Daily Ausaf:
2025-11-05@01:00:33 GMT

تہذیبی کردار سازی کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس وقت دنیا بھر میں تین سب سے بڑی تہذیبیں اپنے عروج پر ہیں جن میں مغربی تہذیب، اسلامی تہذیب اور لادینی تہذیب سرفہرست ہیں۔ تہذیبوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ ’’دنیا میں صرف حکمران قوموں کی تہذیبیں بچتی ہیں۔‘‘جبکہ دنیا پر حکمرانی صرف علم اور کردار کی طاقت سے کی جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مصر میں اہرام مصر کی شکل میں فرعون خاندان کی تہذیب کے آثار تو موجود ہیں مگر دنیا میں اس خاندان کی وراثت کا کوئی دعویٰ دار نہیں ہے کیونکہ ’’فرعونیت‘‘کو اخلاق و کردار سے عاری تہذیب سمجھا جاتا ہے جس کی بنیاد ظلم اور جبر پر مشتمل تھی۔فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں تھا بلکہ یہ شاہان مصرکا لقب تھا۔ جس طرح چینکے بادشاہ کوخاقان، روسکے بادشاہ کوزار، رومکے بادشاہ کوقیصر اور ایران کے بادشاہ کوکسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو’’فرعون‘‘کہا جاتاتھا۔
مسلم تہذیب کے پیروکار موجود ہیں اور اسلام اپنی اخلاقی اقدار اور تعلیمات کی طاقت سے دنیا بھر میں پھیل بھی رہا ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت کی سیرت اور کردار وہ نمونہ پیش نہیں کر پا رہے ہیں جو زندہ تہذیبوں کا خاصا ہوتا ہے۔ آج ماضی کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے آثار تو موجود ہیں مگر وہ تہذیبیں جو اپنی اخلاقی اقدار اور کردار کھو بیٹھی ہیں وہ کہیں نظر نہیں آتی ہیں۔ کلچر یا ثقافت ایک مخصوص وقت میں معاشرے کے افراد کی زندگی گزارنے کے طور طریقے، روایات اور رسم و رواج ہیں جبکہ تہذیب، تمدن اور ثقافت وسیع تصورات ہیں جس میں کسی قوم یا معاشرے کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا عنصر بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب و تمدن کو مغربی تہذیب اور کلچر سے کماحقہ خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اخلاقی زوال کے ساتھ تعلیمی اور علمی زوال بھی موجود ہے جس وجہ سے وہ خاطر خواہ ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔اسلامی ممالک میں درپردہ مسلمان بھی لادینی عقائد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت جس مغربی کلچر کو ’’فحاشی‘‘سے تعبیر کرتی ہے اندرون خانہ وہ خود اس کی دلدادہ ہے۔ اب پاکستان کے بڑے شہروں میں اہل مغرب کی طرح جنسی تعلق قائم کرنے کو اگرچہ چھپایا جاتا ہے مگر اسے تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے امرا، بیوروکریٹس اور حکمران طبقہ کے افراد پارٹیاں کرتے ہیں جو مغربی اور لادینی تہذیب کی طرز پر ہوتی ہیں۔ اگر اسلامی تہذیب کو بچانا ہے تو روزمرہ کی زندگی میں اس اخلاقی اقدار اور کردار و سیرت کو اپنانا ہو گا جو نبی مکرم محمدالرسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنائے رکھی۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم دنیا میں اسلامی تہذیب کو بچانے کے لیئے ایسی کوئی نمایاں اور متحرک تحریک موجود نہیں ہے۔
انگلینڈ کے قیام کے دوران میں نے اس فرق کو واضح طور پر محسوس کیا اور اب یہاں پاکستان میں اسے پروان چڑھتے دیکھ رہا ہوں۔ اگر ہم مغربی تہذیب کی اخلاقی خوبیوں کو ہی اپنا لیں تو مسلم تہذیب کے اخلاق و کردار کو بچایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ خود الحاد اور مغربی تہزیبوں نے یہ اخلاقی اقدار دین اسلام سے سیکھی ہے۔ ایک ملک اور قوم کی تہذیب اس کی تعمیرات کے علاوہ ان کے فنون لطیفہ، ادب، فلسفیانہ خیالات، طرز معاشرت اور مادی ترقی پر استوار ہوتی ہے۔ ہر ملک و قوم کا کوئی نہ کوئی تہذیبی سرمایہ ہوتا ہے، چاہے وہ قوم بہت زیادہ متمدن نہ کہی جا سکے پھر بھی وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ بنیادیں رکھتی ہے، جس سے وہ آڑے وقتوں میں خود کو سنبھالتی ہے، اس کے گیت، رقص، موسیقی، قصے، کہانیاں اور ضرب الامثال سب اس کے وجود کا جز ہوتے ہیں۔طبقاتی یا جابرانہ سماج میں تہذیب کے پنپنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ اٹلی اور جرمنی کا وہ ادب جو مسولینی اور ہٹلر کی خوں آشام خواہشات کا آئینہ تھا، اپنے ملک میں بھی مٹ چکا ہے، بین الاقوامی ادب کا جز بننا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہاں تک کہ مسولینی اور ہٹلر کی آپ بیتیاں دیکھنے کا شوق صرف تاریخ کے طالب علم رکھتے ہیں، کیونکہ جابرانہ معاشروں میں دانش و حکمت کو پھلنے پھولنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ تہزیب سے ایک مراد کسی قوم یا ملک کی داخلی یا خارجی زندگی کے تمام اہم پہلووں سے مجموعی طور پر پیدا ہونے والی وہ امتیازی خصوصیات مراد لی جاتی ہیں جن پر ان کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بھی خاص کر پاکستان میں ان تمام شعبوں میں تہذیبی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہی نہیں بلکہ کردار سازی کے حوالے سے تضادات کا شکار ہے۔اسلامی تہذیب کو بچانے اور پروان چڑھانے کے لیئے ادیبوں اور دانشوروں کو اپنی راہ منتخب کرنا ہو گی اور قومی زندگی کے ان تہذیبی عناصر کو ابھارنا ہو گا جو تہذیب کو بچانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ ان حقائق کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے جو تاریخ فراہم کرتی ہے اور جس سے منہ موڑ کر ادیب و محقق اور لکھاری محض کھوکھلی انفرادی خواہشات کا ترجمان بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اہل فکر کو حوصلہ افزا ماحول ملے اور وہ اس مد میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ چہ جائیکہ کہ اسلامی تہذیب کے عناصر قرآن و سنت میں آج بھی زندہ و جاوداں ہیں جن کو صرف متحرک اور فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اخلاقی اقدار اسلامی تہذیب کے بادشاہ کو اور کردار تہذیب کو تہذیب کے

