ریاستی اداروں کیخلاف پوسٹ کیس: صنم جاوید کی درخواست ضمانت خارج
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
لاہور کی سیشن عدالت نے ریاستی اداروں کے خلاف غیرمصدقہ پوسٹ سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کی رہنما صنم جاوید کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج سلمان گھمن نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ سنایا۔ ایف آئی اے نے صنم جاوید کے خلاف مقدمہ درج کر رکھا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف ایک غیرمصدقہ پوسٹ کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا، جس سے اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
عدالت میں ایف آئی اے کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزمہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹ سے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی کو فروغ ملا، لہٰذا انہیں ضمانت نہ دی جائے۔
دوسری جانب صنم جاوید کے وکلاء نے مؤقف اختیار کیا کہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے اور ان کی مؤکلہ نے کوئی قابل اعتراض مواد خود سے نہیں بنایا بلکہ صرف ایک موجودہ پوسٹ کو شیئر کیا۔ تاہم عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد صنم جاوید کی ضمانت کی درخواست خارج کر دی۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ریاستی اداروں صنم جاوید کے خلاف
پڑھیں:
بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ کا نیا باب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251121-03-4
بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ میں ایک اور غیر معمولی باب اس وقت رقم ہوا جب انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور سابق وزیر داخلہ اسدالزماں خان کمال کو انسانیت کے خلاف سنگین جرائم میں سزائے موت سنادی۔ سابق پولیس چیف عبداللہ ال مامون، جنہوں نے عدالت میں جرم قبول کیا، کو پانچ برس قید کی سزا دی گئی۔ فیصلے نے نہ صرف ڈھاکا بلکہ پورے خطے میں ایک سیاسی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد غلام مرتضیٰ نے 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ فیصلے میں تحریر ہے کہ ایک لیک آڈیو کال اور دیگر شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے خلاف طاقت کے استعمال کی ہدایات دیں، ان کی آواز دبانے کے لیے ’’توہین آمیز اور جابرانہ اقدامات‘‘ کیے، اور ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے تحریک کو مزید بھڑکایا۔ عدالت نے مزید کہا کہ جس سیاسی جماعت نے ریاستی تشدد میں مرکزی کردار ادا کیا ہو، وہ آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی مجاز نہیں رہتی۔ اس بنیاد پر عوامی لیگ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی سفارش بھی سامنے آئی ہے۔ یہ اقدام جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک مثال بن سکتا ہے، جہاں حکمران جماعتوں پر ریاستی قوت کے بیجا استعمال کے الزامات اکثر دہرائے جاتے ہیں۔ فیصلے کے بعد عدالت کے اندر اور باہر کا منظر ایک سیاسی و سماجی کیفیت کی بھرپور عکاسی کرتا تھا۔ کورٹ روم کے اندر موجود افراد نے تالیاں بجا کر فیصلے کا خیرمقدم کیا، جبکہ ڈھاکا کی شاہراہوں پر لوگوں نے قومی پرچم لہراکر جشن منایا۔ کئی مظاہرین نے بنگلا دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے گھر کے باہر جمع ہو کر اس کی مسماری کا مطالبہ بھی کیا یہ قدم اس بات کا غماز ہے کہ حالیہ واقعات نے ملکی جذبات کو کس حد تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے فیصلے کو ’’تاریخی سنگ ِ میل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بنگلا دیش نے پہلی مرتبہ ریاستی تشدد اور طاقت کے ناجائز استعمال کے خلاف جرأت مندانہ پیش رفت کی ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے بلکہ اگلی نسلوں کے لیے ایک اخلاقی مثال بھی قائم کرتا ہے۔ حیران کن طور پر فیصلے کے فوری بعد بنگلا دیشی وزارت خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مفرور سزا یافتہ شیخ حسینہ اور اسدالزماں خان کو ڈھاکا کے حوالے کرے۔ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ: ’’انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو کسی دوسرے ملک میں پناہ دینا نہ صرف غیر دوستانہ رویہ ہے بلکہ انصاف کی توہین بھی ہے‘‘۔ یہ مطالبہ جنوبی ایشیا کی سفارت کاری میں ایک نیا موڑ ہے۔ بھارت کا ردِعمل کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ آنے والے ہفتوں میں ہوگا، لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئی کشمکش نے جنم لے لیا ہے۔
جماعت ِ اسلامی بنگلا دیش نے فیصلے کو متاثرہ خاندانوں کے لیے ’’جزوی تسکین‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ برسوں سے انصاف کے منتظر افراد آج سکون کا سانس لے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس نیشنل سٹیزن پارٹی (NCP) کے کنوینر ناہید اسلام نے ڈھاکا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ شیخ حسینہ کو ایک ماہ کے اندر واپس لا کر سزا پر عمل درآمد کیا جائے۔ ان کے بقول: ’’جولائی انقلاب کے ہزاروں شہیدوں اور زخمیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا آج ازالہ ہو گیا ہے‘‘۔ یہ بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک کی ایک بڑی آبادی اس فیصلے کو ریاستی استحکام اور قومی تطہیر کی جانب اہم قدم سمجھتی ہے۔
اس فیصلے کے قانونی پہلو نہایت پیچیدہ مگر اہم ہیں۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کا قیام اگرچہ عالمی قوانین سے متاثر ضرور ہے، مگر اس کی حیثیت مکمل طور پر ملکی عدلیہ کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے۔ اس وجہ سے چند بین الاقوامی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا سزائے موت جیسے انتہائی اقدام کو بین الاقوامی قانونی معیار کے مطابق سمجھا جا سکتا ہے؟ لیکن بنگلا دیشی حکام کا مؤقف ہے کہ جب معاملہ ریاستی تشدد، قتل ِ عام اور مظاہرین کے خلاف دانستہ کارروائیوں کا ہو تو سزا میں نرمی انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگی۔
شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آیا ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر موجود افراد کو ان کے فیصلوں، احکامات یا ’’غفلت‘‘ پر کس طرح جواب دہ ٹھیرایا جائے۔ دنیا بھر میں اس پر اختلافات موجود ہیں، مگر اس مقدمے نے اس بحث کو نئی توانائی دی ہے۔ اگر باضابطہ شواہد یہ ثابت کریں کہ ریاستی مشینری کو سیاسی مخالفین یا مظاہرین پر جبر کے لیے استعمال کیا گیا، تو یہ صرف قانون کی نہیں بلکہ جمہوریت کی اخلاقی بنیادوں کی بھی نفی ہے۔ بنگلا دیشی ٹریبونل کے حالیہ فیصلے نے اس حد کو واضح کر دیا ہے کہ ریاستی طاقت کے استعمال کی ’’سرخ لکیر‘‘ کہاں کھڑی ہے۔
عدالت کی آبزرویشن کہ عوامی لیگ آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی، ایک بہت بڑے سیاسی دھماکے سے کم نہیں۔ عوامی لیگ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک بنگلا دیشی سیاست کی محرک قوت رہی ہے۔ اگر اس جماعت کی تحلیل کا قانونی عمل شروع ہوتا ہے تو بنگلا دیش کا سیاسی نقشہ سرے سے بدل سکتا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ بنگلا دیش کی سیاست میں ایک نئے عہد کے آغاز کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ کچھ حلقے اسے انصاف کی جیت قرار دے رہے ہیں تو کچھ اسے سیاسی انتقام کا شائبہ بھی سمجھتے ہیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ بنگلا دیشی معاشرے میں ’’ریاستی تشدد‘‘ کے خلاف حساسیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اگر حکومت نے شفافیت، قانون کی حکمرانی اور عوامی شمولیت کو یقینی بنایا تو یہ فیصلہ ملک کو ایک زیادہ مضبوط، زیادہ ذمے دار اور زیادہ جمہوری ریاست کی سمت لے جا سکتا ہے۔