سوشل اسٹریمنگ،آن لائن سروسز کی ویب سائٹس کیلئے کارپوریٹ ای میل کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے: کیسپرسکی
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
راولپنڈی(نیوزڈیسک) ماہرین نے بینکنگ سیکٹر کی 50 کمپنیوں پر تحقیق کے بعد نتائج مرتب کئے جس میں ڈارک ویب پر لیک ہونے والی ڈیٹا کی جانچ کی۔
7 فیصد صارفین جن کے اکاؤنٹس ڈارک ویب پر لیک ہوئے تھے ان پلیٹ فارمز پر کارپوریٹ ای میل ایڈریس کا استعمال کرتے ہوئے رجسٹر ہوئے تھے۔
تین مشہور تفریحی پلیٹ فارمز: روبلوکس، ڈسکارڈ اور نیٹ فلکس کے لیے 2019 اور 2024 کے درمیان ڈارک ویب پر ڈیٹا لیک ہوا
کیسپرسکی ڈیجیٹل فٹ پرنٹ انٹیلیجنس کی ایک تحقیق کے مطابق، ملازمین آن لائن خریداری کی سائٹس اور سوشل میڈیا پر ذاتی اکاؤنٹس کے لیے رجسٹر کرنے کے لیے کارپوریٹ ای میلز کا بھی استعمال کر سکتے ہیں، جس سے اکاؤنٹ کی چوری اور کارپوریٹ سیکیورٹی کی خلاف ورزیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کیسپرسکی ماہرین نے تین مشہور تفریحی پلیٹ فارمز:روبلوکس، ڈسکارڈ اور نیٹ فلکس کے لیے 2019 اور 2024 کے درمیان ڈارک ویب پر لیک ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اوسطاً 7 فیصد صارفین جن کے اکاؤنٹس لیک ہوئے تھے، ان پلیٹ فارمز پر کارپوریٹ ای میل ایڈریس کا استعمال کرتے ہوئے رجسٹرڈ تھے۔
کیسپرسکی ڈیجیٹل فٹ پرنٹ انٹیلی جنس کے ایکسپرٹ سرجی سیربیل کا کہنا ہے کہ ” دفتری ای میل کے ساتھ ذاتی استعمال کے لیے مختلف سروسز پر رجسٹر کرنا بہترین عمل نہیں ہے۔ سب سے پہلے، اگر آپ نوکریاں بدلتے ہیں تو آپ ان اکاؤنٹس تک رسائی سے محروم ہو سکتے ہیں۔
دوسرا، یہ آپ اور آپ کی کمپنی دونوں کے لیے حفاظتی خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر آپ کے پاس ورڈز مختلف سروسز میں ایک متوقع پیٹرن کی پیروی کرتے ہیں – یہ آپ کے دفتری اکاؤنٹ سمیت دیگر اکاؤنٹس پر سائبر حملے کیے جانے کے امکانات کو بڑھاتا ہے،”
کیسپرسکی ماہرین نے یہ بھی پایا کہ بینک کے ملازمین نے عام طور پر اپنے دفتری ای میل سٹریمنگ سروسز، آن لائن خریدٓڑٰ اور سوشل نیٹ ورکس پر رجسٹر کیے ہیں۔
کچھ معاملات میں، کارپوریٹ ای میلز کو گیمنگ پلیٹ فارمز اور بالغ مواد کی ویب سائٹس پر لاگ ان کے طور پر بھی استعمال کیا گیا تھا۔ اس مطالعہ کو کرنے کے لیے، ماہرین نے بینکنگ سیکٹر کی 50 کمپنیوں کا ایک نمونہ مرتب کیا اور ڈارک ویب پر لیک ہونے والے ڈیٹا کی جانچ کی، جس میں ان کمپنیوں کے کارپوریٹ ڈومینز سے منسلک افراد کی شناخت کی گئی جو مقبول پلیٹ فارمز کی پانچ اقسام میں ہیں۔
اگر آپ کو انفوسٹیلرز کے ذریعے ڈیٹا لیک ہونے کا سامنا ہوتا ہے، تو سمجھوتہ شدہ اکاؤنٹ کے پاس ورڈز کو تبدیل کریں اور ان اکاؤنٹس سے وابستہ مشکوک سرگرمی کی نگرانی کریں۔کمپنیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ڈارک ویب مارکیٹس کی نگرانی کریں تاکہ سمجھوتہ کیے گئے اکاؤنٹس کا پتہ لگایا جا سکے اس سے پہلے کہ وہ صارفین یا ملازمین کے لیے خطرہ ہوں۔
