ناٹ نریندر مودی بٹ سرینڈر مودی
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
نریندر مودی کی تقریر ایک ابنارمل اور ہارے ہوئے جواری کی تقریر تھی، مودی نے براہ راست پاکستانی فوج کو دہشت گردی کے لئے کھاد پانی دینے کی ذمہ دار قرار دیا۔ مودی کی تقریر میں نیو نارمل کے تین نکات یہ ہیں کہ 1۔ دہشت گردی ہو گی تو کارروائی کریں گے،2۔ نیوکلیئر بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے،3۔ آتنک کی سرپرست سرکار اور آتنک کے واقعات الگ الگ نہیں دیکھیں گے،مودی نے اپنی تقریر میں پھر کہا کہ تجارت اور دہشت گردی ساتھ نہیں چلے گی،پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، مودی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر پاکستان سے بات ہوگی تو دہشت گردی پر ہوگی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (یعنی آزاد کشمیر)پر ہی بات ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ایوان اقتدار میں بھی نریندر مودی کے ان زہریلے خیالات کا عملی توڑ کرنے کے لئے کچھ غور و فکر کیا جا رہا ہے؟ یا ابھی تک ایوان اقتدار میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے،سوال یہ بھی ہے کہ مودی مردودی کے نزدیک ’’اتنک‘‘کی اصل تعریف ہے کیا؟ کیا کشمیر کی آزادی کی بات کرنا یا کشمیر کے ایک کروڑ سے زائد مسلمان جو بھارتی غلامی کی زنجیریں کاٹنا چاہتے ہیں کیا یہ ’’اتنک‘‘ ہے، اگر یہ اتنک یعنی دہشت گردی ہے تو پھرآزادی کس بلاکا نام ہے؟
سرینڈر مودی بوکھلائے ہوئے انداز میں کہتا ہے کہ ہم نے پاکستان میں آتنکیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا اور سو آتنکی مارے،اس سٹھیائے ہوئے بدبودار ہندو بڈھے سے کوئی پوچھے کہ بہاولپور کی مسجد سبحان اللہ میں جن معصوم بچوں اور خواتین کو تم نے شہید کیا، کیا وہ معصوم بچے اور خواتین دہشت گرد تھیں؟ امیرالمجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر کے خاندان کے معصوم بچوں اور عورتوں کو شہید کر کے انہیں دہشت گرد قرار دینا اور اس پر مستزاد یہ کہ ان مظلوموں کی شہادتوں کے بعد دہلی میں جشن منانا کیا یہ اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ سرینڈر مودی مولانا محمد مسعود ازہر دشمنی میں نیم پاگل ہو چکا ہے،مولانا محمد مسعود ازہر کشمیر کے ایک کروڑ سے زائد مسلمانوں کی حق خود ارادیت کی بات کرتے ہیں ،وہ صرف باتوں تک ہی محدود نہیں رہتے، بلکہ اس سے کئی قدم آگے بڑھ کر وہ کشمیر کی آزادی کے لئے مصروف مجاہدین کو لیڈ اور ان کی سرپرستی کرتے ہیں ،سرینڈرمودی نے مقبوضہ کشمیر میں نو لاکھ بھارتی فوجی گھسائے ہوئے ہیں، اگر نو لاکھ سے زائد بھارتی سیکورٹی اداروں کے اہلکار کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو نہیں روک سکتے تو اس میں مولانا مسعود ازہر یا حافظ سعید کا کیا قصور ہے ؟ سرینڈر مودی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بزدلی کے بدلے میں اگر مولانا مسعود ازہر کے خاندان کے معصوم بچوں اور عورتوں کو شہید کر کے انہیں دہشت گرد تسلیم کروانا چاہتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے ،سرینڈر مودی ڈرے اس دن سے کہ اگر مولانا ازہر کے ہندوستانی مجاہدین نے دہلی اور بمبئی میں بے رحمانہ آپریشن شروع کر دیا تو ہندو مائیں بچے جنم دینا چھوڑ دیں گی۔
جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ہمیشہ کی طرح اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے بجا طور پر درست فرمایا کہ ’’ناٹ نریندر مودی بٹ سرینڈر مودی‘‘ مولانا فضل الرحمن مدبرانہ سیاست کے سرخیل ہیں،ان کی باتیں ہوائی نہیں، بلکہ بڑی گہرائی والی ہوتی ہیں،مودی مردودی کا سرینڈر ہونا تو ثابت ہو چکا،مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر مسلط کی گئی اس جنگ سے کشمیر کا مسئلہ اجاگر ہو گیا ہے۔ پوری قوم نے یکجہتی کا پیغام دیا کہ ہم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، وطن پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ اب جب بھی پاک بھارت مذاکرات ہوں گے کشمیر نظر انداز نہیں ہو سکتا۔ جنگ میں شکست نے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ مغربی ٹیکنالوجی ناکام ہو گئی، ایشین صلاحیتیں کامیاب ہو گئیں۔ امریکا کو احساس ہوا ہے کہ ان کا رویہ پاکستان کے ساتھ درست نہیں ہے۔
