سوات واقعہ کیوں پیش آیا، قصور وار کون ہے؟ تہلکہ خیز انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں پیش آنے والے سانحے کی ممکنہ وجہ اور غفلت سامنے آگئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سوات کے علاقے فضا گٹ کے مقام پر پیش آنے والے حادثے اور 13 افراد کی ہلاکت کی ممکنہ وجہ مافیا کی جانب سے مٹی اور پتھروں کی مدد سے بند بناکر دریا کا رخ موڑنا ہے۔
دریا کنارے کرشنگ اور تجاوزات
ذرائع کے مطابق کرشنگ اور ہوٹل مالکان کی ایما پر یہ کام کیا گیا تھا اور وقوعہ کے روز پانی کے تیز بھاؤ نے اس بند کو توڑ دیا۔ واقعے سے قبل پانی نہیں تھا جس کی وجہ سے سیاح کم پانی کو دیکھتے ہوئے ٹیلے کے پاس گئے اور پھر یکدم تیز بھاؤ کی وجہ سے مٹی کا بند ٹوٹ گیا۔
پانی کے بھاؤ کی وجہ سے پنجاب کے علاقے ڈسکہ کی فیملی سمیت خیبرپختونخوا کے سیاح بھی اس میں پھنس گئے تھے اور پھر وہ ایک گھنٹے تک مدد کیلیے پکارتے رہے تاہم اس دوران اتنظامیہ کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے اور 12 سیاح دریا میں بہہ گئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بند بنانے پر مقامی افراد نے شدید احتجاج کیا تھا مگر مافیا نے انہیں اپنے تعلقات کی بنیاد پر خاموش کروادیا اور انتظامیہ نے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا۔
حادثے کی بنیادی وجوہات
سوات میں مینگورہ سے لے کر کالام، اتروڑ اور دیگر مقامات پر ہوٹل مالکان کی جانب سے تجاوزات قائم کر کے دریا کا رخ موڑنے گزر گاہ کو کم کرنے کے علاوہ اب وہاں پر دریا کے کنارے تیزی سے کرشنگ کا غیر قانونی کام چل رہا ہے۔
کرشنگ کے کام کے دوران دریا میں کھدائی کر کے مٹی و پتھر نکال کر ان کا کرش بنا کر اس کو تعمیراتی کام کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں یہ کام صرف رات کے وقت ہوتا تھا تاہم گزشتہ چند سالوں سے بھاری مشینری اور گاڑیاں دن دہاڑے بھی دریا کنارے نظر آتی ہیں اور ایک چھوٹی گاڑی 5 سے 10 ہزار میں فروخت ہوتی ہے۔
نشاندہی پر دھمکیاں اور شکایت پر ادارے بے بسی ظاہر کرتے ہیں
سوات سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی کارکن و رضاکار ہارون سراج نے بتایا کہ اس حوالے سے علاقہ مکین، سول سوسائٹی کے نمائندے کئی بار شکایات کر چکے ہیں جبکہ میڈیا نے بھی اس خرابی کی نشاندہی کی تھی تاہم انتطامیہ غفلت کی چادر اوڑھ کر سوتی رہی۔
انہوں نے بتایا کہ جب کوئی اس معاملے پر زیادہ بولنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے سنگین دھمکیاں موصول ہوتی ہیں اور پھر شکایت درج کرانے پر ادارے اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہیں۔
ریسکیو 1122 کے ذرائع نے بتایا کہ سوات کیلیے کئی غوطہ خور بھرتی کیے ہوئے ہیں تاہم وہ سیاسی بنیاد پر اپنی ڈیوٹیوں پر آنے کے بجائے پارٹی قائدین اور وزرا کے ساتھ وقت گزار کر سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی سوات واقعے کے حوالے سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ واقعے کے وقت سوات میں ہیلی کاپٹر موجود تھا مگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، تربیت یافتہ عملہ نہ ہونے کے باعث تاخیر ہوئی۔
دوسری جانب وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے بنائی گئی انسپکشن ٹیم کا تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، جس نے معطل کیے گئے 6 افسران کا بیان بھی قلمبند کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سابق ڈپٹی کمشنر سوات ، سابق ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ، دو اسسٹنٹ کمشنرز ، ضلعی ریسکیو آفیسر سمیت ٹی ایم او کا بیان قلمبند کر لیا گیا۔