ممکنہ حملہ آوروں کی شناخت کرنے، اور حفاظتی اقدامات کو بروقت نافذ کرنے کے لیے کیسپرسکی ڈیجیٹل فٹ پرنٹ انٹیلیجنس کا فائدہ اٹھائیں۔ ایک انٹرپرائز کے طور پر، ملازمین کے لیے حفاظتی آگاہی کا پروگرام لاگو کریں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پلیٹ فارمز ماہرین نے لیک ہونے کے لیے
پڑھیں:
زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2025ء) زبانی تاریخ کا تعلق فرد کی یادداشت اور حافظے سے ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میں دور اور نزدیک کے واقعات اور اشخاص کی یادیں ہوتی ہیں۔ ہمارا ذہن طویل عرصے میں ہونے والے واقعات میں یا تو کوئی اضافہ کرتا ہے یا اس کے کچھ حصوں کو یادداشت سے نکال دیتا ہے۔ دوسری وہ زبانی تاریخ ہوتی ہے جس کو بیان کرنے والا شخص اس کا عینی شاہد ہوتا ہے۔
ایسے کسی فرد سے لیے گئے انٹرویو میں دیکھا جاتا ہے کہ اس کے بیان میں کوئی تضاد ہے یا نہیں۔ اس کا تعلق انٹرویو لینے والے پر بھی ہوتا ہے کہ اس سے وہ سوالات کرے جن کا تعلق اس کی ذات اور واقعات سے ہو۔زبانی تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ تاریخی شخصیات کے بارے میں ہے۔
(جاری ہے)
ان کے بارے میں ان کے اپنے عہد اور بعد میں جو زبانی بیانات مشہور ہوئے وہ لوک کہانیوں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔
مثلاً مغل بادشاہ اکبر کے بارے میں ایسی بہت سی روایتیں ہیں جن کا تعلق مستند تاریخ سے نہیں ہے۔ ان روایتوں کے ذریعے اکبر کی رواداری کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ ایک بار جب وہ پیدل معین الدین چشتی کے مزار کی زیارت کے لیے جا رہا تھا تو راستے میں اسے ایک مندر سے گانے کی آواز سنائی دی۔ وہ اس آواز سے متاثر ہو کر مندر میں گیا جہاں میرا بائی بھجن گا رہی تھی۔ وہ اسے سنتا رہا۔ جب اس کا بھجن ختم ہوا تو اکبر نے اپنا ہیروں کا ہار اتار کر اس کے گلے میں ڈال دیا اور خاموشی سے مندر سے باہر آ گیا۔ میرا بائی کو بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہار اکبر نے اس کے گلے میں ڈالا تھا۔ڈاکٹر مبارک علی کی مزید تحاریر:
کیا تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے؟
خاموشی – ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر
اکبر سے ایسی دیگر کئی کہانیاں منصوب ہیں۔
اس کے دربار میں بیربل اور ملا دوپیازہ کا ذکر ہے جن کے لطیفے مشہور ہیں مگر ان کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زبانی تاریخ میں اولیاء اور پیروں کی شفقت کے بارے میں ان کے مریدوں نے ان کی کرامات فیاضی اور رواداری کی روایت کے ذریعے ان کو عام لوگوں میں مقبول بنا دیا ہے۔ اس کا فائدہ سجادہ نشینوں کو بھی ہے جو کئی نسلوں سے مریدوں سے عطیات وصول کرتے ہیں۔ سیاست میں حصہ لے کر لیڈر بن جاتے ہیں اور اپنے پیر یا ولی کا عرس منا کر اس کی یاد کو باقی رکھتے ہیں۔زبانی تاریخ کے ذریعے سیاسی شخصیتوں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں سبھاش چندر بوس جو برطانوی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ فرار ہو کر جرمنی چلے گئے۔ وہاں سے ریڈیو پر برطانوی حکومت کی مخالفت میں تقریریں کرتے رہے۔
