UrduPoint:
2025-10-04@16:58:00 GMT

اسرائیلی امدادی پابندیوں سے غزہ میں قحط کا بڑھتا خطرہ

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

اسرائیلی امدادی پابندیوں سے غزہ میں قحط کا بڑھتا خطرہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 12 مئی 2025ء) غذائی تحفظ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پوری آبادی کو قحط کا سنگین خطرہ لاحق ہے جہاں لوگوں کو بقا کے لیے درکار خوراک یا تو ختم ہو چکی ہے یا آئندہ ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔

اقوام متحدہ کے زیراہتمام 'غذائی تحفظ کے مراحل کی مربوط درجہ بندی' (آئی پی سی) کے مطابق علاقے میں تقریباً پانچ لاکھ لوگ شدید بھوک کا شکار ہیں جبکہ 10 ہفتوں سے سرحدی راستے بند ہونے کے باعث انہیں کسی طرح کی انسانی امداد نہیں مل سکی۔

Tweet URL

ان حالات میں خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

(جاری ہے)

25 کلو گرام آٹے کے تھیلے کی قیمت میں فروری کے بعد 3,000 گنا اضافہ ہو چکا ہے جو اب 235 سے 520 ڈالر کے درمیان فروخت ہو رہا ہے۔

'آئی پی سی' کے مطابق، طویل اور بڑے پیمانے پر عسکری کارروائی اور انسانی امداد و تجارتی سامان کی آمد پر پابندیاں برقرار رہنے کی صورت میں غزہ کے شہری بقا کے لیے درکار خدمات اور ضروری اشیا تک رسائی کھو بیٹھیں گے اور 30 ستمبر تک پورے علاقے میں قحط پھیل جائے گا۔

بھوک کا پانچواں درجہ

'آئی پی سی' کے اندازے امدادی اداروں کو دنیا بھر میں امدادی ضروریات سے آگاہی میں مدد دیتے ہیں۔ غذائی عدم تحفظ ایک سے پانچ درجوں تک ماپا جاتا ہے۔ کسی علاقے میں غذائی تحفظ کی صورتحال کو آئی پی سی1 قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں بھوک نہیں پھیلی جبکہ آئی پی سی5 کا مطلب یہ ہو گا کہ کسی علاقے میں لوگوں کو قحط جیسے حالات کا سامنا ہے۔

تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق رفح، شمالی غزہ، اور غزہ کے رہنے والے لوگوں کو آئی پی سی5 کا سامنا ہے جبکہ دیگر کی حالت قدرے بہتر ہے۔

اسرائیل کا امدادی منصوبہ مسترد

'آئی پی سی' نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کی فراہمی اپنے ہاتھ میں لینے کے منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لوگوں کی خوراک، پانی، پناہ اور ادویات سے متعلق ضروریات پوری نہیں ہو سکیں گی۔

قبل ازیں اقوام متحدہ اور اس کے شراکتی امدادی ادارے بھی اس منصوبے کو مسترد کر چکے ہیں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ موجودہ تباہ کن حالات میں امداد کی تقسیم کے حوالے سے اسرائیل کا پیش کردہ منصوبہ غزہ کی بہت بڑی آبادی کے لیے امداد تک رسائی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دے گا۔

غزہ میں ہر جگہ بھوک پھیل رہی ہے اور سماجی نظم ختم ہوتا جا رہا ہے۔

بہت سے گھرانے خوراک کے حصول کے لیے کوڑا کرکٹ سے کارآمد اشیا اکٹھا کر کے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان لوگوں میں سے ایک چوتھائی کا کہنا ہے کہ اب علاقے میں ایسی کوئی اشیا باقی نہیں رہیں جنہیں فروخت کر کے خوراک خریدی جا سکے۔پناہ گاہوں پر نئے حملے

اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فضائی بمباری اور زمینی حملے جاری ہیں۔ ہفتے کے روز فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کا غزہ شہر میں واقع ایک سکول حملے کا نشانہ بنا جس میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔

اس جگہ بہت سے بے گھر لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔

اس سے ایک روز قبل شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ کیمپ میں 'انروا' کے ایک مرکز پر حملے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے میں ادارے کا دفتر تباہ ہو گیا اور تین ملحقہ عمارتوں بشمول امداد کی تقسیم کے مرکز کو شدید نقصان پہنچا۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کے باعث اس مرکز میں خوراک سمیت کوئی سامان موجود نہیں تھا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے علاقے میں آئی پی سی کے لیے

پڑھیں:

غزہ کیلئے امداد لے جانے والے صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کا دھاوا

دوحہ+ غزہ (نوائے وقت رپورٹ) قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا ہے کہ غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے معاملے پر مزید وضاحت اور سنجیدہ بات چیت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ منصوبہ ابھی صرف اصولوں کی ایک فہرست ہے، جس کی جزئیات پر تفصیلی مذاکرات ناگزیر ہیں۔ قطری خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں قطری وزیراعظم نے واضح کیا کہ ہم امن چاہتے ہیں، لیکن ایسا امن جو فلسطینیوں کے حقوق اور خودمختاری کا تحفظ کرے۔ اسرائیلی انخلا پر خاموشی اختیار کرنا ممکن نہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر سے معافی پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ محمد بن عبدالرحمن نے کہا کہ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ہمارا بنیادی حق تھا جسے تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ بندی کو منصوبے میں ایک واضح شق کے طور پر شامل کیا گیا ہے اور اس پر حماس نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے منصوبے کا سنجیدہ جائزہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔ ہمارا اولین مقصد جنگ کا خاتمہ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ تمام فریقین اس موقع کو ضائع نہیں کریں گے۔ قطری وزیراعظم کے مطابق، آج ہونے والے غزہ ثالثی اجلاس میں مصر اور ترکیے کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوں گے۔ اگر یہ منصوبہ منظور ہوتا ہے تو عرب اور اسلامی دنیا فلسطینیوں کی حمایت میں ہر ممکن طریقے سے شمولیت کا خیرمقدم کرے گی۔ شیخ محمد بن عبدالرحمن نے زور دیا کہ یہ منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے اور قطر کی کوشش ہے کہ ایسا راستہ نکالا جائے جو پائیدار امن کی بنیاد بنے اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی ضمانت فراہم کرے۔ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ سے متعلق 20 نکاتی امن منصوبے میں ترمیم کا مطالبہ کر دیا۔ حماس کی قیادت کے قریبی فلسطینی ذریعے نے غیر ملکی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں غیر مسلح ہونے کی شق میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق حماس کے مذاکرات کاروں نے گزشتہ روز دوحہ میں ترک، مصری اور قطری حکام کے ساتھ بات چیت کی۔ ان مذاکرات میں غیر مسلح کئے جانے کی شق سب سے متنازع قرار دی جا رہی ہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق حماس کچھ شقوں میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔ حماس اسرائیل کے مکمل انخلاء اور رہنماؤں کے فلسطین کے اندر یا باہر قتل نہ کیے جانے کی بین الاقوامی ضمانتیں چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق حماس کو باضابطہ جواب دینے کیلئے مزید تین دن درکار ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر حماس کی سیاسی قیادت نے مذاکراتی عمل جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے کچھ شقوں میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے تاہم عسکری قیادت کا جنگ جاری رکھنے پر اصرار ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق حماس کے ایک سینیئر سیاسی رہنما نے ہمارے نمائندے سے گفتگو میں بتایا کہ ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کر دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کا امن منصوبہ اسرائیل کے مفادات کو ضرور پورا کرتا ہے لیکن فلسطینی عوام کے مفادات کو نظر انداز کرتا ہے۔ حماس کی سیاسی قیادت کو امن منصوبے کے تحت غزہ میں بین الاقوامی افواج کی تعیناتی اور غیر مسلح ہونے کی شقوں پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ حماس رہنما نے کہا کہ امریکی منصوبے میں کئی ’’مبہم نکات‘‘ ہیں جن میں اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ امن منصوبہ دراصل ٹرمپ کے سیاسی فائدے کے لیے بنایا گیا۔ جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیل کسی نہ کسی بہانے کارروائی جاری رکھ سکتا ہے۔ دوسری جانب تاحال غزہ میں مقیم حماس کے اعلیٰ ترین ملٹری کمانڈر عزالدین الحداد ٹرمپ کی تجویز کو قبول کرنے کے بجائے جنگ جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک مقیم حماس کی سیاسی قیادت کو حال ہی میں اندرونی مذاکرات سے دور کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کا یرغمالیوں پر براہ راست کنٹرول نہیں رہا ہے۔ ادھر سعودی اخبار الشرق الاوسط نے رپورٹ کیا کہ عزالدین الحداد نے اپنا پیغام بیرون ملک مقیم حماس کی سیاسی قیادت تک پہنچا دیا ہے۔ دوسری جانب مذاکرات میں شامل اسرائیلی حکام توقع کرتے ہیں کہ حماس کا ردعمل روایتی ’’ہاں‘‘ اور ’’لیکن‘‘ کی شرط کے ساتھ ہو گا یعنی نہ مکمل اقرار اور نہ مکمل انکار۔ دیکھنا یہ ہے کہ قطر میں مقیم حماس کی سیاسی قیادت کی امن منصوبے کی شقوں میں ترمیم کے لیے مذاکرات کے عندیہ اور غزہ میں مقیم عسکری کمانڈر کے جنگ جاری رکھنے کے عزم میں کون، کس پر حاوی ہوتا ہے۔مزید برآں گلوبل صمود فلوٹیلا امدادی سامان لیکر غزہ کے نزدیک پہنچ گیا، اٹلی‘ سپین اور یونان نے اسرائیل سے فلوٹیلا کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے گلوبل فلوٹیلا کو سفر روکنے کی وارننگ دے دی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ فلوٹیلا میں شامل جہاز اپنا سفر روک دیں، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ امداد قبرص‘ عسقلان یا کسی اور بندرگاہ پر اتار دی جائے، عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی صمود فلوٹیلا کو ڈبونا چاہتا ہے۔ ادھر کینیڈا نے اسرائیل سے غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کیلئے زمینی راہداریاں کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیرِ خارجہ انیتا آنند نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فلسطینی علاقے میں عام شہریوں اور صحت کے مراکز کا تحفظ یقینی بنائے۔ عرب میڈیا کے مطابق گزشتہ روز اسرائیلی حملوں سے 61 فلسطینی شہید ہو گئے جبکہ 2 بچے بھوک کی شدت سے دم توڑ گئے۔
غزہ+ واشنگٹن+ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ خبرنگار+ این این آئی) امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ قطر پر حملہ ہوا تو امریکہ جواب دے گا۔ امریکی صدر نے قطر کی سلامتی یقینی بنانے سے متعلق ایگزیکٹو حکمنامے پر دستخط کر دیئے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ نے قطر کی سرزمین میں کسی بھی حملے کو سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیدیا۔ امریکہ اپنے اور قطر کے مفادات کیلئے مناسب اقدامات کرے گا۔ قطر امن‘ استحکام اور خوشحالی کے حصول میں ثابت قدم اتحادی ہے۔  اس ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا کہ اگر قطر دوبارہ کسی بیرونی حملے کا نشانہ بنا تو امریکا نہ صرف اس کا دفاع کرے گا بلکہ جوابی فوجی کارروائی بھی کرے گا۔ ایگزیکٹو آرڈر میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اور قطر قریبی تعاون‘ مشترکہ مفادات اور مسلح افواج کے درمیان مضبوط تعلقات سے جڑے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قطر ایک پرعزم اتحادی ہے جو امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ بیرونی خطرات کے پیش نظر امریکہ قطر کی خود مختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کا ہر قیمت پر دفاع کرے گا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اب قطر پر ہونے والا کوئی بھی حملہ امریکا پر حملہ تصور ہوگا۔ یاد رہے کہ اسرائیل کے دوحہ میں حماس کی قیادت کے مشاورتی اجلاس پر حملے میں چھ افراد شہید ہو گئے تھے جن میں ایک قطری گارڈ تھا۔ شہید ہونے والوں میں حماس کے ہنما الخلیل الحیا کے بیٹے، ان کے دفتر کے انچارج اور تین حماس محافظ بھی شامل تھے۔ فلسطین حامی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل سینٹر آف جسٹس فار فلسطین (آئی سی جے پی) نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اپنے بیان میں تنظیم نے کہا کہ غزہ منصوبہ  انصاف دے رہا ہے نہ احتساب کر رہا ہے۔ ٹرمپ کا منصوبہ سطحی، نوآبادیاتی سوچ کا حامل اور فلسطینی خواہشات سے مبرا ہے۔ یہ منصوبہ اسرائیلی قبضے کی بنیادی وجوہات کو نظرانداز کرتا ہے۔ منصوبے کو اسرائیل امن کی راہ میں رکاوٹ یا تاخیر کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ فلسطین حامی تنظیم نے ٹرمپ کی زیر صدارت بورڈ آف پیس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر پر بھی تنقید کی ہے۔ دریں اثناء روسی وزارت خارجہ  کی ترجمان ماریا زاخارووانے غزہ  امن منصوبہ پر بیان میں کہا ہے کہ روس نے ہمیشہ فوری جنگ بندی اور خونریزی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ غزہ میں جنگ بندی کی ہر کوشش کی  حمایت ضروری ہے۔ امید ہے جنگ بندی پائیدار اور غزہ میں دیرپا استحکام لائے گی۔ جامع سیاسی تصفیہ آزاد فلسطینی ریاست کی ضمانت ہے۔ مزید برآں گلوبل صمود فلوٹیلا امدادی سامان لیکر غزہ کے نزدیک پہنچ گیا۔ اسرائیلی بحریہ نے فلوٹیلا کو گھیرے میں لیکر اس پر چاروں طرف سے دھاوا بول دیا۔  ادھر کینیڈا نے اسرائیل سے غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کیلئے زمینی راہداریاں کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ انتیا آنند نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فلسطینی علاقے میں عام شہریوں اور صحت کے مرکز کا تحفظ یقینی بنائے۔ عرب میڈیا کے مطابق گزشتہ روز اسرائیلی حملوں سے 61 فلسطینی شہید ہو گئے جبکہ 2 بچے بھوک کی شدت سے دم توڑ گئے۔  عرب میڈیا کے مطابق صمود فلوٹیلا کے منتظمین نے بتایا کہ اسرائیلی فوجی ہمارے ایک جہاز میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس جہاز الماء میں موجود تمام افراد کو اسرائیلی فوجیوں نے حراست میں لے لیا جن میں صحافی بھی شامل ہیں۔ صمود فلوٹیلا کی تمام کشتیوں کی لائیو فیڈ بھی منقطع ہو گئی جس کے باعث رابطے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ فلوٹیلا میں 49 کشتیاں شامل ہیں۔ سابق پاکستانی سینیٹر مشتاق احمد سمیت 500 سے زائد افراد سوار ہیں۔ قبل ازیں فوٹیلا کی سٹیئرنگ کمیٹی کے رکن تیاغواویلا نے بھیجے گئے آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ہم اسرائیلی ناکہ بندی کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ اس پیغام کے بعد ہی یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ اسرائیلی بحریہ نے صمود فلوٹیلا کی کشتیوں کا گھیراؤ کر لیا ہے۔ فلوٹیلا میں 40 سے زائد کشتیاں شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کیلئے امدادی سامان لے جانے والے گلوبل صمود فوٹیلا کی 45 سے زائد کشتیوں  اور جہازوں پر دھاوا بھول دیا۔ ایک جہاز پر موجود تمام ارکان کو یرغمال بنا لیا۔ فلوٹیلا میں شامل تمام کشتیوں اور جہازوں کو گھیرے میں لیکر رخ موڑ دیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج فلوٹیلا تک پہنچ گئی ہے۔ فلوٹیلا  وار زون میں داخل ہو رہا تھا۔ اسرائیلی فوج نے فلوٹیلا کا رخ اسرائیلی بندر گاہ ’’اشدود‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ فلوٹیلا پر موجود امدادی سامان اس بندرگاہ پر اتار لیا جائے گا۔ اسرائیلی فوجی ترجمان نے کہا یہ سامان اس بندرگاہ پر چھوڑ جائیں، غزہ پہنچا دیا جائے گا۔ فلوٹیلا پر موجود عرب صحافی کے مطابق  کم از کم 20  اسرائیلی جہازوں اور کشتیوں نے محاصرہ کیا۔  فلوٹیلا کے ایک جہاز  پر موجود کارکن زین العابدین اوزکان نے بتایا کہ رات بھر فلوٹیلا کے اوپر ڈرونز کی پروازیں جاری رہیں اور صبح تقریباً 5 بجے  فلوٹیلا میں شامل ’الماء‘ نامی مرکزی کشتی کے جی پی ایس اور انٹرنیٹ سسٹم پر سائبر حملہ کر کے اس سے رابطہ منقطع کر دیا گیا۔’الماء‘ پر موجود ترک کارکن متیہان ساری نے کہا کہ ’یہ اب تک کی سب سے بڑی ہراسانی تھی جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی لیکن ہم خوفزدہ نہیں ہوئے اور انہیں بتایا کہ ہم خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے  گلوبل صمود فلوٹیلا کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ریاستوں کی مسلسل بے عملی نے دنیا بھر کے کارکنوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ محاصرہ توڑنے کے لیے پرامن اقدامات کریں۔ ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلوٹیلا کو محفوظ راستے کی ضمانت دیں۔ انہیں لازماً دباؤ بڑھانا ہوگا تاکہ فلوٹیلا کا تحفظ کیا جا سکے، اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کا خاتمہ ہو اور اس کا غیر قانونی محاصرہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے۔ الجزیرہ سے گفتگو میں فلوٹیلا کے ترجمان سیف ابو کشک نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی افواج نے کئی کشتیوں کی انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی ختم کر دی۔ کچھ کشتیوں سے موصول ہونے والی ویڈیوز موجود ہیں، جو اس صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں۔ ابو کشک نے تصدیق کی کہ اسرائیلی بحریہ فلوٹیلا کی کشتیوں کو مسلسل انتباہی پیغامات بھیج رہے تھے اور خبردار کیا کہ اس راستے سے غزہ انسانی امداد لے جانا غیر قانونی ہے۔ یہ سب اسرائیلی حکومت کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ غزہ کی آبادی کو بھوک سے مارنے پر تلی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے  جنگی جہاز نے فلوٹیلا کی ایک اور کشتی "سیریَس" کو بھی تقریباً 15 منٹ تک گھیرے میں رکھا تھا۔ اس قافلے میں 40 سے زائد کشتیاں اور 500 کے قریب افراد شامل ہیں، جن میں اطالوی سیاست دان اور سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل ہیں۔ اٹلی اور یونان نے اسرائیل سے کارکنوں کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا اور مشورہ دیا کہ امداد قبرص میں اتاری جائے تاکہ چرچ اس کی تقسیم کرے۔   ادھر 20 امریکی ارکان کانگریس نے فلوٹیلا کی حفاظت کے لئے اپنے وزیر خارجہ کوخط لکھ دیا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے کیلیے 11 امدادی کشتیوں پر مشتمل نیا قافلہ روانہ
  • گلوبل صمود فلوٹیلا‘ پر اسرائیلی قبضے کے بعد نیا امدادی قافلہ غزہ روانہ
  • پاکستان اورایتھوپیا میں زرعی تعاون بڑھانے پر اتفاق، خوراک کے تحفظ اور معاشی ترقی کو فروغ دیا جائے گا
  • صمود فلوٹیلا پر حملہ عالمی انسانی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے، شیری رحمان
  •  فلوٹیلا پر حملہ عالمی انسانی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے: شیری رحمان  
  • پاکستان کی امدادی بحری بیڑے ’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ پر حملے کی مذمت، فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ
  • فلوٹیلا پر حملہ اسرائیلی ظلم کی نئی داستان ہے، شیری رحمان
  • اسرائیلی حملہ جنگی جرم ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا
  • غزہ کیلئے امداد لے جانے والے صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کا دھاوا
  • ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ غزہ کے قریب پہنچ گیا، اسرائیلی حملے کا خطرہ