Daily Ausaf:
2025-09-17@23:03:44 GMT

تہذیبی کردار سازی کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس وقت دنیا بھر میں تین سب سے بڑی تہذیبیں اپنے عروج پر ہیں جن میں مغربی تہذیب، اسلامی تہذیب اور لادینی تہذیب سرفہرست ہیں۔ تہذیبوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ ’’دنیا میں صرف حکمران قوموں کی تہذیبیں بچتی ہیں۔‘‘جبکہ دنیا پر حکمرانی صرف علم اور کردار کی طاقت سے کی جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مصر میں اہرام مصر کی شکل میں فرعون خاندان کی تہذیب کے آثار تو موجود ہیں مگر دنیا میں اس خاندان کی وراثت کا کوئی دعویٰ دار نہیں ہے کیونکہ ’’فرعونیت‘‘کو اخلاق و کردار سے عاری تہذیب سمجھا جاتا ہے جس کی بنیاد ظلم اور جبر پر مشتمل تھی۔فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں تھا بلکہ یہ شاہان مصرکا لقب تھا۔ جس طرح چینکے بادشاہ کوخاقان، روسکے بادشاہ کوزار، رومکے بادشاہ کوقیصر اور ایران کے بادشاہ کوکسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو’’فرعون‘‘کہا جاتاتھا۔
مسلم تہذیب کے پیروکار موجود ہیں اور اسلام اپنی اخلاقی اقدار اور تعلیمات کی طاقت سے دنیا بھر میں پھیل بھی رہا ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت کی سیرت اور کردار وہ نمونہ پیش نہیں کر پا رہے ہیں جو زندہ تہذیبوں کا خاصا ہوتا ہے۔ آج ماضی کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے آثار تو موجود ہیں مگر وہ تہذیبیں جو اپنی اخلاقی اقدار اور کردار کھو بیٹھی ہیں وہ کہیں نظر نہیں آتی ہیں۔ کلچر یا ثقافت ایک مخصوص وقت میں معاشرے کے افراد کی زندگی گزارنے کے طور طریقے، روایات اور رسم و رواج ہیں جبکہ تہذیب، تمدن اور ثقافت وسیع تصورات ہیں جس میں کسی قوم یا معاشرے کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا عنصر بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب و تمدن کو مغربی تہذیب اور کلچر سے کماحقہ خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اخلاقی زوال کے ساتھ تعلیمی اور علمی زوال بھی موجود ہے جس وجہ سے وہ خاطر خواہ ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔اسلامی ممالک میں درپردہ مسلمان بھی لادینی عقائد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت جس مغربی کلچر کو ’’فحاشی‘‘سے تعبیر کرتی ہے اندرون خانہ وہ خود اس کی دلدادہ ہے۔ اب پاکستان کے بڑے شہروں میں اہل مغرب کی طرح جنسی تعلق قائم کرنے کو اگرچہ چھپایا جاتا ہے مگر اسے تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے امرا، بیوروکریٹس اور حکمران طبقہ کے افراد پارٹیاں کرتے ہیں جو مغربی اور لادینی تہذیب کی طرز پر ہوتی ہیں۔ اگر اسلامی تہذیب کو بچانا ہے تو روزمرہ کی زندگی میں اس اخلاقی اقدار اور کردار و سیرت کو اپنانا ہو گا جو نبی مکرم محمدالرسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنائے رکھی۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم دنیا میں اسلامی تہذیب کو بچانے کے لیئے ایسی کوئی نمایاں اور متحرک تحریک موجود نہیں ہے۔
انگلینڈ کے قیام کے دوران میں نے اس فرق کو واضح طور پر محسوس کیا اور اب یہاں پاکستان میں اسے پروان چڑھتے دیکھ رہا ہوں۔ اگر ہم مغربی تہذیب کی اخلاقی خوبیوں کو ہی اپنا لیں تو مسلم تہذیب کے اخلاق و کردار کو بچایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ خود الحاد اور مغربی تہزیبوں نے یہ اخلاقی اقدار دین اسلام سے سیکھی ہے۔ ایک ملک اور قوم کی تہذیب اس کی تعمیرات کے علاوہ ان کے فنون لطیفہ، ادب، فلسفیانہ خیالات، طرز معاشرت اور مادی ترقی پر استوار ہوتی ہے۔ ہر ملک و قوم کا کوئی نہ کوئی تہذیبی سرمایہ ہوتا ہے، چاہے وہ قوم بہت زیادہ متمدن نہ کہی جا سکے پھر بھی وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ بنیادیں رکھتی ہے، جس سے وہ آڑے وقتوں میں خود کو سنبھالتی ہے، اس کے گیت، رقص، موسیقی، قصے، کہانیاں اور ضرب الامثال سب اس کے وجود کا جز ہوتے ہیں۔طبقاتی یا جابرانہ سماج میں تہذیب کے پنپنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ اٹلی اور جرمنی کا وہ ادب جو مسولینی اور ہٹلر کی خوں آشام خواہشات کا آئینہ تھا، اپنے ملک میں بھی مٹ چکا ہے، بین الاقوامی ادب کا جز بننا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہاں تک کہ مسولینی اور ہٹلر کی آپ بیتیاں دیکھنے کا شوق صرف تاریخ کے طالب علم رکھتے ہیں، کیونکہ جابرانہ معاشروں میں دانش و حکمت کو پھلنے پھولنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ تہزیب سے ایک مراد کسی قوم یا ملک کی داخلی یا خارجی زندگی کے تمام اہم پہلووں سے مجموعی طور پر پیدا ہونے والی وہ امتیازی خصوصیات مراد لی جاتی ہیں جن پر ان کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بھی خاص کر پاکستان میں ان تمام شعبوں میں تہذیبی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہی نہیں بلکہ کردار سازی کے حوالے سے تضادات کا شکار ہے۔اسلامی تہذیب کو بچانے اور پروان چڑھانے کے لیئے ادیبوں اور دانشوروں کو اپنی راہ منتخب کرنا ہو گی اور قومی زندگی کے ان تہذیبی عناصر کو ابھارنا ہو گا جو تہذیب کو بچانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ ان حقائق کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے جو تاریخ فراہم کرتی ہے اور جس سے منہ موڑ کر ادیب و محقق اور لکھاری محض کھوکھلی انفرادی خواہشات کا ترجمان بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اہل فکر کو حوصلہ افزا ماحول ملے اور وہ اس مد میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ چہ جائیکہ کہ اسلامی تہذیب کے عناصر قرآن و سنت میں آج بھی زندہ و جاوداں ہیں جن کو صرف متحرک اور فعال کرنے کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اخلاقی اقدار اسلامی تہذیب کے بادشاہ کو اور کردار تہذیب کو تہذیب کے

