ایران تمام پابندیوں کے خاتمے کی شرط پر جوہری پروگرام ہمیشہ کیلئے روکنے پر رضامند
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
ایران تمام پابندیوں کے خاتمے کی شرط پر جوہری پروگرام ہمیشہ کیلئے روکنے پر رضامند WhatsAppFacebookTwitter 0 15 May, 2025 سب نیوز
ایران کے اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ امریکا ایران پر عائد کی گئی تمام اقتصادی پابندیاں ختم کردے تو تہران اپنے ایٹمی پروگرام کو ہمیشہ کے لیے روکنے سمیت متعدد امور پر اتفاق رائے کے لیے تیار ہے۔
اسکائی نیوز کے امریکی شراکت دار این بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے اعلیٰ سیاسی، فوجی اور جوہری امور کے مشیر علی شمخانی نے یہ انٹرویو ایسے موقع پر دیا ہے، جب ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، اور انہوں نے قطر سے ایران کو جوہری پروگرام سے دستبردار کرنے کے لیے قائل کرنے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی نے اسکائی نیوز کے امریکی شراکت دار این بی سی نیوز سے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ تہران جوہری ہتھیار کبھی نہ بنانے پر رضامند ہے، جوہری ہتھیار بنانے کے قابل انتہائی افزودہ یورینیم کے ذخائر کو ختم کرنے، صرف شہری استعمال کے لیے درکار کم سطح پر یورینیم کی افزودگی پر متفق ہونے اور بین الاقوامی معائنہ کاروں کو اس عمل کی نگرانی کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے، تاہم یہ سب اس وقت ممکن ہے کہ کہ ایران پر عائد تمام اقتصادی پابندیاں فوری طور پر اٹھائی جائیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ اگر ان شرائط کو پورا کیا جائے تو کیا ایران آج ایک معاہدے پر دستخط کرد ے گا؟
علی شمخانی نے این بی سی کو بتایا ’جی ہاں‘ ۔
ان کا تبصرہ اس بات کی سب سے واضح نشانی ہے کہ ایران ایک معاہدے سے کیا توقعات رکھتا ہے، اور معاہدہ کرنے کے لیے کتنا تیار ہے۔
علی شمخانی نے کہا کہ یہ اب بھی ممکن ہے، اگر امریکی اپنی باتوں پر عمل کریں تو یقیناً ہم بہتر تعلقات استوار کر سکتے ہیں، تاہم انہوں نے امریکی صدر کی جانب سے مسلسل دھمکیوں پر مایوسی کا اظہار کیا، اور کہا کہ اس طرح کا رویہ ’کانٹے کی تاریں‘ ہیں، جن سے زیتون جیسی شاخ کی امید نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اس معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں 3 ممالک کے اپنے دورے کے دوران دوسرے ملک قطر میں موجودگی کے دوران صدر ٹرمپ نے قطر سے مدد کی درخواست کی، انہوں نے کہا کہ قطر ایران پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ اس کی قیادت کو امریکا کے ساتھ معاہدہ کرنے پر راضی کر سکے اور اس کے تیزی سے ترقی پذیر جوہری پروگرام کو کم کر سکے۔
ٹرمپ نے یہ تبصرہ ایک عشائیے کے دوران دیا، انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ قطر ایران کے معاملے میں میری مدد کر سکے گا، یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، اور ہم صحیح کام کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ حالیہ سالوں کے دوران، قطر نے امریکا اور ایران اور اس کی تنظیموں کے درمیان ایک ثالث کا کردار ادا کیا ہے، جس میں حماس کے ساتھ مذاکرات بھی شامل ہیں۔
ٹرمپ نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں کہا تھا کہ وہ ’ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، تاہم معاہدے کے حصے کے طور پر، ایران کو مشرق وسطیٰ میں تمام پراکسی گروپوں کی حمایت ختم کرنا ہوگی۔
