کم وقت میں کروڑوں کمانے کی لالچ، آن لائن گیمز میں شہری لٹنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
پشاور(نیوز ڈیسک) کم وقت میں کروڑوں کمانے کی لالچ ایسا ہے جس نے آج نوجوان نسل کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے، آج ہو سو آن لائن گیزم کا زور ہے لیکن ان آن لائن گیمز میں شہری لٹنے لگے۔
پشاور اور خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں آن لائن گیمز کھیل کر چند منٹوں میں ہزاروں کمانے کے چکر نوجوان قرض کے دلدل میں دھنسنے لگے، گیمز کی مدد سے جہاں نوجوان ہزاروں کما رہے ہیں، وہیں کروڑوں ہار بھی رہے ہیں تاہم جب تک نوجوانوں کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے، وہ اپنا سب کچھ دائوپر لگا چکے ہوتے ہیں۔
نسٹا گرام، فیس بک، یوٹیوب اور ایکس سمیت متعدد سوشل میڈیا ایپلی کیشن پر آن لائن گیمز کے اشتہارات عام ہوگئے ہیں، جس میں کہاجاتا ہے کہ روزانہ صرف 2 گھنٹے گیم کھیلیں اور 5,000 روپے کمائیں! فوری ادائیگی، کوئی دھوکہ نہیں! لنک پر کلک کرکے نوجوان وٹس ایپ گروپ کا حصہ بن جاتے ہیں، جہاں ایڈمن نوجوانوں سے گیم کھیلنے کیلئے رقم اکٹھی کرتے ہیں۔
ابتداء میں نوجوان آسانی سے کماتے ہیں تاہم کم وقت میں کروڑوں کمانے کی لالچ میں زیادہ ادائیگی شروع کردیتے ہیں، ماہرین کے مطابق اکثر جعلی ایپس یا ویب سائٹس تیار کی جاتی ہے، خود ساختہ ایپس جو مشہور ایپلی کیشن کا چربہ ہوتی ہیں اس کے جال میں نوجوانوں کو پھنسایا جاتا ہے۔
فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب پر ”کمائی کے مواقع” کے نام پر اشتہارات چلائے جاتے ہیں، گیم کھیلنے کے لیے “ٹاسکس” دیے جاتے ہیں اور کمائی کے وعدے کے ساتھ ری چارج یا وی آئی پی اپگریڈ کے بہانے رقم لی جاتی ہے، ملٹی لیول مارکیٹنگ طرز پر لوگوں کو قائل کیا جاتا ہے کہ وہ اور لوگوں کو جوائن کروائیں اور کمیشن حاصل کریں۔
ان گیمز میں نوجوان لاکھوں سے کروڑوں روپے تک گنوا بیٹے ہیں، کئی ایسی گیمز ہیں جن میں آپ کو دیگر ساتھیوں کیساتھ رقم شیئر کرنا ہوتی ہے، آپ رقم دیتے بھی ہیں اور لیتے بھی ہیں ایسے میں بڑا داو لگانے کیلئے آپ کو زیادہ رقم لیناہوتی ہے جو ہار کر آپ مقامی لوگوں کے قرض دار بن جاتے ہیں اور ایپلی کیشن والے پیسے لے کر غائب ہوجاتے ہیں، رقم کے نقصان کے بعد کئی نوجوان ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، اور ان پر والدین کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے، تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
ذرائع کا کہناہے کہ کئی نوجوان رقم واپس حاصل کرنے کے لیے غلط راستے اختیار کرتے ہیں، سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق یہ سکیمز فشنگ اور مالی دھوکہ دہی کے زمرے میں آتے ہیں، کئی کیسز میں بیرونِ ملک بیٹھے لوگ نوجوانوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، ڈیجیٹل سکیورٹی ماہرین کے مطابق ان گیمز میں کمائی کے نام پر زیادہ تر فراڈ ہوتا ہے،نوجوانوں کو گیمز سے متعلقہ اصل اور رجسٹرڈ پلیٹ فارمز سے ہی رابطہ رکھنا چاہیے
مزیدپڑھیں:ناسا کو ہیک کرنے والے بنگلہ دیشی نوجوان کو خلائی ایجنسی سے تعریفی خط موصول
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: آن لائن گیمز نوجوانوں کو گیمز میں جاتے ہیں
پڑھیں:
