جنگ بندی کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا، بھارتی عہدیدار
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
جنگ بندی کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا، بھارتی عہدیدار WhatsAppFacebookTwitter 0 11 May, 2025 سب نیوز
نئی دہلی اور کراچی: بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اہم آبی تقسیم کے معاہدے، سندھ طاس معاہدہ، کی معطلی ابھی تک جاری ہے، باوجود اس کے کہ دونوں ممالک نے ہفتہ کو شدید لڑائی کے بعد سیز فائر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ 4 بھارتی عہدیداروں نے ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا۔
سندھ طاس معاہدہ، جسے 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے مرتب کیا گیا تھا، میں دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے ضابطہ طے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت سندھ، جہلم، اور چناب دریا پاکستان کو ملے، جب کہ بھارت کو بیاس، راوی، اور ستلج دریاوں کا پانی دیا گیا۔
بھارت نے گزشتہ ماہ اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا، اس کے بعد ایک حملے میں ہندو سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جو بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں ہوا۔
پاکستان نے اس تشدد میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اس معاہدے کی معطلی کے خلاف عالمی قانونی کارروائی کرنے کی تیاری کر رہا ہے، کیونکہ یہ معاہدہ پاکستان کے 80 فیصد زرعی اراضی کے لیے پانی فراہم کرتا ہے۔
پاکستان کے واٹر منسٹری کے ایک ذریعے نے بتایا، ”سندھ طاس معاہدہ حقیقت میں (سیز فائر) بات چیت کا حصہ نہیں تھی۔“
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایک بھارتی حکومتی ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ معاہدے پر ”کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے“۔
اس حوالے سے بھارت کی وزارت خارجہ یا پاکستان کی واٹر منسٹری اور اطلاعات کے وزیر کی جانب سے فوری طور پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اس وقت کے بعد کی ایک اور متعدد جوابی کارروائیوں میں سے تھا، جس میں زمینی سرحدوں کی بندش، تجارت کا تعطل، اور ایک دوسرے کے شہریوں کے لیے بیشتر اقسام کی ویزوں کے اجراء کی معطلی شامل تھی۔
بھارتی حکومت کے دو ذرائع نے غیر ملکی خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ پاکستان کے خلاف اٹھائے گئے تمام اقدامات، بشمول تجارت اور ویزوں پر پابندیاں، اگرچہ دونوں ممالک میں لڑائی میں وقفہ آیا ہے، تاہم وہ بدستور برقرار رہیں گے۔
اس معاملے پر بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہم نے پیغام دیا کہ نئی دہلی میں کچھ ڈیلیور بھی کرسکتے ہیں، وزیر دفاع ہم نے پیغام دیا کہ نئی دہلی میں کچھ ڈیلیور بھی کرسکتے ہیں، وزیر دفاع وزیراعظم کا آپریشن بُنیان مّرصُوص کی کامیابی پر آج ملک بھر میں یومِ تشکر منانے کا اعلان پاک بھارت جنگ بندی معاہدے میں مارکو روبیو اور جےڈی وینس نے واضح فرق ڈالا: امریکا امید ہے پاک بھارت جنگ بندی دیرپا ہوگی: پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل بھارت ناکام ہو گیا، پاکستانی افواج فاتح بن کر ابھریں، برطانوی صحافی بھارتی تکبر زمین بوس! آپریشن سندور کے نام سے شروع ہوا پاک فوج نے تندور بنایا اور پھر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سندھ طاس معاہدہ کے درمیان
پڑھیں:
بھارت کا سندھ طاس معاہدے پر حملہ
انڈس واٹر ٹریٹی یا سندھ طاس معاہدہ جس پر 1960 ء میں دستخط ہوئے تھے، طویل عرصے سے دو متحارب پڑوسیوں، بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے نمونے کے طور پر موجود ہے۔ عالمی بینک کی ثالثی میں یہ معاہدہ کئی جنگوں اور دہائیوں کی سیاسی دشمنی سے محفوظ چلا آ رہا ہے جس نے اسے جدید تاریخ میں بین سرحدی پانی کے تعاون کی سب سے کامیاب مثالوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔
آج مگر اس تاریخی معاہدے کو اپنے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے یا دوبارہ مذاکرات کرنے کے بھارت کے حالیہ اشارے نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ چوبیس کروڑ پاکستانی عوام کے خلاف بھی جارحیت ہے، جن کی زندگی اور معاش کا انحصار دریائے سندھ کے پانیوں پر ہے۔
پہلگام واقعے کے بعد جوابی اقدام کے طور پر بھارت کا یہ اقدام غیر منطقی اور ناجائز ہے۔ پہلگام حملہ سرحد پار دہشت گردی کی کارروائی نہیں تھی، جیسا کہ بھارت کا دعویٰ ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ بھارتی حکومت کے اس فالس فلیگ آپریشن کا مقصد جارحانہ انداز کو جواز بنانا اور بھارت کے اپنے اندرونی بحرانوں سے توجہ ہٹانا تھا، بشمول بڑھتی ہوئی شورشیں، فرقہ وارانہ بدامنی، اور نریندر مودی کی قیادت میں اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کے۔
مختصر جائزہ
سندھ طاس معاہدے پر 19 ستمبر 1960 ء کو ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان کے درمیان دستخط کیے گئے تھے۔ عالمی بینک تیسرے فریق کے ضامن کے طور پر کام کر رہا تھا۔ معاہدے کے تحت:
٭پاکستان کو مغربی دریاؤں: سندھ، جہلم اور چناب پر خصوصی حقوق دیے گئے ۔
٭بھارت نے مشرقی دریاؤں: راوی، بیاس اور ستلج پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔
٭دونوں ممالک کو سخت رہنما خطوط کے تحت مخصوص مقاصد جیسے آبپاشی، پن بجلی اور گھریلو ضروریات کے لیے دوسرے کے پانیوں پر محدود استعمال کے حقوق کی اجازت دی گئی۔
سندھ طاس معاہدہ کرانے میں عالمی بینک نے ایک اہم کردار ادا کیا … نہ صرف مذاکرات کو آسان بنانے میں بلکہ تنازعات کے حل کے طریقہ کار کی ضمانت دینے میں بھی، بشمول ثالثی پینل اور غیر جانبدار ماہرین کے جائزے۔
بھارت کی یکطرفہ کارروائیاں
یکطرفہ طور پر "ترمیم" کرنے یا سندھ طاس معاہدے سے دستبردار ہونے کی ہندوستان کی دھمکیاں بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، خاص طور پر 1969 ء کے ویانا کنونشن آن دی لا آف ٹریٹیز، جو اس طرح کے قانونی طور پر پابند معاہدوں سے یکطرفہ دستبرداری پر پابندی عائد کرتی ہے جب تک کہ دونوں فریق متفق نہ ہوں یا مادی خلاف ورزی کی صورت میں۔
پہلگام واقعہ جسے بھارت نے بغیر ثبوت کے پاکستان کے ساتھ عجلت میں جوڑ دیا، ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس کے باوجود ان داستانوں میں اعتبار کا فقدان ہے۔ پاکستان اس حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اور اس میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ اس کے بجائے اس نے ایک غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا جس سے بھارت نے انکار کر دیا ہے۔یہ انکار بھارت کے دعووں کی صداقت پر سنگین شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔
پہلگام واقعہ کی حقیقت
پہلگام واقعہ کو بھارت کی اندرونی بدامنی کے وسیع تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ آسام، منی پور، چھتیس گڑھ اور کشمیر سمیت بھارتی ریاستوں میں 150 سے زیادہ سرگرم شورشوں کے ساتھ ہندوستان کا سماجی ڈھانچہ زبردست دباؤ کا شکار ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں، سکھوں اور قبائلی برادریوں کو نشانہ بنانے والی مودی حکومت کی فاشسٹ پالیسیوں نے صرف اختلاف اور بغاوت کو ہوا دی ہے۔
یہ بات انتہائی قابل فہم ہے کہ پہلگام کا واقعہ بھارت کی امتیازی اور جابرانہ طرز حکمرانی کا ردعمل تھا، نہ کہ بیرونی مداخلت کا نتیجہ۔ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی مودی حکومت کی خواہش دوہرے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے: یہ ملکی ناکامیوں سے توجہ ہٹاتی اور کشیدگی میں اضافے کا بہانہ بناتی ہے۔
سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے مضمرات
سندھ طاس معاہدے کو معطل یا منسوخ کرنے کی بھارت کی کوشش کے پاکستان کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے:
٭زرعی تباہی: پاکستان کی زراعت، جو اس کی تقریباً 70 فیصد آبادی کی کفالت کرتی ہے، سندھ طاس کے پانی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ کسی بھی قسم کی رکاوٹ خوراک کی حفاظت اور معاش کو متاثر کرے گی۔
٭ہائیڈرو پاور کی کمی: کئی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کا انحصار دریا کے مسلسل بہاؤ پر ہے۔ رکاوٹیں پاکستان کے توانائی کے بحران کو مزید سنگین کر دے گی۔