قبل ازیں گزشتہ روز امریکا نے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ نے کہا کہ امریکا نے تاز پابندیاں ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائلوں کے اجزا کی مقامی سطح پر تیاری کی کوششوں کو نشانہ بنانے کے لیے عائد کی ہیں۔
یہ پابندیاں 6 افراد اور 12 اداروں پر عائد کی گئی ہیں، جن کے بارے میں امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ وہ ایرانی حکومت کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے درکار اہم مواد کی تیاری میں مدد فراہم کرنے کی کوششوں میں ملوث ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کا دعویٰ ہے کہ جن افراد یا اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، وہ ایران اور چین سے تعلق رکھتے ہیں، پاسداران انقلاب کی ذیلی تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں، اور بین الاقوامی بیلسٹک میزائلوں کے لیے درکار کاربن فائبر مواد کی ترقی کی کوششوں کی نگرانی کرتے ہیں۔
یہ تازہ ترین پابندیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں ایران کے خلاف اپنے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ ایران پر پابندیاں عائد کر رہی ہے، جب کہ واشنگٹن اور تہران نے جوہری پروگرام پر بات چیت بھی کی ہے۔
ایران نے منگل کو کہا تھا کہ امریکا کے ساتھ حالیہ بات چیت کا دور ثمرآور رہا، لیکن واشنگٹن کی طرف سے مزید پابندیوں کا عائد کرنا مذاکرات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔
اس سے قبل امریکی محکمہ خزانہ نے 20 سے زائد کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم کی کسانوں کو آسان شرائط پر قرض فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت وزیراعظم کی کسانوں کو آسان شرائط پر قرض فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت پاکستان سے شکست کا غصہ، بھارتی سیاحوں نے ترکی اور آزربائیجان کو نشانے پر رکھ لیا پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کا تیسرا رابطہ، جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق چین نے بھارت کے زیر تسلط ارونا چل پردیش کو زنگ نان کا نام دیدیا غزہ میں قیامت! اسرائیلی بمباری سے 80 شہید، اسپتال لاشوں سے بھر گئے زمین کے بدلے پلاٹ لینے والوں پر ڈیویلپمنٹ چارجز لاگو نہیں ہوں گے، سی ڈی اے بورڈ کا فیصلہ، نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جوہری پروگرام
پڑھیں:
امریکہ ایک جانب مذاکرات اور دوسری جانب پابندیاں عائد کرتا ہے، علی لاریجانی
اهل بیت (ع) انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ایک خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم انقلاب کے مشیر کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ و اسرائیل نے اپنی تسلط پسندانہ پالیسی کو ترک نہ کیا تو انہیں بھاری قیمت چکانا ہو گی۔ اسلام ٹائمز۔ رہبر معظم انقلاب کے مشیر "علی لاریجانی" نے کہا کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کا نمایاں چہرہ شہید "اسماعیل ھنیہ" کی ٹارگٹ کلنگ، مسئلہ فلسطین میں متاثر کُن کردار ادا کرنے والی عظیم شخصیات کی شہادت، پیجر دھماکوں اور صیہونی بمباری میں شہید ہونے والے حزب الله کے متعدد کمانڈرز بالخصوص شہید "سید حسن نصر الله" کی شہادت مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ تھی۔ اسی طرح ایرانی صدر و وزیر خارجہ کی ہیلی کاپٹر حادثے میں اپنے رفقاء کے ہمراہ شہادت ایرانیوں کے لئے ایک بڑا نقصان تھا۔ جس بناء پر گزرنے والے ڈیڑھ سال کو ایرانیوں اور مسلمانوں کے لئے حادثوں کا سال کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار اهل بیت (ع) انٹرنیشنل یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں کیا۔ اس موقع پر علی لاریجانی نے کہا کہ سیاسی، عسکری اور سیکورٹی محاذوں پر صیہونی رژیم و امریکہ کی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عسکری مہم جوئی و یمن کے ساتھ تصادم گزشتہ ڈیڑھ سال کے نمایاں واقعات میں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام و خطے میں موجود استقامتی فورسز کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود ثابت کیا کہ وہ جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں اور ایک عظیم اثاثہ ہے۔
فلسطین کی صورت حال پر علی لاریجانی نے کہا کہ اسرائیل کب سے کہہ رہا ہے کہ اس نے "حماس" کو ختم کر دیا۔ لیکن کیا حماس واقعی ختم ہو گئی؟۔ نہیں۔ شاید حماس کو نقصان پہنچا ہو لیکن وہ ختم نہیں ہوئی۔ کیونکہ استقامتی محاذ اُس جذبے کا نتیجہ ہے جو رواں برسوں میں مسلمانوں کی نئی نسل میں ابھرا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کی وجہ ایران نہیں بلکہ یہ تاریخی مسئلہ ہے۔ امریکہ و اسرائیل کے دباو کے نتیجے میں فلسطینی عوام مقاومت کرنے پر مجبور ہوئے۔ البتہ ہمیں افتخار ہے کہ ہم فلسطینی عوام کی حمایت کرتے ہیں۔ علی لاریجانی نے کہا کہ یہی مشکل لبنان کے ساتھ ہے کہ جہاں مغرب کا کہنا ہے کہ "حزب الله" کو ایران نے بنایا۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ جب اسرائیل نے بیروت پر قبضہ کیا تو اس کے نتیجے میں حزب الله وجود میں آئی۔ یہاں بھی ہمیں فخر ہے کہ ہم لبنان کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکہ و اسرائیل اپنے ہاتھوں سے ایسی صورت حال ایجاد کرتے ہیں کہ علاقائی عوام ان کے سامنے مقاومت کرے۔ خطے میں مقاومت، ان دونوں شیاطین کی رفتار کی وجہ سے سامنے آئی۔ یہ طاقت کے بل بوتے پر مشرق وسطیٰ میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنچا سکتے۔ اگر امریکہ و اسرائیل نے اپنی تسلط پسندانہ پالیسی کو ترک نہ کیا تو انہیں بھاری قیمت چکانا ہو گی۔
علی لاریجانی نے امریکہ و اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم نے غزہ پر شدید دباو ڈالا۔ 50 ہزار سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لیکن تم پھر بھی مقاومت اور حماس کو ختم نہ کر سکے۔ یہ کہنے میں کوئی ممانعت نہیں کہ انہوں نے اپنے مصنوعی فائدے کے لیے مزاحمت کو نقصان پہنچایا۔ لیکن جب تک خطے کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا رہے گا، مزاحمت باقی رہے گی۔ ایران اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی کے حوالے سے علی لاریجانی نے کہا کہ امریکہ ایک جانب مذاکرات کر رہا ہے تو دوسری جانب ہم پر اقتصادی دباو بھی بڑھا رہا ہے۔ ہمارے جوہری پروگرام کے سلسلے میں امریکہ کا کردار نہایت مشکوک ہے۔ وہ ہر روز ایک نئی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ملک IAEA رکن بھی ہو اور NPT معاہدے کو بھی قبول کرے۔ اس کے بعد یہ بھی کہے کہ آپ کو جوہری صنعت رکھنے کا کوئی اختیار نہیں۔ آپ کس وجہ سے ایسا کہتے ہو؟۔ انہوں نے کہا کہ مغرب سمجھتا ہے کہ ایران ایسی جگہ پہنچ چکا ہے جہاں اسے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اقتصادی طور پر ایران کی صورت حال اچھی نہیں۔ لہٰذا انہیں ایران پر دباؤ بڑھانا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اقتصادی مسائل کا سامنا ہے تاہم ان میں سے زیادہ تر مشکلات کا تعلق ہم پر لگنے والی پابندیوں سے ہے۔