WE News:
2025-06-24@14:14:25 GMT

بلیک آؤٹ ڈرل کیا ہے، اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

بلیک آؤٹ ڈرل کیا ہے، اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ایسے میں انتظامیہ کی جانب سے اپنے بڑے شہروں میں بلیک آؤٹ ڈرلز کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کا آغاز راولپنڈی سے ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی اور اسلام آباد میں لائٹس بند رکھنے کی ہدایت

گزشتہ شب راولپنڈی کی تقریباً تمام نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی جانب سے مکمل بلیک آوٹ کیا گیا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور کراچی کے کچھ علاقوں میں بھی بلیک آوٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر بلیک آؤٹ کی گردش کرتی خبروں نے بہت سے افراد کو خوف میں مبتلا کیا اور ہر کوئی اپنے مطابق اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تشریح و تبصرے کرتا بھی نظر آیا۔

بلیک آؤٹ ڈرل کے بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟

اس حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ بلیک آؤٹ ڈرل ایک مشق ہوتی ہے جس میں کسی ممکنہ ہنگامی صورتحال جیسے کہ فضائی حملے یا کسی بڑے حادثے کے نتیجے میں بجلی کی فراہمی منقطع ہونے کی صورت میں تیاری کی جاتی ہے۔ اس ڈرل میں ایک مقررہ وقت کے لیے مصنوعی طور پر بجلی بند کر دی جاتی ہے اور لوگوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ایسی صورتحال میں کیسے محفوظ رہنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بلیک آؤٹ ڈرل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ شہری آبادی کو محفوظ رکھا جائے اور دشمن کے لیے ان کے میزائل یا کسی بھی قسم کے ٹارگٹس کو مشکل بنا دیا جائے تاکہ وہ شہری آبادی کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ جنگی صورتحال میں لوگ تہہ خانوں جیسی محفوظ جگہوں تک پہنچیں اور ایک طرح سے اندھیرا رکھا جائے تاکہ دشمن کے جہاز آپ کو دیکھ نہ سکیں۔ اگرچہ انہیں علم ہو تب بھی عوام ان کا اتنا آسان ہدف نہ ہوں۔

مزید پڑھیے: پاکستانی بندرگاہوں پرمیری ٹائم سیکیورٹی ہائی الرٹ

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ اس کا بنیادی مقصد شہریوں کا تحفظ ہوتا ہے لہٰذا عوام کو چاہیے کہ وہ اس وقت ملک کے ساتھ چلیں اور بالخصوص اس بات کو سمجھیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور ظاہر ہے جنگ کے دوران اس طرح کی سرگرمیاں ان کے تحفظ اور ان کی جان بچانے کے لیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مکمل بلیک آؤٹ کا کہا جائے تو اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلیک آؤٹ ڈریل جیسی سرگرمیاں شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے میں خاصی مددگار ثابت ہوتی ہیں کیونکہ جب آپ کے اپنے الیکٹرانک سگنلز کم ہو جاتے ہیں اور لائٹس بند ہو جاتی ہیں تو اس سے دفاع زیادہ محفوظ ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی دشمن پر بروقت کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

بلیک آؤٹ ڈرل کے دوران آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

سیکیورٹی ایکسپرٹ علی عابد کا کہنا ہے کہ بلیک آؤٹ ڈرل کے دوران سب سے اہم بات اطمینان برقرار رکھنا ہے کیوں کہ گھبراہٹ کسی بھی مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی بجلی بند ہو یا سائرن کی آواز سنائی دے اپنی موجودہ سرگرمی کو محفوظ طریقے سے روک دیں خواہ آپ گاڑی چلا رہے ہوں یا کوئی اور کام کر رہے ہوں۔

علی عابد نے کہا کہ ایسے میں تمام اندرونی اور بیرونی لائٹس بشمول جنریٹر و انورٹر سے چلنے والی لائٹس کو فوری طور پر بند کر دیں، کھڑکیوں پر پردے ڈال دیں تاکہ روشنی باہر نہ جائے اور جب تک حکام کی جانب سے باہر آنے کی ہدایت نہ کی جائے گھر یا کسی محفوظ عمارت کے اندر ہی رہیں۔

