Daily Ausaf:
2025-06-29@09:14:06 GMT

دنیا کے غریب ترین صدر 89 برس کی عمر میں چل بسے

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

یوروگوئے(نیوز ڈیسک) یوروگوئے کے سابق صدر خوسے پے پے موہیکا، جو دنیا بھر میں اپنی سادگی اور عوام دوستی کی بنا پر “دنیا کے غریب ترین صدر” کے طور پر جانے جاتے تھے، 89 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔

ان کے انتقال کی اطلاع موجودہ صدر یاماندو اورسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر دی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا: “ہم آپ کے احسان مند ہیں، آپ نے جو کچھ ہمیں دیا اور اپنی قوم سے جو بے لوث محبت کی، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔”

خوسے موہیکا کافی عرصے سے غذائی نالی کے کینسر میں مبتلا تھے، تاہم ان کی موت کی فوری وجہ کا اعلان نہیں کیا گیا۔

موہیکا نے 2010 سے 2015 تک یوروگوئے کی قیادت کی۔ ان کا سادہ طرزِ زندگی، سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اور سماجی اصلاحات کا جذبہ عالمی سطح پر ان کی پہچان بن گیا۔ وہ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ عطیہ کر دیتے تھے اور ایک معمولی سے فارم ہاؤس میں مقیم رہے۔

ان کے دورِ صدارت میں یوروگوئے پہلا ملک بنا جس نے تفریحی استعمال کے لیے بھنگ کو قانونی حیثیت دی، جس پر عالمی سطح پر بحث بھی ہوئی اور پذیرائی بھی۔

اگرچہ یوروگوئے ایک چھوٹا ملک ہے، تاہم موہیکا کی شخصیت نے بین الاقوامی سطح پر گہرا اثر چھوڑا۔ ان کے کئی اقدامات کو سراہا گیا، مگر بعض پالیسیوں پر ملکی سطح پر تنقید کا سامنا بھی رہا۔

موہیکا کا تعلق مونٹی ویڈیو کے متوسط طبقے سے تھا۔ وہ سیاست، مطالعہ اور زمین سے جڑی زندگی کو اپنی والدہ کی تربیت کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔

انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز نیشنل پارٹی سے کیا، جو بعد ازاں ان کی حکومت کی مخالف جماعت بن گئی۔ 1960 کی دہائی میں انہوں نے بائیں بازو کی مسلح تنظیم تُوپاماروس نیشنل لبریشن موومنٹ کی بنیاد رکھی، جو حکومت کے خلاف مختلف کارروائیوں میں ملوث رہی۔

اپنی جدوجہد کے دوران موہیکا کو چار مرتبہ قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ 1970 میں ایک حملے کے دوران انہیں چھ گولیاں لگیں اور وہ موت کے قریب پہنچ گئے تھے، تاہم وہ زندہ بچ نکلے۔

