UrduPoint:
2025-08-11@15:53:24 GMT

جنگ میں کون ہارا؟ کون جیتا؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

جنگ میں کون ہارا؟ کون جیتا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) جنگ میں پہلی ہلاکت ہمیشہ ’’سچ‘‘ کی ہوتی ہے۔ سیاسی مفادات کے لیے مذہب اور حب الوطنی کا استعمال کچھ نیا نہیں ہے۔ عوام کے جذبات اور ان کی زندگیاں صرف پیادوں کی طور پر سیاست کی بساط پر استعمال کیے جاتے ہیں۔

سی این این کے رپورٹر نک رابرٹ سن کے مطابق پاکستان کے غیر متوقع رد عمل پر بھارتنے گھبراہٹ میں امریکہ، ترکی اور سعودی عرب سے فوری رابطہ کیا اور اس کو رکوانے کی درخواست کی مگر اپنی قوم کے سامنے بہرحال اس جنگ میں اپنی فتح پیش کی ہے۔

پاکستانی فوج نے بھی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کر لی ہے۔ جنگ بندی کو بین الاقوامی طور پر اسے خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔

چند بھارتی میڈیا ادارے جھوٹی خبریں پھیلاتے رہے، جن میں سے بہت سی ویڈیوز اور خبریں بین الاقوامی چینلز جنہیں بی بی سی ویری فائی ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک اور سی این وغیرہ نےجھوٹا، من گھڑت یا کسی اور جنگ کا قرار دیا۔

(جاری ہے)

یہاں تک کہ بھارت کے کچھ غیر سنجیدہ میڈیا ادارے تو عوام کو یہ بتاتے رہے کہ بھارت نے کراچی کی بندرگاہ سے لے کر اسلام آباد تک سارے ملک کو فتح کر لیا ہے۔ اگلے روز صبح جب یہ تمام خبریں جھوٹی نکلیں تو بھارتی عوام میں بھی غصہ پایا گیا۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا بھی اتنی ہی بات کرتا ہے جتنی ان کی عوام کو پسند آئے۔ پاکستانی سوشل میڈیا کے مطابق بھی بھارت کی ایک خاتون پائلٹ کو پاکستان نے قبضے میں لے لیا تھا اور اس خبر کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جب پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا اور بہت سے بھارتی سیاح اس کا نشانہ بنے تو پاکستان کی طرف سے افسوس اور ہمدردی کے پیغامات سوشل میڈیا پر عام پائے گئے۔ اس کے برعکس جب انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا اور اسے آپریشن سندور کا نام دیا تو بھارت کی بہت سی نمایاں شخصیات نے سوشل میڈیا پر اس کو ایک جیت کی طرح منایا۔ یہ ایک افسوس کا مقام ہے کیونکہ جو بچے اپنی جان سے گئے ان سے جیت کسی ملک کی نہیں ہوئی۔

میڈیا کی جھوٹ سچ کی لڑائی پر چین نے بھی ایک گانا ریلیز کیا ہے جس میں اس نے فرانس کے تیار کردہ بھارتی جہازوں کے گرنے کو طنز اور مذاق کا نشانہ بنایا ہے۔

بھارتی شہریوں کی ایک تعداد ایسی بھی تھی جو کراچی سے اسلام آباد تک سب کچھ تباہ ہونے کی جھوٹی خبروں پر خوشی منا رہے تھی اور پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ بات باور کرواتے رہے کہ پاکستان میں ہر طرف بالکل سکون ہے اور عام زندگی چل رہی ہے۔

ایک طرف تو یہ ایک مثبت رویہ ہے تاکہ خوف و ہراس اور سراسیمگی نہ پھیلے مگر دوسری طرف یہ ایک بے حسی کی علامت بھی ہے کیونکہ جو 48 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اگر آپ ان کے گھر والوں سے پوچھیں تو شاید آپ کو یہ سکون اور عام معمول کی زندگی کی کوئی خبر نہ ملے۔ ایک عام انسان کی جان بہت قیمتی ہے اور وہ بارڈر کے کس طرف ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔

اسی طرح دونوں جانب سے سرحدوں پر مامور فوج کے سپاہی اپنے اپنے ملک کے دفاع کے لیے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان کے والدین، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کی پریشانی کا عالم اپنے گھر کے آرام میں کی بورڈ پر بیٹھا ایک نابلد جنگجو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔

اس جنگ کے دوران جذبہ حب الوطنی ایک طرف مگر در پیش مسائل کا ادراک بھی ضروری ہے۔

2023 کے عالمی بینک کے ریکارڈ کے مطابق انڈیا میں 123 ملین افراد ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں۔ اسی طرح 2024 کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کی 42.

