اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 مئی 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اس کے شراکت داروں نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں گزشتہ پانچ سال کے دوران صحت کے شعبے میں نرسوں کی تعداد 19 لاکھ بڑھ گئی ہے لیکن ہر جگہ ان کی خدمات مساوی طور پر دستیاب نہیں ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او'، نرسوں کی بین الاقوامی کونسل اور دیگر اداروں کی جانب سے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے اس طبی عملے سے متعلق رواں سال کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں دنیا بھر میں نرسوں کی تعداد 27.

9 ملین تھی جو 2023 میں بڑھ کر 29.8 ملین ہو گئی۔

Tweet URL

تاہم خدمات کی فراہمی کے حوالے سے پائی جانے والی عدم مساوات کے باعث دنیا کے بہت سے علاقوں میں لوگوں کو ضروری طبی خدمات تک رسائی نہیں ملتی جس سے عالمگیر تحفظ صحت پر منفی اثر پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

'نرسوں کے عالمی دن' پر جاری کردہ یہ رپورٹ 194 ممالک سے حاصل کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2020 میں دنیا میں 6.2 ملین نرسوں کی کمی تھی۔ 2023 میں اس تعداد میں بہتری آئی اور یہ فرق 5.8 ملین رہ گیا تھا۔ اندازے کے مطابق 2030 تک یہ فرق مزید کم ہو کر 4.1 ملین رہ جائے گا۔

تعداد اور دستیابی میں فرق

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پیش رفت مختلف علاقوں میں نرسوں کی دستیابی میں پائے جانے والے فرق کو چھپا دیتی ہے۔

اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 78 فیصد نرسوں کا تعلق ایسے ممالک سے ہے جن کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا 49 فیصد ہے۔

کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں نرسوں کو تعلیم و تربیت اور نوکری دینا اور انہیں اس کام پر برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے لیے ملکی سطح پر طبی نظام پر سرمایہ کاری بہت ضروری ہے۔ علاوہ ازیں، بلند آمدنی والے ممالک میں نرسوں کی بڑی تعداد ریٹائر ہو رہی ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے ایسے ممالک کو مبارک باد دی ہے جنہوں نے نرسوں کی تعداد بڑھانے اور تمام لوگوں کے لیے ان کی مساوی دستیابی ممکن بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ نرسوں کی تعداد اور دستیابی کے حوالے سے فرق پوری دنیا میں پایا جاتا ہے اور رکن ممالک کو اس رپورٹ کے نتائج کا جائزہ لے کر جلد جلد از اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔

رپورٹ کے اہم نتائج

نرسوں کو صنفی نمائندگی اور مساوات کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا ہے۔ اس شعبے میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جو نرسنگ میں عالمگیر افرادی قوت کے تقریباً 85 فیصد کی نمائندگی کرتی ہیں۔

دنیا بھر میں ہر سات میں سے ایک نرس کا تعلق اس ملک سے نہیں ہوتا جہاں وہ خدمات انجام دیتی ہیں۔ بلند شرح آمدنی والے ممالک میں یہ تناسب 23 فیصد جبکہ کم آمدنی والے ممالک میں 8 فیصد ہے۔

کم آمدنی والے ممالک میں تعلیم مکمل کرنے والی نرسوں کی تعداد بلند آمدنی والے ممالک کے مقابلے میں بڑھ رہی ہے۔ بعض ممالک میں گریجوایشن مکمل کرنے والی نرسوں کی شرح میں اضافے کے باوجود ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ لوگوں کی بڑھتی عمر اور روزگار کے مواقع میں کمی اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔

دنیا بھر میں اس شعبے کی افرادی قوت نسبتاً کم عمر ہے۔

33 فیصد نرسوں کی عمر 35 سال سے کم ہے جبکہ 19 فیصد آئندہ 10 سال میں ریٹائر ہو جائیں گی۔ 62 فیصد ممالک میں نرسوں کو حساس نوعیت کی طبی نگہداشت سونپی جاتی ہے جبکہ 2020 میں یہ تعداد 53 فیصد تھی۔