صوبائی انسپکشن ٹیم کے سربراہ خیام حسن و دیگر ارکان نے بروقت امدادی ٹیمیں نہ پہنچنے کے سوالات کیے جبکہ معطل کیے گئے ضلعی ریسکیو آفیسر سوات نے شواہد کے ساتھ کمیٹی کو تفصیلی سے آگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق ریسکیو افسر نے موصول ہونے والی کالز کی تفصیلات کی رپورٹ بھی جمع کرائی جس میں بتایا گیا ہے کہ پہلی کال موصول ہونے کے 19 منٹ بعد عملہ پہنچا۔
اس کے علاوہ معطل ڈی سی سوات ، دو اسسٹنٹ کمشنرز نے بھی ملنے والی اطلاعات پر ریسپانس سے تفصیلی آگاہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ایم او کی جانب سے غفلت برتنے پر سرزنش کی گئی۔
صوبائی انسپکشن ٹیم نے جائے حادثہ پر موجود عام شہریوں کے بیانات بھی قلمبند کئے اور سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز شواہد کا بھی جائزہ لیا۔
صوبائی انسپکشن ٹیم وزیراعلی علی امین گنڈاپور کو آج شام رپورٹ پیش کرے گی جبکہ 7 روز میں ورکنگ مکمل کر کے رپورٹ حکومت کو پیش کی جائے گی۔
حکومتی اقدامات
سانحہ سوات کے بعد صوبائی حکومت نے ضلعی انتظامیہ کو دریا کنارے قائم تمام تجاوزات ختم کرنے اور کھدائی فوری طور پر رکوانے کے احکامات دیے جس پر گزشتہ روز روز سے کارروائیاں جاری ہیں۔
ضلعی انتظامیہ نے غیرقانونی تجاوزات کے خلاف انہدامی کاررائی میں بائی پاس اور فضا گھٹ کے مقام پر قائم 26 ہوٹلز و ریسٹورنٹس کو مسمار کردیا ہے جبکہ ذرائع کے مطابق متاثرہ فیملی نے دریا کنارے جس پوٹل پر ناشتہ کیا تھا اُسے بھی منہدم کردیا گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایت پر تجاوزات کے خلاف آپریشن بلا تفریق جاری رہے گا اور کسی سیاسی دباؤ میں آئے بغیر آپریشن کا دائرہ کار مزید وسیع کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ذرائع کے مطابق انسپکشن ٹیم دریا کنارے کی جانب سے
پڑھیں:
آزاد کشمیر میں پاکستان مخالف نعرے کیوں؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-03-4
عبید مغل
آزاد کشمیر میں حالیہ احتجاجی لہر کا کامیاب مذاکرات پر اختتام بلاشبہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ یہ خبر وقتی طور پر عوام کے لیے سکون اور خطے کے لیے انتشار سے نجات کا باعث بنی، مگر یہ سکون کسی دیرپا اور پائیدار حل کی ضمانت نہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے آزاد کشمیر کی فضاؤں میں اپنے ہی محسن اور محافظ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف نعرے بلند کرا دیے؟ یہ سوال ہر محب وطن کشمیری اور پاکستانی کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے، اور اس کا جواب ہمیں ماضی کی سیاست کی تلخیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے سائے میں تلاش کرنا ہوگا۔ اسی پس منظر میں یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ ایسے حکمران مسلط کیے گئے جو اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے بغیر اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ ماضی کی سیاست نوٹوں کے بریف کیسوں، بلاول ہاؤس کے دروازوں اور پنڈی کے درباروں کے طواف پر چلتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے مسلط شدہ حکمرانوں کے دور میں آزاد کشمیر میں اقربا پروری، کرپشن، بدانتظامی اور ناانصافی جیسے مسائل نے جڑ پکڑی اور رفتہ رفتہ ایک ایسا دلدل بن گیا جس نے عوام کے صبر اور اعتماد دونوں کو نگل لیا۔ لیکن یہ سب کچھ محض داخلی خرابیوں تک محدود نہ رہا۔ انہی مسائل کو جواز بنا کر دشمن قوتوں نے مظاہرین کی صفوں میں سرایت کی اور ایسے نعرے بلند ہوئے جنہیں سن کر پاکستان سے محبت کرنے والے کشمیری بھی حیران و دکھی ہوئے۔ یوں عوامی مسائل کے نام پر ہونے والے احتجاج کو پاکستان مخالف ایجنڈے کا روپ دے دیا گیا۔
