اردو کے نامور لکھاریوں میں کتابوں سے گہرا شغف رکھنے والے یکتا قاریوں کی لمبی فہرست ہے۔ ان میں بہت سے غنی دوسروں پر کتابیں لٹانے پر بھی آمادہ رہتے تھے۔ اس نوع کے پانچ علم پروروں سے آج آپ کو متعارف کروانا ہے۔
ان میں سب سے پہلے شاعر اور نقاد باقر مہدی کا تذکرہ کرتے ہیں جن کے بارے میں ممتاز نقاد وارث علوی نے لکھا ہے:
’باقر دوران گفتگو اپنے بک شیلف سے کتابیں نکال نکال کر اندر سے نشان زدہ اقتباسات پڑھتا، وہ کیا پڑھتا یہ تو کم سمجھ میں آتا لیکن میں کتاب لے کر اقتباسات خود پڑھتا اور بات آگے بڑھتی۔ وہ بہت سی کتابیں نکال کر بتاتا اور پوچھتا یہ کتابیں پڑھی ہیں۔ میں کہتا نہیں، اتنی مہنگی کتابیں میں نہیں خرید سکتا اور شہر کی لائبریری میں ایسی کتابیں دیر سے آتی ہیں۔ جب میں احمد آباد لوٹتا اور اپنی بیگ کھولتا تو وہ کتابیں بیگ میں موجود ہوتیں۔ باقر انہیں چپکے سے رکھ دیتا۔ میری آنکھوں میں آنسو آجاتے، یہ محض دوستی نہیں تھی، دوستی سے بڑھ کر کوئی چیز تھی۔‘
گزشتہ دنوں اردو ادب (انڈیا) کے ایک پرانے پرچے میں باقر مہدی پر وارث علوی کے مضمون میں یہ بیان دیکھ کر باقر مہدی کے ہم مزاج ادیبوں کا خیال آیا جو اپنے یاروں کو کتابیں پڑھوا کر ان کے تخلیقی جذبے کو انگیخت کرتے تھے۔ تخلیقی امکانات کو توسیع دیتے، ان میں نئی جوت جگاتے، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ تخلیقی سفر میں ادیب ہی ادیب کا مددگار ہوتا ہے اور کتاب زادِ راہ ہوتی ہے۔
وارث علوی کے بقول ’ادیب کی درس گاہ خود ادب ہے، فنکار فن کے گُر اسرار و رموز دوسرے فنکاروں کے فن ہی سے سیکھ سکتا ہے۔‘
وارث علوی کی تحریر میں باقر مہدی کی کتاب پڑھاؤ/ پھیلاؤ مہم کا پڑھ کر ذی علم مظفر علی سید یاد آئے جنہوں نے 1995 میں مدت مدید کے بعد اپنی پہلی کتاب ’تنقید کی آزادی‘ شائع کی تو اس کا انتساب وارث علوی کے نام حافظ کے شعر کے ساتھ کیا تھا:
نقاد ناقدین
وارث علوی کے نام
در راہ عشق مرحلہ قرب و بعد نیست
می بینمت عیاں و دعا می فرستمت
آپ حافظ کے اس شعر کا قاضی سجاد حسین کے قلم سے ترجمہ ملاحظہ کر لیجیے تو پھر بات آگے چلاتے ہیں: عشق کے راستے میں دوری اور نزدیکی کا معاملہ نہیں ہے، میں تجھے کھلم کھلا دیکھ رہا ہوں اور تیرے لیے دعا بھیج رہا ہوں۔
تقسیم کے بعد لاہور میں مظفر علی سید سے انتظار حسین کی دوستی ہوئی جس کی وجہ رتن ناتھ سرشار کے ’فسانہ آزاد‘ سے مشترکہ دلچسپی بنی تھی۔ انتظار صاحب ان کی عالمانہ گفتگو سے متاثر ہوئے۔
مظفر علی سید تقریر پر رکے نہیں اور یار عزیز کے مطالعے میں جو کمیاں کوتاہیاں رہ گئی تھیں انہیں کتابوں کے ذریعے دور کرنے لگے۔ انتظار صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ محمد حسن عسکری کے سایے سے نکلے تو مظفر علی سید کی علمیت کی چھتر چھایا میسر آگئی۔
مظفر علی سید کے علمی تعاون کا اعتراف انتظار حسین نے اپنے قلم سے یوں کیا ہے:
