اسرائیل کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
برٹش جرنلسٹ جوناتھن کک جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ایک فلسطینی سے شادی کر کے کئی سال سے نیزرتھ اسرائیل میں مقیم ہیں، کا کہنا ہے کہ فلسطینی گائوں سے پھلوں کے درخت کاٹ کر اور تمام قابل کاشت زمین کو صاف کر کے وہاں غرقد کے درخت لگائے گئےتاکہ فلسطینی جنہیں پڑوسی ممالک اور ویسٹ بینک اور غزہ میں دھکیل دیا گیا تھا، وہ اگر واپس آبھی جائیں تو وہاں دوبارہ آباد نہ ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ہی ان گائوں کے گرد فینس لگا کرانہیں کلوزڈملٹری زون قرار دےدیاگیا،جہاں داخل ہونےوالوں کو انفلٹریٹر (درانداز) قراردیا گیا، جنہیں دیکھتے ہی گولی مارنے کاحکم تھا۔ ایسا کرنا اس لئے ضروری تھا کہ اقوام متحدہ کے مجوزہ تقسیم فلسطین پلان میں جو پچپن فیصد حصہ اسرائیل کی ریاست کے لیے مجوزہ تھا اس میں چار لاکھ چالیس ہزار فلسطینی اور پانچ لاکھ یہودی تھے، جن میں اکثریت یورپی مہاجرین کی تھی، جو پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانوی مینڈیٹ کے دوران فلسطین منتقل ہوئے۔ اب اسرائیل کو یہودی ریاست کا اسٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کو پراپر اسرائیل سے باہر نکالنا اسرائیلی ریاست کی مجبوری تھی۔ اس کی پلاننگ پہلے سے کرلی گئی تھی۔ اسرائیلی مورخ الان پاپے کا کہنا ہے کہ صہیونیوں کو اسرائیل کے قیام کےپلان بناتے وقت اچھی طرح معلوم تھا کہ فلسطینیوں کو بزور طاقت نکالے بغیر اسرائیل کاایک یہودی اسٹیٹ کے طور پر قیام ناممکن ہے۔ اس کے لیے پلان ڈی یا دلت کو ایگزیکیوٹ (عملی طور پر نافذ)کیا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عرب افواج کے داخلے سے پیشتر چار لاکھ فلسطینیوں کو بزور طاقت خون خرابہ کر کے اور ڈر اور ہراس کا ماحول بنا کر اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیاگیا تھا۔ جنگوں کے دوران ہجرت کا یہ پہلا واقعہ نہیں لیکن عام طور سے حالات ٹھیک ہونے کے بعد مہاجرین اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کارکن بننے تک اسرائیل بظاہر اس بات پر آمادہ تھا کہ وہ فلسطینی مہاجرین کو عالمی قوانین کے مطابق رائٹ آف ریٹرن (واپسی کا حق)دے گا لیکن بعد میں انکاری ہو گیا۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور سرزمین سے بے دخل کرنے کا یہ سلسلہ جو 1948 ء میں شروع ہوا تھا۔ یہ ایک دن کے لیے بھی رکا نہیں، آج بھی جاری ہے۔ تو اس غرقد درخت کی کاشت بھی ختم نہیں ہوئی۔ اس پر اکثر تنقید ہوتی، مگر تاحال اسے لگانے کا سلسلہ موقوف نہیں کیا گیا ہے۔
اسرائیل کو اس وقت بھی سب سے بڑا وجودی بحران جو درپیش ہے وہ فلسطینیوں کے مقابلے میں اس کی آبادی کا توازن ہے۔ یورپ سے لاکھوں مہاجرین کو یہاں لا کر بسانے اور ساری دنیا سے یہودیوں کو مختلف مراعات دے کر یہاں منتقل کروانے کے بعد بھی یہودی آبادی کو یہاں روکنا آسان نہیں۔ ایوی شیلوم نام عراقی بیک گرائونڈ کے یہودی مورخ جو آکسفورڈ میں استاد ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ عراقی یہودیوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کے لئے اسرائیل نے یہودی کمیونٹی پر بم حملے بھی کروائے۔ یہ کوششیں فلسطین میں یہودی آبادی کو بڑھانے کے لیےناگزیرتھیں تاکہ اسرائیل کامذہبی تشخص برقرار رکھاجا سکے۔ جن اشکنازی یہودیوں پر یورپی اقوام کے مظالم کو بنیاد بناکر اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا ان میں سے اکثریت کے پاس امریکی یا یورپی شہریتیں ہوتی ہیں۔ اس میں اگرکوئی استثنا ہے تو وہ روسی یہودی ہیں یاعرب ممالک اور نارتھ افریقہ یا ایشیائی ممالک سے لائے گئے سفارڈی اور مزراہی یہودی۔ یعنی اسرائیل پراپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے اسرائیل کو مسلسل آبادی کی ایک جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ فلسطینیوں سے ان کے علاقے خالی کروانے کے لئے انہیں پہلے ملٹری زون ڈکلیئر کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں انہیں اسٹیٹ لینڈ ڈکلیئر کر کے اسرائیلی بستیوں کو 1بیچ دیا جاتا ہے۔ صرف ویسٹ بینک اور ایسٹ یروشلم میں ہی نہیں بلکہ اسرائیل کی ریاست میں بھی ہوتا ہے۔ جہاں بظاہر فلسطینیوں کو شہریت اور ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ ایک اور بات فلسطینیوں کو اسرائیلی ریاست میں شہری ہونے کے باوجود نہ تو زمین خریدنے کا حق حاصل ہے نہ ہی اپنے مکانات اور بستیوں میں توسیع کرنے کا، چاہے وہ اسرائیلی شہری ہی کیوں نہ ہوں۔
ہمارے ہاں اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ ویسٹ بینک اور ایسٹ یروشلم میں تو فلسطینیوں پر مظالم ہوتے ہیں، لیکن اسرائیل میں چونکہ فلسطینی برابر کے شہری ہیں، اس لیے ان کےحقوق برابر ہیں حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مذکورہ درخت کی کاشت کے لیے شجر کاری اور ماحولیات کے نام پر مسلسل مغربی ممالک سے فنڈ جمع کیا جاتا ہے۔جیوش نیشنل فنڈ نامی تنظیم جس نے اسرائیل میں تیرہ فیصد زمین زیادہ تر یورپ اور امریکہ میں مقیم یہودیوں کے مالی تعاون سےخریدی ہے، اس کام میں آگے آگے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تنظیم یہاں ستتر سال سے نان پرافٹ چیریٹیبل ڈکلیئر تھی یعنی ٹیکس سے مستثنیٰ تھی۔ یعنی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا ایک خیراتی عمل ہےجبکہ یہ عالمی قوانین کے مطابق وار کرائم ہے۔ پچھلے دنوں ہیومن رائٹس ایڈووکیسیز کے شور مچانے پر اس کا چیریٹیبل اسٹیٹس حکومت کینیڈا نے ختم کر دیا ہے۔ اب یہ ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں رہا لیکن ابھی بہت سی دیگر ایسی تنظیمیں کینیڈا اور امریکہ میں بھی کام کر رہی ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو کہ فلسطینی اسرائیل کا کہنا ہے کہ
پڑھیں:
سلامتی کونسل میں پاکستان کو امریکی قر اداد کی حمایت کر نے کی ضرورت ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا نے غزہ کے بارے میں اپنے 20نکاتی پلان کو دنیا کے سامنے قانونی جواز بنا کر پیشکیا جائے ۔۔ اس منصونے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے فلسطینی ریاست کا کہیں ذکر نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس منصوبے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی فوج غزہ میں کسی نہ کسی صورت موجود رہے اور ٹونی بیلر نگران ہوں گے جو اسرائیل کے حمایت یافتہ ہیں ، اس قراقرداد کی عرب ممالک کھل کر مخالفت نہیں کر سکتے ا اس کی وجہ یہ ہے وی خود حماس جیسی فلسطین کی آزادی کے کام کر نے والے لوگوں کے عملی طور پر مخالف ہیں اور وہ امریکا ڈرتے ہیں ۔
ٹرمپ پلان امریکا کان امریکا کا اور اسرائیل کے اتحاد ما مظہر ہے اور اس پلان اما مقصد اسرائیل کو غزہ پر مکمل کنٹرول کر انا ہے ۔اس لیے اس پلان کی روس اور چین بھی مخالت نہیں کر یں گے۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ نے غزہ میں بین الاقوامی فورس کی حکومت کے لیے ایک قرارداد سلامتی کونسل کے بعض اراکین کو پیش کی ہے۔ اس قرارداد کے مطابق اس بین الاقوامی فورس کی حکومت کی مدت 2 سال معین کی گئی ہے۔
سحرنیوز/دنیا: ایکسیوس نیوز ویب سائٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعض اراکین کو ایک قرارداد کا مسودہ بھیجا ہے جس میں اس نے غزہ میں کم از کم 2 سال کے مشن کے ساتھ ایک بین الاقوامی فورس کے قیام کی تجویز ہے۔
