Nawaiwaqt:
2025-09-21@21:31:13 GMT

پاک بھارت کشیدگی پر امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

پاک بھارت کشیدگی پر امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان حملے فوری بند ہونے چاہئیں اور اگر ضرورت پڑی تو وہ ثالثی کے لیے تیار ہیں اوول ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ امریکا کے اچھے تعلقات ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ یہ دو ایٹمی طاقتیں مزید تصادم کی طرف بڑھیں انہوں نے کہا کہ اگر میری ضرورت پڑی تو میں کشیدگی کم کرانے کے لیے کردار ادا کروں گا گزشتہ روز بھارتی حملے پر اپنے ابتدائی بیان میں امریکی صدر نے اسے انتہائی شرمناک قرار دیا اور کہا کہ ہمیں بھارتی حملوں کی اطلاعات ملی ہیں اور اس پر تشویش ہے ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی ردعمل میں کہا ہے کہ وہ صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور پاکستان و بھارت کی قیادت سے مسلسل رابطے میں ہیں انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو پُرامن حل کی طرف لانے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں اور صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ یہ تنازع جلد ختم ہو

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ہیں اور کہا کہ

پڑھیں:

امریکی پابندیوں سے چھوٹ کا خاتمہ: بھارت کی چابہار حکمت عملی پر کاری ضرب

چابہار ایران کی ایک بندرگاہ ہے جو خلیجِ عمان سے جڑی ہے۔ یہ بحیرہ عرب کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے جغرافیائی لحاظ سے ایک انتہائی اہم مقام رکھتا ہے۔

چابہار بندرگاہ کو ‘گیٹ وے ٹو سینٹرل ایشیا’ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ افغانستان، وسطی ایشیائی ممالک اور ایران کو سمندر سے جوڑنے کا ایک متبادل راستہ فراہم کرتی ہے جو پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں بھارت کے لیے ایک اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: چابہار بندرگاہ چلانے کے لیے بھارت کا ایران سے معاہدہ

واضح رہے کہ چابہار بندرگاہ کی ترقی میں سنجیدگی 2000 کی دہائی میں سامنے آئی لیکن بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے بندرگاہ کی توسیع اور انتظام میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس کا مقصد پاکستان کو بائی پاس کرکے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ 2018 میں بھارت نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا رسمی طور پر آپریشنل کنٹرول بھی سنبھالا۔

ایران کی چابہار بندرگاہ، جو طویل عرصے سے بھارت کے لیے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی تھی، اب امریکی پابندیوں کی نئی لہر کی زد میں آ گئی ہے۔ 29 ستمبر 2025 کو امریکا کی طرف سے بھارت کو دی گئی پابندیوں سے چھوٹ واپس لینے کے بعد چابہار پر بھارتی سرگرمیاں غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: چین اور بھارت پر روسی تیل خریدنے پر 100 فیصد ٹیرف لگایا جائے، ٹرمپ کا یورپی یونین سے مطالبہ

یاد رہے کہ چابہار بندرگاہ کی آپریشنل سرگرمیان انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ کمپنی سنبھالتی ہے جو بھارت کی وزارت بندرگاہ، جہاز رانی و آبی نقل و حمل کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ کمپنی بندرگاہ کے ایک مخصوص حصے، ’شہید بہشتی ٹرمینل‘ کا انتظام سنبھالی ہوئی ہے۔

وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ امریکا کی جانب سے بھارت کو دی گئی چھوٹ کی واپسی کے بعد چابہار بندرگاہ میں بھارتی سرمایہ کاری پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا بھارت کے لیے چابہار بندرگاہ اب بھی ایک قابلِ عمل اسٹریٹیجک آپشن ہے یا اسے متبادل راستے تلاش کرنے ہوں گے؟ اس کے علاوہ بھارت کے لیے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے امکانات اب کس حد تک متاثر ہوں گے؟

ماہر معاشیات عابد سلہری کا کہنا تھا کہ امریکا نے 29 ستمبر 2025 سے بھارت کو دی گئی وہ چھوٹ ختم کر دی ہے جو اسے ایران کی چابہار بندرگاہ پر کام کرنے کی اجازت دیتی تھی۔ اب دوبارہ سے بھارت اور دیگر ملکوں کو ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ پر کام کرنے پر امریکی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت کے لیے اس بندرگاہ میں مزید سرمایہ کاری، توسیع اور دیگر سرگرمیاں زیادہ خطرناک ہو گئی ہیں کیونکہ انہیں امریکی سزاؤں کا خدشہ ہے۔

چاہ بہار پورٹ

ان کا کہنا ہے کہ چابہار بندرگاہ بھارت کے لیے افغانستان اور وسطی ایشیا تک پہنچنے کا ایک اہم راستہ تھی، جو پاکستان کو نظرانداز کر کے استعمال کیا جاتا تھا۔ بھارت نے اس بندرگاہ کے ذریعے پاکستان کے گوادر بندرگاہ کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔

عابد سلہری کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکا کا یہ فیصلہ بندرگاہوں کے درمیان علاقائی مقابلے کی صورتحال کو بدلتا ہے۔ اب بھارت کے لیے چابہار کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سے بھارت کی علاقائی طاقت کم ہو گی اور پاکستان کے کراچی اور گوادر جیسے بندرگاہوں کی اقتصادی اور تزویراتی (اسٹریٹجک) اہمیت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ چابہار بندرگاہ مکمل طور پر ایران کے کنٹرول میں ہے اور فعال رہے گی۔ امریکا کی پابندیاں اور بدلتی بین الاقوامی شراکت داریاں غیر ملکی سرمایہ کاری کو مشکل بنا سکتی ہیں مگر یہ ایران کی بندرگاہ پر خودمختاری یا اسے اہم علاقائی منصوبے کے طور پر چلانے کے ارادے کو نہیں روک سکتیں۔