اسی تناظر میں ایک اور سنگین مسئلہ مہاجرین کی بارہ نشستوں کا ہے۔ یہ نشستیں کشمیری عوام کی حقیقی نمائندگی کے بجائے ہمیشہ طاقت کے کھیل کا حصہ رہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں تو یہ کھیل حد سے بڑھ گیا، جب ایم کیو ایم کے غیر کشمیری امیدوار انہی نشستوں پر کامیاب قرار دیے گئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے غیر کشمیری افراد کو آزاد کشمیر کے شناختی کارڈ جاری کرنا، ان کی بنیاد پر برطانیہ میں سیاسی پناہ کے دعوے کرنا اور پھر پاکستانی پاسپورٹ کے حصول پر بریڈ فورڈ قونصلیٹ کے عملے کا چونک اٹھنا ہماری سیاسی تاریخ کے وہ الم ناک مناظر ہیں جنہوں نے عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا۔ مگر جب تک ادارے خود ان بداعتمادی کے راستوں کو بند نہیں کریں گے، عوام کے بس میں کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان نشستوں کے خاتمے کا مطالبہ اب شدت اختیار کر چکا ہے۔ اگر آزاد کشمیر اور پاکستان میں شفاف انتخابات ممکن ہو جائیں تو بلاشبہ ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، جہاں قومی یکجہتی اور خوشحالی کو فروغ ملے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ واقعی اپنی ماضی کی روش بدلنے کو تیار ہے؟ 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کر اور سی سی ٹی وی کیمروں پر پردے ڈال کر پی ٹی آئی کو کامیاب کرایا گیا۔ پھر جب وہ جماعت قابو سے باہر ہوئی تو 2024 کے الیکشن میں فارم 47 کے ذریعے اسے زبردستی اقتدار سے باہر کیا گیا۔ جب ادارے اپنے حلف کی پاسداری اور آئین و قانون کے احترام سے روگردانی کرتے ہیں تو انجام لازمی طور پر نو مئی جیسے سانحات اور آزاد کشمیر میں پاکستان مخالف نعروں کی صورت میں نکلتا ہے۔
ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایکشن کمیٹی کے بیشتر مطالبات بالکل جائز تھے۔ عوامی مشکلات اور معاشی دباؤ کے خلاف آواز بلند کرنا حق بجانب تھا۔ مگر افسوس یہ کہ بعض علٰیحدگی پسند عناصر اور پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے ان مطالبات کو ہائی جیک کر کے پاکستان مخالف بیانیے میں بدل دیا۔ یہی وجہ بنی کہ جماعت اسلامی جیسی محب وطن اور اصولی سیاست کرنے والی جماعت کے رہنما بھی ایکشن کمیٹی سے الگ ہوگئے۔ لہٰذا کشمیری عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ مسائل کے حل کے لیے باوقار اور شائستہ طریقہ اپنایا جائے۔ اپنے ہی محسنوں اور محافظوں کو گالی دینا نہ دانشمندی ہے اور نہ ہی مسئلے کا حل۔ پاکستان کے پچیس کروڑ عوام کشمیریوں سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں، مگر افسوس کہ ہندوستان کی فنڈنگ پر چلنے والے عناصر کو یہ حقیقت کبھی سمجھ نہیں آتی۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کو گالی دینا دراصل اپنے سب سے بڑے محسن کی توہین ہے۔ آخرکار یہ پورا منظرنامہ ایک پیغام دے رہا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اپنی غیر آئینی مداخلت ترک کرے، حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدگی دکھائے، اور انتخابات کو شفافیت کے ساتھ منعقد کیا جائے تو نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے پاکستان میں امن، خوشحالی اور یکجہتی کی نئی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ ورنہ یہ چنگاریاں ایک دن شعلہ بن جائیں گی اور اْس وقت پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