’میں نے اپنی کتابوں کے بیچ رکھے ہوئے چیخوف کے منتخبات پر نظر ڈالی، ان میں سے کتنے میں نے خود خریدے تھے، کتنے مظفر نے خرید کر مجھے عنایت کیے تھے، کسی اچھے سے ریمارک کے ساتھ مگر ایک مجموعہ ذرا مختلف رنگ سے پیش کیا تھا: دیکھ کہانی ایسے لکھی جاتی ہے، یہ جوائس کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ تھا ڈبلنرز۔۔۔ جوائس کی یہ کتاب استثنا تھی۔ زور روسی فکشن پر ہی رہا۔ کبھی کبھی لگتا تھا کہ مظفر مجھے انگلی پکڑ کر روسی فکشن کی گلیوں کی سیر کرا رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ٹالسٹائی اور دستوئفیسکی کی چکا چوند میں مجھے کہاں پتا چلنا تھا کہ وہاں ‘اوبلوموف’ ایسا ناول بھی لکھا گیا ہے۔‘
مظفر علی سید کتابیں نذر کرنے اور مستعار دینے کے ساتھ لائبریری سے بھی ایشو کروا دیتے تھے۔
سنہ 1956 میں انتظار حسین کو خط میں اپنے لاہور آنے کی پیشگی اطلاع دیتے ہوئے یاددہانی کروائی کہ یونیورسٹی لائبریری سے ایشو کردہ ترگنیف کی کتاب عرصے سے ان کے پاس پڑی ہے جسے واپس لوٹانا ہے۔ اسی طرح پنجاب پبلک لائبریری سے ایشو کردہ ایک کتاب سعید محمود کے پاس ہونے کا حوالہ بھی اس خط میں موجود ہے، جسے وہ لاہور کے اس پھیرے میں واپس کرنا چاہتے ہیں۔
مظفر علی سید نے ایک بار شاکر علی کو ‘گیتا گووندا’ کا خاص ایڈیشن دکھایا۔ نامور مصور نے کہا: یہ گیتا گووندا جو ہے اس کی کوئی اور کاپی مل سکتی ہے؟ مظفر علی سید نے اپنی کاپی انہیں پیش کردی۔
مظفر علی سید بیرونِ ملک میں بھی دوستوں کی یاد سے غافل نہیں رہتے تھے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے لیے امریکا سے روحی بعلبکی کی عربی انگریزی لغت المورد لائے جو ان کے بہت کام آئی۔ سعودی عرب سے اپنے لیے دیوان الحماسہ کی شرح لائے تھے جسے ایک دن اپنے کتب خانے سے نکال کر رضوی صاحب کو تحفے میں دے دیا۔
مظفر علی سید کی دوسروں کو کتاب پڑھوانے کی خو ان کے دوست اور ممتاز مترجم پروفیسر شاہد حمید میں بھی تھی جنہیں ان کی صحبت نے سائنس کے بجائے ادب کا طالب علم بنا دیا تھا۔ شیخ صلاح الدین نے ناصر کاظمی پر اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ شاہد حمید کس محبت سے ناصر کاظمی کو کتابیں سپلائی کرتے تھے:
’شاہد حمید (اب پروفیسر) سے اگر وہ سرسری طور پر کسی کتاب کا ذکر کر دیتا اور وہ کتاب بازار سے مہیا ہو سکتی تو وہ خرید کر چپکے سے ناصر کی نذر کر دیتا اور اگر صرف کسی کتب خانے میں ہی موجود ہوتی تو وہاں سے مستعار لاکر حاضر کر دیتا۔ انگریزی کے پادری جی ایم ہائیکنز کی شاعری اور اس کے جرنلز سے انتخاب پر مشتمل کتاب میں نے سب سے پہلے ناصر کے پاس دیکھی۔ معلوم ہوا کہ اس نے شاہد حمید کے رُوبرو اس کتاب سے متعلق اشتیاق کا اظہار کیا تھا لہٰذا اس کا آنا ناگزیر ہوگیا۔‘
یاروں میں کتابیں بانٹنے کی پالیسی پر شاہد حمید ساری زندگی عمل پیرا رہے، اس عمل خیر کے تسلسل میں نیا موڑ اس وقت آیا جب انہوں نے انگلینڈ میں اپنی بیٹی کے ہاں جانا شروع کیا جہاں لندن میں کتابوں کی دکانوں پر ان کا وقت گزرنے لگا تھا۔ دوستوں کے لیے ان کے ذوق کی کتابیں آنے لگیں۔ انتظار صاحب کو ریل کے سفر سے دلچسپی تھی تو ایک دفعہ ان کے لیے پال تھیورکس کی تصنیف ’دی گریٹ ریلوے بازار‘ لائے۔
یہ تو وہ دوست تھے جن سے تعلق کی تاریخ 60 سال تک پھیلی تھی، ان کی عنایات تو میرے لیے بھی فراواں تھیں، کرکٹ سے میری دلچسپی سے واقف تھے تو میرے لیے لندن سے کرکٹ کی مختلف اوقات میں پانچ کتابیں لے کر آئے اور اسٹیو وا کی خود نوشت آسٹریلیا سے اپنے بیٹے سے منگوا کردی۔
دوسروں میں کتابیں تقسیم کرنے میں ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمان کا ثانی نہیں تھا، ان کے اس عمل کا معتبر دستاویزی ثبوت مستنصر حسین تارڑ کا ان پر مضمون اور اپنے نام آئے شفیق الرحمان کے خطوط ہیں۔ راولپنڈی میں پرانی کتابوں کے بازار میں وہ برابر جاتے تھے۔ ایک دفعہ تارڑ صاحب کو بھی ان کی ہمرہی کا اعزاز ملا۔
اس تجربے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
’وہ کتابوں کے اس پریم نگر میں ایسے گم ہوئے کہ مجھ سے غافل ہو گئے۔ ہر کتاب کو ایک گم گشتہ محبوبہ کی مانند ہاتھ میں لیتے اور پرکھ کرتے کہ میرے دوستوں میں وہ کون ہے جو اس موضوع میں دلچسپی رکھتا ہو۔ وہ نہایت باقاعدگی سے اپنے قریبی دوستوں کو ان کی پسند کے مطابق پرانی کتابوں کے بنڈل روانہ کرتے۔ میرے لیے وہ قدیم سفرناموں، تاریخ کی کتابوں اور شاہکار ناولوں کا چناؤ کرتے۔ انہوں نے مجھے درجنوں کتابیں ڈسپیچ کیں اور ان میں ایک قدیم مخطوطہ جس کے ورق بھربھرے ہو چکے تھے۔ ٹیلز آف الحمرا باتصویر شامل تھا۔ واشنگٹن ارونگ کے رومان انگیز خوابوں کی ایک قدیم تفسیر۔‘
خطوں میں کتابیں بھیجنے کا تذکرہ بھی ہے مثلاً ایک جگہ والٹیئر کے شاہکار ’کاندید‘ کے تیسری یا چوتھی مرتبہ مطالعہ کرکے پہلے کی طرح لطف اندوز ہونے کا بتایا اور لکھا: ’اگر آپ نے یہ شاہکار نہ پڑھا ہو تو مطلع کریں، میں بھیجوں گا۔‘
تارڑ صاحب کے بچوں کو بھی شفیق الرحمان کتابیں بھیجا کرتے تھے اور وہ ہم جماعتوں کے سامنے شوخی بھی مارتے تھے ’یہ انکل شفیق نے ذاتی طور پر آٹو گراف کرکے ہمیں بھیجی ہیں۔‘
تارڑ صاحب کے بیٹے سمیر کی مصوری اور ڈرائنگ میں دلچسپی کی خبر ان تک پہنچی تو بس پھر کیا تھا، انہیں مصوری اور ڈرائنگ کے بارے میں انکل شفیق سے کتابیں موصول ہونے لگیں جن میں وہ کتابیں بھی شامل تھیں جو انہوں نے لاہور میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل میں زمانہ طالب علمی میں خریدی تھے۔
تارڑ صاحب سے دوستی کی وجہ سے ان کے بچوں سے ان کا محبت کا رشتہ قائم ہو چکا تھا لیکن انہیں کسی بھی نوجوان میں علمی جستجو نظر آتی تو اس کی کتاب سے تواضع کرتے کہ اس مردِ خلیق کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کتاب کا سبز پتا ہی تھا۔
عربی زبان و ادب کے ممتاز اسکالر اور اردو کے نامور شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی نے ایک انٹرویو میں بتایا:
’ایک دفعہ میں اسلام آباد گیا تو میرا بیٹا عامر کہنے لگا مجھے شفیق الرحمان سے ملنے کا بہت شوق ہے۔ وہ اس وقت فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا، ہم اکادمی ادبیات کے دفتر گئے، تب شفیق الرحمان صاحب چیئرمین اکادمی تھے، ہم اندر داخل ہوئے تو روسٹرم پر کھڑے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے۔ میں نے بتایا کہ میرا یہ بیٹا آپ کی تحریروں سے بہت شغف رکھتا ہے، چنانچہ شفیق صاحب نے اس پر بہت توجہ دی۔ اس سے پوچھا، تم نے میری کتاب ‘دجلہ’ دیکھی ہے؟ اس نے کہا نہیں، کہنے لگے اچھا کل جب کالج جاؤ تو راستے میں ادھر سے ہو کر جانا۔ میں تمہارے لیے یہ کتاب لا رکھوں گا۔ اگلے روز جب میرا بیٹا ان کے دفتر میں گیا تو انہوں نے اسے اپنی کتاب اپنے دستخط کے ساتھ عنایت کر دی۔ شفیق صاحب بڑے آدمی تھے، بڑے منصب پر تھے، بھول بھی سکتے تھے، لیکن نہیں، انہوں نے یاد رکھا۔ اس بات کا خیال رکھا کہ اگر ایک طالب علم میری تحریروں سے دلچسپی رکھتا ہے تو اس پر توجہ دی جائے۔‘
اب شفیق الرحمان سے ان کے بچپن کے ہمجولی اور اسی زمانے سے کتابوں کے مشترکہ عشق میں گرفتار محمد خالد اختر کی بات کرتے ہیں جو کتاب نوازی میں شفیق الرحمان کی طرح ایک روشن مثال تھے۔
عربی کے ممتاز اسکالر اور اردو کے صاحبِ طرز نثر نگار محمد کاظم کی مطالعاتی دنیا کا دائرہ وسیع کرنے میں محمد خالد اختر کی دوستی نے بنیاد کے پتھر کا کام کیا۔ لاہور میں دونوں کی تیرہ برس کی یکجائی نے اس دوستی کی ادبی بنیادیں استوار کیں۔ نئی و پرانی کتابوں کے اڈوں پر ان کا ایک ساتھ جانا ہوتا۔ خالد اختر نے اپنے دوست پر انگریزی ادب کا دریچہ کھول دیا۔
محمد کاظم کے بقول ’خالد نے مجھے انگریزی ادب سے روشناس کرایا۔ انگریزی زبان میں لکھنے والے اچھے اور مشہور ادبا کے نام مجھے بتائے اور ان میں سے بعض کی کتابیں بھی پڑھنے کے لیے دیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی دفعہ آلڈس ہکسلے کی کتاب ’میوزک ایٹ نائٹ‘ میں اس کا شروع کا مضمون ’ٹریجڈی اینڈ دا ہول ٹروتھ‘ پڑھا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ تحریر تو یہ ہوتی ہے۔ میں اب تک کیا پڑھتا رہا ہوں اور کہاں اپنا وقت کھپاتا رہا ہوں۔ اس کے بعد جین آسٹن، برونٹے سسٹرز، سمرسٹ مام، ایولن واہ، گراہم گرین وغیرہ میں نے کچھ خالد کی سفارش پر اور کچھ اپنے شوق سے پڑھے تھے۔‘
محمد خالد اختر 80 کی دہائی کے اواخر میں بہاولپور سے کراچی شفٹ ہوئے تو کتابوں کا بیش تر خزانہ آبائی شہر میں لٹا آئے تھے لیکن پھر بھی اس قدر کتابیں ان کے پاس ضرور تھیں جو ان کے روز وشب کو شاداب رکھ سکیں۔ اس خزانے سے بھی دل کے یہ سخی اپنی آخری سانسوں تک کتابیں دوسروں پر نچھاور کرتے رہے۔
کراچی میں ان کی جن علم دوست نوجوانوں سے دوستی ہوئی ان میں سید کاشف رضا بھی شامل تھے۔
خالد اختر سے ملاقاتوں کو وہ زندگی کا حاصل جانتے ہیں، کاشف رضا بیس 21 سال کی عمر میں پہلی دفعہ ان کے گھر گئے تو خالد اختر کا حسنِ سلوک ان کے دل میں گھر کر گیا۔ اس کے بعد گاہے گاہے ان کے ہاں جانے لگے اور پڑھنے کے لیے کتابیں ان سے لانے لگے جن میں شاہد حمید کا ترجمہ کردہ ’جنگ اور امن‘ بھی شامل تھا۔ گراہم گرین کا ناول ’موسیو کیخوٹے‘ اور ’برائٹن روک‘ بھی انہیں وہاں سے برائے مطالعہ ملا اور میلان کنڈیرا کا ناول ’دا جوک‘ بھی خالد اختر نے کاشف رضا کو پڑھنے کے لیے دیا تھا۔
خالد اختر نے جو کتابیں تحفے میں عنایت کیں ان میں چیسٹر ٹان کی سوانح اور ڈبلیو ایچ ہڈسن کی ’فار اوے اینڈ لونگ اگو‘ اور ’گرین مینشینز‘ شامل ہیں جنہیں کاشف نے سینت کر رکھا ہے۔
