم اور افواج پاکستان ' تھی، حکم یہ تھا کہ اسے صدر مملکت یعنی صدر ممنون حسین کو پیش کر دیا جائے۔
حکم کی تعمیل ہو گئی۔ صدر صاحب نے ورق گردانی کی اور پسند فرمایا۔ تب تک مرزا صاحب اس کم ترین کو مطالعے کے قابل شاید نہیں سمجھتے ہوں گے، اس لیے وہ اس کتاب کے افادے سے محروم رہا۔ اس بڑے گھر سے فراغت کے بعد انھوں نے مجھے اس قابل سمجھا اور اپنی محبت کی سرگزشت عنایت کی۔ یہ کتاب یعنی ' جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں' کے عنوان سے شائع ہو کر مقبولیت کے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔
خیر، ان کی محبت کا ایک تذکرہ بہ عنوان ' پہل اس نے کی تھی' بھی مقبولیت حاصل کر چکا ہے لیکن ان دو تذکروں میں فرق کیا ہے، اس کا اندازہ یوں نہیں ہے کہ اس کی اشاعت ان دنوں کی بات ہے جب ان سطور کے لکھنے والے کو وہ سرکاری اہل کار سمجھتے تھے، کتاب خوانی کے مرتبے پر فائز نہیں سمجھتے تھے۔ 2019 کے آس پاس ان کی ایک کتاب ' کشمیر کو بچا لو' کے عنوان سے شائع ہوئی۔
ہمارے صحافیوں میں ایک خرابی ہے، صحافت کرتے کرتے خوش قسمتی سے وہ مصنف بن جائیں تو لٹریری ٹچ انھیں بگاڑ دیتا ہے اور ان کی کتابوں کے ناموں سے سنجیدگی بلکہ خشکی ٹپکنے لگتی ہے لیکن مرزا صاحب کے صحافتی پس منظر نے ان کے عوامی بلکہ عام فہم انداز پر کبھی آنچ نہیں آنے دی جو کشمیر والی کتاب کے نام سے واضح ہے۔یہی صحافت کی خوبی اور اس کا طرہ امتیاز ہے۔ کشمیر پر ہمارا مقدمہ تاریخی اور دستاویزی ثبوت بھی رکھتا ہے اور یہ ثبوت بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن تعلق خاطر کے وہ ثبوت جن کا تعلق لوگوں یعنی رشتے ناتوں سے ہو، اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر مسلم ہے۔
اس کتاب میں مرزا صاحب نے ایسے ہی ثبوتوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں جیسے راول پنڈی صدر میں جو مشہور اور تاریخی تانگہ اسٹینڈ تھا، وہاں سے ٹانگے چلا کرتے تھے جو ہمارے کشمیر کے اس خطے تک جاتے جس کی پہچان آج مقبوضہ کشمیر کے نام سے کی جاتی ہے۔ تعلق خاطر کے ایسے ثبوت ہی ہوتے ہیں جو قانونی اور دستاویزی ثبوتوں کو بھاری بھرکم بناتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ دعویٰ جو سیاسی بنیاد پر کیا جا رہا یے، وہ ناقابل تردید انسانی، تہذیبی اور تجارتی رشتوں میں گندھا ہوا ہے۔ اس کتاب میں مرزا صاحب نے کشمیر کے ساتھ پاکستان کے رشتوں کی ایسی بنیاد کے بارے میں بتایا ہے جو دیگر ہر ثبوت سے بڑھ کر ہے۔
کچھ روز ہوتے ہیں، سید ضمیر جعفری کے بارے میں ان کی کتاب ' مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف ' منصہ شہود پر آئی تھی۔ اس کتاب میں جعفری صاحب کے مزاج اور زندگی کی ساری جھلکیاں انھوں نے سپرد قلم کر دی ہیں جنھیں پڑھتے صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ جعفری صاحب آ رہے، وہ جا رہے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ انھوں نے سید ضمیر جعفری کے بارے میں دلچسپی رکھنے والے محقق کو معلومات کے بنیادی ذریعے تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ اس کا فہم اور قابلیت ہے جس سے کام لے کر وہ ہماری مزاحیہ شاعری کے بادشاہ کا تاج محل تعمیر کر سکتا ہے۔