پاکستان کی بھارت کے خلاف فتح کی گونج دنیا بھر میں سنائی دینے لگی

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ سے جنگ بندی تک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایران اور اسرائیل کی لڑائی میں تباہ حال عمارتوں کی تعداد اور نقصان کا تناسب نہیں لڑنے کی ادا اور انداز یادگار رہے گا۔ دونوں کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے مگر اب بھی تصادم کے امکانات اور خطرات سایوں کی طرح سر پر منڈلا رہے ہیں۔ اسرائیل مسلم دنیا میں اپنے اندر کے خوف کی تمام وجوہات کو دور کرتا ہوا آخر کار ایران تک پہنچ گیا۔ یہاں بھی اسرائیل کے خوف کی بنیادیں بھی وہی تھیں اور مقاصد اور مقاصد کے حصول کا انداز بھی پرانا ہی تھا۔ اسرائیل کے مقاصد میں پہلا یہ ہے کہ مسلم دنیا جس کی زمین پر وہ اپنی دیوہیکل عمارت تعمیر کرچکا ہے دوبارہ اس عمارت کو خاکستر کرنے کی پوزیشن میں نہ آئے۔ اس خوف کی بنیاد پر اسرائیل نے اپنے گرد وپیش کے خطرات کو اپنی باڑھ میں بدل دیا ہے۔ یعنی جن مسلمان ملکوں کو اسرائیل سے اپنی ہتھیائی ہوئی زمین واپس لینا تھی وہ اس کے محافظ اور نگہبان بن بیٹھے ہیں۔ اسی خوف کے تحت اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹم بم جیسا مہلک ہتھیار نہ رہے۔ عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کی تباہی سے پاکستان کے ایٹم بم کے تعاقب تک اور لیبیا کے ایٹمی مواد کی منتقلی سے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں تک اسرائیل ہمیشہ اپنے خوف کے زیر اثر رہا ہے۔ ایران اس سفر کا اہم پڑاؤ تھا جہاں اسرائیل کو ہمیشہ مزاحمت اور مخاصمت کی چنگاریاں نظر آتی رہی ہیں۔ ایران پر حملے کے اسرائیل کے دو مقاصد تھے جن میں پہلا ایران کی ایٹمی صلاحیت کا خاتمہ اور دوسرا ایران میں رجیم چینج یعنی حکومت کی تبدیلی۔ ایٹمی صلاحیت کی طرح حکومت کی تبدیلی کا تعلق بھی اسرائیل کے خوف سے ہے۔ اسے مسلم دنیا میں اپنی مخالفت میں جلتی بجھتی ہوئی ہلکی سی چنگاری بھی قبول نہیں کہیں یہ شعلہ بن کر اس کے دامن سے نہ لپک جائے۔
ظاہر ہے کہ اسرائیل کے جو کرتوت اور عزائم ہیں اس میں یہ سارے خوف بے سبب بھی نہیں۔ ایران کو ایٹمی توانائی سے محروم کرنے کے لیے میزائلوں کی بارش کی منصوبہ بندی تھی اور اس کے ساتھ ہی ایٹمی پروگرام سے وابستہ سائنس دانوں کو نشانہ بنا نا بھی مقصود تھا تاکہ ایران دوبارہ یہ صلاحیت حاصل کرنے کے قابل نہ رہے۔ اس دوران موساد کے سلیپرز سیل حرکت میں آنا تھے اور غیر مطمئن عوام کے جتھوں کا بالکل اسی طرح ظہور ہونا تھا جیسے لیبیا میں معمر قذافی کا تختہ اْلٹنے کے وقت ہوا تھا۔ اس بارات کا دولہا بھی تیار تھا اور وہ تھا سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کا بیٹا محمد رضا پہلوی جو برسوں سے امریکا میں مقیم ہے۔ ایران پر حملے کے ساتھ ہی رضا پہلوی کی رونمائی بھی ہوئی اور وہ ٹویٹر اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر ایران میں جمہوریت کی بحالی پر بھاشن دیتے نظر آنے لگے۔ اس سے بھی بڑھ کر رضا پہلوی کی رونمائی کا انداز بھی تکبر اور نخوت سے بھرپور تھا۔ رضا پہلوی کی امریکا کے مجسمہ ٔ آزادی کے ساتھ تصویر نظر آتی تو اچنبھا نہ تھا مگر ان کی تصویر اسرائیل میں دیوار گریہ کے ساتھ ماتھا ٹیکتے ہوئے سامنے آئی اور وائرل ہوئی۔ اس تصویر کے ذریعے اسرائیل دنیا کو بالعموم اور مسلم دنیا کو بالخصوص یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ ماضی کی رجیم چینج کے برعکس ایران کی رجیم چینج کا قافلہ سالار خود اسرائیل ہے اور ایران کے متوقع حکمران سے دیوار گریہ سے ماتھا ٹیکنے کا کام لینے کا مقصد اسرائیل کی وفاداری کا حلف لینا تھا۔ یہ مسلمان دنیا کے حکمرانوں کے پیغام تھا کہ ان کے پاس اسرائیل کی اطاعت کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہا اب انہیں امریکا کے بجائے اسرائیل کی وفاداری کی بنیاد منصب اور عہدہ ملا کرے گا۔ رضا پہلوی نے بھی اعلان کیا کہ ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای اپنا کنٹرول کھو چکے ہیں اور اب حکومت کی تبدیلی میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ امریکا بھی ایرانی قیادت کے اعصاب کا امتحان لے کر دھمکانے کا انداز اپنائے ہوئے تھا۔