پڑھیں:

بشریٰ بی بی کو قیدیوں میں سے سب سے اچھا کھانا کھلایا جاتاہے: سلمان احمد

اسلام آباد (ویب ڈیسک) تحریک انصاف سے وابستہ رہنے والے شاعر سلمان احمد نے بشریٰ بی بی کو سہولیات کی عدم دستیابی سے متعلق دعوے ٹھکرادیے ہیں اور کہاہے کہ انہیں سب سے بہتر سہولیات دستیاب ہیں۔ 
سوشل میڈیا پراپنے پیغام میں سلمان احمد نے لکھا کہ "میری کزن نےاندرونی ذرائع کے حوالے سے مجھے بتایاکہ بشریٰ بی بی کو بوسیدہ کھانا نہیں ملتا بلکہ قیدیوں میں سے سب سے اچھاکھانا انہیں کھلایا جاتاہے، انہیں تہذیب بیکری کی مٹھائی باقاعدگی سےملتی ہے، کے ایف سی چکن، خشک میوہ جات وغیرہ"۔
انہوں نے مزید لکھا کہ  وہ(کزن) مجھے ایک مکمل فہرست بھیجے گی جب اسے ملے گی جبکہ عمران خان کوزہردیے جانے کے خدشے کے پیش نظر باہر سے کھانا لینے کی اجازت نہیں لیکن خاتون کے کیس میں ایسا کوئی خدشہ نہیں، وہ ایک قیمتی اثاثہ ہیں"۔

رواں سال کے پہلے 6 ماہ صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کو کیا تحائف ملے؟توشہ خانہ کا ریکارڈ جاری

BREAKING NEWS: From inside SOURCE: My cousin tells me that Bushra Bibi far from receiving contaminated food she is of the most well fed prisoners. She receives Tehzeeb bakery mithai on a regular basis, kfc chicken, lots of dried fruit etc. He will send me a full list of what she…

— Salman Ahmad (@sufisal) September 15, 2025

اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی درخواست پر انسانی حقوق کونسل کا اجلاس آج طلب


سلمان احمد کے اس دعوے پر سوشل میڈیا صارفین نے انہیں آڑھے ہاتھوں لے لیا اور بتایا کہ " تہذیب بیکرز مٹھائی نہیں بیچتے"۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی امریکی صدر سے 25 ستمبر کو ملاقات کا امکان

Tehzeeb bakers don't sell "mithai"

~ Azhar Mashwani September 2026 https://t.co/6kbhhvVlgN

— SK (@hawkkhosa) September 15, 2025


 اظہر مشوانی نے بھی تہذیب بیکرز کے مٹھائی بیچنے کی تردید کرتے ہوئے لکھا کہ ایک اور بے بنیاد اور احمقانہ ٹوئیٹ پرآپ معذرت کریں گے؟عمران خان نے آپ کو کئی بار ہدایت کی ہے کہ ایسی بکواس بند کریں ۔بعدازاں اظہرمشوانی نے یہ ٹوئیٹ مبینہ طورپر ڈیلیٹ کردی ہے۔ 

حالیہ واقعات کے سبب قطر اور دیگر ممالک نے اسرائیل کو تنہا کر دیا : نیتن یاہو

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اسلامی تہذیب کے انجن کی پاور لائیز خراب ہوگئی ہیں،احسن اقبال
  • پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، حافظ نصراللہ چنا
  • امت مسلمہ کے مابین باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے، فضل الرحمان
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ڈیجیٹلائزیشن کو وقت کی ضرورت قرار دیدیا
  • امت مسلمہ کو باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمان
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • صیہونی مخالف اتحاد، انتخاب یا ضرورت!
  • بشریٰ بی بی کو قیدیوں میں سے سب سے اچھا کھانا کھلایا جاتاہے: سلمان احمد
  • ادارۂ ترقیات شہر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے‘ آصف جان صدیقی
  • قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا اس کے ساتھ ہے، سیکریٹری جنرل عرب لیگ