جیو پولیٹکس کے سائے میں تاریخ اکثر خود کو دہراتی ہے… نہ کہ ایک مذاق کے طور پر، بلکہ ایک سرد اور لرزہ خیز تکرار کے طور پر، جس میں کردار نئے ہوتے ہیں مگر مقاصد وہی پرانے۔ دو واقعات… جن کے درمیان تقریباً چھ دہائیوں کا فاصلہ ہے… حیرت انگیز مماثلت کے ساتھ ایک دوسرے کی بازگشت محسوس ہوتے ہیں: 1967ء میں یو ایس ایس لبرٹی پر حملہ، اور 2025 ء میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں گھڑی گئی ایک ڈرامائی کارروائی، جو پاکستان پر بلاجواز حملے کا سبب بنی۔
8 جون 1967 ء کو، اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین چھ روزہ جنگ کے دوران، یو ایس ایس لبرٹی…جو کہ امریکی نیوی کا انٹیلی جنس اکٹھا کرنے والا جہاز تھا…جزیرہ نما سینائی کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں موجود تھا۔ یہ جہاز واضح طور پر امریکی پرچم کے ساتھ نشاندہی شدہ اور غیر مسلح تھا، لیکن اسے اسرائیلی لڑاکا طیاروں اور ٹارپیڈو کشتیوں نے بہیمانہ انداز میں نشانہ بنایا۔ ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اس حملے میں 34 امریکی فوجی ہلاک اور 171 زخمی ہوئے۔ امریکی پرچم اور شناختی سگنلز کے باوجود حملہ رکا نہیں، بلکہ انتہائی مہارت سے جاری رکھا گیا۔
جہاز کی بقا ایک معجزہ تھی، جو اس کے کپتان کمانڈر ولیم ایل میکگونگل کی قیادت اور جرات کی مرہون منت تھی۔ شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ ڈیک پر موجود رہے اور جہاز کی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کی قیادت اور عملے کی بہادری نے جہاز کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ انہیں اعلیٰ ترین امریکی فوجی اعزاز ’’میڈل آف آنر‘‘ سے نوازا گیا، مگر یہ اعزاز غیر معمولی طور پر وائٹ ہاؤس کے بجائے واشنگٹن نیوی یارڈ میں ایک نجی تقریب میں دیا گیا، تاکہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی پیچیدگیاں نہ پیدا ہوں۔
حملے سے بچ جانے والے افراد ہمیشہ سے اصرار کرتے آئے ہیں کہ یہ حملہ جان بوجھ کر کیا گیا۔ ایک اہلکار، پیٹی آفیسر ارنی گیلو نے کہا ’’یہ ممکن ہی نہیں کہ انہیں ہماری پہچان نہ ہو۔ ہمارا جہاز واضح طور پر نشان زدہ تھا۔ ہمیں دھوکہ دیا گیا۔‘‘
ایک اور زندہ بچ جانے والے، جو میڈورز نے اسے ’’کولڈ بلڈڈ قتل‘‘’ قرار دیا۔ اگرچہ سرکاری بیانیے نے سچائی کو دفن کرنے کی کوشش کی، مگر ان گواہوں کی آوازیں آج تک خاموش نہ ہو سکیں۔
اب آئیے مئی 2025 ء کی طرف۔ ایک مشکوک انداز میں ملتا جلتا واقعہ دیکھنے کو ملا۔ 6 مئی کو بھارتی میڈیا نے سنسنی خیز خبریں چلانا شروع کیں کہ پہلگام میں ’’ایک بڑا دہشت گرد حملہ‘‘ ناکام بنایا گیا ہے، اور دعویٰ کیا کہ پاکستانی سرزمین سے آئے عسکریت پسندوں نے بھارتی فوج کے قافلے پر خودکش حملے کی کوشش کی۔ یہ خبر عین اس وقت آئی جب بھارت میں عام انتخابات قریب تھے، معیشت گراوٹ کا شکار تھی، کسانوں کے احتجاج عروج پر تھے، اور حکومت کی آمرانہ پالیسیوں پر تنقید بڑھ رہی تھی۔
محض 24گھنٹوں کے اندر، بغیر کسی ٹھوس ثبوت یا بین الاقوامی تحقیقات کے، بھارتی حکومت نے لائن آف کنٹرول کے پار یکطرفہ فضائی حملہ کیا، جسے اس نے ’’دہشت گردی کے ڈھانچے‘‘ پر کارروائی قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں 7 مئی 2025 ء کو پاکستان اور بھارت… جو دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں … کے درمیان ایک روزہ مگر انتہائی شدید جنگ چھڑ گئی۔ پاکستان نے فوری اور مناسب جواب دیا اور کئی بھارتی طیارے مار گرائے۔ دونوں اطراف درجنوں فوجی اور شہری جان سے گئے۔ خطے میں ایٹمی تباہی کے سائے منڈلانے لگے اور عالمی رہنمائوں نے تحمل کی اپیلیں کیں۔ مگر غیر جانب دار مبصرین نے پہلگام واقعے کی سچائی پر شکوک کا اظہار کیا۔
یو ایس ایس لبرٹی کے واقعے اور پہلگام 2025 ء کے درمیان مماثلتیں حیران کن ہیں:
دونوں میں ابتدائی واقعہ…چاہے وہ لبرٹی پر حملہ ہو یا مبینہ دہشت گرد سازش…ایک غیر متناسب فوجی ردعمل کا جواز بنایا گیا۔
دونوں میں عوام اور عالمی برادری کو جھوٹ یا گمراہ کن معلومات فراہم کی گئیں۔ لبرٹی کیس میں اسرائیل نے غلط شناخت کا دعویٰ کیا، حالانکہ ثبوت اس کے برعکس تھے۔ پہلگام کیس میں بھارت نے کوئی فرانزک یا آزاد تصدیق پیش نہ کی، بلکہ سرکاری میڈیا کے ذریعے جنگی جنون کو ہوا دی گئی۔
دونوں میں حکمت عملی کے واضح مقاصد تھے۔ 1967 ء میں اسرائیل نے گواہ ختم کرنا اور امریکہ کو جنگ میں گھسیٹنا چاہا، جبکہ 2025 ء میں بھارتی حکومت نے اندرونی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
دونوں حملے ان ملکوں پر کیے گئے جو یا تو اتحادی تھے یا براہِ راست حالتِ جنگ میں نہ تھے۔ یو ایس ایس لبرٹی امریکی جہاز تھا، اسرائیل کے اتحادی امریکہ کا۔ پاکستان، 2025 ء میں، خطے میں امن کا خواہاں تھا اور متعدد اعتماد سازی کے اقدامات کر چکا تھا، مگر پھر بھی بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے نشانہ بنایا گیا۔
آخر میں، دونوں واقعات میں سچ کو سفارتی خاموشی، میڈیا کنٹرول اور اسٹریٹجک پردہ پوشی کے نیچے دفن کر دیا گیا۔ لبرٹی حملے کے متاثرین آج تک انصاف کے متلاشی رہے، مگر امریکی حکومتوں نے اسرائیل سے تعلقات کو سچائی پر ترجیح دی۔ آج بھی عالمی طاقتیں بھارت کے بیانیے پر سوال اٹھانے سے گریز کرتی ہیں، کہیں تجارتی و تزویراتی تعلقات متاثر نہ ہوں۔
مگر یہ مماثلتیں ایک تنبیہ بھی ہیں۔ کتنی ہی مہارت سے تیار کیا گیا بحران ہو، وہ بالآخر عدم استحکام کو جنم دیتا ہے۔ یو ایس ایس لبرٹی پر حملے نے امریکی فوجیوں اور ان کی قیادت کے درمیان اعتماد کو مجروح کیا، جبکہ 2025 ء میں پاکستان پر حملے نے خطے میں پھر سے کشیدگی کو بھڑکا دیا، جو شاید اتنی آسانی سے کم نہ ہو سکے۔
یو ایس ایس لبرٹی اور پہلگام کا واقعہ… دونوں اس تلخ حقیقت کی علامت ہیں کہ جب اسٹریٹجک فریب کاری میں سچ سب سے پہلا شکار بن جائے، تو انجام بہت بھیانک ہوتا ہے۔ خاص طور پر جنوبی ایشیاء جیسے خطے میں ضروری ہے کہ اقوام شفاف تنازعہ حل کرنے کے طریقوں پر سرمایہ کاری کریں اور جنگ کو داخلی سیاسی فوائد کے لیے استعمال کرنے کی روش کو ترک کریں۔ ورنہ تاریخ خود کو دہراتی رہے گی… ہر بار زیادہ المناک نتائج کے ساتھ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: یو ایس ایس لبرٹی کے درمیان کے ساتھ
پڑھیں:
2 ارب لوگوں کی نظریں اسلامی سربراہی اجلاس پر ہیں: اسحاق ڈار
نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ دنیا کے 2 ارب لوگوں کی نظریں قطر میں ہونے والے عرب اسلامی سربراہی اجلاس پر ہیں۔
عرب میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف واضح روڈ میپ نہ دیا تو یہ افسوسناک ہو گا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 2 ارب لوگ یہ جاننے کے لیے منتظر ہیں کہ اس سمٹ سے کیا نکلتا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے 9 ستمبر کو قطر پر کیے گئے حملے کے بعد عرب اسلامی سربراہی اجلاس آج قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہو رہا ہے۔
سربراہی اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے ہونے والے حملے کی مذمت کے ساتھ مستقبل میں اسرائیل کی جانب سے اس طرح کے حملے روکنے کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف بھی عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے جبکہ گزشتہ روز وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قطر اور خطے کے دیگر ممالک پر اسرائیلی حملوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے حملوں کی بھرپور مذمت کی تھی۔
اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ اجلاس کے اجلاس سے خطاب میں اسحاق ڈار نے اسرائیلی عزائم کی نگرانی کے لیے عرب اسلامی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دی تھی۔
Post Views: 5