یہاں ایران کی قیادت نے کمال استقامت کا مظاہرہ کرکے اپنا فوکس اسرائیل پر رکھا اور اسرائیل کے تقدس اور تقدیس کا جامہ تار تار کردیا۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے جو حالات فلسطینی مسلمانوں کا مقدر بنا کر رکھ چھوڑے تھے پہلی بار اسرائیل کے عافیت کدے کو انہی حالات کا سامنا کر نا پڑا۔ بیروت گولان کی پہاڑیوں غزہ، رام اللہ اور دمشق اپنی حدود سے دور جنگ لڑنے کے عادی اسرائیل کو پہلی بار تل ابیب اور حائفہ میں جنگ کا نظارہ کرنا پڑا یوں غزہ اور تل ابیب کے مقدر کی تفریق مٹ کر رہ گئی۔ جو مناظر اسرائیل نے فلسطینیوں کا مقدر بنائے تھے تل ابیب بھی انہی مناظر سے آشنا ہوتا چلا گیا۔ غزہ کی صورت حال نے گردو نواح کے مسلمان ملکوں کو محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کیا۔ غزہ کے حالات کی وجہ سے مسلمان رائے عامہ میں درد وکرب کی ایک خاموش لہر دوڑ رہی ہے اس میں اگر کسی مسلمان ملک نے اسرائیل کی معمولی سی حمایت دکھائی تو رائے عامہ میں ایک بیزاری اور بیداری کی لہر پیدا ہونے کا امکان پوری طرح موجود تھا اسی لیے مسلمان حکمران اس جنگ میں حد درجہ محتاط رویہ اپنائے ہوئے نظر آئے۔ اسرائیل کو امریکا کے غیر متوقع ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اپنا ٹرمپ کارڈ لے آیا۔ اسرائیل کا ٹرمپ کارڈ جنگ میں امریکا کا کود پڑنا تھا۔ ا مریکا یہ جانتا ہے کہ خلیج میں ایران کے ساتھ دو اور شکاری پھندہ لگائے زمین پر ا س کا انتظارکر رہے ہیں۔ چند برس قبل صدر پیوٹن صدر شی جن پنگ اور ایرانی صدر حسن روحانی کی ایک تصویر سامنے آئی تھی جس میں وہ دوربین سے کچھ دیکھ رہے تھے۔ اس وقت خیال تھا کہ امریکا براہ راست غزہ میں آنا چاہتا ہے اور اس تصویر کو اسی تناظر میں لیا گیا تھا کہ تین شکاری گھات لگائے بیٹھے ہیں۔
ایران اسرائیل تنازع طوالت اختیار کرتا تو یہ تصویر عمل کی شکل میں سامنے آسکتی تھی۔ امریکا اسرائیل کی براہ راست مدد کو آتا تو ایران کے دوستوں کو بھی اس جنگ میں کودنے سے روکنا ممکن نہ رہتا۔ اس لیے امریکا نے ایران پر حملے کرنے کے ساتھ اپنی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کیا اور یوں امریکا نے اسرائیل کے مطالبے اور اصرار پر اتمام حجت کرلیا۔ ایران نے بھی امریکا کے اڈوں پر حملے کرکے حساب بے باق کر دیا۔ اسرائیل اس جنگ میں امریکا کو گھسیٹ کر اپنا ٹرمپ کارڈ کھیل بیٹھا مگر ایران کے پاس کئی کارڈ موجود تھے۔ ایران نے حماس حزب اللہ اور حوثیوں کو متحرک نہیں کیا۔ ایران نے صرف آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی جو اس کا سب سے اہم ٹرمپ کارڈ ہے۔ آبنائے ہرمز تجارت کی وہ عالمی گزرگاہ ہے جس کو بند کرنے کی صلاحیت اور طاقت ایران کے پاس ہے۔ یہ وہ بحری راستہ ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال عرب ملکوں کو تجارت کے لیے یورپ اور شمالی امریکا سے ملاتا ہے اور دنیا میں تیل کی بیس فی صد تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ ایران اس گزر گاہ کو بند کرکے دنیا میں ایک بڑا بحران پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس گزرگاہ کی بندش سے تیل کی پیداوار کے حامل اور اس کے خریدار سبھی ملک متاثر ہوسکتے ہیں۔ تیل کی قیمتیں بڑھ کر کئی معاشی بحرانوں کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایران اپنے اس پوٹینشل کو دوسروں کے قدموں میں پھینک کر خود کو عالمی اور علاقائی سیاست میں بے وقعت نہیں کرتا بلکہ وہ گاہے گاہے اس ہتھیار کو استعمال کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔ اس بار بھی ایران کی پارلیمنٹ نے اس ہتھیار کو استعمال کرنے کی منظوری دی تو دنیا میں خوف وخطرے کی ایک لہر دوڑ گئی اور یوں امریکا اور اسرائیل دونوں کو حالات نے اپنے عزائم منصوبوں اور ارادوں کی پوٹلی کاندھے پر اْٹھائے واپس لوٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔

متعلقہ مضامین

  • اجنبی جو قابض بنے
  • ٹرمپ کوئی معاہدہ چاہتے ہیں تو خامنہ ای کے لیے توہین آمیز لہجہ ترک کردیں‘ ایرانی وزیر خارجہ
  • وہ دن کب آئے گا؟
  • بھارت جارحیت کا مرتکب، ہماری خودمختاری کو چیلنج کیا تو نتائج کی ذمہ داری اس پر ہوگی، فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • ایران کا فیصلہ کن وار
  • ایران اسرائیل جنگ سے جنگ بندی تک
  • ’فائنڈنگ مائی وے‘: ملالہ یوسفزئی کی زندگی کا وہ پہلو جو آپ نہیں جانتے!
  • پی ٹی آئی خیبرپختونخوا  کا بحران شدید تر، صوبائی صدر جنید اکبر نے اپنی ہی پارٹی کے خلاف چارج شیٹ پیش کردی
  • ایرانی منصوبوں پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹائیں گے ،سربراہ موساد
  • اسٹیبلشمنٹ ہماری اپنی ہے، ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے میں کوئی شرم نہیں