نوجوان پلاسٹک سرجری کی طرف کیوں مائل ہو رہے ہیں؟
سوشل میڈیا پر صرف ایک مختصر تلاش پر آپ کی فیڈ میں بیسیوں پوسٹس نظر آئیں گی جن میں 20 اور 30 کی دہائی کے افراد مختلف اقسام کی فیس لفٹ جیسا کہ منی، پونی ٹیل، ڈیپ پلین پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین سخت گرمی میں چہرے کی جلد کو صحت مند کیسے رکھ سکتی ہیں؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ وقت گیا جب فیس لفٹ صرف عمر رسیدہ اور امیر افراد کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھی۔ اب نوجوانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد اس بڑی سرجری کی طرف راغب ہو رہی ہے۔
کچھ لوگ خوشی سے اپنی تصاویر شیئر کرتے ہیں سرجری سے پہلے بعد اور درمیان کا وہ مرحلہ جو اکثر تکلیف دہ اور سوجن سے بھرپور ہوتا ہے۔
یہ اب کوئی خفیہ طریقہ کار نہیں رہا۔، مشہور شخصیات جیسے کہ کرس جینر، کیٹ سیڈلر اور مارک جیکبز نے اپنی فیس لفٹس کے بارے میں کھلے عام بات کی ہے اور کئی دیگر کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ بھی یہ کروا چکے ہیں۔
فیس لفٹ کو ہمیشہ ایک ’آخری قدم‘ اور سب سے بڑی کاسمیٹک سرجری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: چہرے کی جلد صحت مند کیسے؟ لیڈی ڈیانا کی بہو نے سارے راز کھول دیے
لیکن سوال یہ ہے کیا ہم ایک جعلی آن لائن دنیا میں اتنے غیر محفوظ ہو چکے ہیں کہ ہزاروں پاؤنڈ خرچ کر کے چہرے کی جلد کٹوانے لگے ہیں؟
یا ہم نے اتنے غیر سرجیکل علاج (جیسے بوٹوکس اور فلرز) کروا لیے ہیں کہ فیس لفٹ اگلا منطقی اور دیرپا قدم محسوس ہوتا ہے؟
کینیڈا کی ایملی کی کہانی، جواں عمری میں فیس لفٹایملی کینیڈا کے شہر ٹورانٹو سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے 28 سال کی عمر میں ترکی میں سرجری کروائی تاکہ ایک ’اسنیچڈ لک‘ حاصل کیا جا سکے۔ مطلب تیز جبڑا، اونچی گال کی ہڈیاں اور فاکس آنکھیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک ساتھ 6 سرجریز کروائیں جن میں مڈ فیس لفٹ، لپ لفٹ اور رائنوپلاسٹی (ناک کی سرجری) بھی شامل تھیں۔
ان کے مطابق وہ مکمل بے ہوشی میں چلی گئیں، ڈاکٹر نے ان کا پسندیدہ گانا چلایا اور جب وہ جاگیں تو ان کا چہرہ اور ناک بدل چکے تھے۔
ایملی نے بتایا کہ شفایابی کا عمل طویل تھا چہرے کی کچھ جگہوں پر دوبارہ حس واپس آنے میں 6 ماہ لگے۔
مزید پڑھیں: کیا ٹوائلٹ سیٹ سے جنسی و دیگر بیماریاں لگ سکتی ہیں؟
کیا وہ دوبارہ کروائیں گی؟ وہ رک کر سوچتی ہیں کہ ان کی زندگی بدل گئی، وہ اب صحت مند ہیں، کم شراب پیتی ہیں، جلد کا خیال رکھتی ہیں اور پوری نیند لیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاید آج اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مجھے کیا حاصل ہوگا تو شاید میں سرجری نہ کرواتی۔
لیکن پھر وہ کہتی ہیں کہ میں صرف خود کا بہترین ورژن بننا چاہتی تھی اور مجھے لگتا ہے اب میں وہی ہوں۔
فیس لفٹ کے رجحان میں اضافہبرٹش ایسوسی ایشن آف ایسیتھٹک پلاسٹک سرجنز کے مطابق پچھلے 12 مہینوں میں فیس لفٹس کی تعداد میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ عمر کے لحاظ سے ڈیٹا موجود نہیں لیکن سرجنز کا کہنا ہے کہ عمر کا دائرہ بدل رہا ہے۔
امریکا میں بھی یہی رجحان دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر جین زی (45-60 سال) کی عمر کے افراد میں۔