انہوں نے کہا کہ لفٹ استعمال کرنے سے بھی گریز کریں بلکہ سیڑھیاں استعمال کریں اور موبائل فون کا استعمال کم سے کم رکھیں تاکہ ایمرجنسی کے لیے نیٹ ورک کھلا رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی غیر تصدیق شدہ خبر یا افواہ پر یقین نہ کریں اور صرف سرکاری ذرائع سے معلومات حاصل کریں اور اگر آپ کے ارد گرد کوئی بزرگ، بچے یا معذور افراد موجود ہوں تو ان کی مدد کرنے کے لیے تیار رہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہر گھر میں ایک ایمرجنسی کٹ تیار ہونی چاہیے جس میں ٹارچ، اضافی بیٹریاں، پانی کی بوتلیں، فرسٹ ایڈ کٹ اور ضروری ادویات شامل ہوں۔

مزید پڑھیں: بھارتی طیاروں کی مغربی سرحد سے دور منتقلی کیوں؟

سیکیورٹی ایکسپرٹ نے کہا کہ یاد رکھیں کہ بلیک آؤٹ ڈرل ایک تیاری کی مشق ہے اس لیے پرسکون رہیں، ہدایات پر عمل کریں اور اس موقعے کو سیکھنے اور بہتر تیاری کرنے کے لیے استعمال کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کا تعاون حکام کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت کو جانچنے اور بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلیک آؤٹ ڈرل جنگی حالات سول ڈیفنس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلیک ا ؤٹ ڈرل جنگی حالات سول ڈیفنس کہ بلیک آؤٹ ڈرل نے کہا کہ بلیک ا ؤٹ انہوں نے کریں اور کے لیے

پڑھیں:

کوئی ظہرانہ مفت نہیں ہوتا بالخصوص وہ جس کی میزبانی وائٹ ہاؤس کرے

ٹرمپ ایک ایسے پارٹنر کی تلاش میں تھے جو خطے کے قریب ہو اور مضبوط انٹیلی جنس صلاحیتوں کا حامل ہو۔ ان کے نزدیک پاکستان اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔ وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، سب سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، ٹرمپ نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے خیالات میں کچھ ہم آہنگی کا اشارہ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ (عاصم منیر) مجھ سے متفق تھے۔ وہ خوش نہیں ہیں (ایران میں ہونے والے واقعات سے متعلق) ایسا نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ہیں۔ اس ملاقات میں کیا شامل تھا؟ ایران کی جوہری خواہشات، اسرائیلی حملے، یا وسیع تر علاقائی افراتفری؟ ابھی تک کچھ واضح نہیں ہے۔ شاید جان بوجھ کر ابہام برقرار رکھا گیا۔ شاید یہ ابہام پاکستان کے لیے ڈھال کا کام کرسکتا ہے۔ تحریر: سید باقر سجاد

18 جون وائٹ ہاؤس میں ایک غیر معمولی دن تھا۔ اس سے پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے پاکستان کے حاضر چیف آف آرمی اسٹاف کی خصوصی، اعلیٰ سطح پر میزبانی نہیں کی۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں پر مشتمل فوجی تعاون کے باوجود اس نوعیت کی کسی ملاقات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ ملاقات خاص طور پر اس لیے بھی دلچسپ تھی کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیبنٹ روم میں ظہرانے کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے نجی طور پر ملاقات اس وقت کی کہ جب اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے خطے کی ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہونے کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس ملاقات میں پاکستان کے کسی سویلین نمائندے نے شرکت نہیں کی۔ نہ سفیر، نہ وزیر خارجہ، صرف آرمی چیف اور پاکستان کے اعلیٰ انٹیلی جنس افسر لیفٹیننٹ عاصم ملک جو قومی سلامتی کے مشیر ہیں، ظہرانے میں موجود تھے۔ امریکا کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ، سیکریٹری آف اسٹیٹ سینیٹر مارکو روبیو اور مشرق وسطیٰ کے امور کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے شرکت کی۔ ملاقات میں موجود لوگوں کے مختصر، محتاط انداز میں منتخب کردہ گروپ نے ظاہر کیا کہ دونوں فریقین کے خیال میں یہ ملاقات کتنی اہم اور سنجیدہ تھی۔

اگرچہ یہ ملاقات دلچسپ اور معنی خیز تھی، اس میں کوئی حتمی فیصلہ یا معاہدہ نہیں کیا گیا بلکہ اس میں خیالات کا تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے دونوں فریقین کے درمیان کھلے پن اور تعاون کی غیرمعمولی سطح کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، اگرچہ ملاقات ایک گھنٹے کے لیے طے تھی لیکن یہ 2 گھنٹے سے زائد جاری رہی جو اس مکالمے کی گہرائی اور دوستانہ ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔ اس ملاقات میں متعدد مسائل پر بات چیت کی گئی جن میں بھارت کے ساتھ پاکستان کا حالیہ تعطل، کرپٹو کرنسی میں اسلام آباد کی دلچسپی، نایاب معدنیات کی پیشکش اور مصنوعی ذہانت پر تعاون کے امکانات شامل ہیں۔

لیکن آئی ایس پی آر نے نوٹ کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان موجودہ کشیدگی پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا‘، مزید کہا کہ دونوں فریقین نے ’تنازعے کے حل کی اہمیت پر زور دیا۔ ٹرمپ نے خود اس خیال سے اتفاق کیا کہ پاکستان اس معاملے میں معنی خیز حصہ ڈال سکتا ہے خاص طور پر جب بات ایران کو سمجھنے کی ہو۔ تاہم دونوں اطراف کے ذرائع کے مطابق یہ ملاقات وعدے کرنے کے حوالے سے کم بلکہ مؤقف کو جاننے کے حوالے سے زیادہ تھی تاکہ یہ جانچا جاسکے کہ فریقین کہاں کھڑے ہیں۔

ایران کی حمایت؟
ملاقات کے اگلے دن دفتر خارجہ نے ایران-اسرائیل جنگ کے بارے میں اپنے سرکاری مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے مزید وضاحت پیش کی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا، ’اسرائیل، ایران میں جو کچھ کر رہا ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ مہذب رویے، بین الریاستی تعلقات، بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’ایران کے لیے حمایت ہمارا بنیادی مؤقف ہے۔ یہ واضح اور پختہ ہے۔ کوئی پاکستانی شہری یا حکومت کبھی بھی اسرائیل کی حمایت نہیں کرسکتی۔

پھر بھی جب اس بات پر دباؤ ڈالا گیا کہ آیا پاکستان ایران کی فوجی مدد کر سکتا ہے یا نہیں تو شفقت علی خان نے ہچکچاتے ہوئے کہا کہ اس مقام پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔۔۔ ہمیں ایران سے فوجی مدد کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ سادہ الفاظ میں پاکستان صرف ایران کی عسکری مدد کرنے سے انکار نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ اپنی پوزیشن کو احتیاط سے متوازی رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ملک ایران کے ساتھ اقدار کا اشتراک کرتا ہے، سفارت کاری کے ذریعے تناؤ کو کم کرنا چاہتا ہے اور جب فوجی کارروائی کی بات آتی ہے تو وہ غیرجانبدار رہتا ہے۔ پاکستان اس وقت انتہائی نازک صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستان کا محتاط متوازی ردعمل، تنازعات کے ساتھ اس کی اپنی تاریخ سے جڑا ہے خاص طور پر بھارت کے ساتھ اس کے مشکل اور کشیدہ تعلقات اور ان کے درمیان جوہری جنگ کا مستقل خطرہ اس کی وجہ ہے۔ ابھی پچھلے مہینے ہی پہلگام میں ایک حملے کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک تقریباً مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی بھی مذمت کی، ’آئی اے ای اے کے تحفظات کے تحت جوہری تنصیبات پر حملہ کرنا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

یہ جملہ پاکستان کی سب سے بڑی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر ایک ملک بغیر کسی سزا کے دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرسکتا ہے، تو دنیا کو محفوظ رکھنے والے قوانین کی پامالی ہوگی جوکہ پاکستان کے لیے بہت خوفناک ہے کیونکہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور اس کی بھارت کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں جس کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں۔ جمعرات کو جاری ہونے والے بیان میں آئی ایس پی آر نے واضح کیا، پاک-امریکا تعلقات نے گزشتہ تین دنوں میں وہ حاصل کیا ہے جو بھارت تین دہائیوں میں حاصل نہیں کر سکا‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اس ملاقات کو سیکیورٹی معاملات پر پاکستان کی مرکزی آواز کے طور پر اپنے اہم کردار کے ثبوت کے طور پر دیکھتی ہے۔

آئی ایس پی آر نے مزید زور دے کر کہا کہ ملاقات نے امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیا، پاکستان کو اب اسٹریٹجک ترجیح دی جا رہی ہے۔ لیکن کیبنٹ روم کا منظر جہاں ٹرمپ پاکستانی جرنیلوں کے سامنے بیٹھے جبکہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی غیرموجودگی کئی تناظر میں پریشان کن تھی۔ ’کوئی بھی غیرملکی حکومت جو جمہوریت سے اتحاد یا حمایت مانگتی ہے وہ عام طور پر سویلین قیادت کے ساتھ معاملہ طے کرتی ہے۔ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ لیکن پاکستان اب ایک بالکل مختلف پیغام دے رہا ہے!

پاکستان کی توازن قائم کرنے کی کوشش
اس ملاقات نے نئی دہلی میں بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ تجزیہ کاروں نے اسے امریکا اور بھارت تعلقات کے لیے ایک دھچکا قرار دیا وزیر اعظم نریندر مودی نے خاموشی سے وائٹ ہاؤس کی طرف سے اسی طرح کی وائٹ ہاؤس کی دعوت کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ ان کا شیڈول طے ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات اس وقت تناؤ کا شکار ہوسکتے ہیں کہ جب عالمی اتحاد بدل رہے ہیں۔ ٹرمپ کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ لنچ ایک زبردست اقدام تھا۔ جیسا کہ اسرائیل نے امریکا کو ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور امریکی فوجیوں نے خاموشی سے خلیج میں اپنی پوزیشنیں تبدیل کر دیں۔

ٹرمپ ایک ایسے پارٹنر کی تلاش میں تھے جو خطے کے قریب ہو اور مضبوط انٹیلی جنس صلاحیتوں کا حامل ہو۔ ان کے نزدیک پاکستان اس تعریف پر پورا اترتا ہے۔ وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، سب سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، ٹرمپ نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے خیالات میں کچھ ہم آہنگی کا اشارہ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ (عاصم منیر) مجھ سے متفق تھے۔ وہ خوش نہیں ہیں (ایران میں ہونے والے واقعات سے متعلق) ایسا نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ہیں۔ اس ملاقات میں کیا شامل تھا؟ ایران کی جوہری خواہشات، اسرائیلی حملے، یا وسیع تر علاقائی افراتفری؟ ابھی تک کچھ واضح نہیں ہے۔ شاید جان بوجھ کر ابہام برقرار رکھا گیا۔ شاید یہ ابہام پاکستان کے لیے ڈھال کا کام کرسکتا ہے۔

کسی فوجی مدد کا وعدہ نہ کرتے ہوئے ایران کی اخلاقی حمایت کر کے پاکستان اپنے آپشن کھلے رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ ایران کے اعتماد کو کھونے کے ساتھ ساتھ امریکا کو پریشان کرنے سے بھی بچنا چاہتا ہے۔ ایران پر تنقید کرنے والے آئی اے ای اے کے حالیہ ووٹ سے باہر رہنے کا اس کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کتنی احتیاط سے دونوں فریقین میں توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ایک سچائی باقی ہے۔ اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر عادل سلطان نے کہا، کوئی ظہرانہ مفت نہیں ہوتا۔ خاص طور پر وہ جو وائٹ ہاؤس میں ہو۔ ہمیں ایک بار پھر فرنٹ لائن ریاست بننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

بشکریہ: ڈان اردو ڈات کام

متعلقہ مضامین

  • اہلبیتؑ سے محبت و تکریم ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے،مریم نواز
  • مطالعہ کے وہ 6 فائدے جو آپ کی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں
  • بجٹ پاس کرنا آئینی مجبوری، عمران خان سے ملاقات کے بعد تبدیلیاں کریں گے، علی امین گنڈاپور
  • مشرق وسطیٰ میں جنگ یا امن؟ فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایران کو خبردار کردیا
  • ’سپورٹنگ اداکاروں کے ساتھ دوسرے درجے کے انسانوں جیسا سلوک ہوتا ہے‘ بھارتی اداکارہ فاطمہ ثنا شیخ
  • حکومت ٹرمپ کیلیے نوبل انعام کی سفارش واپس لے، مولانا فضل الرحمن
  • امریکی صدر نے ایران میں سیاسی قیادت کی تبدیلی کا عندیہ دے دیا
  • کوئی ظہرانہ مفت نہیں ہوتا بالخصوص وہ جس کی میزبانی وائٹ ہاؤس کرے
  • اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، امریکہ اپنی جارحیت کا خود ذمہ دار ہوگا، ایران 
  • دنیا بھر میں مطالعے کا تیزی سے کمزور ہوتا ہوا رجحان