سپیکر قومی اسمبلی کی خضدار میں سکول بس پر حملے کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 مئی2025ء) سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے خضدار بلوچستان میں آرمی پبلک سکول کی بس پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئےاس کے نتیجے میں جانی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ بدھ کو اپنے ایک مذمتی بیان میں انہوں نے شہدا کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ پوری قوم دکھ اور غم کی اس گھڑی میں شہید ہونے والے بچوں کے اہلِ خانہ کے ساتھ کھڑی ہے۔
(جاری ہے)
معصوم بچوں کی بس پر حملہ انتہائی بزدلانہ اور شرمناک ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔معصوم بچوں پر حملہ کرنے والے سفاک درندوں کا کسی مذہب اور انسانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائیوں میں ملوث عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔دہشت گردی کی اس کارروائی کے منصوبہ سازوں اور مجرموں کو جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی ، شہدا کے درجات کی بلندی اور سوگوار خاندانوں کو اس ناقابلِ تلافی نقصان کو برداشت کرنے کےلئے صبرِ جمیل کی دعا کی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
دہشت گردی کا ناسور
باجوڑ کی تحصیل خار میں بم دھماکے سے اسسٹنٹ کمشنر، تحصلیدار ناؤگئی اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 5 افراد شہید جب کہ 16 افراد زخمی ہوگئے۔ سرکاری گاڑی کو اس وقت موٹر سائیکل پر نصب بم سے نشانہ بنایا گیا۔ دھماکا ریموٹ کنٹرول تھا، سات سے دس کلو بارودی مواد موٹر سائیکل کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔
پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کا تعلق بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر افغانستان کی سرزمین سے جڑا ہوا ہے۔ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت کے سامنے یہ سوال رکھا جائے گا کہ آخر وہ کیونکر صوبے کے اندر دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام ہے؟ ریاست کو چیلنج کرنے اور قدیم دور کے تصورات رائج کرنے پر کمر بستہ دہشت گرد تنظیموں پر ضرب ضرور لگی تھی اور دہشت گردوں نے سرحد پارکر کے افغانستان میں پناہ لے لی تھی، لیکن ایسے عناصر کی ایک بڑی تعداد کو دوبارہ آباد کر کے جو غلطی کی گئی اس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان دہشت گرد گروہوں پر دباؤ میں کمی ہوئی ہے؟ کیا انھیں سانس لینے کا موقع فراہم کیا گیا ہے؟ ہمارے اداروں کو سب سے پہلے تو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا ہوگا، کیوں کہ سہولت کاری اور اندرونی مدد کے بغیر ایسی کارروائیاں ممکن نہیں۔ دراصل پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں وہ عناصر پیش پیش ہیں جو پاکستان کے وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر استعمال کرنے کے متمنی ہیں ، اور ایک مخصوص انداز میں ریاست پاکستان کے خلاف ’’ منظم ‘‘ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کے اداروں کو مفلوج کرکے اقتدار پر قبضہ کیا جا سکے۔
ملک میں دہشت گردی کے فروغ کے دیگر اسباب میں مخصوص مائنڈ سیٹ کی حامل طاقتور قوتوں کا منفی کردار ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو رہتے ہیں تو پاکستان میں ہیں، یہاں کے وسائل استعمال کرکے طاقتور ہوئے ہیں لیکن وہ پاکستان کے عوام کے اجتماعی مفادات کے برعکس کام کررہے ہیں۔
وہ ہمارے ہی معاشرے کے افراد ہیں، ہم میں سے ہیں، ہمارے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ہم نے اپنے معاشرے کی تربیت اس طور پر نہیں کی کہ وہ دوسروں کے مفادات کے لیے استعمال نہ ہوں اور اپنے ملک کی تباہی کا سامان نہ کریں مثلاً اگر ملک میں کہیں بم بلاسٹ ہو یا خود کش دھماکا ہو تو اس کام کی انجام دہی کے لیے کوئی غیر ملکی تو نہیں آتا ہمارے یہاں کے لوگ ہی ان کے دست و بازو بنتے اور ان کے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی المناک پہلو یہ ہے کہ اپنوں کے بھیس میں ایک مخصوص طبقہ ملک کے سسٹم کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق چلاتا چلا آ رہا ہے۔
پاکستان کے تعلیم یافتہ اور باشعور طبقات اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو بیرونی اشاروں اور سہاروں کے ذریعے پاکستان کے اندر افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو عناصر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سے بھرپور فائدہ اٹھاکر ریاست پاکستان کے خلاف مذموم کارروائیاں کررہے ہیں، ان کی اب ہر سطح پر بیخ کنی ہورہی ہے۔
