پاکستان اور بھارت کے اپ گریڈڈ ہتھیار، جنگ میں نقصان کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)فروری 2019 کے بعد بھارت اور پاکستان نے اپنی عسکری صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے، اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ موجودہ کشیدگی کے تناظر میں محدود تصادم بھی سنگین تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے، جس پر وزیراعظم نریندر مودی نے حملہ آوروں کے ”ہوش اڑا دینے والے“ انجام کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے اس حملے میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی تردید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر نشانہ بنایا گیا تو بھرپور جوابی کارروائی کی جائے گی۔
2019 کی جھڑپ اور اس کے بعد کی عسکری پیش رفت
2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر فضائی حملے کا دعویٰ کیا۔ جواباً پاکستان نے بھی فضائی کارروائی کی اور ایک بھارتی طیارہ مار گرایا۔ یہ جھڑپ دو روز تک جاری رہی اور کسی بڑے تصادم سے امریکی مداخلت کے ذریعے بچاؤ ممکن ہوا۔
دونوں ممالک 1948، 1965 اور 1971 میں تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں، جب کہ کشمیر جیسے حساس خطے پر بے شمار جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ دونوں نے 1990 کی دہائی میں ایٹمی صلاحیت حاصل کی۔ اور اب کشمیر کو دنیا کا ایک ”سب سے خطرناک فلیش پوائنٹ“ قرار دیا جاتا ہے۔
عسکری توازن اور خطرناک امکانات
روئٹرز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال دونوں ممالک کی آخری حد ہو گا، تاہم محدود جنگ بھی قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ ایسے کسی تصادم میں طیارے، میزائل یا ڈرونز کا استعمال نمایاں ہو گا، اور دونوں ممالک کی عسکری صلاحیتیں قریب قریب تصور کی جاتی ہیں۔ تاہم طویل مدتی تصادم میں بھارت کے زیادہ وسائل فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک اسٹمسن سینٹر کے جنوبی ایشیا پروگرام سے وابستہ ماہر فرینک او ڈونل نے کہا کہ 2019 کے بعد دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں میں خطرہ مول لینے کی صلاحیت بڑھ چکی ہے کیونکہ اُس وقت ایٹمی ہتھیار استعمال کیے بغیر بھی تصادم ممکن ہوا۔
جدید طیارے، میزائل اور دفاعی نظام
2019 کی جھڑپ کے بعد بھارت نے فرانس سے 36 جدید رافیل جنگی طیارے حاصل کیے، جنہیں اب بحریہ میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ جواباً پاکستان نے چین سے جے-10 سی طیارے حاصل کیے، جو رافیل کے ہم پلہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان طیاروں کے ساتھ میٹیور (رافیل) اور پی ایل-15 (جے-10) جیسے جدید فضائی میزائل نصب ہیں جو نظر کی حد سے باہر ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
فضائی دفاع میں کمزوری کو دور کرنے کے لیے بھارت نے روسی ساختہ ایس-400 سسٹم حاصل کیا، جب کہ پاکستان نے چین سے ایچ کیو-9 سسٹم حاصل کیا، جو روسی ایس-300 پر مبنی ہے۔
”جھڑپ کی گونج“ اور سیاسی دباؤ
بھات کے سابق ایئر وائس مارشل انیل گولانی کے مطابق بھارت کی عسکری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن مکمل جنگ دونوں ممالک کا ارادہ نہیں۔ تاہم عوامی دباؤ اور سیاسی بیانات جھڑپ کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔
ادھر چین، بھارت کا حریف اور پاکستان کا قریبی اتحادی، اس ممکنہ تصادم میں غیر اعلانیہ کردار ادا کر سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ پاکستان کو عسکری سامان فراہم کر رہا ہے۔
ڈرون اور میزائلوں کی نئی دوڑ