کچھ ایسا معاملہ ہی ان کی تازہ کتاب کا ہے جو ' صحافتی یادیں' کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ یادیں قلم بند کرنے کے لیے حافظے کی سلامتی ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مرزا صاحب کا حافظہ کمال کا ہے۔ چند برس ہوتے ہیں، ہماری بھابی صاحبہ یعنی رانی کا انتقال ہو گیا جو ان کی نصف بہتر اور محبت تھیں۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی ان کے دن کا آغاز رانی کی قبر پر فاتحہ خوانی سے ہوتا ہے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے تو وہ جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں، خود پر قابو پا کر آگاہ کرتا ہے کہ رانی کو بچھڑے ہوئے اتنے سال، اتنے ماہ، اتنے دن اور اتنے گھنٹے ہو گئے ہیں۔ رانی سے بچھڑنے کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے یوں گزرا ہے کہ اس کا حساب کتاب ان کی نوک زباں پر آ گیا ہے۔
مرزا صاحب راول پنڈی اور اسلام آباد کی صحافت کے بزرگوں میں سے ہیں۔ ان کے مشاہدے سے ایسا بہت کچھ گزرا ہے، آج کے صحافی جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ افراد، ادارے اور سماج۔ یہ سب یادیں ایسی ہیں جن کے تال میل سے اس خطے اور یہاں کے لوگوں کے مزاج، افتاد طبع اور اہم واقعات کی تفصیلات سے نہ صرف یہ کہ تاریخ بلکہ ہمہ قسم کے تذکرے مرتب کیے جا سکتے ہیں۔
غرض مرزا صاحب نے اس کتاب میں ایسے ایسے واقعات قلم بند کر دیے ہیں جو پڑھنے والے کو حیران کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی حیرت کی بات ہے کہ یہاں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے تھے، باہمی لین دین اور خرید و فروخت کے معاملات میں ان کی خواہشات نا آسودہ رہ جاتیں تو وہ درمیان میں ڈاکوؤں کو لے آتے۔ ایسے ہی کسی معاملے میں ایک بار ایسا ہوا کہ ایوب خان سے دشمنی کی شہرت رکھنے والے ڈاکو خانو ڈھرنالیہ(محمد خان) کے بیٹے نے خود مرزا صاحب کا دروازہ کھٹکھٹا دیا پھر اس شخص یعنی اپنے مد مقابل اور ڈاکو کے بیٹے کے ساتھ مرزا صاحب نے جو سلوک کیا، وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ہاتھ سے کبھی قلم نہ رکھنے والے مرزا صاحب نے تو اتنا بہت کچھ لکھ کر اپنے حصے کا کام کر دیا ہے اور علامہ عبد الستار عاصم نے اپنی روایت کے مطابق بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسے شائع کر دیا ہے۔ اب جو اسے پڑھنا، سمجھنا، لطف لینا اور عبرت پکڑنا چاہتا ہے، اس کے لیے صلائے عام ہے۔ باقی اس کی قسمت اور مرضی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اس کتاب میں میں ایک کی بات ہے اور
پڑھیں:
ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔ادب کی ہمہ گیر شخصیت
انورسدید
(اردو کے معروف ادیب اور ممتاز نقاد کی تاریخ وفات(3 ؍اگست 2013ء) کی مناسبت سے)
ـ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں احمد زین الدین مدیر روشنائی کو فون کیا تو دوسری طرف سے لرزتی ہوئی غم زدہ آواز آئی انور سدید! ہم سب کے دوست ڈاکٹر فرمان فتح پوری وفات پا گئے ۔۔یہ خبر بڑی المناک تھی۔ سن کر دل زور سے دھڑکا اور پھر یوں محسوس ہوا کہ میرا دل آہ و زاری کر رہا ہے ۔ خون کے آنسو بہارہا ہے میں فون پر زین سے سے بات نہ کرسکا۔ آنکھوں کے سامنے کسی ادبی تقریب کی وہ تصویر پھرنے لگی جس میں فرمان فتح پوری اگلی نشست پر بیٹھے تھے لیکن نحیف و نزار نظر آرہے تھے ۔ ضعیفِ عمر ان کے چہرے سے عیاں تھا۔ میں نے اسی روز شام کو فون پر ان سے ملاقات کی تو آواز بڑی توانا محسوس ہوئی، ذہنی طور پر بھی کسی قسم کی کمزوری کا احساس نہ ہوا۔ میں نے مسرت کا اظہار کیا تو افسردہ لہجے میں بولے ….ع