رپورٹ کے مطابق، طبی دیکھ بھال کرنے والے اس عملے کی ذہنی صحت و بہبود سے متعلق حالات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں اور صرف 42 فیصد ممالک کے ہاں ہی نرسوں کے لیے ذہنی صحت کے حوالے سے مدد دستیاب ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آمدنی والے ممالک میں نرسوں کی تعداد دنیا بھر میں میں نرسوں کی کے حوالے سے کے لیے

پڑھیں:

تانبے کی کمی ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں رکاوٹ

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کو تانبے کی کمی کا سامنا ہے جس سے ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی رک سکتی ہے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے مربوط تجارتی و صنعتی حکمت عملی سے کام لینا ہو گا۔

عالمگیر تجارتی صورتحال پر اقوام متحدہ کے ادارہ تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی جانب سے رواں ہفتے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی معیشت تیزی سے ڈیجیٹل صورت اختیار کر رہی ہے اور ان حالات میں تانبے کو سٹریٹیجک اہمیت کے نئے خام مال کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

تانبے کی رسد کے مقابلے میں اس کی طلب بڑھتی جا رہی ہے، جس میں 2040 تک 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ حسب ضرورت تانبا دستیاب نہ ہونے کی صورت میں میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور سولر پینل سے لے کر مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے اور سمارٹ گرڈ تک کئی طرح کی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی راہ پر رکاوٹیں پیش آئیں گی۔

قیمتی دھات

’انکٹاڈ‘ میں بین الاقوامی تجارت و اشیا کے شعبے کی ڈائریکٹر لَز ماریا ڈی لا مورا نے کہا ہے کہ تانبا محض کوئی شے یا جنس نہیں ہے۔ یہ گھروں، کاروں، ڈیٹا مراکز اور قابل تجدید توانائی کے نظام سمیت بہت سی جگہوں پر استعمال ہوتا ہے۔

اعلیٰ درجے کی ایصالیت اور پائیداری کے باعث اس کا بجلی پیدا کرنے کے نظام اور ماحول دوست توانائی کی ٹیکنالوجی میں اہم کردار ہے۔

تاہم ادارے نے بتایا ہے کہ تانبے کی نئی کانیں کھودنے کا عمل سست رو اور مہنگا ہوتا ہے جس میں کئی طرح کے ماحولیاتی خدشات بھی ہوتے ہیں۔ کسی جگہ تانبے کی دریافت اور وہاں سے یہ دھات نکالنے میں 25 سال تک عرصہ لگ سکتا ہے۔

تانبے کی 2030 تک متوقع طلب کو پورا کرنے کے لیے اس شعبے میں 250 ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنا ہو گی اور کان کنی کے کم از کم 80 نئے منصوبے درکار ہوں گے۔

غیرمساوی فوائد

دنیا میں تانبے کے نصف سے زیادہ معلوم ذرائع 5 ممالک میں پائے جاتے ہیں جن میں چلی، آسٹریلیا، پیرو، جمہوریہ کانگو اور روس شامل ہیں۔ تاہم خام تانبے کو قابل استعمال بنانے کا بیشتر کام دیگر ممالک میں ہوتا ہے جن میں چین سرفہرست ہے جو دنیا بھر میں پیدا ہونے والے خام تانبے کا 60 فیصد درآمد کرتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ دنیا میں صاف تانبے کی 45 فیصد پیداوار بھی چین میں ہی ہوتی ہے۔اس عدم توازن کے باعث بہت سے ترقی پذیر ممالک اپنے ہاں تانبے کے ذخائر سے پوری طرح معاشی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تانبے کی کان کنی اور اسے دوسرے ممالک کو فروخت کرنا ہی کافی نہیں۔ اس قیمتی دھات سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کے لیے ان ممالک کو تانبے کی صفائی، اس کی پراسیسنگ اور اس کی صنعت پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔

اس مقصد کے لیے صںعتی پارک قائم کرنے، ٹیکس میں چھوٹ دینے اور ایسی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن کی بدولت تانبے کو خاص طور پر اہم ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی اشیا کی تیاری کے لیے کام میں لایا جا سکے۔