دونوں ممالک نے ڈرونز کی جدید رینج حاصل کی ہے۔ بھارت اسرائیل سے ہرون مارک 2 اور امریکہ سے پریڈیٹر ڈرونز لے رہا ہے، جب کہ پاکستان نے ترکی سے بائراکتار ٹی بی 2 اور جدید آقنچی ڈرون حاصل کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے حالیہ دنوں میں ایک 450 کلومیٹر تک زمین سے زمین تک مار کرنے والے ابدالی بیلسٹک میزائل اور 120 کلو میٹر مار کرنے والے فتح سسٹم کا تجربہ بھی کیا ہے، جس کا مقصد دشمن کو یہ پیغام دینا تھا کہ پاکستان ہر قسم کے دفاع کے لیے تیار ہے۔
”2019 سے مختلف منظرنامہ“
پاکستان کے سابق فائٹر پائلٹ اور دفاعی تجزیہ کار قیصر طفیل کا کہنا ہے کہ 2019 میں بھارت پاکستان کے خلاف دفاعی برتری حاصل کرنے میں ناکام رہا، لہٰذا اس بار وہ زیادہ جارحانہ حکمت عملی اپنانے کی کوشش کرے گا، جو خطرے کو اور بڑھا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہم 2019 سے آگے نکلے تو یہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں کا براہ راست تصادم دنیا کے لیے تباہ کن ہو گا۔‘
امن یا تباہی؟
اگرچہ دونوں ممالک مکمل جنگ نہیں چاہتے، مگر جدید ہتھیاروں کی دوڑ، سیاسی بیانات اور اندرونی دباؤ اس خطے کو ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر رہے ہیں۔ ذرا سی غلط فہمی یا غلط قدم ایٹمی تصادم کے خطرے کو جنم دے سکتا ہے — ایک ایسا خطرہ جس کے نتائج نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوں گے۔
’نوکیا‘ نے پاکستان میں اپنے فون سستے کرنے کا اعلان کردیا
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے بعد بھارت دونوں ممالک پاکستان نے بھارت نے سکتا ہے حاصل کی کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
پانی پر ایک بڑی جنگ ہو سکتی ہے
پانی ہمارے لئے کتنی اہمیت رکھتا ہے-یہ ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔اس کو بچانا،اس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری اور اہم فرائض میں سے ایک ہے۔زندگی کی بقا کے لیے آکسیجن کے بعد انسان کی سب سے بڑی ضرورت پانی ہےپانی کو لے کر پاکستان اور بھارت کے مابین بھی ان دونوں شدید تنازع پیدا ہو گیا ہےجس نے خطے کی صورت حال بگاڑ دی ہے اور ٹینشن پیدا کر دی ہے۔دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے بالمقابل آ کھڑی ہوئی ہیں۔حالیہ دنوں میں جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارت نے وقوعہ کا سارا الزام پاکستان پر لگا دیا ہے جبکہ وقوعہ کے فورا بعد پہلگام تھانے میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کسی تحقیق اور تفتیش کے بغیر واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کی بات کی گئی ہے۔وقوعہ کے اسی روز مودی سرکار نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی بھی بات کی اور کہا کہ بھارت سے پاکستان کو جانے والے دریا کے پانی کو روک دیاجائے گا۔جس کے جواب میں پاکستان نے بھی وارننگ دی کہ ہمارے پانی کو روکاگیا تو اسے ہم اعلان جنگ تصور کریں گےکیونکہ پانی ہماری لائف لائن ہے پانی روکنے کے عمل کو ہم اپنے خلاف اعلان جنگ تصور کریں گے۔بھارت کو اس کا سخت اور منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔ان دھمکیوں اور وارننگ کے بعد صورت حال اب کچھ اور بھی زیادہ کشیدہ ہو گئی ہے۔دونوں جانب کی فوجیں جنگ کے لیےمستعد اور تیار کھڑی ہیں۔ سرحدوں پر افواج کی بہت غیر معمولی نقل و حمل نوٹ کی گئی ہے۔فوجی مبصرین کا کہنا ہے کسی بھی فریق کی معمولی سی غلطی خطےکوجنگ میں دھکیل سکتی ہے۔جنگ ہوتی ہے تو اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے۔دنیا جو پہلے ہی معاشی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے۔