سرینڈر مودی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم انسانوں کو تمہاری ظالم فوج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ،کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قائداعظم محمد علی جناح ؒنے قرار دیا تھا اور کشمیری مسلمانوں کے گرد لپٹی ہوئی غلامی کی زنجیروں کو کاٹنا ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے، کشمیر ، مریدکے اور بہاولپور پر سرینڈر مودی کے دہشت گردانہ حملوں کا نقد نتیجہ!پاکستان کے 24کروڑ عوام مولانا محمد مسعود ازہر کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں،جبکہ سرینڈر مودی پر چاروں طرف سے لعنتیں برس رہی ہیں اور وہ دہلی میں بھی تنہا،تنہا نظر آ رہا ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے کہ جب انسان فر عون کی طرح معصوم بچوں کا بھی قاتل بن جائے ، میں پیارے زبیر طیب کو آج سے نہیں سالوں سے جانتا ہوں ،انتہائی شریف النفس ،محب وطن پاکستانی ،بڑوں کا احترام کرنے والا انتہا درجے کا مہمان نواز بڈھے خبیث سرینڈر مودی نے مسجد سبحان اللہ میں زبیر طیب کے تین معصوم بچوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیئے ہائے اللہ جی!گر ان معصوم شہیدوں کو بھی ہم دہشت گرد تسلیم کرلیں تو دھرتی پرہم سے بڑا ظالم کون ہو گا؟سر ینڈر مودی ہمارے ان معصوم شہیدوں کو دہشت گرد کہتا ہے، اس پھٹکارے ہوئے بڈھے قاتل خبیث کو کوئی بتائے کہ جب انتقام کی بجلیاں کڑکیں گی تو پھر پاک فوج کے شاہین ہوں یا مولانا مسعود ازہر کے کشمیری جانباز نریندر مودیوں کی گنگا جمنا برابر کر دیں گے۔
تم نے ہر دور میں انسانوں کے سر بوئے ہیں
اب زمیں خون اگلتی ہے تو شکوہ کیسا؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مولانا محمد مسعود ازہر مسعود ازہر کے پاکستان کے معصوم بچوں
پڑھیں:
پریس کلب پر پولیس کا دھاوا قابلِ مذمت ہے، صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں،مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پولیس گردی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں صحافی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ “پریس کلب میں جو کچھ ہوا، وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ صحافیوں پر پولیس تشدد کسی طور پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔”
انہوں نے کہا کہ صحافی پرامن اور باشعور لوگ ہیں، جو اپنا دائرہ کار جانتے ہیں۔ “نیشنل پریس کلب ایک مقدس جگہ ہے، اور وہاں موجود صحافی میدان میں نہیں بلکہ اپنی حدود میں موجود تھے۔ ان کے خلاف کسی قسم کی شکایت کا کوئی جواز نہیں تھا، اور نہ ہی انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا۔”
صحافیوں پر تشدد کا کوئی جواز نہیں بنتا
مولانا فضل الرحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام آباد پولیس کا صحافیوں کو مارنا پیٹنا، ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا، اور املاک کو نقصان پہنچانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ “صحافیوں کا احتجاج ان کا آئینی و جمہوری حق ہے، ہم ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
واقعے کی تفصیلات: پریس کلب کی حرمت پامال
یاد رہے کہ 2 اکتوبر کو آزاد کشمیر میں تشدد کے خلاف چند مظاہرین نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو کچھ مظاہرین عمارت کے اندر چلے گئے، جس کے تعاقب میں پولیس اہلکار زبردستی پریس کلب کے اندر داخل ہو گئے۔
اس دوران پولیس نے نہ صرف مظاہرین کو گرفتار کیا بلکہ وہاں موجود صحافیوں، فوٹوگرافروں اور کلب کے عملے پر بھی تشدد کیا۔ اطلاعات کے مطابق ایک فوٹوگرافر کا کیمرا توڑ دیا گیا، جبکہ کیفے ٹیریا میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔
صحافتی اداروں کا شدید ردعمل
اس واقعے پر ملک کی بڑی صحافتی تنظیمیں بھی خاموش نہیں رہیں۔ کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (CPNE)، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (AEMEND) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) نے مشترکہ بیان میں اسلام آباد پولیس کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