یہ بھی پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟
صدر برٹش ایسوسی ایشن آف ایسیتھٹک پلاسٹک سرجنز نورا نیوجنٹ کے مطابق وزن کم کرنے والی دوائیوں کی مقبولیت بھی ایک وجہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان دوائیوں سے وزن تیزی سے کم ہوتا ہے جس سے جلد ڈھیلی پڑ سکتی ہے اور فیس لفٹ اس میں مدد دیتی ہے۔
لیکن وہ خبردار کرتی ہیں کہ یہ ایک بڑی سرجری ہے جو صرف مستند، رجسٹرڈ پلاسٹک سرجن سے کروانی چاہیے۔
فیس لفٹنگ کیسے کی جاتی ہے؟برسٹل کے سرجن سائمن لی بتاتے ہیں کہ اب فیس اور نیک لفٹ بغیر جنرل اینستھیزیا کے کلینک میں کیا جا سکتا ہے۔
وہ چھوٹے کٹ لگاتے ہیں اور جلد، چکنائی اور پٹھوں کی تہوں تک پہنچ کر چہرے کو دوبارہ ترتیب دیتے ہیں۔
سرجری 4 گھنٹے تک چلتی ہے لیکن کلائنٹ جاگ رہا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: کیا سن اسکرین کا زیادہ استعمال ہڈیاں ٹوٹنے کا سبب بن سکتا ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ یہ صنعت کے لیے ایک دلچسپ وقت ہے کیوں کہ پہلے صرف جبڑے اور گردن پر توجہ دی جاتی تھی لیکن اب چہرے کے اوپری حصے (جہاں عمر کے آثار جلدی نظر آتے ہیں) پر بھی کام ہوتا ہے۔
خطرات اور لاگتفیس لفٹ کی قیمت 15 سے 45 ہزار پاؤنڈ تک ہو سکتی ہے۔ خصوصاً ترکی اور چند دیگر ممالک میں بعض کلینکس یہ 5 ہزار پاؤنڈ میں بھی کردیتے ہیں۔
لیکن ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ فیس لفٹ میں خطرات ہوتے ہیں جیسے کہ خون جمنا، انفیکشن، اعصابی نقصان اور بال جھڑنے کے مسائل۔
34 سالہ جولیا نے چہرے کی ساخت میں عدم توازن دور کرنے کے لیے ترکی میں 6 ہزار پاؤنڈ میں فیس لفٹ کروائی۔ حالانکہ ان کے دوستوں کو کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا تھا، وہ کہتی ہیں کہ میں نے تحقیق کی، اکیلی گئی، زبان نہیں آتی تھی اور سرجری کے بعد 2 دن ہسپتال میں رہی۔ میں اتنی سوجی ہوئی تھی کہ دیکھ بھی نہیں سکتی تھی۔
ڈاکٹر کرستی گاربیٹ جسمانی تاثر پر تحقیق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم خود کو ویڈیو کالز، سوشل میڈیا اور فلٹرز کے ذریعے مسلسل دوسروں سے موازنہ کرتے ہیں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ حقیقت نہیں ہوتی۔
مزید پڑھیے: کیا بار بار اعضا کی پیوندکاری سے انسان امر ہو سکتا ہے؟شی جن پنگ اور پیوٹن کےدرمیان غیر متوقع گفتگو
مشہور شخصیات اگرچہ کھل کر بات کر رہی ہیں لیکن یہ رجحان ان سرجریز کو ’نارمل‘ بنا رہا ہے جو تشویش ناک ہے۔
مشہور شخصیات کی رائےکیرولین اسٹینبری (Real Housewives of Dubai کی میزبان) نے 47 سال کی عمر میں فیس لفٹ کروائی۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کی زندگی کا بہترین فیصلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں 60 کی عمر تک انتظار کیوں کروں، میں ابھی خوبصورت دکھنا چاہتی ہوں۔
بیلجیم کے پلاسٹک سرجن الیکسس ورپیل کہتے ہیں کہ اگر کوئی 20 سال کی عمر میں فیس لفٹ کرواتا ہے اور یہ 10-15 سال تک چلتی ہے تو 60 سال کی عمر تک وہ 3 بار یہ سرجری کروائے گا جو چہرے کے لیے بہت بڑا بوجھ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جواں عمری میں فیس لیفٹ چہرے کی لفٹنگ فیس لفٹ فیس لفٹنگ