دوا اور دعا پر زندہ ہوں
لیکن آج دوائیں غیر موثر اور دعائیں قبولیت سے محروم ہوگئی تھیں۔ اردو ادب کی محفل سے وہ شخص اٹھ کر چلا گیا جو ممتاز نقاد تھا،اعلیٰ محقق تھا، لسانیات کا ماہر اور لفاظ کے لغوی معانی کے علاوہ مجازی مفاہیم کا بھی شناسا تھا ۔ انہوں نے ادب کے مختلف موضوعات پر منفرد انداز میں کتابیں تالیف کی۔ رسالہ نگار کی ادارت کے علاوہ ہر سال نیاز فتح پوری یادگاری لیکچروں کا سلسلہ جاری رکھا اور کراچی یونیورسٹی میں سینکڑوں طالب علموں کو اردو ادب کی تعلیم دی ان کے ذوق و شوق کو سنوارا۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات نویسی میں راہنمائی کی اور معاشرے کے ہزاروں لوگوں کو اپنے بے پایاں خلوص اور ایثار سے نوازا۔ بلاشبہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو ادب کے رشتوں کو خون کے رشتوں پر فوقیت دیتے ہیں اور نسبتیں قائم رکھتے ہیں۔3اگست2013 کو ان کی وفات اردو ادب اور معاشرے کیلئے ایک عظیم سانحہ تھا۔ انہوں نے اس جہان میں 87برس سے زائد عرصہ گزارا لیکن وہ سچے ادیب تھے اور ادیب کی عمر دنو ں اور برسوں کے پیمانے سے ماپی نہیں جاسکتی۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے فرمان فتح پوری کم عمری میں فوت ہوگئے ہیں۔ موت نے انہیں جلدی شکار کرلیا ہے ۔ ہائے ، ہائے !
فرمان صاحب کا خاندانی نام سید دلدار علی تھا۔ وہ 26جنوری1926 کو فتح پور(سہوہ) کے ایک حنفی سید خاندان میں پیدا ہوئے ۔ ان کے بچپن میں سہوہ میں ہیضہ پھیلا تو ان کے بڑے بھائی اس مرض میں انتقال کرگئے ان کے والد یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور اسی غم میں فوت ہوگئے ۔اس وقت ان کی عمر سات سال تھی ابتدائی تعلیم نواحی گاں کے ایک مدرسے میں حاصل کی جہاں پڑھنے کیلئے سائیکل پر جاتے تو ان کا چچا زاد بھائی فرمان علی ان کے ساتھ ہوتا۔ ایک دن فرمان علی کو بخار نے دبوچ لیا تو سید دلدار علی اکیلے اسکول گئے وہیں خبر ملی کہ فرمان علی جن سے انہیں گہری انسیت تھی تھی فوت ہوگئے ہیں۔ ان کی موت کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ دلدار علی نے فرمان کو اپنے نام کا حصہ بنالیا۔ مڈل کے درجے میں ہی انہیں کتابیں پڑھنے کی لگن لگ گئی اور لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا چنانچہ انہوں نے اپنا پورا قلمی نام سید دلدار علی فرمان فتح پوری اختیار کیا جو بعد میں صرف فتح پوری رہ گیا ۔ گویا اصل نام دفتری کاغذوں میں دفن ہوگیا نسبتی نام زندہ رہا اسی کو قبولِ عام حاصل ہوا۔
فرمان صاحب کے والد نوجوانی میں پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئے اور سب انسپکٹر کی حیثیت میں ریٹائر ہوگئے ۔ حنفی نے سادات خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے دیانتداری اور فرض شناسی کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ عام لوگوں کی نظر میں امیر تھے لیکن اپنی متوسط الحالی میں اس بھر کو ٹوٹنے نہ دیا۔ والد کی وفات کے بعد حالات دگرگو ں ہوگئے ۔ ماں نے گھر کو خوبصورتی سے سنبھالا اور بچو ں کی پرورش اعلیٰ قدروں پر کی۔ فرمان نے لکھا ہے :
لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارے والد پولیس میں تھے لہٰذا بہت مال ہوگا۔ لیکن ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔اماں ہمیں سمجھاتی تھیں کہ کسی کو نہ بتایا کہ ہم غریب ہیں۔ لوگ مذاق اڑائیں گے کوئی روپیہ مانگنے آئے تو وہ دے دیتی تھیں ہم کہتے اماں ہماری تو خود بری حالت ہے آپ روپیہ کیوں دیتی ہیں۔ وہ جواب دیتیں نہ دو گے تو لوگوں میں عزت ختم ہوجائے گی بھرم رکھا ہوا تھا ۔
اپنے کنبے کی کفالت کیلئے فرمان صاحب نے میٹرک اوّل درجے میں پاس کرنے کے بعد مسلم ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت اختیار کرلی۔ اپنے ادبی مزاج کی وجہ سے انہوں نے سکول میں مشاعرے اور تقریری مقابلے کرائے ۔ ادبی میگزین جاری کیا اور تحریکِ پاکستان پر نظمیں لکھیں جو دہلی کے اخبارات وحدت اور الامان میں چھپتیں اور مسلم لیگ کے جلسوں میں پڑھی جاتی تھیں۔ شاعری کا یہ ذوق عمر بھر ان کے ساتھ رہا لیکن جب تحقیق و تنقید کی طرف آئے تو شاعری پس منظر میں چلی گئی۔
فرمان صاحب نے ایف اے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت میں الہ آباد بورڈ سے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرلیا۔ نائب تحصیل داری کے امتحان میں کامیاب ہوگئے لیکن سی آئی ڈی کی خفیہ رپورٹ ان کے خلاف تھی۔ اس لیے یہ ملازمت نہ ملی ۔1950میں بی اے کرلیا۔ اس دوران شادی ہوگئی ۔ ایک سال قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ فرمان صاحب نے ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات دگرگوں دیکھے تو پاکستان آگئے ۔ کراچی میں انہیں لوئر گریڈ کلرک کی ملازمت ملی اور نا آسودگی محسوس کی تو اکاونٹنٹ کا امتحان پاس کرکے اے جی پی آر میں ایک بہتر پوسٹ پر تقرری ہوگئی ،اس دور کا اہم واقعہ یہ ہے کہ فرمان صاحب نے کراچی میں ایک بڑا مشاعرہ کرایا جس کی صدارت کیلئے نیاز فتح پوری کو مدعو کیا۔ ہندوستان سے جوش ملیح آبادی، فراق گورکھ پوری، نواب جعفر علی اثر اور جگر مراد آبادی نے شرکت کی۔اس مشاعرے نے فرمان صاحب کو ادبی، سماجی اور تہذیبی حلقوں میں متعارف کرادیا اور ان کے اس مضمون کو بھی بہت شہرت ملی جو انہوں نے رسالہ نگار میں سیداحتشام حسین کے اس مقالے کے جواب میں لکھا تھا جس میں انہوں نے اردو کا رسم الخط تبدیل کرکے دیوناگری رسم الخط اختیار کرنے کی تجویز دی تھی۔ احتشام حسین کی رائے میں ہندوستان میں اردو کو زندہ رکھنے کیلئے دیو نگری رسم الخط قبول کرنا ضروری تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرمان صاحب کے جوابی مضمون کی احتشام صاحب نے بھی تعریف کی ۔فرمان صاحب نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو ایک انٹرویو میں بتایا۔
اس مضمون نے مجھے عاملوں کی بڑی محفلوں میں داخل کردیا۔ مجھے اس سے شہرت ملی یوں تنقیدی اور ادبی مضامین لکھنے لکھانے کا سلسلہ چل نکلا۔ان کے یہ مضامین نگار اور ادب لطیف میں شائع ہوتے تھے جن کے مدیران نیاز فتح پوری اور مرزا ادیب تھے ۔ فرمان فتح پوری نے اپنے ادبی ذوق کی پرورش کا سلسلہ نوجوانی کے دور میں جاری رکھا تو انہوں نے اپنے سماجی ارتقائکو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ کراچی میں ہی انہوں نے قانون کا امتحان پاس کیا لیکن وکالت کے عملی پیشے کی طرف نہیں آئے اور ادب نے ان کی توجہ زیادہ حاصل کی۔ تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی جاری رکھا اور 1958میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کا امتحان اوّل بدرجہ اول پاس کیا۔اس سے قبل انہوں نے ایل ایل بی اور جی ٹی میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی تھی لیکن فرمان صاحب نے کراچی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ لیکچرار کی ملازمت کو ترجیح دی اور پھر یہیں سے اردو میں منظوم داستانیں کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری 1958 میں حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے ڈی بٹ کی پہلی ڈگری حاصل کرنے کااعزاز بھی انہیں کو حاصل ہے ۔ ان کی عالمانہ تحقیقی کتاب کا عنوان تھا اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جامعہ کراچی میں تقریباً تیس برس تک خدمات انجام دیں اور شعبہ اردو کے صدر کے عہدے تک پہنچے ۔1958 میں انہیں اردو ڈکشنری بورڈ کا چیف ایڈیٹر اور سیکرٹری مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے اعلیٰ خدمات انجام دیں۔
علمی،ادبی،تحقیقی،تنقیدی،تدریسی اور تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا ایک اور کارنامہ برصغیر کے ممتاز ادبی جریدہ نگار کی ادارت ہے جو ان کے زمانہ وفات تک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی۔ رسالہ نگار نیاز فتح پوری نے آگرہ سے 1922 میں جاری کیا تھا تھا۔ روشن خیالی اور فرد افروزی کی تحریک کا نقیب یہ رسالہ پورے ملک میں بڑی دلچسپی سے پڑھاجاتاتھا۔ 1927سے 1962 تک اس کی اشاعت لکھنو سے ہوتی رہی۔1950میں نیاز فتح پوری نے ہندوستان میں اردو رسم الخط کی بحث پر فرمان فتح پوری کا ایک مضمون شائع کیا تو یہ دونوں کا پہلا رابطہ تھا جسے سرور ایّام کے ساتھ ترقی ملتی گئی۔ حتیٰ کہ فرمان صاحب نے نگار کراچی سے شائع کرنے کی اجازت چاہی تو نیاز صاحب نے اس تجویز کو بخوشی قبول کرلیا۔ کراچی سے نگار نام کا ایک فلمی رسالہ پہلے بھی شائع ہوتا تھا۔قانونی ضابطے کے مطابق ایک ہی نام کے دو پرچے جاری کیے جاسکتے تھے ۔اس لئے فرمان صاحب نے پاکستان کا سابقہ نگار کے ساتھ منسلک کردیا۔ نگار پاکستان کا پہلا پرچہ کراچی سے جنوری 1962 میں چھپا اور یہ نگار لکھن کا چربہ تھا۔ یعنی لکھن سے نیاز صاحب نگار کی کاپیاں بھجوا دیتے تھے اور یہ پاکستان میں فرمان صاحب چھاپ کر شائع کردیتے تھے ۔1964میں نیاز صاحب کراچی آگئے تو نگار بند ہوگیا۔ نیاز فتح پوری 1966میں انتقال کرگئے تو اپنے وصیت نامے میں نگار کے علاوہ اپنے تمام معاملات کا ذمہ دار فرمان صاحب کو بنا گئے ۔ انہوں نے لکھا: مجھے اس وصیت نامے کا علم ہوا تو میں بہت رویا۔۔۔کیسے عجیب لوگ تھے کہ اپنی زندگی میں انہوں نے اپنی بے پناہ محبت کا ذرہ بھر احساس نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔۔مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ بڈھا مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے۔۔۔۔میں نے ان کی وصیت کے بعد ان کے بچو ں کی تعلیم و تربیت سے لیکر شادی بیاہ تک کے تمام معاملات خود ہی طے کرائے ۔ ان کے بچے بھی نہایت لائق ثابت ہوئے اورآج وہ نہایت اعلیٰ مقام پر ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی علمی،ادبی اور تصنیفی فتوحات کا دائرہ وسیع ہے ۔ ان کی کتابیں اب ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کیلئے مستندحوالے کا کام دیتی ہیں چند مشہور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:
