اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) جنگ میں پہلی ہلاکت ہمیشہ ’’سچ‘‘ کی ہوتی ہے۔ سیاسی مفادات کے لیے مذہب اور حب الوطنی کا استعمال کچھ نیا نہیں ہے۔ عوام کے جذبات اور ان کی زندگیاں صرف پیادوں کی طور پر سیاست کی بساط پر استعمال کیے جاتے ہیں۔
سی این این کے رپورٹر نک رابرٹ سن کے مطابق پاکستان کے غیر متوقع رد عمل پر بھارتنے گھبراہٹ میں امریکہ، ترکی اور سعودی عرب سے فوری رابطہ کیا اور اس کو رکوانے کی درخواست کی مگر اپنی قوم کے سامنے بہرحال اس جنگ میں اپنی فتح پیش کی ہے۔
پاکستانی فوج نے بھی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کر لی ہے۔ جنگ بندی کو بین الاقوامی طور پر اسے خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔چند بھارتی میڈیا ادارے جھوٹی خبریں پھیلاتے رہے، جن میں سے بہت سی ویڈیوز اور خبریں بین الاقوامی چینلز جنہیں بی بی سی ویری فائی ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک اور سی این وغیرہ نےجھوٹا، من گھڑت یا کسی اور جنگ کا قرار دیا۔
(جاری ہے)
یہاں تک کہ بھارت کے کچھ غیر سنجیدہ میڈیا ادارے تو عوام کو یہ بتاتے رہے کہ بھارت نے کراچی کی بندرگاہ سے لے کر اسلام آباد تک سارے ملک کو فتح کر لیا ہے۔ اگلے روز صبح جب یہ تمام خبریں جھوٹی نکلیں تو بھارتی عوام میں بھی غصہ پایا گیا۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا بھی اتنی ہی بات کرتا ہے جتنی ان کی عوام کو پسند آئے۔ پاکستانی سوشل میڈیا کے مطابق بھی بھارت کی ایک خاتون پائلٹ کو پاکستان نے قبضے میں لے لیا تھا اور اس خبر کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جب پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا اور بہت سے بھارتی سیاح اس کا نشانہ بنے تو پاکستان کی طرف سے افسوس اور ہمدردی کے پیغامات سوشل میڈیا پر عام پائے گئے۔ اس کے برعکس جب انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا اور اسے آپریشن سندور کا نام دیا تو بھارت کی بہت سی نمایاں شخصیات نے سوشل میڈیا پر اس کو ایک جیت کی طرح منایا۔ یہ ایک افسوس کا مقام ہے کیونکہ جو بچے اپنی جان سے گئے ان سے جیت کسی ملک کی نہیں ہوئی۔
میڈیا کی جھوٹ سچ کی لڑائی پر چین نے بھی ایک گانا ریلیز کیا ہے جس میں اس نے فرانس کے تیار کردہ بھارتی جہازوں کے گرنے کو طنز اور مذاق کا نشانہ بنایا ہے۔بھارتی شہریوں کی ایک تعداد ایسی بھی تھی جو کراچی سے اسلام آباد تک سب کچھ تباہ ہونے کی جھوٹی خبروں پر خوشی منا رہے تھی اور پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ بات باور کرواتے رہے کہ پاکستان میں ہر طرف بالکل سکون ہے اور عام زندگی چل رہی ہے۔
ایک طرف تو یہ ایک مثبت رویہ ہے تاکہ خوف و ہراس اور سراسیمگی نہ پھیلے مگر دوسری طرف یہ ایک بے حسی کی علامت بھی ہے کیونکہ جو 48 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اگر آپ ان کے گھر والوں سے پوچھیں تو شاید آپ کو یہ سکون اور عام معمول کی زندگی کی کوئی خبر نہ ملے۔ ایک عام انسان کی جان بہت قیمتی ہے اور وہ بارڈر کے کس طرف ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح دونوں جانب سے سرحدوں پر مامور فوج کے سپاہی اپنے اپنے ملک کے دفاع کے لیے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان کے والدین، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کی پریشانی کا عالم اپنے گھر کے آرام میں کی بورڈ پر بیٹھا ایک نابلد جنگجو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔اس جنگ کے دوران جذبہ حب الوطنی ایک طرف مگر در پیش مسائل کا ادراک بھی ضروری ہے۔
2023 کے عالمی بینک کے ریکارڈ کے مطابق انڈیا میں 123 ملین افراد ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں۔ اسی طرح 2024 کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کی 42.