دوسری طرف اگر پاکستان کے سیاستدان آپس کے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے ختم کرلیں تو پاکستان میں نہ صرف سیاسی، استحکام پیدا ہوسکتا ہے جو بعد میں سماجی استحکام کی صورت میں عوام میں خوشگوار اقتصادی ترقی کا باعث بن سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ’’ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے‘‘ دراصل پاکستانی سیاستدانوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ ان کی طرز سیاست کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی لب و لہجہ سے ملک میں استحکام نہیں پیدا ہو رہا ہے۔ ہرچند کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا بیج کیسے بویا گیا اور اس کی آبیاری کس طرح سے ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے، پاکستان میں جس طرز کی دہشت گردی جاری ہے اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ اُن پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو پاکستان کی تمام حکومتوں نے اختیار کی اور اپنا اپنا حصہ ڈال کر رخصت ہوگئیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج پاکستان دہشت گردی کی صورت میں جو خمیازہ بھگت رہا ہے، اس کا بیج انتہاپسند نظریات کی شکل میں بویا گیا جس کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہوگیا تھا۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس مخصوص سوچ سے نمٹنے کی سعی نہیں کی گئی، اس سوچ کے مقابل کاؤنٹر نیرٹو (counter narrative) پیش نہیں کی گئی اور جس نے بھی اس نوع کی کاوش کی اسے راستے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ ان کے نظریے کو عوام و خواص میں قبولیت کی نگاہ سے دیکھا گیااوریوں طالبان کو ان سے خطرہ لگا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کے سامنے ان کا چہرہ بے نقاب ہوا، اور حکومت کا المیہ یہ رہا کہ وہ اس طرح کے جرات مندانہ اقدام کرنے والوں کی حفاظت نہ کرسکی۔ اس پس منظر میں ریاست کو اپنی ذمے داریوں سے واقفیت رکھنا اور ان سے عہدہ برآ ہونا بہت ضروری ہے اگر ریاست اپنی ذمے داریاں صحیح معنوں میں انجام دے تو بہتری یقینی ہے، البتہ اگر حکومت اپنے فرائض میں کوتاہی کا شکار ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ ہماری ریاست ہی سرے سے غیر اسلامی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کو دوبارہ سر اٹھاتی دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔ملک میں دہشت گرد عناصر دوبارہ سے منظم ہو کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تمام طالبان دھڑے چاہے وہ پاکستانی ہوں یا افغان ، ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہے اور جب ضرورت پڑے ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔
پاکستانی طالبان اور افغان طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہوگا اور اس بات پر یقین رکھنا ہو گا کہ جو عناصر بھی دہشت پھیلا کر کسی انسانی جان کے خاتمے یا انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہوں وہ دہشت گرد ہیں۔ ٹی ٹی پی کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور دہشت گردی یقیناً بیرونی امداد سے ہی ممکن ہے۔ اب چاہے یہ مدد افغان طالبان کی شکل میں ہو یا پھر کسی پاکستان مخالف ملک کے وسائل کی شکل میں، پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی افغانستان پر طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد زیادہ بڑھی ہے۔ امریکا کے انخلا کے بعد امید تھی کہ افغانستان پاکستان کے لیے پرامن ملک بن جائے گا لیکن یہ امید پوری نہیں ہوئی بلکہ مسائل پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ حملوں اور ان میں ہلاکتوں کی ذمے دار کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے۔
پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ خطے کے کچھ ممالک جنھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معمولی یا کوئی کردار ادا نہیں کیا، انھوں نے اقتصادی اور اسٹرٹیجک فوائد حاصل کیے ہیں۔ کچھ ممالک نے منافع بخش تجارتی اور دفاعی معاہدے کیے، جب کہ عالمی برادری سے حمایت اور سرمایہ کاری حاصل کی، حالانکہ ان کی دہشت گردی کے خلاف کوششیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ان دہرے معیارات کا اعتراف کئی عالمی رہنما کر چکے ہیں، جس سے بین الاقوامی سیاست میں موجود تضادات نمایاں ہوتے ہیں۔ پاکستان، اپنی بے پناہ قربانیوں کے باوجود، معاشی اور سفارتی سطح پر مسلسل مشکلات کا شکار رہا ہے، جب کہ خطے کے دیگر ممالک کو ترجیحی سلوک اور اقتصادی مواقع ملتے رہے۔
اس وقت سب سے بڑھ کر اہم ترین ذمے داری حکومت کے کندھوں پر آتی ہے کہ وہ اپنے کردار کونہ صرف محسوس کرے بلکہ بلاتاخیر اسے بھرپور طریقے سے انجام دے۔ پاکستان کی تاریخ میں فتنہ و انتشار کوئی ایک دہائی سے زوروں پر ہے لیکن اہل وطن کو تاحال حکومتی کردار پر بہت سے تحفظات ہیں اور دہشت گردی کے ناسور میں نمٹنے کے لیے کسی جماعت یا کسی مخصوص طبقے کی رعایت کسی طور پر نہ کی جائے اور اس راہ میں جب قوم دہشت گردی کی جنگ میں اپنے فوجی جوانوں کی پشت پناہی پر آمادہ ہے تو اب جو بھی اس قومی اتحاد کے باوجود تذبذب کا شکار نظر آئے اس کے بارے میں سنجیدہ لائحہ عمل مرتب کرے اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے تاکہ آنے والا وقت پاکستان اور ہماری آیندہ نسلوں کے لیے امن و سلامتی کی کرنیں لے کر طلوع ہو۔