اردو کی منظوم داستانیں۔۔۔اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری۔۔۔اقبال سب کیلئے ۔۔۔ رباعی کا فنی اور تاریخی ارتقاء۔۔۔اردو کی نعتیہ شاعری۔۔۔ ہندو مسلم متنازع، ہندو مسلم سیاست کی روشنی میں۔۔۔میر انیس۔ حیات و شاعری۔۔۔غالب شاعر امروز رزدا۔۔۔ اردو افسانہ اور افسانہ نگار۔۔ نیا پرانا ادب۔۔۔ نیاز فتح پوری دیدہ دشنیدہ۔۔۔فن تاریخ گوئی اور اس کی روایت۔۔۔قمر زمانی بیگم۔۔۔ نواب مرزا شوقی کی مثنوہاں۔۔۔تحقیق ،تنقید ۔۔۔ زبان اور اردو زبان۔۔۔اردو املا اور رسم الخط۔۔۔تاویل و تعمیر۔۔۔ارمغان لوکل پرشاد وغیرہ۔
ان کتابوں کے علاوہ ان کے بہت سے مقالات مختلف ادبی رسائل و جرائد میں پڑے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی علمی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز عطا کیا۔ ان کے شاگردوں کا دائرہ بہت وسیع تھا اور حد یہ ہے کہ ان کے پڑھائے ہوئے اب خود کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ادب کے اساتذہ ہیں۔ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ یونیورسٹی میں نئی کلاس آئی توذہین طلباء کو چھانٹ لیتے اور پھر ان کی ادبی تربیت میں خصوصی دلچسپی لینے لگتے اور ان کے باطن سے حقیقی ادیب ہی برآمد نہ کرتے بلکہ انہیں ادب کا معلم بننے کی تربیت بھی دیتے ۔ اس لحاط سے ان کا فیض عام ان کی وفات تک جاری رہا اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا ان سے استفادہ کرتے رہے ۔ انہیں شکوہ تھا کہ آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے لیکن سنجیدہ ادب پڑھنے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی جارہی ہے اور تفریحی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ان کی رائے میں تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے ، حکومت کیلئے تعلیم اور صحت دو شعبے ایسے ہیں جو صنعت بخش نہیں لیکن قوم کے شعور کو روشن کرتے اور صحت مندبناتے ہیں لیکن حکومت تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ہی نظرانداز کر رہی ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ تنگ نظری میں اضافہ ہورہا ہے اور قوم ذہنی طورپر بیمار ہوتی جارہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایم فل اورپی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنے والوں سے مطمئن نہیں تھے اور کہتے تھے کہ ایم اے کی تعداد محدود ہونی چاہئے دنیا کے کسی ملک میں اعلیٰ تعلیم ضروری نہیں ہوتی۔ اعلیٰ تعلیم صرف اعلیٰ ذہنوں کو دینی چاہئے لیکن اب ڈگریاں تعلقات اور دبا ؤکے تحت دے دی جاتی ہے ۔اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈگری یافتہ لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن علم و ادب اور تحقیق و تنقید کا صحیح ذوق رکھنے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمہ گیریت کی روایت کو زندہ رکھنے والے فرمان فتح پوری 3اگست کو اس دنیا سے اٹھ گئے تو اب کراچی کی ادبی رونق میں شدیدکمی پیدا ہوگئی ہے ۔اب شاید نگارجاری نہ رہے اور ہر سال منعقد ہونے والے نیاز یادگاری لیکچر کا سلسلہ بھی بندہوجائے ۔فرمان فتح پوری کی وفات پر غم کا جتنا اظہار کیاجائے کم ہے ۔
٭٭٭