وزیراعظم شہبازشریف کی قومی قیادت کو دعوت ملتوی
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے قومی قیادت کو اسلام آباد میں دی گئی دعوت بعض وجوہات کی بنا پرملتوی کردی گئی ہے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے آج کل جماعتی کانفرنس طلب نہیں کی بلکہ قومی قیادت کو مدعو کیا تھا۔ذرائع کے مطابق سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کے ساتھ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر، گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی، گورنر بلوچستان شیخ جعفرخان مندوخیل اور گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کو بھی ظہرانے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
دعوت کا مقصد اس بات پر اظہار تشکر تھا کہ بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے یک زبان ہوکر حکومت اور افواج پاکستان کا بھرپورساتھ دیا تھا جس کے نتیجے میں قومی وحدت کا تصور مضبوط ہوا تھا۔
بھارت کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ سے پہلے عام تاثر تھا کہ پاکستان میں سیاسی قیادت شدید اختلافات کا شکار ہے اور حکومت کو بھارت کے خلاف اقدامات میں تمام سیاسی جماعتوں کی بھرپور حمایت ملنا مشکل ہوگا تاہم بھارت کی یہ خام خیالی بھی اس وقت جاتی رہی جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ں نے یک زبان ہوکر افواج پاکستان کا ساتھ دیا اور حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی بھرپور حمایت کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملکی قیادت کو چند روزبعد دعوت دیے جانے کاامکان ہے جس میں سیاسی وحدت کا اظہار کرنے پر اظہار تشکر کیا جائےگا۔
پاک بنگلہ دیش ٹی 20 سیریز کے شیڈول میں ردوبدل
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سیاسی جماعتوں قیادت کو
پڑھیں:
فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی،ڈی جی آئی ایس پی آر کی عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید
راولپنڈی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27جون 2025)فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ احمد شریف چوہدری نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید کردی، بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔ ہم ہمیشہ اس معاملے پر بالکل واضح رہے ہیں۔ یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ آپس میں بات کریں۔ ہم پاکستان کی ریاست سے بات کرتے ہیں جو کہ آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعتوں سے مل کر بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی حکومت ہوتی ہے وہی اس وقت کی ریاست ہوتی ہے اورافواج پاکستان اس ریاست کے تحت کام کرتی ہیں۔(جاری ہے)
اس لئے ہم ہم سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
انٹرویوکے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس تاثر کورد کیا ہے اور اسے سیاسی ایجنڈوں کو تقویت دینے کیلئے پھیلائی گئی افواہ قرار دیا۔ اپنے سیاسی مقاصد کیلئے فوج کے خلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے۔ لیکن جب معرکہ حق آیا تو کیا فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں؟ کیا قوم کو کسی پہلو میں فوج کی کمی محسوس ہوئی؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ہماری وابستگی پاکستان کے عوام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے۔ یہی وہ کام ہے جو فوج کرتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لئے بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی فوج جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منقسم ہے اور اپنے عوام سے کٹی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی فوج متعدد مواقع پر سیاسی حکومت چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب کبھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہو، فوجی قیادت کا ہی نام آتا ہے؟۔اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ یہ سوال ان سیاستدانوں یا سیاسی قوتوں سے پوچھنا چاہیے جو اس کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس معاملے کو ہی اصل مسئلہ بنا دیتے ہیں اور شاید یہ ان کی اپنی نااہلی یا اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہے جن کی طرف وہ توجہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ میں ان کے سیاسی مقاصد پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنی سیاست اپنے تک رکھیں اور پاکستان کی مسلح افواج کو اس سے دور رکھیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں ماضی میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا لیکن کورونا کے دوران پاکستان میں ردعمل کی قیادت کس نے کی؟ وزارت صحت نے؟ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن این سی او سی کون چلا رہا تھا؟ اس پورے ردعمل کی قیادت کس کے پاس تھی؟ فوج کے پاس۔ اس وقت کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس ملک میں جب پولیو ٹیمیں ویکسین کیلئے نکلتی ہیں تو فوج ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب واپڈا بجلی کے میٹر چیک کرنا چاہتے ہیں تو فوج کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جاتی ہے کیونکہ مقامی لوگ وہاں مسئلہ کھڑا کرتے ہیں۔ اس ملک میں اپنی سروس کے دوران میں نے نہریں بھی صاف کی ہیں۔ ہم عوام کی فوج ہیں اور جب بھی حکومت وقت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، جب وہ ہمیں کہتی ہے تو آرمی حتی الامکان حد تک پاکستانی حکومت اور عوام کیلئے آتی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ ہم اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ کس سیاسی جماعت یا سیاسی قوت کی حکومت ہے ہم عوام کے تحفظ اور بھلائی کیلئے آتے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ یہ جو داخلی سلامتی کیلئے فوج خیبر پختونخوا ہ اور بلوچستان کے علاقوں میں موجود ہے وہ بھی صوبائی حکومت کے احکامات پر ہے۔ ہم یہ فیصلے خود نہیں کرتے۔ یہ سیاسی قوتیں طے کرتی ہیں کہ فوج کو کہاں تعینات کیا جائے۔