بین الاقوامی طور پر بڑی طاقتوں کو اس جنگ کو روکنے میں مثبت اور فوری کردار ادا کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی قرارداد جس پر کئی دہائیوں سے عمل نہیں کروایا جا سکا اب اس کو یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے۔ کشمیریوں کو آزادانه طور پر اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے اور پاکستان اور بھارت دونوں اپنے ملکوں میں درپیش مسائل پر توجہ مرکوز کر کے اپنی عام عوام کی زندگی بہتر کر سکتے ہیں۔ عالمی دنیا کو یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ بغیر ثبوت اور تحقیق کےصرف ایک الزام کی بنیاد پر کوئی ملک دوسرے ملک پہ حملہ کرنے کا حق نہیں رکھتا تاکہ مستقبل میں ایسے تنازعات اور جنگ سے بچا جا سکے۔اس جنگ میں دونوں ملکوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور سیز فائر کے بعد بھی دونوں ملکوں کے عوام انسٹاگرام، فیس بک، ٹک ٹاک اور مختلف ایپس پر مسلسل بحث مباحثے اور کمنٹس میں ایک جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دونوں اقوام غیر ذمہ دارانہ جرنلزم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سوچ میں امن پسندی اور حقیقت کو شامل کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کا سوچیں نہ کہ ہندو مسلم تنازعات اور سیاسی سازش کی بھینٹ چڑھ کر انسان کی جان کی قدر گنوا دیں۔ جنگ میں کسی کی جیت نہیں اور امن میں سب کی بقا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دونوں ملکوں سوشل میڈیا کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251108-03-3
پاکستان اور افغانستان کے مابین ترکیہ کے شہر استنبول میں مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے۔ برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی ثالثی اور سہولت کاری سے دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں۔ پہلا دور دوحا قطر میں ہوا جس میں فریقین نے باہم جنگ بندی پر اتفاق کیا اور باہمی اختلافی معاملات اور تصفیہ طلب امور کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا گیا۔ پہلے دور کے اتفاق رائے کی روشنی میں مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ کے شہر استنبول میں کیا گیا جس میں بہت سے نازک مراحل آئے، گفت و شنید کا سلسلہ بار بار ٹوٹتا اور بحال ہوتا رہا اور ایک مرحلے پر تو پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے باقاعدہ پریس کانفرنس میں مذاکرات کی ناکامی اور کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکنے کا اعلان کر دیا تاہم سہولت کار ترکیہ اور قطر کے وفود کی مداخلت اور کوششوں سے مذاکرات کا سلسلہ از سر نو شروع کیا گیا اور آخر پاکستان اور افغانستان کے وفود جنگ بندی کا تسلسل جاری رکھنے اور دونوں ملکوں کی سرحدوں پر امن کے قیام کو یقینی بنانے پر اتفاق ہو گیا اور طے شدہ امور کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کو جرمانہ کیے جانے کا فیصلہ بھی کیا گیا اس مقصد کے لیے نگرانی اور تصدیق کے اس نظام کی تفصیلات طے کرنے اور خدوخال وضع کرنے کے لیے مذاکرات کا حالیہ سلسلہ چھے نومبر سے پھر استنبول میں شروع کیا گیا ہے جس کے آغاز ہی میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بیان بازی شروع کر دی گئی ہے جس سے حالات میں بہتری آنے کے بجائے ان کی سنگینی اور پیچیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے مذاکرات سے ایک روز قبل ہی یہ دھمکی آمیز بیان دیا کہ اگر افغانستان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو پاکستان افغانستان کے اندر زیادہ گہرائی تک جا کر جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ دوسری جانب طالبان کی طرف سے بھی پاکستان پر امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ مذاکرات کے دوسرے دور میں بھی سوئی زیادہ تر اسی پر اٹکی ہوئی تھی کہ افغانستان پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال ہونے کو تسلیم کرنے اور اس کی روک تھام کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات کی ضمانت دینے پر تیار نہیں تھا جب کہ پاکستان کا اصرار تھا کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں ٹھکانے ہیں جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور تخریبی سرگرمیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پاکستانی مذاکراتی وفد نے اس ضمن میں شواہد بھی افغان وفد اور دوست ثالث ممالک ترکیہ اور قطر کے وفود کے سامنے رکھے تھے مگر افغان مذاکرات کاروں نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان کے اندر کسی قسم کی کارروائی کرنے اور مستقبل میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے ضمن میں کوئی ضمانت دینے پر آمادگی ظاہر نہ کی جس پر مذاکرات بار بار تعطل کا شکار ہوتے رہے اطلاعات کے مطابق مذاکرات کا تیسرا دور بھی اسی طرح کی صورت حال سے دو چار ہے اور پہلے دن کی بات چیت میں فریقین کے مابین کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردانہ کارروائیوں کو اب کسی بھی صورت مزید برداشت نہ کرنے کا انتباہ کرتے ہوئے افغانستان کے سامنے تین حل پیش کیے ہیںاوّل یہ کہ افغانستان خود ٹی ٹی پی کے خلاف موثر اور نتیجہ خیز کارروائی کرے دوم پاکستان کو افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کی اجازت دی جائے اور اگر یہ دونوںصورتیں قبول نہیں تو پھر ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جائے جس کے تحت دونوں ممالک مل کر ٹی ٹی پی کی پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدام کریں پاکستان کا موقف یہ بھی ہے کہ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے لیے بھی نقصان دہ ہے تاہم طالبان حکومت اس ضمن میں کوئی بات تسلیم کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس کا طرز عمل ماضی کے مقابلے میں اس دفعہ زیادہ سخت اور جارحانہ بتایا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں ترکیہ اور قطر کے برادر ممالک کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود تاحال مذاکرات کے تیسرے دور کی کامیابی کے امکانات بھی بہت زیادہ روشن دکھائی نہیں دے رہے اور صورت حال خاصی نازک ہے تاہم دونوں ملکوں کے مفاد کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے اپنے موقف میں شدت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے دوست ممالک کے تعاون اور سہولت کاری کی قدر کریں اور دو طرفہ مسائل کو بہرحال گفت و شنید سے حل کریں تاکہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کی راہ ہموار ہو اور دونوں ملکوں کے عوام باہمی تعاون سے ترقی و خوش حالی کے سفر پر گامزن ہو سکیں۔ پاکستان اور افغانستان کے فیصلہ سازوں کو اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سرحدوں کے دونوں جانب اسلام کے پیروکار اور مسلمان آباد ہیں اگر خدانخواستہ فریقین میں تصادم کی نوبت آتی ہے تو دونوں جانب جانی و مالی نقصان مسلمانوں ہی کا ہو گا اور مشترکہ دشمنوں کو ان پر ہنسنے اور خوش ہونے کا موقع ملے گا۔ توقع رکھنی چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے فیصلہ ساز ہوش کے ناخن لیں گے اور معاملات و تنازعات کو ہر صورت بات چیت اور افہام و تفہیم سے طے کیا جائے گا۔