Daily Ausaf:
2025-07-06@16:41:38 GMT

تہذیبی کردار سازی کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس وقت دنیا بھر میں تین سب سے بڑی تہذیبیں اپنے عروج پر ہیں جن میں مغربی تہذیب، اسلامی تہذیب اور لادینی تہذیب سرفہرست ہیں۔ تہذیبوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ ’’دنیا میں صرف حکمران قوموں کی تہذیبیں بچتی ہیں۔‘‘جبکہ دنیا پر حکمرانی صرف علم اور کردار کی طاقت سے کی جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مصر میں اہرام مصر کی شکل میں فرعون خاندان کی تہذیب کے آثار تو موجود ہیں مگر دنیا میں اس خاندان کی وراثت کا کوئی دعویٰ دار نہیں ہے کیونکہ ’’فرعونیت‘‘کو اخلاق و کردار سے عاری تہذیب سمجھا جاتا ہے جس کی بنیاد ظلم اور جبر پر مشتمل تھی۔فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں تھا بلکہ یہ شاہان مصرکا لقب تھا۔ جس طرح چینکے بادشاہ کوخاقان، روسکے بادشاہ کوزار، رومکے بادشاہ کوقیصر اور ایران کے بادشاہ کوکسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو’’فرعون‘‘کہا جاتاتھا۔
مسلم تہذیب کے پیروکار موجود ہیں اور اسلام اپنی اخلاقی اقدار اور تعلیمات کی طاقت سے دنیا بھر میں پھیل بھی رہا ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت کی سیرت اور کردار وہ نمونہ پیش نہیں کر پا رہے ہیں جو زندہ تہذیبوں کا خاصا ہوتا ہے۔ آج ماضی کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے آثار تو موجود ہیں مگر وہ تہذیبیں جو اپنی اخلاقی اقدار اور کردار کھو بیٹھی ہیں وہ کہیں نظر نہیں آتی ہیں۔ کلچر یا ثقافت ایک مخصوص وقت میں معاشرے کے افراد کی زندگی گزارنے کے طور طریقے، روایات اور رسم و رواج ہیں جبکہ تہذیب، تمدن اور ثقافت وسیع تصورات ہیں جس میں کسی قوم یا معاشرے کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا عنصر بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب و تمدن کو مغربی تہذیب اور کلچر سے کماحقہ خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اخلاقی زوال کے ساتھ تعلیمی اور علمی زوال بھی موجود ہے جس وجہ سے وہ خاطر خواہ ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔اسلامی ممالک میں درپردہ مسلمان بھی لادینی عقائد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت جس مغربی کلچر کو ’’فحاشی‘‘سے تعبیر کرتی ہے اندرون خانہ وہ خود اس کی دلدادہ ہے۔ اب پاکستان کے بڑے شہروں میں اہل مغرب کی طرح جنسی تعلق قائم کرنے کو اگرچہ چھپایا جاتا ہے مگر اسے تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے امرا، بیوروکریٹس اور حکمران طبقہ کے افراد پارٹیاں کرتے ہیں جو مغربی اور لادینی تہذیب کی طرز پر ہوتی ہیں۔ اگر اسلامی تہذیب کو بچانا ہے تو روزمرہ کی زندگی میں اس اخلاقی اقدار اور کردار و سیرت کو اپنانا ہو گا جو نبی مکرم محمدالرسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنائے رکھی۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم دنیا میں اسلامی تہذیب کو بچانے کے لیئے ایسی کوئی نمایاں اور متحرک تحریک موجود نہیں ہے۔
انگلینڈ کے قیام کے دوران میں نے اس فرق کو واضح طور پر محسوس کیا اور اب یہاں پاکستان میں اسے پروان چڑھتے دیکھ رہا ہوں۔ اگر ہم مغربی تہذیب کی اخلاقی خوبیوں کو ہی اپنا لیں تو مسلم تہذیب کے اخلاق و کردار کو بچایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ خود الحاد اور مغربی تہزیبوں نے یہ اخلاقی اقدار دین اسلام سے سیکھی ہے۔ ایک ملک اور قوم کی تہذیب اس کی تعمیرات کے علاوہ ان کے فنون لطیفہ، ادب، فلسفیانہ خیالات، طرز معاشرت اور مادی ترقی پر استوار ہوتی ہے۔ ہر ملک و قوم کا کوئی نہ کوئی تہذیبی سرمایہ ہوتا ہے، چاہے وہ قوم بہت زیادہ متمدن نہ کہی جا سکے پھر بھی وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ بنیادیں رکھتی ہے، جس سے وہ آڑے وقتوں میں خود کو سنبھالتی ہے، اس کے گیت، رقص، موسیقی، قصے، کہانیاں اور ضرب الامثال سب اس کے وجود کا جز ہوتے ہیں۔طبقاتی یا جابرانہ سماج میں تہذیب کے پنپنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ اٹلی اور جرمنی کا وہ ادب جو مسولینی اور ہٹلر کی خوں آشام خواہشات کا آئینہ تھا، اپنے ملک میں بھی مٹ چکا ہے، بین الاقوامی ادب کا جز بننا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہاں تک کہ مسولینی اور ہٹلر کی آپ بیتیاں دیکھنے کا شوق صرف تاریخ کے طالب علم رکھتے ہیں، کیونکہ جابرانہ معاشروں میں دانش و حکمت کو پھلنے پھولنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ تہزیب سے ایک مراد کسی قوم یا ملک کی داخلی یا خارجی زندگی کے تمام اہم پہلووں سے مجموعی طور پر پیدا ہونے والی وہ امتیازی خصوصیات مراد لی جاتی ہیں جن پر ان کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بھی خاص کر پاکستان میں ان تمام شعبوں میں تہذیبی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہی نہیں بلکہ کردار سازی کے حوالے سے تضادات کا شکار ہے۔اسلامی تہذیب کو بچانے اور پروان چڑھانے کے لیئے ادیبوں اور دانشوروں کو اپنی راہ منتخب کرنا ہو گی اور قومی زندگی کے ان تہذیبی عناصر کو ابھارنا ہو گا جو تہذیب کو بچانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ ان حقائق کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے جو تاریخ فراہم کرتی ہے اور جس سے منہ موڑ کر ادیب و محقق اور لکھاری محض کھوکھلی انفرادی خواہشات کا ترجمان بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اہل فکر کو حوصلہ افزا ماحول ملے اور وہ اس مد میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ چہ جائیکہ کہ اسلامی تہذیب کے عناصر قرآن و سنت میں آج بھی زندہ و جاوداں ہیں جن کو صرف متحرک اور فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اخلاقی اقدار اسلامی تہذیب کے بادشاہ کو اور کردار تہذیب کو تہذیب کے