پڑھیں:

18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے: رانا ثنا

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے۔

جیو نیوز کے مارننگ شو جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا آئین کسی بھی ملک کی مقدس دستاویز ہوتی ہے لیکن حرف آخر نہیں ہوتی، آئین میں بہتری کے لئے ترامیم کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں 26 ترامیم ہو چکی ہیں، پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت اگر متفق ہو تو آئین میں ترمیم ہوتی ہے، 26 ویں ترمیم کے بعد جن چیزوں پر بات ہو رہی ہے ہوتی رہے گی۔

27 ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، اتفاق رائےکے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہ

 سینیٹر رانا ثنا اللہ نے کہا ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم صبح 27 ویں ترمیم لا رہے ہیں، مثبت بات چیت اور بحث جمہوریت کا خاصا ہے اور وہ ہوتا رہنا چاہیے، مختلف چیزیں ہیں جن پر پارلیمینٹرین اور مختلف جماعتوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے، بنیادی مسائل پر بات بنتے بنتے بنتی ہے، فوری طور پر یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا 18 ویں ترمیم سے مسلم لیگ ن کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، 18 ویں ترمیم صوبے اور فیڈریشن کے درمیان وسائل کی تقسیم سے متعلق ہے، 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں ان میں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا ؟

وزیر اعظم کے مشیر کا کہنا تھا 18 ویں ترمیم وسائل کی تقسیم پر طویل عرصے بات چیت ہوتی رہی ہے، اُس وقت کے حساب سے 18 ویں ترمیم میں وسائل کی تقسیم کو بیلنس طے کیا گیا، اب اگر عملی طور پر فرق آیا ہے تو اس پر بات چیت اور غور و فکر کرنے میں تو کوئی عار نہیں ہے، اتفاق رائے ہو جائے گا تو دو تہائی اکثریت سے ترمیم ہو جائے گی۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں مساوات، یکجہتی و انسانی حقوق کا احترام ہو، آصف زرداری
  • بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فرانزک آڈٹ کی ضرورت ہے،حافظ نعیم الرحمان
  • ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں مساوات، یکجہتی اور انسانی حقوق کا احترام ہو، آصف زرداری
  • 18 ویں ترمیم کے تحت وسائل کی تقسیم میں توازن کی ضرورت، رانا ثنا کا اہم بیان
  • 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے: رانا ثنا
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے‘ چیئرمین راشد لنگڑیال
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ میں "کلچرل کنیکٹس اور ڈپلومیٹک ڈائیلاگ" پر ورکشاپ منعقد
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر
  • ترقی کا سفر نہ روکا جاتا تو ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہوتے: احسن اقبال
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی