آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی، آج یوم تشکر منایا جائے گا
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ یہ دن اللہ رب العزت کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کا ہے، افواج پاکستان کی بے مثال بہادری کو خراج تحسین پیش کیا جائیگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یوم تشکر پوری قوم کے حوصلے، وحدت کو سراہنے کیلئے منایا جائیگا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب اور آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی،، وزیراعظم شہباز شریف نے آج ملک بھرمیں یوم تشکرمنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ دن اللہ رب العزت کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کا ہے، افواج پاکستان کی بے مثال بہادری کو خراج تحسین پیش کیا جائیگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یوم تشکر پوری قوم کے حوصلے، وحدت کو سراہنے کیلئے منایا جائیگا، آپریشن بنیان المرصوص نے دشمن کی جارحیت کا مؤثر، بھرپور جواب دیا، پاکستان نے ہر محاذ پر برتری ثابت کی۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم اس کامیابی پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں، جس نے ہمیں سرخرو فرمایا، دشمن کی جارحیت کے باوجود پاکستان نے تحمل، مکمل تیاری سے اپنا دفاع یقینی بنایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قوم، علماء کرام آج ملک میں اجتماعی دعاؤں، نوافل کا اہتمام کریں، قوم، علماء کرام شہداء اور غازیوں کیلئے خصوصی دعائیں کریں۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ افواج پاکستان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: افواج پاکستان نے کہا کہ
پڑھیں:
شہباز شریف کی ہدایت، وزیراعظم کو استثنیٰ کی شق واپس: کمیٹی میں 27ویں ترمیم کا مسودہ پاس، آج سینٹ سے بھی منظوری کا امکان
اسلام آباد (رانا فرحان اسلم+ خبر نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ) سینٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف نے مجوزہ آئینی ترمیم کا پورا ڈرافٹ منظور کرتے ہوئے شق وار ترامیم کی منظوری دے دی۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف کا مشترکہ اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ اجلاس کے دوران ایک تجویز پیش کی گئی کہ آئینی عہدیداران، بشمول چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کو بھی آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ فراہم کیا جائے۔ یہ تجویز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین محمود بشیر ورک نے پیش کی۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے آئینی نوعیت کے حامل ہیں اس لیے انہیں بھی وہی استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے جو گورنرز کو آئین کے آرٹیکل 4کے تحت حاصل ہے۔ جب یہ تجویز سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے علم میں لائی گئی تو انہوں نے اس پر واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے استثنیٰ لینے سے انکار کر دیا۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ میں سب سے پہلے عوام کا نمائندہ ہوں اور اس کے بعد ایک عہدیدار ہوں۔ میں کسی قسم کا استثنیٰ نہ چاہتا ہوں اور نہ ہی کبھی قبول کروں گا۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق ان کیمرہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے تین مزید ترامیم پیش کی گئیں۔ اے این پی، بی اے پی اور ایم کیو ایم نے اپنی ترامیم بھی پیش کر دیں۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے آئینی عدالتوں کے قیام کی شق کی منظوری دے دی۔ زیرالتوا مقدمات میں فیصلے کی مدت چھ ماہ سے بڑھا کر ایک سال کرنے کی ترمیم منظور کرلی گئی۔ ایک سال تک مقدمہ کی پیروی نہ ہونے پر اسے نمٹا ہوا تصور کیا جائے گا۔ اے این پی نے خیبر پی کے کا نام تبدیل کرنے کی ترمیم کمیٹی میں پیش کردی۔ خیبر پختونخوا سے نام خیبر ہٹا کر پختونخوا رکھنے کے ترمیم پیش کی گئی جس پر مشاورت کیلئے وقت مانگ لیا گیا۔ ایم کیو ایم کے بلدیاتی نمائندوں کو فنڈ سے متعلق ترمیم پر اتفاق کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے پر اتفاق ہوگیا۔ کتنی نشستیں بڑھائی جائیں گی اس پر بات ہونا باقی ہے۔ آج سینٹ اجلاس میں کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ آئینی کمیٹی نے مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری سے متعلق ترمیم‘ آرٹیکل 243 کی منظوری بھی دیدی۔ ادھر گزشتہ روز ایوان بالا کے اجلاس میں ستائیسویں آئینی ترمیم پر بحث ہوئی۔ اجلاس چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگلے کچھ گھنٹوں میں ایک ایسا بل یہاں لایا جائے گا جو حقیقی معنوں میں سپریم کورٹ کو بلڈوزر کر دے گا۔ آئین صرف ایک دستاویز نہیں یہ عوام کو جوڑنے کا ایک راستہ ہے۔ آئین میں ترمیم اس کی بنیاد کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔ 1973کے بعد دو ڈکٹیٹرز آئے۔ انہوں نے اپنی من پسند ترامیم لائیں۔ اس دور میں بھی انہیں ترامیم لانے کیلئے چار چار، چھ چھ مہینے لگے۔ اس کے بعد اٹھارہویں ترمیم آئی اس کیلئے نو ماہ لگے۔ 90 میٹنگز ہوئیں۔ آئین کے پانچ حصے اس ترمیم سے بری طرح سے متاثر ہوں گے۔ یہ پانچ حصے آئین کو متوازن رکھے ہوئے ہیں۔ ان کو اگر ہلایا گیا تو بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ کیسے عوام کے اعتماد کو چرایا گیا۔ چیف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ پی ٹی آئی کا نشان چھین لو۔ آٹھ فروری کو الیکشن ہوا تو عوام کا سمندر نکلا لیکن جن کو یہ نتائج قبول نہیں تھے انہوں نے راتوں رات نتائج بدل ڈالے۔ آئین میں ترمیم کیلئے جینوئنلی الیکٹیڈ لوگوں کا ہونا ضروری ہے۔ یہ الیکشن چرایا ہوا ہے۔ جو لوگ الیکشن جیتے تھے وہ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔ اس لئے موجودہ پارلیمنٹ کے پاس ایسی ترامیم کا اختیار نہیں ہے۔ ہماری نظر میں یہ نورا کشتی ہو رہی ہے۔ ہم اس کمیٹی کا حصہ اس لئے بنے کہ فیصلہ تو پہلے ہی کیا جا چکا ہے کہ کیا کرنا ہے۔ فیڈرل کانسٹیٹیوشن کورٹ کا قیام عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ یہ سپریم کورٹ کو ختم کر کے نئی عدالت بنا رہے ہیں جس کی کوئی ضرورت نہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کو بہت بااختیار کر دیا گیا ہے۔ حکومت جلد بازی میں یہ ترامیم پاس نہ کرے۔ سینیٹر حامد خان نے کہا کہ درحقیقت ستائیسویں آئینی ترمیم کو آئین یا آئینی ترمیم کہنا آئین کی روح کے منافی ہے۔ چھبیسویں ترمیم آئین کی موت اور ستائیسویں ترمیم آئین کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ آج کچھ پارٹیاں اور لوگ پرسنل ہو چکے ہیں۔ کچھ ججز کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر عدلیہ کی آزادی کو دائو پر لگانا خطرناک ہو گا۔ اگر عدالتی نظام ختم ہو جائے گا تو پھر عوام بنیادی حقوق کیلئے کس کے پاس جائیں گے۔ ایک عارضی فائدے کیلئے ایک مستقل فیصلہ کرنا سارے آئینی و عدالتی نظام کو تباہ کر دے گا۔ یہ وقت ہے کہ ایک دفعہ پھر سوچیں کہ اس طرح کی چیز نہیں ہونی چاہئے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کچھ ججز نے اپنے گاؤن کے نیچے ایک سیاسی پارٹی کا جھنڈا چھپا رکھا تھا، اس پر وہ خاموش کیوں ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کیلئے عدلیہ نے کوئی بھی کوشش خود عدلیہ نے نہیں کی۔ جو آزادی انہیں میسر ہوئی جس کا انہوں نے غلط استعمال کیا۔ یہ ضروری ہے کہ اس نظام میں وہ بہتری لائی جائے جس میں چند لاگ ہوتے سسٹم کو ہائی جیک کر لیں، اس کیلئے کوشش کی گئی، اسی پارلیمنٹ کی طرف سے جس نے اٹھارہویں ترمیم منظور کی اس ترمیم کے بعد انہوں نے ہی پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کو چور اور ڈاکو کہا۔ دھرنا سیاست کا آغاز اسی دور میں ہوا۔ گندے کپڑے اس عمارت کے باہر پھیلائے گئے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ میں بائیس سال سے اس ایوان کا حصہ ہوں، آج میں اس کو کالا بل قرار دیتا ہوں۔ ہمارے بنیادی حقوق کا جنازہ نکل گیا۔ اس طرح عدلیہ کی آزادی پر بھی شب خون مارا جا رہا ہے۔ اس ترمیم کو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مسترد کرتا ہوں۔ سینیٹر مسرور احسن نے کہا کہ سینیٹر پرویز رشید نے انتہائی نفاست سے اپنا موقف سامنے رکھا۔ ہم اس پارٹی کے امین ہیں جس کے گھر کے صحن کے اندر چار لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ آپ تو ہسپتالوں کیلئے، گھروں کیلئے پلاٹ لیتے پائے گئے۔ علی ظفر صاحب نے صرف پوائنٹ پر بات کی، بعض چیزیں حذف کیں۔ سینیٹر مسرور احسن نے شعر سنا کر ایوان کا ماحول خوشگوار بنا دیا۔1973 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو متفقہ آئین دیا۔ میں ایوان میں جب سے آیا ہوں تو سن رہا ہوں یہ مصیبت ہو گئی، وہ مصیبت ہو گئی، وہ لوٹ کے کھا گئے، ہم پھانسی کے تختہ پر جھوم رہے تھے، تو یہ ٹرافی لیکر گھوم رہے تھے۔ سینیٹر فلک ناز پتہ نہیں کیسے پھنس گئے۔ میری اپوزیشن سے گزارش ہے کہ آپ جس طرح مسکرا کر اس ایوان میں اعتراض اٹھا رہے ہیں کمیٹی میں بھی بیٹھیں۔ ملک بہت خطرناک حالات سے گزر رہا ہے۔ ہمارے پڑوسی ہمارے دشمن ہیں۔ اگر آپ ان کو آپس کے اختلافات کی وجہ مداخلت کی اجازت دیں گے تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ میری درخواست ہے بات چیت کے دروازے بند نہ کریں۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ستائیسویں ترمیم کیلئے کس بات کی جلدی ہے کہ وزیر اعظم باکو سے زوم پر اس کی منظوری دیتے ہیں، یہاں کہا گیا کہ بحث کریں۔ یہاں اپوزیشن لیڈر کی کرسی خالی پڑی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کا نا ہونا کس جمہوریت کی نشاندہی کرتی ہے۔ باون سالوں میں صرف پچیس ترامیم لائی گئیں۔ آج ہم اپنی غلطیوں کو دہرانے جا رہے ہیں۔ یہ مقدس آئین جو ہمارے سامنے موجود اس کو تبدیل کرنے کی ہمیں جلدی کیوں ہے۔ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کب ایک مضبوط پاکستان کی بات کریں گے۔ ہمیں مضبوط اکانومی، فوج، عدلیہ، صحت اور تعلیم چاہیے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ یہاں جو بھی بات کرے گا سب کو فارم 47 یاد آئے گا۔ دس منٹ کا وقفہ کیا گیا۔ وقفے کے بعد سینیٹر فیصل جاوید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو نظریہ علامہ اقبال کا تھا، اقبال کہتے تھے اپنی خودی کو پہچانو۔ لاہور جلسے میں عمران خان نے کہا ہم امریکہ سے بھی دوستی کریں گے لیکن غلامی نہیں کریں گے۔ ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، یہ شہباز شریف کہتا تھا۔ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ زمین پر عدل کرو۔ جب تک ہم انصاف نہیں کریں گے تب تک ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ سینیٹر نورالحق قادری نے کہا اس بل کو پاس کروانے سے اس ملک کے آئین کا حلیہ بگڑ جائے گا۔ اس پر معاشرے کے تمام طبقوں کو ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ آج سب کو پتہ ہے کہ آٹھ فروری کو انہیں اقتدار تک پہنچانے والے کون تھے۔ آج انہیں صرف ایک شخص کا خوف ہے۔ آج جس طرح سے عدلیہ کہ آزادی پر حملہ کیا گیا، جس طرح چیئرمین چیف آف جوائنٹ کمیٹی کا جو کردار تھا، ایک شخص کو خوش کرنے کیلئے اسے منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ احساس محرومی کو فروغ دے گا جو کسی بھی طور ایک ملک کیلئے احسن اقدام نہیں ہے۔ ہاں ہم ایک شخص کی گرفتاری سے بات شروع کرتے ہیں اور اس کی رہائی پر بات کرتے رہیں گے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ جس طرح 1973 میں آئین وقت کی ضرورت تھی آج یہ ترامیم وقت کی ضرورت ہے۔ پچھلے دنوں جو انڈیا کے ساتھ تعلقات تھے اس کے بعد پراکسی وار کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستان میں آئینی معاملات کیلئے عدالت کا قیام خوش آئند عمل ہے۔ اس وقت عدالتوں پر بہت زیادہ پریشر ہے۔ ایسے میں آئینی معاملات کیلئے ایک الگ سے عدالت کا ہونا اشد ضروری ہے۔ فیلڈ مارشل کو تاحیات مراعات دینے جا رہے ہیں۔ یہ وقت کا تقاضہ ہے۔ اس وقت افغانستان کا اچانک توجیہ تبدیل ہو رہا ہے۔ ایسے میں ہمیں اپنی افواج کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ صوبوں میں شفافیت کے ساتھ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کی بات تو ہمیشہ ہوتی رہی ہے لیکن صوبوں میں اس فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم سے ہمارے بہت سارے علاقے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ بلوچستان، کے پی کے اور جنوبی پنجاب میں ایک احساس کمتری پایا جا رہا ہے۔ اس ایوان سے چترال میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے نام پر کی جانے والی کرپشن پر خصوصی کمیٹی قائم کرنے کی سفارش کروں گا۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ یہاں جو بھی حکومت آتی رہی اپنی مرضی کی قانون سازی کرتی رہی۔ ہمارے پارلیمانی لیڈر نے آئینی ترامیم پر تفصیلی بات کی ہے۔ میں اس لئے اس پر زیادہ بات نہیں کروں گا۔ مجھے خوشی ایک بات کی ہے کہ گورنمنٹ کے سب لوگ ہمارے پارلیمانی لیڈر سے بہت خوش ہیں۔ میرے تو ایک سپلیمنٹری سوال پر یہاں چھ چھ لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عمران خان نے تو 1996 میں سیاست شروع کی‘ ضیاء الحق 1988 میں فوت ہو گئے تھے۔ میری گزارش ہے اتنے انقلابی نہ بنیں۔ اپنا اپنا کام کریں۔ عمران خان پر ان کا جو اتنا عرصہ ہے اس کو کم کریں۔ ہمارے سی ایم کو وزیر اعظم کہتا ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ کی ملاقات عمران خان سے ہو جائے۔ ان کی تو ایک ملاقات کرانے کی اوقات نہیں ہے۔ افنان اللہ خان نے کہا کہ آج اپوزیشن نے ادھر ادھر کی باتیں تو کیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم میں کیا غلط ہے۔ یہ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے کہ آر ٹی ایس کس نے بٹھایا تھا۔ کس نے کہا تھا کہ میں آئی ایس آئی کو کہتا ہوں کہ بندے پورے کر کے دو۔ ثاقب نثار والی سہولت کار عدلیہ آپ کو پسند تھی۔ 15جولائی 2018 کے انتخابات کے خلاف جس نے کسی کو پٹیشن فائل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ثاقب نثار، کھوسہ، بندیال یہ سب لوگ آپ کے پسندیدہ تھے۔ ثاقب نثار والی عدلیہ نے اس ملک کے آئین کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ چھبیسویں اور ستائیسویں آئینی ترمیم سے اس ملک کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں۔ آپ بیانیہ بنانے کی حرکتوں سے باز آ جائیں۔ سینیٹر سرمد علی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دوست بیانیہ بنانے کے ماہر ہیں۔ ان کی سٹوری 35 پنکچر سے شروع ہو کر چار حلقوں سے ہوتی ہوئی ستائیسویں ترمیم پر آ کر ختم ہوتی ہے۔ پتہ نہیں انہوں نے اور کیا کیا جھوٹ بولنا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ میری دونوں اطراف سے گزارش ہے کہ اس ہائوس کی تذلیل نہ کریں۔ میں دونوں سائیڈز کی بات کر رہا ہوں۔ جب کوئی بات کر رہا ہوتا ہے تو درمیان میں فقرے کسنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ چیئرمین صاحب آپ تمام ممبران کو اس کے بعد ڈسپلن پر ایک لیکچر دیں۔ ظلم انہیں کیا پتہ کیا ہوتا ہے۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان سے پوچھنا چاہیے۔ ان کا ظلم 9مئی سے شروع ہو کر چھبیس نومبر پر ختم ہو جاتا ہے۔ لاہور کے عقوبت خانوں کا کس کو پتہ ہے۔ ان کو صرف ایک شخص کی قید اور رہائی ہی نظر آتی ہے۔ ابھی کہا گیا کہ ہمیں خوف ہے اس شخص کے باہر نکلنے سے اس لئے کہ اس شخص نے جتنا اس ملک کو نقصان پہنچایا وہ اور پتہ نہیں اس ملک کے ساتھ کیا کر ے گا۔ جو بو گے وہ کاٹو گے، جو انہوں نے بویا تھا آج کاٹ رہے ہیں۔ فیڈرل کانسٹیٹیوشن کورٹ کا مطالبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ہر منشور میں موجود تھا۔ میری رائے میں ان ترامیم سے پارلیمنٹ مزید مضبوط ہو رہی ہے۔ عمران اور فضل الرحمن نے بھی چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کئے تھے۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ باپ پارٹی کی طرف سے ہم نے کچھ تجاویز دی ہیں۔ آج بھی کسی صوبائی کابینہ میں کوئی اقلیتی ممبر نہیں۔ صرف وفاق میں ایک اقلیتی ممبر کو وزیر مملکت کا چارج دیا گیا ہے۔ کھیل داس کو اتنا بھی اختیار نہیں دیا گیا کہ ان کی وزارت مذہبی امور بھی نہیں سنتا۔ یہ ترمیم بھی لانی چاہئے کہ صرف قومی اسمبلی سے وزیراعظم کیوں ہو۔ سینٹ سے بھی ہونا چاہئے۔ یہ کون سا قانون ہے کہ صرف مسلم وزیر اعظم اور صدر بن سکتے ہیں۔ کیا ہم پاکستان کے جھنڈے پر سفید حصے کے طور پر موجود نہیں۔ ہم حقوق کی بات کریں تو ہمیں قادیانی کہا جاتا ہے۔ یہاں اقلیتوں کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہئے۔ سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ اس ایوان کو دیکھ کر دل بہت دکھی ہوتا ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کی سیٹیں بڑھائی جائیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس آج سہ پہر تین بجے جبکہ سینٹ کا اجلاس دن 11 بجے ہوگا۔ آج کیلئے دونوں ایوانوں کے اجلاسوں کے الگ الگ ایجنڈے جاری کردیئے ہیں۔