یہ بھی پڑھیے: نیوگوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ تجارت اور رابطوں کو آسان بنانے میں مصروف عمل

معاشی ماہر راجہ کامران کا کہنا تھا کہ عالمی اسٹریٹیجک سیاست میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں نے خطے کی بندرگاہوں کی اہمیت کو ازسرِ نو واضح کر دیا ہے اور اسی تناظر میں پاکستان کی گوادر بندرگاہ ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنتی جا رہی ہے۔

راجہ کامران کے مطابق گوادر کی جغرافیائی پوزیشن، قدرتی گہرے پانی کی بندرگاہ ہونے اور اس میں موجود جدید سہولیات کی بدولت یہ بندرگاہ مستقبل قریب میں خطے کی سب سے مؤثر اور متحرک اسٹریٹیجک بندرگاہ بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

ان کے مطابق، مئی 2025 کے بعد سے ہی بھارت کی علاقائی برتری واضح طور پر کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بھارت کی اندرونی و بیرونی پالیسیوں نے اسے اپنے قریبی ہمسایہ ممالک چین، پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش سے بدظن اور الگ تھلگ کر دیا ہے۔ چین کے ساتھ لداخ کے محاذ پر تناؤ اور سرحدی جھڑپوں نے بھارت کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کے ساتھ ٹیکنیکل وارفیئر میں برتری حاصل کرنے کی کوششیں بھی محدود نتائج ہی دے سکیں۔

گوادر بندرگاہ

راجہ کامران کے مطابق امریکا اور بھارت کے تعلقات میں بھی سرد مہری واضح ہے، خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے پس منظر میں۔ حالانکہ یہ دوری وقتی ہو سکتی ہے، تاہم ان کا ماننا ہے کہ مستقبل میں امریکا خاص طور پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک بار پھر افریقہ اور بھارت کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ادھر ایران کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ چابہار بندرگاہ، جسے بھارت نے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے ایک اسٹریٹیجک گیٹ وے کے طور پر اپنایا، امریکی پابندیوں کی نئی لہر کے سبب متاثر ہو رہی ہے۔ ایران کی خواہش ہے کہ چابہار کو چین پاکستان اقتصادی راہداریکا حصہ بنایا جائے، لیکن تجزیاتی سطح پر چابہار، گوادر کا متبادل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

یہ بھی پڑھیے: گوادر شپ یارڈ کی تعمیر میں مقامی سطح پر روزگار کو مرکزی حیثیت دی جائے گی، اسحاق ڈار

راجہ کامران نے کہا کہ چابہار ایک کم گہرے پانی کی بندرگاہ ہے، جہاں بڑے بحری جہازوں کی آمد محدود ہے، جبکہ گوادر ایک قدرتی ڈیپ سی پورٹ ہے، جہاں بیک وقت کئی بڑے کارگو جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ گوادر کی اسٹریٹیجک اہمیت کو قومی ترجیح بناتے ہوئے اس کی فعالیت، انفراسٹرکچر اور عالمی شراکت داری پر تیزی سے کام کرے۔ علاقائی دشمنیوں اور سفارتی تنازعات کو قومی مفاد کے زاویے سے دیکھنے اور ان سے بلند ہو کر فیصلے کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ گوادر، پاکستان کے لیے صرف ایک بندرگاہ نہیں بلکہ عالمی تجارت اور اثر و رسوخ کا دروازہ بن سکتا ہے  بشرطیکہ اسے عملی طور پر فعال بنانے میں سیاسی سنجیدگی دکھائی جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

CHABAHAR PORT GWADAR PORT چابہار پورٹ گوادر پورٹ

متعلقہ مضامین

  • بھارت امریکا تجارتی کشیدگی: مودی کی قوم سے اپنی مصنوعات استعمال کرنے کی اپیل
  • پاکستان زیرِ التواء مقدمات کے بوجھ جیسے سنگین مسئلے کا شکار ہے: جسٹس میاں گل حسن
  • امریکی صدر ٹرمپ کی بگرام ایئربیس واپس نہ کرنے پر افغانستان کو دھمکی قابل مذمت ہے، اسداللہ بھٹو
  • ایران کی چا بہار بندرگاہ پر امریکی پابندیاں بھارت کیلئے ایک اور بڑا دھچکا ہے; سردار مسعود خان
  • وزیر اعظم شہباز شریف کی بھارت کو برابری کی بنیاد پر ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش
  • قطر نے غزہ ثالثی کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے شرط رکھ دی، امریکی میڈیا کا دعویٰ
  • امریکی پابندیوں سے چھوٹ کا خاتمہ: بھارت کی چابہار حکمت عملی پر کاری ضرب
  • اسرائیل کیخلاف حزب اللہ  کی سعودی عرب کو تعلقات کی بحالی کی پیشکش
  • پاکستان نے بھارت کیلئے فضائی حدود بندش میں مزید ایک ماہ توسیع کر دی
  •  ہم افغان سرزمین پر امریکی افواج کی واپسی کو مسترد کرتے ہیں، بگرام ایئر بیس سے متعلق صدر ٹرمپ کے بیان پر افغانستان کا رد عمل