پڑھیں:

ظالم نظام سے مفاہمت نہیں،مزاحمت مومن کا شعار ہے،ڈاکٹڑ اسامہ رضی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر)مرکزی نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر اسامہ رضی نے جماعت اسلامی ضلع وسطی میں جامع مسجد الفلاح ،ضلع قائدین میں جامع مسجد حرمین ،ضلع شمالی میں جامع مسجد الہدیٰ اور لانڈھی میں جامع مسجد قریشاں میں علیحدہ علیحدہ ایک روزہ دعوتی و تربیتی اجتماع عام سے شہادت امام حسینؓ و شہادت حق ‘‘کے موضوع پر خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت، دراصل حق و باطل کے معرکے میں حق کی سربلندی کا اعلان ہے۔ میدانِ کربلا ہمیں سکھاتا ہے کہ باطل کے سامنے سر جھکانے کے بجائے، حق پر قائم رہنا عین دین ہے۔ انہوں نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ ظالم نظام سے مفاہمت نہیں بلکہ مزاحمت مؤمن کا شعار ہے۔ آج بھی وقت کا یزید، استحصالی نظام، سودی معیشت، کرپشن اور ظلم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی، امام حسینؓ کے پیغام کو مشعلِ راہ بنا کر حق کے قیام کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ ہم عوام کو دعوت دیتے ہیں کہ ظلم کے خلاف، دین کے غلبے کے لیے جماعت اسلامی کے دست و بازو بنیں۔جماعت اسلامی فارم 47کی حکومت، ہائبرڈ نظام اور 26ویں ترمیم کو نہیں مانتی۔ ڈنڈا نہیں بلکہ آئین کسی قوم کو جوڑ کر رکھتا ہے۔ آئین کی پامالی قوم پر ظلم ہے، اور اسلام کے نام پر یہ ظلم کرنا مزید ظلم ہے۔ دعوتی و تربیتی اجتماع عام سے مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر عطا الرحمن، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری پاکستان شیخ عثمان فاروق،امیرکراچی منعم ظفر خان،امیر ضلع وسطی سید وجیہ حسن،امیر ضلع کیماڑی مولانا فضل احد،امیر ضلع شرقی نعیم اختر،امیرضلع ائرپورٹ محمد اشرف ودیگر نے بھی خطاب کیاجبکہ نائب امیرکراچی ڈاکٹر واسع شاکر نے درس قرآن پیش کیا۔ ڈاکٹر اسامہ رضی نے مزیدکہاکہ حق کی شہادت دینا اسلام کا اول ستون ہے اور یہی حضرت امام حسینؓ کا راستہ ہے۔ وقت کے یزید کو دل میں برا جاننا ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ اس کے بعد ایمان ہی نہیں ہوتا، تب بڑی سے بڑی نیکی بھی کسی کام کی نہیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے ’’اسلامی ریاست کا قیام ، ایک دینی ذمے داری ‘‘کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، وہ فکری، سیاسی، اخلاقی اور معاشی زوال کا دور ہے۔ اسلامی ریاست کا قیام محض ایک سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک ایمانی تقاضا اور دینی ذمے داری ہے۔اسلامی ریاست کا مقصد انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی میں لانا ہے۔ یہی اصل آزادی اوراصل نجات ہے۔آج پاکستان میں کرپشن عام ہے۔قانون امیروں کے لیے نرم، غریبوں کے لیے سخت ہے۔معیشت سودی نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔تعلیم، صحت، انصاف سب بحران کا شکار ہیں۔یہ سب اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتا، جب تک ہم اسلامی نظام کو بطور ریاستی نظام نافذ نہ کریں۔ ایک ایسا نظام جو عدل و مساوات، دیانت و شفافیت اور خدمت و اخوت جیسے اصولوں پر قائم ہو۔اسلامی ریاست کا مقصدقرآن و سنت کی بالادستی،عدل و انصاف کا قیام،اقامت نماز اور زکوٰۃ کا نظام،تعلیم کا فروغ اور جہالت کا خاتمہ،عورتوں، اقلیتوں اور کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی بندگی کا عملی نظام قائم کرنا ہے۔