مزید اقتصادی و معاشی بحران کی طرف بڑھ سکتی ہے۔پانی کسی بھی ملک اور وہاں کے باسیوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔اس کا اندازہ اسی بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ پانی کے مسئلے پر دو ایٹمی قوتیں جنگ کے لئے تیار ہیں۔اب ہم بات کرتے ہیں سندھ طاس معاہدے کی،بھارت کی جانب سے جس کی معطلی کے بعد یہ سنگین صورت حال پیدا ہوئی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء کو دریائے سندھ اور دیگر دریائوں کے پانی کی منصفانہ تقسیم اور حصہ داری کےحوالے سےایک معاہدہ طےپایاجسے سندھ طاس معاہدے کانام دیاگیا۔اس پس منظر میں یہ جاننابھی ضروری ہے کہ 1909 میں برطانوی حکام نے زیریں سندھ طاس کے منصوبے پر غور کیا جس کے مطابق ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچایا جانا تھا۔دریائے جہلم کو ایک نہر کے ذریعے چناب سے ملا دیا گیا جبکہ پنجند اور معاون دریائوں پر بہت سے بند اور بیراج بنائے گئے۔جس کا مقصد سیلاب کے دنوں میں پانی کا ذخیرہ کرنا تھا۔اس طرح جہاں سیلابوں پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا تھا وہاں ان ذخیروں میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔1932 میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا پہلا بیراج کھول دیا گیا اور نیا بیراج کالا باغ کے مقام پر تعمیر کیا گیا۔برطانوی انجینئرز نے آبپاشی نظام کے جو فارمولے تشکیل دئیے۔وہ دنیا میں ہر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔قریبا پچاس سال تک پانی کے مسئلے کو طاقتور دریائوں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رہا مگر 1947 کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیئرمین تھا جسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔برطانیہ کو اپنے اس نہری نظام پر فخر تھا اور قدرتی طور پر اس کی خواہش تھی کہ پانی کا یہ نظام کامیابی سے چلتا رہے۔اس لیئے سر سیرل کلف نے تقسیم کے وقت نہروں اور دریائوں کو کنٹرول کرنے کے اس نظام کی اہمیت پوری طرح دونوں فریقوں یعنی پاکستان اور ہندوستان پر واضح کر دی اور برطانوی خواہش کے مطابق تجویز پیش کی کہ دونوں ملک ایک معاہدہ کر لیں کہ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں گےمگر دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور بڑی سختی سے دونوں نے یہ تجویز رد کر دی۔پاکستان جانتا تھا اس طرح بھارت کے رحم و کرم پر رہے گا۔نہرو نے بڑے سیدھے الفاظ میں کہہ بھی دیا کہ بھارت کے دریا بھارت کا مسئلہ ہے کیونکہ اس کو امید تھی کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود وہاں کا ہندو راجا بھارت کے ساتھ شامل ہونا پسند کرے گا۔شاید اندرون خانہ ان کے درمیان کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا۔تقسیم کے وقت ظاہری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آتا تھا کہ پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کےقبضے میں آ گئیں۔پنجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھےجس پر اب بھارت قابض ہو چکا تھا۔پانیوں کی یہ ایک لمبی کہانی ہے۔بھارت چاہتا ہے پاکستان کا پانی بند کر کیاسے تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرے۔ہم کبھی سنتے تھے کہ دنیا میں اب جنگیں پانی پر ہوا کریں گی اور یہ وقت ہماری زندگی میں آ گیا ہے۔پاکستان کا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ اپنے آبی وسائل پر کوئی قدغن برداشت نہیں کرے گا۔سچ ہے بھارت باز نہ آیا تو پانی پر ایک بڑی اور ہولناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