ایکسیوس کی رپورٹ میں اس قرارداد کو “حساس لیکن غیر خفیہ” قرار دیا گیا ہے اور قرارداد میں بین الاقوامی فورس میں شریک امریکہ اور دیگر ممالک کو غزہ پر حکومت کرنے اور سنہ 2027 کے آخر تک سیکورٹی فراہم کرنے کے وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں۔ قرارداد کے مطابق اس مدت کے بعد مشن میں توسیع کا امکان ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا ا ±ن کا منصوبہ ممکنہ طور پر تاریخ کے عظیم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے اور یہ ’مشرق وسطیٰ میں دائمی امن‘ لا سکتا ہے۔
یہ مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے مگر ان کا 20 نکاتی مجوزہ منصوبہ بلاشہ ایک اہم سفارتی قدم ضرور ہے، جس کا اعلان پیر کو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں نتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔اس منصوبے میں کافی ابہام بھی ہے جسے کوئی بھی فریق اس پورے عمل کو سبوتاڑ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، اور اس کی ناکامی کا ذمہ دار دوسرے فریق کو ٹھہرا سکتا ہے۔
اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ٹرمپ نے نتن یاہو پر یہ بات واضح کرتے ہوئے پیر کو انھیں بتایا کہ اگر حماس اس مجوزہ منصوبے پر راضی نہیں ہوتی تو انھیں (اسرائیل) ’(حماس کو ختم کرنے کے لیے) جو کچھ کرنا پڑے گا اس کے لیے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔‘اگرچہ ٹرمپ نے اسے ایک معاہدے کے طور پر پیش کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ مزید مذاکرات کے لیے ایک ڈھانچہ ہے- یا جیسا کہ انھوں نے ایک موقع پر کہا کہ ’اصولوں‘ کا ضابطہ کار ہے۔ یہ اس قسم کے تفصیلی منصوبے سے بہت دور ہے جو غزہ میں جنگ کے خاتمے پر اتفاق کے لیے درکار ہو گا۔
یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کا مقصد مرحلہ وار جنگ بندی اور معاہدے کے تحت جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ٹرمپ ایک ’آل اِن ون‘ امن معاہدہ چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے یرغمالیوں کی رہائی کے بارے میں مخصوص تفصیلات، رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی شناخت اور جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی کے لیے مخصوص شرائط جیسے بہت سے دیگر امور کے علاوہ اسرائیلی انخلا کی تفصیلات کا نقشہ تیار کرنے کے لیے کافی کام کی ضرورت ہے۔
2۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے پر کام نہیں ہو رہا اور بظاہر مستقبل میں بھی نہیں ہو گا۔
اسرائیل کا دورہ کرنے والی اعلیٰ سطح کی امریکی شخصیات، جن میں نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور صدر کے داماد اور خصوصی ایلچی جیرڈ کشنر شامل ہیں، کوئی پیش رفت حاصل نہ کر سکے۔
یہ صورت حال پہلے مرحلے سے مختلف ہے، جسے اگرچہ دو سال کی تکلیف دہ بےعملی کے بعد نافذ کیا گیا، مگر نسبتاََ بلارکاوٹ نافذ کر لیا گیا۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پہلے مرحلے نے فریقین کا کم از کم ایک اہم مقصد پورا کیا، یعنی قیدیوں کی رہائی اور نسل کشی روکنا اور اس کے نفاذ کے لیے امریکہ کا شدید دباو ¿ تھا۔
شدید باہمی اختلافات کے باوجود فلسطینی گروپ اور بہت سی عرب حکومتیں، خاص طور پر مصر، اس منصوبے کے دوسرے مرحلے سے جڑے تین مسائل پر متفق ہیں۔
پہلا مسئلہ یہ کہ یہ منصوبہ مقبوضہ علاقوں کے دو جغرافیائی حصّوں یعنی مغربی کنارے اور غزہ کو پیش رفت، پالیسیوں اور قیادت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے۔یہ علیحدگی اسرائیل کے اس طرزِ عمل کی تائید کرتی ہے، جو فلسطینی سیاست کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش ہے۔