جماعت اسلامی کی بنیاد ہی اقامت دین پر رکھی گئی ہے ہم نہ صرف اسلامی ریاست کے قائل ہیں، بلکہ اس کے قیام کے لیے پرامن، جمہوری اور دعوتی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کی دعوت ہر اس فرد کے لیے ہے جو ظلم سے تنگ آ چکا ہے،جو عدل چاہتا ہے،جو اسلام کو صرف مسجد تک محدود نہیں رکھنا چاہتا،جو زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کو نافذ ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔اسلامی نظام کا نفاذ اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب دعوت و تربیت کے ذریعے ہر فرد کو اقامت دین کا شعور حاصل ہوسکے گا،جمہوری طریقے سے تبدیلی لانے کی ضرورت ہے،اصلاحِ معاشرہ کے لیے انسانی کردار، اخلاق، معیشت، تعلیم ہر سطح پر اصلاحی کام کرنے کی ضرورت ہے۔نوجوان طبقہ ہی اس ملک کا سرمایہ ہے،یہ وقت سوشل میڈیا کی بحثوں میں الجھنے یا مایوسی کا شکار ہونے کا نہیں، بلکہ شعور و عمل کے ساتھ اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہونے کا ہے۔ہم عزم کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر جماعت اسلامی کا حصہ بنیں اور اسلامی نظام کو لانے کی جدوجہد کریں۔شیخ عثمان فاروق کا ’’تحریک اسلامی منزل بہ منزل‘‘کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تحریک اسلامی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے جو اقامت دین کے لیے ہر دور میں برپا رہی ہے۔ ہم نے اپنی جدوجہد کا آغاز مسجد، مدرسے، گھر اور معاشرے سے کیا اور اب ہم پارلیمان، عدالت اور میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کا کارواں منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ہر وہ شخص جو دین کی سربلندی، کرپشن سے پاک پاکستان اور عدل پر مبنی نظام چاہتا ہے، وہ اس تحریک کا حصہ بنے۔ منعم ظفر خان نے ’’توسیع دعوت، فروغ وسائل،توسیع تنظیم‘‘کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دعوتِ دین کا پیغام ہر گلی، ہر بستی اور ہر دل تک پہنچانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ جماعت اسلامی دعوت کے ساتھ ساتھ تنظیمی طور پر خود کو ہر طبقے اور علاقے میں مضبوط کر رہی ہے۔ وسائل کے فروغ کے بغیر ایک مضبوط دینی و فلاحی تحریک ممکن نہیں، اس لیے ہم عوام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کے مالی، فکری اور تنظیمی بازو بنیں۔ کراچی کو اس کی اصل شناخت، عدل، ترقی اور دیانت داری کی طرف لانے کے لیے بھرپور عوامی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کے دست و بازو بنیں۔

متعلقہ مضامین

  • شی جن پھنگ کی ماحولیاتی تہذیب پر منتخب تحریریں نامی کتاب کی پہلی جلد کی اشاعت
  • ہمیں بطور قوم حسینی کردار کی سخت ضرورت ہے، صدر مملکت
  • ملک کو چیلنجز درپیش، بطور قوم حسینی کردار کی ضرورت ہے: صدر مملکت
  • ظالم نظام سے مفاہمت نہیں،مزاحمت مومن کا شعار ہے،ڈاکٹڑ اسامہ رضی
  • ملک کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں ہمیں حسینی کردار کی ضرورت ہے، صدر مملکت
  • دوحہ کا وعدہ اور خوارج کی تلوار
  • کشمیر میں شراب فروشی کا فروغ ہمارے ایمان، تہذیب و تمدن اور مستقبل پر حملہ ہے، میرواعظ کشمیر
  • علی ترین کی پی ایس ایل پر کڑی تنقید، ’اب جشن نہیں، جوابدہی کی ضرورت ہے‘
  • حزب اللہ کے خلاف بحران سازی کی ایک اور کوشش
  • سیول کا عہد نامہ عالمی تعاون پر اعتماد سازی میں اہم ہوگا