کتنے فیصد پاکستانی جنگ کے دوران حکومتی کار کردگی سے مطمئن ہیں ؟ گیلپ پاکستان کا نیا سروے جاری
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
گلوب پاکستان کے سروے میں پاکستانی عوام کی بھارت کے خلاف یکجہتی اور امن کی خواہش کا اظہار
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)گیلپ پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ حملے کے بعد پاکستان میں عوامی رائے عامہ پر مبنی ایک جامع سروے جاری کیا ہے، جس میں پاکستانی عوام کی بھارت مخالف جذبات، امن کی خواہش، اور قومی یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔سروے میں ملک بھر کے 100 سے زائد اضلاع سے منتخب کیے گئے 750 سے زیادہ بالغ پاکستانیوں کی آراء شامل کی گئی ہیں، جو موجودہ حالات میں قومی جذبات کا واضح عکس پیش کرتی ہیں۔
اسحاق ڈار ،چینی وز یر خارجہ کے باضابطہ مذاکرات مکمل: سٹریٹجک پارٹنرشپ مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
سروے کے مطابق93فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ اگر بھارت کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو وہ پاکستان کا دفاع کریں گے۔77فیصد نے بھارت کی جانب سے پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کیا۔55فیصد کا خیال ہے کہ یہ حملہ بھارت کی اپنی خفیہ ایجنسی یا حکومت نے کروایا ہو سکتا ہے۔72فیصد پاکستانی جنگ کے خلاف ہیں، جبکہ صرف 15فیصد نے موجودہ تنازع کے حل کے لیے فوجی کارروائی کی حمایت کی۔41فیصد کو جنگ کے امکانات نظر آتے ہیں، لیکن 80فیصد نے اقتصادی نقصانات پر تشویش کا اظہار کیا۔
جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر رائے دیتے ہوئے 45فیصد پاکستانیوں کو خدشہ ہے کہ بھارت پہلا جوہری حملہ کر سکتا ہے۔61فیصد کا خیال ہے کہ پاکستان جوابی جوہری حملہ کرے گا۔70فیصد نے جوہری جنگ کی صورت میں کروڑوں افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ظاہر کیا۔پاکستانی عوام چین، ترکی، سعودی عرب اور ایران سے حمایت کی توقع رکھتے ہیں جبکہ امریکہ، برطانیہ اور جاپان سے مخالفت کی توقع کی گئی۔
داخلی سیاسی اتحاد سے متعلق 64فیصد پاکستانیوں نے بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران سیاسی قیادت کے متحدہ موقف پر اطمینان کا اظہار کیا۔65 فیصد نے حکومت کی بھارت کے ساتھ خارجہ پالیسی پر اطمینان ظاہر کیا۔56فیصد پاکستانیوں کو امید ہے کہ بھارت پاکستان کی امن کی پیشکش کو قبول کرے گا۔
سعودی عرب میں تعمیراتی منصوبوں کا حجم 1.
ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
شمالی وزیرستان میں 30 شدت پسند ہلاک کر دیے، پاکستانی فوج
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جولائی 2025ء) پاکستانی فوج نے آج بروز جمعہ کہا ہے کہ افغانستان سے دراندازی کی کوشش کرنے والے 30 شدت پسندوں کو گزشتہ تین روز کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں کی گئی جب اسی علاقے میں ایک خودکش حملے میں 16 پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے شدت پسند تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا اس سے منسلک گروپوں سے تعلق رکھتے تھے۔
بیان میں بھارت پر بھی الزام عائد کیا گیا کہ وہ ان گروپوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ''سکیورٹی فورسز نے پیشہ ورانہ مہارت اور تیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ممکنہ سانحے کو روک دیا۔
(جاری ہے)
‘‘ بیان میں کہا گیا کہ اس کارروائی کے دوران بڑی مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور بارودی مواد بھی برآمد کیا گیا۔
یہ ہلاکتیں شمالی وزیرستان میں ہوئیں، جہاں گزشتہ ہفتے پاکستان طالبان کے ایک گروہ نے فوج پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسلام آباد طویل عرصے سےکابل پر الزام لگاتا آیا ہے کہ وہ ان شدت پسند گروپوں کو اپنی سرزمین پر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے، تاہم حالیہ مہینوں میں پاکستان نے بھارت پر بھی پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے الزامات لگائے ہیں، نئی دہلی اورکابل دونوں کی حکومتیں ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔
علاقائی کشیدگیمئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ شدید جھڑپوں میں 70 افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن میں اکثریت شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی تھی۔ یہ کشیدگی 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 26 افراد کی ہلاکت سے شروع ہوئی تھی، جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا تھا، تاہم اسلام آباد نے مداخلت سے انکار کیا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا بیانوزیرِ اعظم شہباز شریف نے ملکی فوج کی کارروائی کو سراہتے ہوئے کہا، ''ہم ملک سے دہشت گردی کی ہر شکل کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔‘‘
ان کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھارت پر پاکستان میں شدت پسندی کو ہوا دینے کا الزام بھی دہرایا گیا۔
سکیورٹی صورت حالافغان طالبان کے 2021ء میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کی مغربی سرحدی پٹی پر تشدد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
2024ء ملک کے لیے گزشتہ دہائی کا سب سے خونریز سال رہا۔ 2025 میں اب تک 290 سے زائد افراد، جن میں اکثریت سکیورٹی اہلکاروں کی ہے، شدت پسندوں کے حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔پاکستان کی فوج بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے خلاف بھی برسرپیکار ہے۔ سکیورٹی کی اسی صورتحال کے پیش نظر جون میں حکومت نے دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا، جس کے تحت مجموعی وفاقی بجٹ کا 14 فیصد فوج کے لیے مختص کیا گیا۔
شکور رحیم اے ایف پی کے ساتھ
ادارت: کشور مصطفیٰ