پاکستان میں تمباکو نوشی کے 413 برانڈز دستیاب، 286 برانڈ کی غیر قانونی اسمگلنگ
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
پشاور:
پاکستان میں تمباکو نوشی کے 413 برانڈز مارکیٹ میں دستیاب ہیں 286 برانڈز بیرون ملک سے غیر قانونی طور پر اسمگل ہو رہے ہیں اور صرف 19 برانڈز حکومت کے قواعد کے مطابق رجسٹرڈ ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق انسٹی ٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ (IPOR) نے پاکستان بھر میں غیر قانونی سگریٹ کے تیزی سے پھیلاؤ پر اپنی تحقیقی رپورٹ جاری کر دی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں ٹیکس چوری اور اسمگل شدہ سگریٹ کھلے عام فروخت ہو رہے ہیں۔
یہ رپورٹ آج پشاور میں IPOR کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر طارق جنید نے باقاعدہ طور پر جاری کی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی مارکیٹ میں دستیاب 54 فیصد سے زائد سگریٹ برانڈز مقامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ان قوانین میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم (TTS) اور لازمی گرافیکل ہیلتھ وارننگز (GHWs) شامل ہیں۔
مطالعہ کے دوران ملک کے 19 اضلاع میں 1,520 ریٹیل آؤٹ لیٹس کا سروے کیا گیا جس میں مجموعی طور پر 413 سگریٹ برانڈز کی نشاندہی کی گئی۔ حیران کن طور پر صرف 19 برانڈز ہی مکمل طور پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم سے مطابقت رکھتے پائے گئے، جبکہ 286 برانڈز پر نہ ٹیکس اسٹیمپ موجود تھے اور نہ ہی صحت سے متعلق گرافیکل ہیلتھ وارننگ تصاویر پائی گئیں۔
طارق جنید نے کہا 2009ء میں گرافیکل ہیلتھ وارننگز اور 2022ء میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ کے باوجود عمل درآمد نہایت کم سطح پر ہے جو کہ فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیر قانونی برانڈز میں سے 45 فیصد بیرون ملک سے اسمگل شدہ ہیں جبکہ 55 فیصد برانڈز مقامی سطح پر بغیر ٹیکس کی ادائیگی کے تیار کیے جا رہے ہیں۔ مزید برآں، 332 برانڈز قانونی کم از کم قیمت 162.
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں میں قانون پر عمل درآمد نہایت کمزور ہے، جہاں عدم تعمیل کی شرح 58 فیصد ہے، جبکہ شہری علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔ اس سے دیہی علاقوں میں خصوصی توجہ اور سخت نگرانی کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔
طارق جنید نے مزید کہا کہ دکان داروں میں غیر قانونی سگریٹ فروخت کرنے کا کوئی خوف نظر نہیں آتا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ دکانوں پر سخت چیکنگ کا نظام نافذ کرے اور غیر قانونی کاروبار کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائے۔
IPOR نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قانون کے نفاذ کو ترجیح دیں، ریگولیٹری نظام کو مضبوط بنائیں اور قومی آمدن کے نقصان کو روکنے کے لیے غیر قانونی سگریٹوں کے کاروبار پر قابو پائیں تاکہ کاروباری اداروں کے لیے مساوی مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
ایف بی آر کو تمباکو سے سالانہ 300 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوتا ہے تاہم ایف بی آر کے پاس چھاپوں کے لیے مکمل سہولیات موجود نہیں، تمام برانڈز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز دی گئی ہے جس کا مقصد غیر قانونی برانڈز کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
لگژری گاڑیوں پر کم ٹیکس ، ایف بی آر کا مؤقف سامنے آگیا
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سوشل میڈیا پر لگژری گاڑیوں پر مبینہ کم ٹیکس وصولی کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ان خبروں کو “بے بنیاد پراپیگنڈا” قرار دیا ہے۔
ایف بی آر حکام کے مطابق سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ **2023 ماڈل کی ایک ٹویوٹا لینڈ کروزر صرف 17,635 روپے ٹیکس پر کلیئر** کی گئی، جو حقائق کے منافی ہے۔
حقیقت کیا ہے؟
مذکورہ لینڈ کروزر کی اصل قیمت 10 کروڑ 50 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔
اس پر مجموعی طور پر 4 کروڑ 72 لاکھ روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ کسٹمز حکام نے ہر گاڑی کی اصل قیمت کا درست تعین کیا** اور کسی قسم کی مالی بے ضابطگی نہیں ہوئی۔ ایف بی آر کے مطابق، قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ یہ منفی مہم دراصل **”فیس لیس کسٹمز” سسٹم کو متنازع بنانے کی کوشش ہے، جو کہ درآمدی عمل کو **زیادہ شفاف، منظم اور انسانی مداخلت سے پاک بنانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ ادارہ ان عناصر کے خلاف **سائبر کرائم قوانین کے تحت کارروائی پر غور کر رہا ہے**، جو جھوٹی معلومات پھیلا کر عوام کو گمراہ اور ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