بھارت، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے، جب کشمیر کی بات آتی ہے تو اس کے طرزِ عمل میں جمہوری اقدار کے بجائے آمریت، جبر اور خوف کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔

کشمیری عوام گزشتہ پچھتر برسوں سے آزادی اور حقِ خودارادیت کی جدوجہد میں مصروف ہیں، مگر بھارت ہر سطح پر ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دباؤ اور تشویش کی کئی وجوہات ہیں جن میں کشمیر کی ممکنہ خودمختاری، اور کسی تیسری عالمی طاقت جیسے اقوامِ متحدہ، او آئی سی، چین یا امریکا کی ثالثی بھارت کےلیے سب سے بڑے خطرات تصور کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر نئی دہلی ان دونوں امور سے اس قدر خائف کیوں ہے؟

جب دہلی کے حکومتی ایوانوں میں کبھی بھی ’’کشمیر‘‘ اور ’’تیسری عالمی قوت کی ثالثی‘‘ کا ذکر ہوتا ہے تو ایک غیر معمولی بے چینی محسوس کی جاتی ہے۔ عالمی سفارتی حلقے اور تجزیہ نگار اس سوال پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ بھارت کا کشمیر کو اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ کہنا تاریخی، قانونی اور اخلاقی بنیادوں پر ایک کمزور دعویٰ ہے۔

اقوامِ متحدہ کی قراردادیں واضح طور پر کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیتی ہیں، اور خود بھارت نے ان قراردادوں کو ابتدا میں تسلیم کیا تھا، لیکن بعد ازاں وہ اپنے وعدوں سے انحراف کرگیا۔ آج تک کشمیریوں کو استصوابِ رائے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا کیونکہ بھارت جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ اس کےلیے ایک سیاسی، اخلاقی اور نظریاتی شکست کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔

کشمیر کی آزادی صرف ایک جغرافیائی تنازع نہیں بلکہ ایک خطرناک نظیر بھی ہوسکتی ہے، جو بھارت کے دیگر علیحدگی پسند خطوں کےلیے ایک مثال قائم کرے گی۔ پنجاب میں سکھ برادری آج بھی خالصتان کے قیام کےلیے ذہنی طور پر تیار نظر آتی ہے۔ 1984 کے بعد سے خالصتان تحریک میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور سکھ قوم پرستوں کے دلوں میں یہ تحریک ابھی زندہ ہے۔ اگر کشمیر کو آزادی ملتی ہے یا عالمی سطح پر کشمیریوں کی خواہشات کو تسلیم کیا جاتا ہے تو یہ سکھوں کےلیے ایک حوصلہ افزا پیغام بن سکتا ہے۔ اسی طرح شمال مشرقی بھارت کی کئی ریاستیں جیسے آسام، ناگا لینڈ، منی پور اور تریپورہ نسلی، ثقافتی اور مذہبی طور پر مرکزی بھارت سے خود کو مختلف تصور کرتی ہیں۔ ان خطوں میں درجنوں علیحدگی پسند گروہ سرگرم عمل ہیں جو بھارت کو نوآبادیاتی طاقت سمجھتے ہیں۔ کشمیر میں ہونے والی کسی بھی سیاسی پیش رفت کو وہ اپنے حقِ خود ارادیت کی دلیل کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

بھارت کا ایک اور بڑا خدشہ یہ ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ، او آئی سی یا دیگر عالمی طاقتیں کشمیر میں ثالثی کےلیے متحرک ہوگئیں، تو بین الاقوامی برادری کو کشمیری عوام کے اصل جذبات اور بھارت کی طرف سے ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں پوری شدت سے دکھائی دیں گی۔ بھارت اس سفارتی دباؤ سے خائف ہے کیونکہ ایک غیر جانب دار عالمی فورم کا فیصلہ اس کے اس بیانیے کو جھٹلا سکتا ہے کہ کشمیر اس کا داخلی معاملہ ہے۔

کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری طور پر محصور علاقہ ہے، جہاں تقریباً نو لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر دس کشمیریوں پر ایک سے زائد فوجی متعین ہے۔ وادی میں روزانہ درجنوں گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں، اور 2019 سے 2024 کے دوران تین ہزار سے زائد کشمیری نوجوان ماورائے عدالت قتل کیے جاچکے ہیں۔ ایسی صورت حال کسی بھی جمہوری ریاست کےلیے باعثِ شرم ہونی چاہیے۔

معاشی و سماجی طور پر بھی کشمیر شدید بحران کا شکار ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق صرف 2019 سے 2024 کے دوران وادی کو 25 ارب روپے سے زائد کا معاشی نقصان ہوا ہے۔ سیاحت، قالین سازی، زراعت اور دستکاری جیسی صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ تعلیمی ادارے سال میں تقریباً 180 دن بند رہتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا عمل شدید متاثر ہوا ہے۔ 2021 میں یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق وادی کے 60 فیصد بچے کسی نہ کسی ذہنی دباؤ یا نفسیاتی پریشانی میں مبتلا ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر اگرچہ زبانی حمایت تو دیکھنے کو ملتی ہے، مگر عملی اقدامات ناکافی ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے 2018 اور 2019 میں کشمیر پر دو بڑی رپورٹیں جاری کیں، جن میں بھارتی فوج کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیمیں متعدد بار بھارتی پالیسیوں پر تنقید کر چکی ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ نے بھی 2020 میں ایک قرار داد میں بھارت سے کشمیر میں انٹرنیٹ بحال کرنے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم بھارت نے ان تمام مطالبات کو رد کر کے کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو مسلسل پامال کیا ہے۔

کشمیری عوام کو نہ صرف ان کی سیاسی خودمختاری سے محروم رکھا گیا ہے، بلکہ ان کی آواز کو دبانے کے لیے فوجی طاقت، میڈیا پر سنسرشپ اور عالمی سفارتی چالاکی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اب محض ایک علاقائی تنازع نہیں رہا، بلکہ یہ ایک انسانی، اخلاقی اور عالمی مسئلہ بن چکا ہے، جس پر عالمی برادری کو کھل کر اور نڈر ہو کر بات کرنی ہوگی۔

حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد امریکی صدر نے ایک بار پھر کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کی ہے ، اور کہا اس کا حل صرف بات چیت ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان نے پاکستان کے دیرینہ مؤقف کو عالمی سطح پر مزید تقویت دی ہے، کیونکہ پاکستان ہمیشہ سے کہتا آیا ہے کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے اور اس کا مستقبل کشمیریوں کی مرضی سے ہی طے ہونا چاہیے، نہ کہ کسی فوجی یا جغرافیائی جبر کے ذریعے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم اور دفترِ خارجہ نے اس بیان کا خیرمقدم کیا تاکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو سکے۔

اس تناظر میں ضروری ہے کہ اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے مضبوط میکنزم بنائے، اور امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتیں بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ کشمیریوں کو ان کا جمہوری حق دے۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ سفارتی سطح پر اپنے بیانیے کو مزید مؤثر بنائے اور عالمی میڈیا، تھنک ٹینکس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کشمیر کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کرے۔ اگر عالمی برادری نے اس موقع کو ضائع کیا تو جنوبی ایشیا ایک اور بڑے انسانی المیے کی طرف بڑھ سکتا ہے، جس کے اثرات صرف پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ پوری دنیا کو متاثر کریں گے۔

اگر عالمی ضمیر نے اب بھی خاموشی اختیار کیے رکھی، تو کشمیر صرف ایک انسانی المیہ ہی نہیں، ایک اخلاقی ناکامی کا استعارہ بن جائے گا۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کشمیری عوام کشمیر کی

پڑھیں:

سندھ طاس معاہدہ ثالثی عدالت کے فیصلے کے بعد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سندھ طاس معاہدے کا خاتمہ بھارت کی دیرینہ خواہش ہی نہیں بلکہ اس کے قومی اہداف کا حصہ رہا ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھارت ا س معاہدے کے ساتھ وہی رویہ اپنا رہا ہے جو وہ اقوام متحدہ کے ایوانوں اور فائلوں میں موجود مسئلہ کشمیر کے ساتھ اپنائے ہوئے ہے، بھارت طاقت اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل کو یک طرفہ طور پر اپنے انداز سے اور اپنے نکتہ نظر کے تحت حل کرنے کی راہ پر چل رہا ہے۔ کشمیر ایک بین الاقوامی مسلمہ مسئلہ تھا مگر بھارت نے اس کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرنے والے بین الاقوامی فیصلوں اور زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر کی حیثیت اور حقیقت کو تبدیل کرنا شروع کیا جس کا اختتام پانچ اگست 2019 کے انتہائی اور یک طرفہ فیصلہ پر ہوا۔ یوں بھارت نے نہ تو عالمی قوانین اور فیصلوں کا خیال رکھا اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ہونے والے دو طرفہ معاہدوں کو اہمیت دی۔ بھارت اس وقت پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات کو یک طرفہ طور پر بلڈوز کرنے کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔ مسئلہ کشمیر کی متنازع حیثیت کے خاتمے کے بعد اب بھارت کا دوسرا ہدف ایک بین الاقوامی تسلیم شدہ سندھ طاس معاہدے کا یک طرفہ خاتمہ ہے۔ پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کو ہیگ میں قائم کورٹ آف آربٹریشن یعنی ثالثی عدالت میں چیلنج کیا۔ ایک تنازعے کو حل کرنے کا یہی قانونی اور اخلاقی راستہ تھا اور ثالثی عدالت نے سندھ طاس معاہدے پر اپنے ایک فیصلے میں واضح کیا کہ بھارت اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ اپنے فیصلے میں ثالثی عدالت نے کہا کہ بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کرنے کا اقدام عدالت کی قانونی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔
ستمبر 1960 میں انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد وادی سندھ کے دریاؤں کے پانی کو دونوں ممالک کے درمیان منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنا تھا۔ تب سے آج تک دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 65 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔ رواں برس اپریل میں بھارت نے پہل گام حملے کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آربٹریشن کورٹ کے حالیہ فیصلے کا جہاں پاکستان نے خیر مقدم کیا ہے وہیں انڈیا نے اسے مسترد کیا ہے۔ عدالت کے مطابق سندھ طاس معاہدے میں اسے معطل کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ثالثی عدالت کے فیصلے میں کیا کہا گیا ہے کہ کسی ایک فریق کی جانب سے ثالثی کی کارروائی شروع ہونے کے بعد لیا گیا یک طرفہ فیصلہ عدالت کے دائرہ اختیار کو متاثر نہیں کرتا۔ کورٹ آف آربٹریشن کا کہنا ہے کہ بھارت کا یہ اقدام ’عدالت کی خود مختاری یا دائرہ اختیار کو محدود نہیں کر سکتا۔ عدالت نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدے میں اسے ’معطل کرنے کی کوئی شق موجود نہیں اور نہ ہی کوئی فریق یک طرفہ طور پر تنازعات کو حل کیے جانے کے عمل کو روک سکتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ گو کہ انڈیا اس معاہدے کو ’معطل‘ قرار دے رہا ہے تاہم عدالت کی ذمے داری ہے کہ وہ ثالثی کی کارروائیوں کو بروقت، موثر اور منصفانہ طریقے سے آگے بڑھائے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں اس فیصلے کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ ثالثی عدالت کو غیر قانونی اور نام نہاد کورٹ آف آربٹریشن قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا کہ اس عدالت نے انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں سے متعلق ایک ’اضافی ایوارڈ‘ جاری کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ’انڈیا