4 فیصد آبادی بنیادی سہولیات سے محروم شدید غربت کا شکار ہے۔ دونوں ملکوں کے نوجوان اپنی معیشت سے مایوس ہو کر کثیر تعداد میں تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع ڈھونڈنے کے لیے مغربی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کو تعلیم، معاشی ترقی، سماجی مسائل، انسانوں کی حفاظت اور بہتر طرز زندگی کے لیے کوشش کی ضرورت ہے۔ جنگ ہو یا کوئی قدرتی آفت زیادہ نقصان ہمیشہ غریب کا ہی ہوتا ہے۔ سیاست دان یا بڑے اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ کسی بھی آفت سے اس طرح متاثر نہیں ہوتے جتنا خمیازہ ایک غریب کو بھگتنا پڑتا ہے۔

بین الاقوامی طور پر بڑی طاقتوں کو اس جنگ کو روکنے میں مثبت اور فوری کردار ادا کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی قرارداد جس پر کئی دہائیوں سے عمل نہیں کروایا جا سکا اب اس کو یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے۔ کشمیریوں کو آزادانه طور پر اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے اور پاکستان اور بھارت دونوں اپنے ملکوں میں درپیش مسائل پر توجہ مرکوز کر کے اپنی عام عوام کی زندگی بہتر کر سکتے ہیں۔

عالمی دنیا کو یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ بغیر ثبوت اور تحقیق کےصرف ایک الزام کی بنیاد پر کوئی ملک دوسرے ملک پہ حملہ کرنے کا حق نہیں رکھتا تاکہ مستقبل میں ایسے تنازعات اور جنگ سے بچا جا سکے۔

اس جنگ میں دونوں ملکوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور سیز فائر کے بعد بھی دونوں ملکوں کے عوام انسٹاگرام، فیس بک، ٹک ٹاک اور مختلف ایپس پر مسلسل بحث مباحثے اور کمنٹس میں ایک جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دونوں اقوام غیر ذمہ دارانہ جرنلزم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سوچ میں امن پسندی اور حقیقت کو شامل کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کا سوچیں نہ کہ ہندو مسلم تنازعات اور سیاسی سازش کی بھینٹ چڑھ کر انسان کی جان کی قدر گنوا دیں۔ جنگ میں کسی کی جیت نہیں اور امن میں سب کی بقا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دونوں ملکوں سوشل میڈیا کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

یومِ پاکستان: وہ داستان جس کا ہر لفظ لہو میں ڈوبا ہے

یہ دھرتی جو آج ہمارے قدموں تلے ہے، یہ محض مٹی کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ شہیدوں کی آنکھوں کا خواب، ماؤں کے سینوں کا دودھ، اور ان بزرگوں کی کمر کا جھکاؤ ہے جو ہجرت کی اذیت سے دہری ہوگئی۔

یہ زمین صدیوں کی غلامی کے بعد جب ہمارے حصے میں آئی تو یہ کسی سنہرے تحفے کے کاغذ میں لپٹی نہیں تھی، بلکہ اس پر لہو کے دھبے اور ہجرت کی گرد جمی ہوئی تھی۔

1947 کا وہ موسم، گویا برصغیر کی تاریخ کا دل پھٹنے کا لمحہ تھا، جب فضا میں اذان کے ساتھ چیخوں کی بازگشت بھی گونجتی تھی، اور گلیوں کے سناٹے میں قدموں کی آہٹ نہیں بلکہ ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سنائی دیتی تھیں۔

ہجرت کے قافلے جب نکلے تو یہ سفر کسی خوشگوار منزل کا نہیں بلکہ موت اور زندگی کے بیچ لٹکتے ایک پل صراط کا تھا۔ ریلوے کے ڈبے جنہیں کبھی قہقہوں اور گیتوں نے بھر دیا تھا، اس وقت لاشوں سے اٹے ہوئے ایسے نظر آتے جیسے زندگی نے خود اپنے دروازے بند کر دیے ہوں۔ پلیٹ فارم پر رونے والی مائیں وہ تھیں جن کی گودیں خالی ہوچکی تھیں، اور جن کے آنسوؤں نے زمین کو یوں بھگویا جیسے بادل برسنے سے پہلے اپنی آخری نمی گرا دیں۔

بوڑھے بزرگ اپنی عصا ٹیکتے ہوئے گاؤں چھوڑ گئے، گویا صدیوں پرانی جڑ والا برگد اپنی بنیاد سے اکھڑ کر ہوا میں بہہ رہا ہو۔ جوانوں نے اپنی جانیں اس مٹی کے نام لکھ دیں جیسے کسی نے اپنی محبوبہ کے ہاتھ پر اپنا نام خون سے کندہ کر دیا ہو۔ عورتیں اپنی عصمت بچانے کے لیے نہریں پار کر گئیں، اور کچھ نے عزت کے تحفظ میں اپنی جان قربان کر دی، جیسے کوئی چاند خود کو اندھی رات کے منہ میں ڈال دے کہ روشنی کا تقدس قائم رہے۔