کاشف رضا کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے خالد صاحب نئی کتابیں بھی شوق سے پڑھتے تھے۔ وکرم سیٹھ کا موٹا تازہ ناول ’آسوٹیبل بوائے‘ بھی وہ پڑھ چکے تھے اور روڈی ڈوئل کا ناول ‘پیڈی کلارک ہاہاہا‘ بھی انہیں بہت پسند آیا تھا۔
ناولوں کے اس شیدائی نے کاشف رضا کو بتایا کہ دستوئفیسکی کا ‘برادرز کرامازوف’ ان کا پسندیدہ ترین ناول ہے۔
ایک واقعہ برسوں سے میرے ذہن پر نقش ہے، اس کی راوی زینت حسام ہیں جو اپنے میاں اجمل کمال کے ساتھ محمد خالد اختر کے آخری دنوں میں ان سے ملنے گئیں تو انہوں نے ان کی بیٹی کے لیے ایک قیمتی کتاب انہیں دی۔
زینت حسام نے لکھا:
’خالد صاحب حسب دستور ہم سے کتابوں، رسالوں اور دوستوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ پھر انہوں نے مجھ سے شیلف میں سے لیوس کیرول کی کتاب ’ایلس ان ونڈر لینڈ‘ نکالنے کا کہا۔ یہ ایک نہایت پرانا، جلد والا مصور نسخہ تھا جس کے اوراق کی رنگت وقت کی گرد سے میلی ہو چلی تھی۔ لگتا تھا کہ یہ کتاب کئی دہائیوں سے ان کے پاس ہے۔ انہوں نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر مجھے تھماتے ہوئے کہا ’یہ ندرت کو دے دینا، میری طرف سے‘، میں نے احتجاج کیا ’خالد صاحب یہ تو آپ کی نہایت Treasured کتابوں میں سے ہے، یہ آپ کیوں دے رہے ہیں؟ اسے اپنے پاس رکھیں۔‘
’بس اب میں پڑھ چکا‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews ادیب باقر مہدی درسگاہ کتابوں کے سخی محمودالحسن وارث علوی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: درسگاہ کتابوں کے سخی محمودالحسن وارث علوی وی نیوز محمد خالد اختر شفیق الرحمان مظفر علی سید وارث علوی کے کے بارے میں کتابیں بھی شاہد حمید تارڑ صاحب کتابوں کے کاشف رضا طالب علم انہوں نے میں کتاب سے ان کے کیا تھا وہ کتاب یہ کتاب رہا ہوں میں بھی کی کتاب کے ساتھ سے اپنے میں وہ کے نام کے بعد کے لیے کے پاس
پڑھیں:
شیری رحمان کی کشمیریوں کی تاریخی و مزاحمتی کتابوں پر بھارتی پابندی کی مذمت
---فائل فوٹونائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ کتابیں چھین کر بھارت کشمیری شناخت مٹانا چاہتا ہے، کتابوں سے خوف کھانے والا ملک خود اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہا ہے۔
شیری رحمان نے اپنے بیان میں کشمیریوں کی تاریخی و مزاحمتی کتابوں پر بھارتی پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا یہ عمل کشمیریوں کی فکری آزادی پر حملہ ہے، کشمیر کی فکری آزادی پر پابندی بھارت کے غیر جمہوری عزائم کا عکاس ہے۔
شیری رحمان کا کہنا تھا کہ کتابوں سے خوف کھانے والا ملک خود اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہا ہے، تاریخ کو دبانے سے حقائق مٹ نہیں جاتے بلکہ اور نمایاں ہو جاتے ہیں۔
انہوں مزید کہا کہ اظہارِ رائے کا گلا گھونٹنا بھارت کے فاشسٹ رجحانات کو ظاہر کرتا ہے، پابندیاں لگا کر بھارت صرف اپنی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا رہا ہے۔