فلسطینی توقع کرتے ہیں کہ دونوں علاقے ایک ہی انتظامیہ کے تحت آئیں یا کم از کم باہم منسلک رہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کو غیر ملکی سرپرستی میں دے رہا ہے۔ یہ براہ راست فلسطینی آزادی اور خود ارادیت کی خواہش کے منافی ہے۔
3۔یہ فلسطینی جدوجہد کو اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی بجائے ایک اور غیر ملکی فوج یا فوجوں کے زیرِ اختیار چھوڑ رہی ہے، جس کا کوئی واضح اختتام نہیں۔ اس کے علاوہ مصر محتاط معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سرحد پر غیر ملکی فوج موجود ہو اور اس لیے وہ نفاذ سے پہلے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی خواہش ظاہر کر رہا ہے۔تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ منصوبے کے دوسرے مرحلے نے، جسے ٹرمپ کی اسرائیلی کنیسٹ کی تقریب میں دیے گئے متنازع خطاب نے واضح کیا، غزہ کے بحران کی سیاسی فطرت کو نظرانداز کیا اور اسے صرف انسانی اور اقتصادی بحران کے طور پر پیش کیا۔
یہ بہت زیادہ اہم ہوتا کہ منصوبہ بحران کو اس سیاسی تنازعے کے حصّے کے طور پر سامنے لاتا، جس کا حل 1967 کے بعد کے اسرائیلی قبضے کے خاتمے میں مضمر ہے اور اس طرح فلسطینیوں کو آزادی، خودارادیت اور خود مختاری دینے کا راستہ ہموار ہوتا۔اسرائیل کوشش کر رہا ہے کہ غزہ میں وہی ماڈل نافذ کرے جو اس نے مغربی کنارے میں تیار کیا، البتہ یہ شرط لگا کر کہ فلسطینی اتھارٹی کا کوئی کردار نہ ہو۔
اس ماڈل کا مقصد اسرائیلی قبضہ کرنے والی فورسز اور پی اے کے مابین ذمہ داریوں کو تقسیم کرنا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل صرف خود، یکطرفہ اور جبراً اپنی سرحدوں، سرزمین اور سلامتی کا کنٹرول رکھتا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ پہلے مرحلے کے بعد غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی نصف سے زیادہ زمین پر موجود ہیں، جو ایک نئی ’زرد لکیر‘ بناتا ہے۔
اسی دوران، مغربی کنارے میں اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو تعلیم، صحت، قانون و نظم، میونسپل خدمات وغیرہ کی ذمہ داری دے رہا ہے۔
وہ فریق جائز نہیں ہوگا اور صرف اسرائیلی غیرقانونی فوجی موجودگی اور قبضے کو مکمل کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
ان دو ہولناک برسوں سے حاصل ہونے والے سبق یہ ہیں کہ فلسطین کے سیاسی حقوق نظر انداز کرنے سے وہ ختم نہیں ہو جاتے۔
فلسطینیوں کی زمین اور مقدّس مقامات سے باہم وابستگی اور اسرائیل کو بین الاقوامی قانون سے مستثنیٰ سمجھنے کا رویہ معمول نہیں بن سکتا۔
اسرائیل کو اس کی مرضی پر چھوڑ دینا علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے اور عالمی سطح پر بھی۔
فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو کمزور کرنا، نہ کہ مضبوط بنانا، جیسا کہ اسرائیل کر رہا ہے، صرف انتہاپسندی کو بڑھا سکتا ہے جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔
اسرائیل کو اپنی مرضی پر چھوڑنے کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اسرائیلی معاشرے میں بہت تیزی سے وہ تغیرات رونما ہو رہے ہیں جو دو ریاستی حل کی کوئی جھلک نہیں چھوڑ رہے، بلکہ ایک ریاستی نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) کا تیزی سے ابھرتا ہوا منظرنامہ اور مسلسل سفاکی و تشدد کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
غسان الخطب برزت یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعہ جات کے لیکچرر ہیں اور انہوں نے فلسطینی اتھارٹی میں متعدد عہدے سنبھالے ہیں۔ انہوں نے یروشلم میڈیا اینڈ کمیونیکیشنز سینٹر کی بنیاد رکھی اور اس کے ڈائریکٹر رہے۔اس پوری صورتحا ل میں کیا پاکستان کو امریکا کی قراقر داد کی حمایت کر نے کی ضرورت ہے۔
قاضی جاوید
گلزار