نے کبھی بھی اس نام نہاد ثالثی عدالت کے وجود کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمارا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس نام نہاد ثالثی ادارے کی تشکیل بذات خود سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ بیان کے مطابق ’اس کے نتیجے میں اس فورم کے سامنے کوئی بھی کارروائی اور اس کی جانب سے لیا گیا کوئی بھی فیصلہ غیر قانونی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ’پہل گام حملے کے بعد انڈیا نے بین الاقوامی قانون کے تحت ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو اس وقت تک معطل کیا ہے جب تک کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا اور اس وقت تک انڈیا اس معاہدے کے تحت اپنی کوئی ذمے داری نبھانے کا پابند نہیں رہے گا۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ضمنی ایوارڈ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالتی فیصلے سے پاکستانی بیانیہ کو تقویت ملی ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا اور ’پانی ہماری لائف لائن ہے۔ اس فیصلے کا انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے کیا مطلب ہے؟ انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر مکمل جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان
دریاؤں کے 80 فی صد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ انڈیا کو مغربی دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا۔ اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کے منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔ معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کسی متنازع منصوبے کے حل کے لیے بھی کام کرتا ہے تاہم اگر کمیشن مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا تو معاہدے کے مطابق حکومتیں اسے حل کرنے کی کوشش کریں گی۔ اس کے علاوہ، معاہدے میں ماہرین کی مدد لینے یا تنازعات کا حل تلاش کرنے کے لیے ثالثی عدالت میں جانے کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔ یوں عملی طور پر بھارت سندھ طاس معاہدے کی بحالی کے موڈ میں نظر نہیں آرہا اور وہ اس معاملے پر بھی مسئلہ کشمیر والی ہٹ دھرمانہ پالیسی اپناتا ہوا نظر آتا ہے۔ بھارت کا یہ رویہ اس لحاظ سے جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے خطرہ بن رہا ہے کہ بھارت آہستہ روی کے ساتھ پاکستان کے حصوں کے پانی کا رخ موڑنے کی حکمت عملی اپنا رہا ہے۔ دریائے سندھ کا پانی ایک نہر کھود کر راجستھان کی طرف موڑنے کا اعلان بھی حال ہی میں سامنے آیا ہے۔ یہ پاکستان کو ویران اور بنجر بنانے اور اس کے باشندوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے ذریعے زندہ در گور کرنے کا غیر انسانی فیصلہ اور راستہ ہے۔ پاکستان اس فیصلے اور کوشش کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا۔ یوں یہ فیصلہ اپنے اندر تباہ کن خطرات اور مضمرات لیے ہوئے ہے۔ بھارت عالمی ادارے کے فیصلے کو برسرعام تسلیم نہ کرتے ہوئے امن اور استحکام کے لیے خطرات بڑھا رہا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • دو فیصلے!
  • بھارتی آبی جارحیت پر ثالثی عدالت کا فیصلہ
  • سندھ طاس معاہدہ ثالثی عدالت کے فیصلے کے بعد
  • عالمی بینک کی نئی کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان بولورما امگابازار کل عہدہ سنبھالیں گی
  • پاکستان میں عالمی بینک کی نئی کنٹری ڈائریکٹر کل عہدہ سنبھالیں گی
  • بھمبر آزاد کشمیر کے مشہور کھٹے میٹھے آم، پیداوار میں کمی کیوں؟
  • پاکستان نے سندھ طاس معاہدے پر ثالثی عدالت کے فیصلے کو خوش آئند قرار دے دیا
  • دریائے سندھ پاکستان اورصوبے کی لائف لائن ہے‘سمجھوتا نہیں ہوگا‘ کاشف سعید
  •  بلاول کا سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم 
  • سندھ طاس معاہدے پر کسی فریق کو یکطرفہ فیصلے کا حق نہیں بلاول بھٹو