٭ماحولیاتی تباہی: دریا کے بہاؤ میں کمی سے سندھ اور بلوچستان میں ریگستانی علاقہ بڑھے گا جس سے طویل مدتی ماحولیاتی نقصان ہوگا۔
٭انسانی بحران: پانی کی کمی ملک بھر میں نقل مکانی، صحت کے بحران اور بدامنی کا باعث بن سکتی ہے۔
پاکستان کا جواب: قانونی اور سفارتی راستے
بھارت کے لاپرواہ رویّے سے وجودی خطرے کے باوجود پاکستان امن کے لیے پُرعزم ہے۔ تاہم اگر بھارت پانی کا ہتھیار چلاتا ہے تو پاکستان فیصلہ کن جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے جو کہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔
پاکستان کو دستیاب قانونی اور سفارتی جوابات میں شامل ہیں:
بین الاقوامی ثالثی: سندھ طاس معاہدے کے تحت تنازعات کے حل کے طریقہ کار کو استعمال کیا جائے، بشمول عالمی بینک کے تعاون سے کیس کو ثالثی عدالت یا غیر جانبدار ماہر کے پاس بھیجنا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) میں روایتی بین الاقوامی قانون اور ویانا کنونشن کے تحت شکایات درج کرائی جائے۔
اقوام متحدہ کی مداخلت: اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھایا جائے تاکہ بھارت کے اقدامات کو بین الاقوامی امن اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) سے انسانی ہمدردی کے نتائج کو اجاگر کرنے کے لیے مداخلت طلب کی جائے
عالمی سفارت کاری:بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے چین، امریکہ، یورپی یونین، روس اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ شامل ہوں۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کو تحمل اور ثالثی کی وکالت کے لیے متحرک کریں۔
ورلڈ بینک سے مدد:معاہدے کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں اس کے فعال کردار کا مطالبہ کرتے ہوئے معاہدے کے ضامن کے طور پر عالمی بینک کی ذمے داری کا اعادہ کریں۔
پاکستان طاقت کا استعمال کر سکتا ہے؟
جہاں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے لائف لائن ہے، اسلام آباد جنگ کو پہلا آپشن نہیں مانتا۔ پاکستان دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان فوجی تصادم کے تباہ کن مضمرات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ طاقت کا استعمال ایک آخری حربہ ہوگا جو صرف ایک وجودی بحران کے لیے مختص ہے، جیسے کہ دریا کے پانیوں کی مکمل روک تھام، جو بین الاقوامی قانون کے تحت جنگ کی کارروائی کے مترادف ہو سکتی ہے۔ تب بھی پاکستان پہلے تمام قانونی، سفارتی اور پُرامن ذرائع کو برتے گا۔ بھارت کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ رویّے کے برعکس پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن دفاعی، ذمہ دارانہ اور امن پر مبنی ہے۔
بھارت کی لاپرواہی: علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ
وزیر اعظم مودی کے تحت بھارت نے عدم برداشت، آمریت اور عسکریت پسندی کے مستقل نمونے کا مظاہرہ کیا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے لے کر اقلیتوں پر ظلم ڈھانے تک اور اب پاکستان کی پانی تک رسائی کے لیے خطرہ بننے تک بھارت تیزی سے علاقائی غنڈہ گردی کرتا جا رہا ہے۔
عالمی برادری کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ بھارت کے اقدامات خواہ کشمیر میں ہوں، منی پور میں ہوں یا آبی محاذ پر، ایک وسیع تر الٹرا نیشنلسٹ ایجنڈے کا حصہ ہیں جس کا مقصد جبر اور تشدد کے ذریعے علاقائی بالادستی قائم کرنا ہے۔ بھارت کا پُرامن مذاکرات میں حصہ لینے سے انکار اور اس کے جھوٹے فلیگ آپریشنز اور جنگی جنون کا انداز اس کے حقیقی ارادوں کو ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ ہیں : امن نہیں، بلکہ غلبہ۔
امن اور انصاف کے لیے پاکستان کی جدوجہد
پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے بلکہ مضبوط بھی ہے۔ ہمارا عزم امن، بقائے باہمی اور پائیدار ترقی کے لیے ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ باہمی تعاون اہم ہے تصادم نہیں۔یہی جنوبی ایشیا کے 1.7 ارب لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔
بھارت کو جارحانہ اور یکطرفہ اقدامات کے ذریعے امن کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ سندھ طاس معاہدے کو برقرار رکھا جانا چاہیے ، نہ صرف ایک قانونی ذمہ داری کے طور پر بلکہ علاقائی امید کی علامت کے طور پر۔
پاکستان کا پیغام واضح ہے: ہم جنگ نہیں بھڑکائیں گے، لیکن ہم ناانصافی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ ہم عالمی برادری پر زور دیتے ہیں کہ وہ عمل کریں … بھارت کو روکنے، قانونی طریقہ کار کی حمایت کرنے اور علاقائی امن کے تحفظ کے لیے۔ آئیے ہم پانی … زندگی کے منبع کو موت اور تباہی کا سبب نہ بننے دیں۔ حکمت کو تکبر پر اور انصاف کو ظلم پر غالب آنے دیا جائے
آبی جارحیت کا باقاعدہ نشانہ
حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کافی عرصے سے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ اس لیے یہ پہلا موقع نہیں جب یہ معاہدہ سیاسی آگ کی زد میں آیا ہو۔ 2016 ء میں اڑی حملے کے بعد وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ "خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔" اسی طرح کی دھمکیاں دیگر بھارتی سیاسی رہنماؤں کی طرف سے بھی وقتاً فوقتاً دی جاتی رہی ہیں۔ پاکستان ایک نچلے دریا کا ملک ہونے کے ناتے آبی جارحیت کا باقاعدہ نشانہ رہا ہے۔
پاکستان کو سزا دینے کے لیے بھارت میں مغربی دریاؤں … سندھ، جہلم اور چناب پر ذخیرہ کرنے کی سہولیات کی تعمیر کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں تاکہ پاکستان کی پانی کی فراہمی کو روکا جا سکے۔ اگرچہ نئی دہلی نے اس طرح کے ارادوں کی آبیاری کی ہے، لیکن اس کے پاس ان دریاؤں پر ذخیرہ کرنے کے ضروری ڈھانچے کا فقدان ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کو دو بنیادی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا چاہے اس نے ایسی سہولیات بنانے کی کوشش کر بھی لی۔
سب سے پہلے ہمالیہ کا کھڑا خطہ ان دریاؤں کے پانی کو بھارتی سرزمین کی طرف موڑنا تقریباً ناممکن بنا دیتا ہے۔ دوسرے وادی کشمیر، جس سے یہ دریا بہتے ہیں، زراعت کے لیے اضافی پانی رکھتا ہے، جس کے لیے لفٹ اریگیشن کی ضرورت ہوتی ہے یعنی وہ پانی جو پمپوں کے ذریعے اٹھایا جانا چاہیے۔ اگر بھارت ڈیم بنا بھی لے تو اضافی پانی کا کیا کرے گا؟ ناقدین کا استدلال ہے کہ سٹریٹجک برتری حاصل کرنے کے بجائے بھارت نئی کمزوریاں پیدا کر سکتا ہے کیونکہ ماحولیاتی طور پر حساس اور جغرافیائی سیاسی طور پر تنازعات والے علاقے میں اس طرح کا اہم بنیادی ڈھانچہ بھارت کے بوجھ میں اضافہ کرے گا۔
سفارتی نقطہ نظر سے بھارت کا یکطرفہ فیصلہ اس طرح کے آبی ہتھیاروں کو قانونی حیثیت دیتا ہے جس کی نئی دہلی طویل عرصے سے مخالفت کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان، جن کے ساتھ بھارت ضروری دریاؤں کے نظام کا اشتراک کرتا ہے، یقینی طور پر اسے بھارت کی پالیسی کی علامت کے طور پر تعبیر کر سکتے ہیں کہ جب بھی وہ ضروری سمجھے یکطرفہ طور پر کارروائی کردے۔
اس کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے علاقائی مذاکرات، خاص طور پر نیپال کے ساتھ کوشی اور گنڈک ندیوں اور بنگلہ دیش کے ساتھ گنگا اور تیستا پر اعتماد کی کمی کا شکار ہو جائیں گے۔ لہذا سفارتی طور پر بھارت یقینی طور پر طویل مدت میں خسارے کا شکار ہوگا۔
اس کے علاوہ نئی دہلی جان بوجھ کر بیجنگ کے ساتھ خطرناک جغرافیائی سیاسی راستے کھولتا ہے۔ چین یرلنگ سانگپو کے معاملے میں جو برہم پترا کا بالائی دریا ہے، بھارت کے ساتھ مستقبل میں کسی بھی تصادم میں اسی منطق کا حوالہ دے سکتا ہے۔ بلاشبہ چین نے انتہائی مشکل خطوں میں پن بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے مہارت اور وسائل کو ثابت کیا ہے۔
طویل عرصے میں چین آب و ہوا کی تبدیلی اور آبادی کے عوامل کا حوالہ دیتے ہوئے شمال مشرقی بھارت کی طرف پانی کے بہاؤ کو ممکنہ طور پر کم یا ری ڈائریکٹ کرنے کے لیے اسی طرح کی دلیل وضع کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی دہلی کو یکطرفہ طور پر سراسر جنون کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح کے اقدام کے طویل مدت میں بھارت اور خطے کے لیے بڑے منفی قانونی، سفارتی اور جغرافیائی سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