مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں کا خطرہ ، ایڈوائزری جاری
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
اسلام آباد : مون سون میں مچھروں اور کیڑے مکوڑوں سے بیماریوں کے پھیلاو کے خدشے کے پیش نظر ایڈوائزری جاری کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے مون سون کے دوران مچھروں اور موسمی کیڑوں سے پھیلنے والی بیماریوں کے خدشے کے پیش نظر ایڈوائزری جاری کردی۔ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ مچھر اور دیگر موسمی کیڑے مہلک بیماریوں کے وائرس پھیلانے کا باعث بنتے ہیں، جن کے کاٹنے سے ڈینگی، زرد بخار، ملیریا اور چکن گونیا کے کیسز میں اضافہ ہوسکتا ہے۔این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ موسمی کیڑوں کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماریوں سے ہر سال دنیا بھر میں دس لاکھ سے زائد افراد موت کا شکار ہوتے ہیں۔اتھارٹی نے بیماریوں سے بچاؤ کے لیے عوام کو ہدایت کی ہے کہ گھروں اور اردگرد بارش کا پانی جمع نہ ہونے دیں، پانی کے برتن، ٹینکیاں اور گملے خشک رکھیں، مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھر دانی اور ریپلنٹ کا استعمال کریں اور بخار، جسم درد یا سر درد کی صورت میں فوری طبی مشورہ حاصل کریں۔ایڈوائزری میں مزید کہا گیا ہے کہ ویکٹر کے پھیلاؤ والے ہائی رسک علاقوں کی نشاندہی اور صفائی ستھرائی سے ان بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
27ویں ترمیم سے سپریم کورٹ کو شید ید خطرہ ، کنو نشن بلایا جائے
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ستائیسویں آئینی ترمیم کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھ دیا ہے جس میں فوری اقدام کا مطالبہ کیا گیا کہ جب تک چھبیسویں آئینی ترمیم پر سوالات ہیں نئی آئینی ترمیم مناسب نہیں۔ بطور عدلیہ سربراہ فوری طور پر ایگزیکٹو سے رابطہ کریں اور واضح کریں کہ آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی۔ آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کو لکھا کہ آپ اس ادارے کے صرف ایڈمنسٹریٹر نہیں بلکہ گارڈین بھی ہیں، اور یہ لمحہ آپ سے لیڈرشپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی دلیل کے طور پر زیر التوا مقدمات کا جواز دیا جا رہا ہے، حالانکہ اسی فیصد زیر التوا مقدمات ضلعی عدلیہ کی سطح پر ہیں، سپریم کورٹ کی سطح پر نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور برطانیہ میں بھی ایک ہی سپریم کورٹ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کا ذکر محدود مدت، صرف چھ سال کے لیے کیا گیا تھا اور وہ بھی ایک خاص سیاسی پس منظر کے تحت ذکر تھا۔ اس وقت پرویز مشرف کا آمرانہ دور ختم ہوا تھا۔ اس وقت ملک میں کون سا آئینی خلا ہے، اس وقت آئینی عدالت کے قیام کی کیا ضرورت ہے۔ سینئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر ستائیسویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ متن میں کہا گیا ہے کہ ہم غیر معمولی حالات میں یہ خط لکھ رہے ہیں، کیونکہ سپریم کورٹ اپنے قیام کے بعد آج سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ ماضی میں کوئی سول یا فوجی حکومت سپریم کورٹ کو اپنا ماتحت ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور اگر چیف جسٹس متفق ہیں تو ردعمل دینا سپریم کورٹ کا حق ہے۔ یہ خط سینئر وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے تحریر کیا گیا، جس پر جسٹس (ر) مشیر عالم، مخدوم علی خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، جسٹس (ر) ندیم اختر، اکرم شیخ، انور منصور، علی احمد کرد، خواجہ احمد حسین اور صلاح الدین احمد کے بھی دستخط ہیں۔