مکمل فنڈڈ سکالرشپس،سعودی عرب کی جانب سے طالبعلموں کیلئے بڑی خوشخبری
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
سعودی عرب نے 2025 کے لیے بین الاقوامی طلبہ کو مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے تحت پاکستان سمیت دنیا بھر کے طلبہ Study in Saudi Arabia پلیٹ فارم کے ذریعے پبلک یونیورسٹیوں میں بیچلر، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی ڈگری پروگرامز کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق درخواست دہندگان کو انفرادی یونیورسٹیوں میں الگ سے درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بجائے، وہ سعودی عرب میں مذکورہ پلیٹ فارم سے براہ راست اپنے پسندیدہ ادارے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ درخواست دینے کا عمل مکمل طور پر مفت ہے۔اہلیت کے معیار کے تحت تمام قومیتوں کے درخواست دہندگان کے لئے کھلا ہے۔کم از کم عمر 16 سال ہونی چاہیے۔
درست پاسپورٹ (کم از کم چھ ماہ کی میعاد ) ہونی چاہیے۔مالی قابلیت یا مالی ضمانت کا ثبوت درکار ہوگا۔ 18 سال سے کم عمر کے درخواست دہندگان کے پاس سرپرست سے تحریری رضامندی ہونی چاہیے۔طبی رپورٹ میں متعدی بیماریوں کی عدم موجودگی کی تصدیق کی جائے گی۔درست طبی انشورنس درکار ہوگا۔ اہل طلبا سعودی عرب میں سرکاری پلیٹ فارم پر جا کر بیرونی اسکالرشپ پروگرام کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ پلیٹ فارم پر وہ اپنی مطلوبہ یونیورسٹی کا انتخاب کر سکتے ہیں اور آن لائن درخواست مکمل کر سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتیاں یہی سے ہونی چاہئیں، جسٹس (ر) شوکت صدیقی
اسلام آباد:جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہے فیڈرل ہائی کورٹ نہیں، میرا موقف ہے کہ یہاں پر ججز کی تعیناتیاں اسلام آباد سے ہونی چاہئیں۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے کہا کہ این آئی آر سی کے چھ میں سے پانچ بینچز کو ویڈیو لنک کے ساتھ منسلک کر دیا ہے، وکلا اب اپنے شہروں میں رہ کر ویڈیو لنک پر دلائل دے دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹی اے ڈی اے کی مد میں جو لاکھوں روپے کے رقم بچے گی اس کو ملازمین پر خرچ کیا جا رہا ہے، صرف پشاور کا بینچ ابھی فی الحال ویڈیو لنک سے منسلک نہیں ہوا۔
جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ بلڈنگ جس جگہ پر ہے وہ 2012 میں ہم نے لی۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چودھری سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کی ملاقات ہوئی، چیف جسٹس اقبال حمید الرحمان تھے، انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے ہمیں مختلف جگہیں دکھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چودھری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو کہا آپ سے یہ کام نہیں ہونا، آپ کمیٹی بنا کر یہ کام جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سونپ دیں۔ چیئرمین سی ڈی اے کو فون کر کے کہا کہ آپ ہمیں ہائی کورٹ کے لیے مجوزہ جگہیں دکھائیں۔
جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ بلڈنگ جس جگہ ہے میں یہاں لے آیا اور کہا کہ اس پلاٹ کا بتائیں، چیئرمین سی ڈی اے کو کہا کہ بورڈ میٹنگ میں ڈسکس کریں اور تمام چیزیں لے کر آئیں۔ میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ جگہ ایسی ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اس پر کسی اور کی نظر نا ہو۔
انہوں نے کہا کہ میں چاہ رہا تھا کہ تمام چیزیں دستاویزات کے ساتھ ریکارڈ پر آ جائیں، اس بلڈنگ کے ڈیزائن کے حوالے سے ہم نے ایک کمپیٹیشن کرایا جس میں سیکڑوں آرکیٹیکس نے حصہ لیا، یہ کنٹریکٹ تبدیل ہوا جس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے جسے میں یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم ایک تھیم لے کر چل رہے تھے کہ روشن اور ہوا دار ماحول ہوگا مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا، یہ بلڈنگ نومبر 2015 میں مکمل ہونی تھی، کنٹریکٹ تبدیل ہونے پر بتا دیا کہ اب یہ پراجیکٹ پانچ سال لیٹ ہو جائے گا۔