وہ بچے جو سمجھتے تھے یہ کھیل کا سفر ہے، چند ہی لمحوں میں لاشوں کے بیچ یتیمی کی سخت زمین پر جا گرے۔ گاؤں کے در و دیوار، جو کبھی محبت اور ہمسائیگی کے قصے سناتے تھے، اب جل کر سیاہ ہو چکے تھے، اور ہر اینٹ چیخ رہی تھی کہ یہ آگ محض مکانوں کو نہیں بلکہ دلوں کو جلا گئی۔

آزادی کی ہر سانس کے پیچھے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحے میں بھی یہ سوچا کہ آنے والی نسلیں آزاد فضاؤں میں سانس لیں گی۔ وہ مائیں جنہوں نے اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کفن پہنایا، وہ باپ جنہوں نے اپنے لختِ جگر کی لاش کو کندھے پر اٹھایا، وہ بہنیں جن کے بھائی قافلوں میں گم ہو گئے... یہ سب قربانیاں آج بھی پاکستان کی فضاؤں میں خوشبو کی مانند رچی بسی ہیں۔

یومِ پاکستان ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ وطن کسی سیاسی معاہدے یا قلم کے دستخط کا صدقہ نہیں بلکہ قربانی کے ان چراغوں کا نتیجہ ہے جو اندھیروں میں جلائے گئے، اور جن کی لو آج بھی ہمارے پرچم کے سبز رنگ میں جھلملاتی ہے۔

یہ زمین اگر کبھی ہم سے سوال کرے کہ ہم نے اس کی حفاظت میں کیا کیا، تو ہمارا جواب قربانی، ایثار اور وفا کے انہی واقعات کی خوشبو سے لبریز ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ دھرتی ہماری نہیں، یہ اُن لوگوں کی امانت ہے جنہوں نے ہجرت کے رستوں پر اپنا لہو بو کر پاکستان کو ایک حقیقت بنایا۔

اے وطن! تو ان آنکھوں کی روشنی ہے جنہوں نے اندھیروں میں خواب دیکھے، تو ان دلوں کی دھڑکن ہے جنہوں نے آخری سانس تک تیرے نام کی تکبیر بلند کی۔ تیرا ہر ذرا ان قدموں کی گواہی دیتا ہے جو بھوکے پیاسے، زخمی اور نڈھال تیرے پاس آئے۔

آج اگر ہم تیری فضاؤں میں قہقہے بکھیرتے ہیں تو یہ انہی ماؤں کی دعا ہے جنہوں نے اپنی ممتا کے لال تیرے لیے قربان کر دیے۔ تیرے ہر سبز پتے میں ایک شہید کی آنکھ کا خواب ہے، ہر بہتا دریا اس لہو کا امین ہے جو تیرے رنگوں میں گھل گیا۔ اے پاکستان! تو محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، تو شہادت کی وہ تحریر ہے جو تاریخ نے اپنے ہاتھوں سے لکھی، اور جس پر ہر لفظ انسانی غیرت کے لہو میں ڈوبا ہوا ہے۔ 

اگر کبھی ہم تجھے بھول گئے تو یہ ہماری سانسوں کی سب سے بڑی بے وفائی ہوگی۔ تو ہم سے وفا کا حق مانگتا ہے اور ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ تیرے آسمان پر کبھی غیروں کا سایہ نہیں پڑنے دیں گے، کہ تو ہمارے بزرگوں کی آخری دعا کا قبول شدہ جواب ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • عرب میڈیا بھی پاکستانی ڈراموں کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا
  • ہانیہ عامر ایک بار پھر سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بن گئیں
  • آزادی عنوان ہے
  • ایشین سائنس کیمپ: پاکستانی طلبا نے دو گولڈ، ایک سِلور میڈل جیت کر ملک کا نام روشن کر دیا
  • تائیوان کے معاملے پر آگ سے کھیلنے سےفلپائن صرف خود آگ کے گڑھے میں گر جائے گا ، چینی میڈیا
  • ’’ مجھے بھی یہ والا پرفیوم چاہیے ‘‘وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر والا پرفیوم دیکھ کر مطالبہ کر دیا
  • یومِ پاکستان: وہ داستان جس کا ہر لفظ لہو میں ڈوبا ہے
  • ٹرمپ نے ایک اور جنگ رُکوا دی، آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن معاہدہ کرا دیا
  • علیزے شاہ کی مبینہ بوائے فرینڈ کے ساتھ ویڈیو وائرل،سوشل میڈیا پر نئی بحث
  • ٹرمپ نے ایک اور جنگ رُکوا دی، آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن معاہدہ کرا دیا