UrduPoint:
2025-06-27@09:02:00 GMT

جنگ میں کون ہارا؟ کون جیتا؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

جنگ میں کون ہارا؟ کون جیتا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) جنگ میں پہلی ہلاکت ہمیشہ ’’سچ‘‘ کی ہوتی ہے۔ سیاسی مفادات کے لیے مذہب اور حب الوطنی کا استعمال کچھ نیا نہیں ہے۔ عوام کے جذبات اور ان کی زندگیاں صرف پیادوں کی طور پر سیاست کی بساط پر استعمال کیے جاتے ہیں۔

سی این این کے رپورٹر نک رابرٹ سن کے مطابق پاکستان کے غیر متوقع رد عمل پر بھارتنے گھبراہٹ میں امریکہ، ترکی اور سعودی عرب سے فوری رابطہ کیا اور اس کو رکوانے کی درخواست کی مگر اپنی قوم کے سامنے بہرحال اس جنگ میں اپنی فتح پیش کی ہے۔

پاکستانی فوج نے بھی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کر لی ہے۔ جنگ بندی کو بین الاقوامی طور پر اسے خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔

چند بھارتی میڈیا ادارے جھوٹی خبریں پھیلاتے رہے، جن میں سے بہت سی ویڈیوز اور خبریں بین الاقوامی چینلز جنہیں بی بی سی ویری فائی ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک اور سی این وغیرہ نےجھوٹا، من گھڑت یا کسی اور جنگ کا قرار دیا۔

(جاری ہے)

یہاں تک کہ بھارت کے کچھ غیر سنجیدہ میڈیا ادارے تو عوام کو یہ بتاتے رہے کہ بھارت نے کراچی کی بندرگاہ سے لے کر اسلام آباد تک سارے ملک کو فتح کر لیا ہے۔ اگلے روز صبح جب یہ تمام خبریں جھوٹی نکلیں تو بھارتی عوام میں بھی غصہ پایا گیا۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا بھی اتنی ہی بات کرتا ہے جتنی ان کی عوام کو پسند آئے۔ پاکستانی سوشل میڈیا کے مطابق بھی بھارت کی ایک خاتون پائلٹ کو پاکستان نے قبضے میں لے لیا تھا اور اس خبر کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جب پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا اور بہت سے بھارتی سیاح اس کا نشانہ بنے تو پاکستان کی طرف سے افسوس اور ہمدردی کے پیغامات سوشل میڈیا پر عام پائے گئے۔ اس کے برعکس جب انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا اور اسے آپریشن سندور کا نام دیا تو بھارت کی بہت سی نمایاں شخصیات نے سوشل میڈیا پر اس کو ایک جیت کی طرح منایا۔ یہ ایک افسوس کا مقام ہے کیونکہ جو بچے اپنی جان سے گئے ان سے جیت کسی ملک کی نہیں ہوئی۔

میڈیا کی جھوٹ سچ کی لڑائی پر چین نے بھی ایک گانا ریلیز کیا ہے جس میں اس نے فرانس کے تیار کردہ بھارتی جہازوں کے گرنے کو طنز اور مذاق کا نشانہ بنایا ہے۔

بھارتی شہریوں کی ایک تعداد ایسی بھی تھی جو کراچی سے اسلام آباد تک سب کچھ تباہ ہونے کی جھوٹی خبروں پر خوشی منا رہے تھی اور پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ بات باور کرواتے رہے کہ پاکستان میں ہر طرف بالکل سکون ہے اور عام زندگی چل رہی ہے۔

ایک طرف تو یہ ایک مثبت رویہ ہے تاکہ خوف و ہراس اور سراسیمگی نہ پھیلے مگر دوسری طرف یہ ایک بے حسی کی علامت بھی ہے کیونکہ جو 48 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اگر آپ ان کے گھر والوں سے پوچھیں تو شاید آپ کو یہ سکون اور عام معمول کی زندگی کی کوئی خبر نہ ملے۔ ایک عام انسان کی جان بہت قیمتی ہے اور وہ بارڈر کے کس طرف ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔

اسی طرح دونوں جانب سے سرحدوں پر مامور فوج کے سپاہی اپنے اپنے ملک کے دفاع کے لیے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان کے والدین، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کی پریشانی کا عالم اپنے گھر کے آرام میں کی بورڈ پر بیٹھا ایک نابلد جنگجو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔

اس جنگ کے دوران جذبہ حب الوطنی ایک طرف مگر در پیش مسائل کا ادراک بھی ضروری ہے۔

2023 کے عالمی بینک کے ریکارڈ کے مطابق انڈیا میں 123 ملین افراد ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں۔ اسی طرح 2024 کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کی 42.

4 فیصد آبادی بنیادی سہولیات سے محروم شدید غربت کا شکار ہے۔ دونوں ملکوں کے نوجوان اپنی معیشت سے مایوس ہو کر کثیر تعداد میں تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع ڈھونڈنے کے لیے مغربی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کو تعلیم، معاشی ترقی، سماجی مسائل، انسانوں کی حفاظت اور بہتر طرز زندگی کے لیے کوشش کی ضرورت ہے۔ جنگ ہو یا کوئی قدرتی آفت زیادہ نقصان ہمیشہ غریب کا ہی ہوتا ہے۔ سیاست دان یا بڑے اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ کسی بھی آفت سے اس طرح متاثر نہیں ہوتے جتنا خمیازہ ایک غریب کو بھگتنا پڑتا ہے۔

بین الاقوامی طور پر بڑی طاقتوں کو اس جنگ کو روکنے میں مثبت اور فوری کردار ادا کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی قرارداد جس پر کئی دہائیوں سے عمل نہیں کروایا جا سکا اب اس کو یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے۔ کشمیریوں کو آزادانه طور پر اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے اور پاکستان اور بھارت دونوں اپنے ملکوں میں درپیش مسائل پر توجہ مرکوز کر کے اپنی عام عوام کی زندگی بہتر کر سکتے ہیں۔

عالمی دنیا کو یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ بغیر ثبوت اور تحقیق کےصرف ایک الزام کی بنیاد پر کوئی ملک دوسرے ملک پہ حملہ کرنے کا حق نہیں رکھتا تاکہ مستقبل میں ایسے تنازعات اور جنگ سے بچا جا سکے۔

اس جنگ میں دونوں ملکوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور سیز فائر کے بعد بھی دونوں ملکوں کے عوام انسٹاگرام، فیس بک، ٹک ٹاک اور مختلف ایپس پر مسلسل بحث مباحثے اور کمنٹس میں ایک جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دونوں اقوام غیر ذمہ دارانہ جرنلزم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سوچ میں امن پسندی اور حقیقت کو شامل کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کا سوچیں نہ کہ ہندو مسلم تنازعات اور سیاسی سازش کی بھینٹ چڑھ کر انسان کی جان کی قدر گنوا دیں۔ جنگ میں کسی کی جیت نہیں اور امن میں سب کی بقا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دونوں ملکوں سوشل میڈیا کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

ریسلر ٹرمپ کی شکست

اسلام ٹائمز: صدر ٹرمپ کو ایران پر حملہ کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے اپنی کانگریس سے بھی اس کی منظوری نہیں لی۔ اس جنگ نے ٹرمپ کے چہرے پر جو اثرات چھوڑے ہیں ان کی وجہ سے وہ اب امریکی عوام کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ کل تک جو میزائل ایران کی زمین سے پرواز کر رہے تھے آج وہ ٹرمپ کے چہرے سے ہوائیاں بن کر اڑ رہے ہیں۔ تحریر: سید تنویر حیدر