ٹیرف اور تجارتی رکاوٹیں

’انکٹاڈ‘ نے ٹیرف میں اضافے کے مسئلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے صاف تانبے سے تیار کی جانے والی تاروں، ٹیوب اور پائپوں جیسی اشیا کی درآمد پر محصولات دو فیصد سے بڑھ کر آٹھ فیصد تک پہنچ سکتے ہیں۔

تجارتی رکاوٹوں کے باعث تانبا پیدا کرنے والے ممالک میں جدید اور اہم صںعتوں پر سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ محض خام مال کے برآمد کنندگان بن کر رہ جاتے ہیں۔

’انکٹاڈ‘ اس مسئلے سے نمٹنےکے لیے حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ تانبے کی تجارت کے حوالے سے اجازت نامے جاری کرنے کے عمل اور ضوابط کو آسان کریں، کان کنی کے حوالے سے تجارتی رکاوٹوں کو کم کریں اور ترقی پذیر معیشتوں کو صنعتی ترقی میں مدد دینے کے لیے علاقائی ویلیو چین کو ترقی دیں۔

اسکریپ کی اہمیت

چونکہ تانبے کی کان کنی کے نئے مںصوبوں کو مکمل ہونے اور ان سے پیداوار کے حصول میں طویل وقت درکار ہوتا ہے اسی لیے تانبے کی ری سائیکلنگ اس کی کمی پر قابو پانے کے اہم طریقے کے طور پر سامنے آئی ہے۔

 2023 میں استعمال شدہ اشیا سے 4.5 ملین ٹن تانبا حاصل کیا گیا جو کہ دنیا بھر میں صاف شدہ تانبے کے ذخائر کا تقریباً 20 فیصد ہے۔ امریکا، جرمنی اور جاپان تانبے کا اسکریپ درآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک بن گئے ہیں جبکہ چین، کینیڈا اور جمہوریہ کوریا اس کے سب سے بڑے درآمد کنندگان ہیں۔

’انکٹاڈ‘ نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں تانبے کا اسکریپ ایک اسٹریٹیجک اثاثہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تانبے کی ری سائیکلنگ اور اس کی پراسیسنگ کی صلاحیت اس کی درآمد پر انحصار کو کم کرنے، تانبے کی چیزوں کی تجارت اور مزید دائروی اور پائیدار اور مستحکم معیشت کی تیاری میں مددگار ہو سکتی ہے۔

’انکٹاڈ‘ نے کہا ہے کہ تانبا عالمگیر تجارتی نظام کی اہم معدنیات کی بڑھتی ہوئی طلب سے نمٹنے کی صلاحیت کا امتحان لے گا۔ تانبے کا دور آگیا ہے لیکن مربوط تجارتی و صنعتی حکمت عملی کی عدم موجودگی میں اس کی رسد پر دباؤ رہے گا جس کے باعث بہت سے ترقی پذیر ممالک اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • وفاقی حکومت کے قرضوں میں ریکارڈ اضافہ سٹیٹ بینک کی جانب سےرپورٹ جاری
  • تجارتی جنگ ٹل گئی ؛امریکہ اور چین ٹیرف کم کرنے پر متفق
  • جے ایف 17 تھنڈر جنگی طیارے بنانے والی چینی کمپنی کے شیئرز میں 63 فیصد اضافہ
  • عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ
  • "دوسرے ممالک بڑی تعداد میں آ رہے ہیں اور ہم سے ٹریننگ لینے کا کہہ رہے ہیں"
  • تانبے کی کمی ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں رکاؤٹ
  • دونوں عظیم ممالک کیساتھ تجارت میں اضافہ، کشمیر کا حل چاہتا ہوں، ٹرمپ کا پاکستان اور انڈیا کو پیغام
  • تانبے کی کمی ماحول دوست توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • اسکول جانے والے بچوں میں نیکوٹین پاؤچز اور ای سیگریٹ کا بڑھتا رجحان، یہ کتنے خطرناک ہیں؟