وہاں سے یہ جاپان چلے گئے اور آزاد ہند فوج کی بنیاد رکھی۔ یہ ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں مر گئے مگر ہندوستان میں ان کے چاہنے والوں نے ان پر یقین نہیں کیا اور یہ مشہور کر دیا کہ وہ زندہ ہیں اور بنگال کے ایک دور دراز گاؤں میں بحیثیت سنیاسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔ عقیدت مند لوگ اپنے ہیرو کی موت کا یقین نہیں کرتے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ ہٹلر مرا نہیں ہے بلکہ روپوش ہو گیا ہے اور دوبارہ آ کر انگریزوں سے جنگ کرے گا۔سیموئل رافیل نے اپنی کتاب ’ہسٹری اینڈ پولیٹکس‘ میں کئی مؤرخین کے مضامین زبانی تاریخ کے سلسلے بھی شامل کیے ہیں۔ ان میں ایک مضمون گیلی پولی کی جنگ پر ہے۔ اس میں آسٹریلیا کے فوجی پہلی مرتبہ یورپی ملکوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ آسٹریلیا اس بات پر خوش تھا کہ یورپی ملکوں نے اس کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے مساوی مقام دیا۔
اس جنگ میں ترکوں کے راہمنا مصطفی کمال نے یورپی فوجوں کو شکست دی۔ شکست کے بعد جب آسٹریلیا کے فوجی واپس آئے اور ان سے جنگ کے بارے میں انٹرویو لیے گئے تو فوجیوں کے بیانات مختلف تھے۔ ان میں سے کچھ نے جنگ میں ہونے والی سختیوں اور مسائل کا ذکر کیا۔ کچھ نے یہ کہا کہ وہ زندہ واپس آ گئے، ان کے لیے یہی بہت ہے لیکن ان میں سے کچھ فوجی ایسے تھے جنہوں نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس جنگ کی تلخ یادیں ان کے ذہن میں تھیں اور وہ ان یادوں کے ذریعے دوبارہ سے جنگ کی خونریزی اور مصائب کو بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ایک ایسی جنگ جس میں ان کے دوست مارے گئے تھے اور وہ مشکل سے اپنی جان بچا کر آئے تھے۔یہی یادیں بنگلہ دیش اور پاکستان کے ان افراد کے ذہنوں میں ہیں جن کے رشتے دار اور دوست بنگلہ دیش میں مارے گئے تھے۔ میرے ایک جاننے والے تھے جن کا نام شبیر کاظمی تھا۔ ان کے پانچ بیٹوں کو مکتی باہنی نے قتل کر دیا تھا۔ میرے ساتھ ہونے والی کئی ملاقاتوں میں انہوں نے کبھی بنگلہ دیش کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔
میری ملاقات جب ایک بنگلہ دیشی صحافی سے ہوئی جس کے والد اور بھائی کو پاکستانی فوج نے گولی ماری تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ضرور آئے مگر اس نے فوجی ایکشن کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔یہی صورتحال تقسیم کے دوران ہندو مسلم فسادات کی تھی۔ ان فسادات پر لوگوں کے انٹرویوز لیے گئے ہیں لیکن ان میں جذبات کا اس قدر غلبہ ہے کہ پوری صورتحال کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔
اگرچہ زبانی تاریخ کو تاریخ نویسی میں اہمیت دی جاتی ہے لیکن زبانی تاریخ کے ذریعے جب زبانی بیانات کو تعصب، نفرت، تعریف اور مدح سرائی کے ذریعے تشکیل دیا جائے تو یہ تاریخ کے بیانیے کو مسخ کرتی ہے۔ زبانی تاریخ سے جھوٹ اور فریب کو نکالنا مشکل عمل ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