اسرائیل نے ایران کے ساتھ جو براہ راست جنگ چھیڑی تھی، امریکہ نے اس میں اپنا حصہ ڈال کر یہ خیال کیا تھا کہ اس جنگ میں وہ بزعم خود فتح یاب ہو کر اپنی کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا لیکن وقت کے ہاتھ میں جو قلم تھا اس نے ٹرمپ کی خواہشات کے برعکس ایسی تاریخ لکھی ہے جس کا ہر باب اپنے دامن میں ٹرمپ کی رسوائی کی ایک تاریخ لیے ہوئے ہے۔ 2006ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت بھی امریکہ کی سیکرٹری آف فارن افئرز، ”کنڈولیزا رائس“ امریکہ کا ترتیب دیا ہوا نقشہ لیے مڈل ایسٹ میں گھوم رہی تھیں لیکن ”حزب اللہ“ نے پھر اس نقشے کے کئی ٹکڑے کر دیئے۔

آج بھی اپنی میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں ”مخبوط الحواس“ قرار دیے جانے والے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ذہن میں ایران کی بربادی کا جو خبط لیے ہوئے تھے اسے ایران کے میزائیلوں کی دھمک نے ایسا ٹھکانے لگایا ہے کہ اب وہ ایران کا شکریہ ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایران جب ایک طرف اپنی ایٹمی تنصیبات پر امریکہ کے بے مقصد گرائے گئے میزائلوں کا حساب برابر کر رہا تھا تو اس وقت دوسری جانب ٹرمپ دن میں آسمان پر نظر آنے والے تاروں کی گنتی کر رہے تھے۔ اس صورت حال نے امریکی صدر کو ایسا چکر دیا ہے کہ کل تک وہ جو جنگ کے راستے پر گامزن تھا، آج اس کی سوئی امن کی راہ پر آ کر اٹک گئی ہے۔

صدر ٹرمپ کو ایران پر حملہ کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے اپنی کانگریس سے بھی اس کی منظوری نہیں لی۔ اس جنگ نے ٹرمپ کے چہرے پر جو اثرات چھوڑے ہیں ان کی وجہ سے وہ اب امریکی عوام کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ کل تک جو میزائل ایران کی زمین سے پرواز کر رہے تھے آج وہ ٹرمپ کے چہرے سے ہوائیاں بن کر اڑ رہے ہیں۔ یہ جنگ تو شاید عارضی طور پر ختم ہو جائے لیکن اس کے بعد امریکی عوام ٹرمپ کے مواخذے کی جو جنگ شروع کریں گے وہ اپنے انجام تک پہنچے گی۔ اس جنگ نے ٹرمپ کے اسرائیل سے عشق کے اس جذبے کو نقطہء انجماد تک پہنچا دیا ہے جو وہ اپنے دل ناتواں میں رکھتے تھے۔

ایران کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی لڑی جانے والی اس ”فائٹ“ میں ٹرمپ کو ”ریسلنگ رنگ“ سے باہر پھینک دے۔ ٹرمپ جو کسی دور میں ایک ریسلر کی حیثیت سے ریسلنگ کے قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈال کر اپنے حریف کا سر مونڈنےکے عادی تھے، انہیں خبر ہونی چاہیئے کہ اب انہوں نے جس جنگ میں قدم رکھا ہے وہ کھیل کا میدان نہیں ہے بلکہ یہ خیبر کی طرز کا ایسا میدان ہے جس میں ان کا مقابلہ خیبر شکن کے وارثین سے ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شاہ رخ خان کو اپنی ٹیم میں پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل کرنے پر دھمکیوں کا سامنا
  • پاکستان پہلے کبھی ہارا نہ اسے آئندہ جنگی شکست دینا ممکن ہے، سابق بھارتی افسرکااعتراف
  • آپی عائشہ خان کا اخلاقی قتل
  • ایران-اسرائیل جنگ بندی، دونوں کی بس ہوگئی تھی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • مسئلہ کشمیر پر صدر ٹرمپ کی ثالثی!
  • ریسلر ٹرمپ کی شکست
  • ایران کی شاندار فتح اور مستقبل کی پلاننگ
  • جنگ بندی کی خلاف ورزی پر اسرائیل اور ایران دونوں سے خوش نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اسرائیل اور ایران دونوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی،مجھے یہ پسند نہیں آیا، اسرائیل سے بہت ناخوش ہوں،ٹرمپ