Daily Ausaf:
2025-05-21@18:59:55 GMT

دھوکہ دہی کی بازگشت

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

جیو پولیٹکس کے سائے میں تاریخ اکثر خود کو دہراتی ہے… نہ کہ ایک مذاق کے طور پر، بلکہ ایک سرد اور لرزہ خیز تکرار کے طور پر، جس میں کردار نئے ہوتے ہیں مگر مقاصد وہی پرانے۔ دو واقعات… جن کے درمیان تقریباً چھ دہائیوں کا فاصلہ ہے… حیرت انگیز مماثلت کے ساتھ ایک دوسرے کی بازگشت محسوس ہوتے ہیں: 1967ء میں یو ایس ایس لبرٹی پر حملہ، اور 2025 ء میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں گھڑی گئی ایک ڈرامائی کارروائی، جو پاکستان پر بلاجواز حملے کا سبب بنی۔
8 جون 1967 ء کو، اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین چھ روزہ جنگ کے دوران، یو ایس ایس لبرٹی…جو کہ امریکی نیوی کا انٹیلی جنس اکٹھا کرنے والا جہاز تھا…جزیرہ نما سینائی کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں موجود تھا۔ یہ جہاز واضح طور پر امریکی پرچم کے ساتھ نشاندہی شدہ اور غیر مسلح تھا، لیکن اسے اسرائیلی لڑاکا طیاروں اور ٹارپیڈو کشتیوں نے بہیمانہ انداز میں نشانہ بنایا۔ ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اس حملے میں 34 امریکی فوجی ہلاک اور 171 زخمی ہوئے۔ امریکی پرچم اور شناختی سگنلز کے باوجود حملہ رکا نہیں، بلکہ انتہائی مہارت سے جاری رکھا گیا۔
جہاز کی بقا ایک معجزہ تھی، جو اس کے کپتان کمانڈر ولیم ایل میکگونگل کی قیادت اور جرات کی مرہون منت تھی۔ شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ ڈیک پر موجود رہے اور جہاز کی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کی قیادت اور عملے کی بہادری نے جہاز کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ انہیں اعلیٰ ترین امریکی فوجی اعزاز ’’میڈل آف آنر‘‘ سے نوازا گیا، مگر یہ اعزاز غیر معمولی طور پر وائٹ ہاؤس کے بجائے واشنگٹن نیوی یارڈ میں ایک نجی تقریب میں دیا گیا، تاکہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی پیچیدگیاں نہ پیدا ہوں۔
حملے سے بچ جانے والے افراد ہمیشہ سے اصرار کرتے آئے ہیں کہ یہ حملہ جان بوجھ کر کیا گیا۔ ایک اہلکار، پیٹی آفیسر ارنی گیلو نے کہا ’’یہ ممکن ہی نہیں کہ انہیں ہماری پہچان نہ ہو۔ ہمارا جہاز واضح طور پر نشان زدہ تھا۔ ہمیں دھوکہ دیا گیا۔‘‘
ایک اور زندہ بچ جانے والے، جو میڈورز نے اسے ’’کولڈ بلڈڈ قتل‘‘’ قرار دیا۔ اگرچہ سرکاری بیانیے نے سچائی کو دفن کرنے کی کوشش کی، مگر ان گواہوں کی آوازیں آج تک خاموش نہ ہو سکیں۔
اب آئیے مئی 2025 ء کی طرف۔ ایک مشکوک انداز میں ملتا جلتا واقعہ دیکھنے کو ملا۔ 6 مئی کو بھارتی میڈیا نے سنسنی خیز خبریں چلانا شروع کیں کہ پہلگام میں ’’ایک بڑا دہشت گرد حملہ‘‘ ناکام بنایا گیا ہے، اور دعویٰ کیا کہ پاکستانی سرزمین سے آئے عسکریت پسندوں نے بھارتی فوج کے قافلے پر خودکش حملے کی کوشش کی۔ یہ خبر عین اس وقت آئی جب بھارت میں عام انتخابات قریب تھے، معیشت گراوٹ کا شکار تھی، کسانوں کے احتجاج عروج پر تھے، اور حکومت کی آمرانہ پالیسیوں پر تنقید بڑھ رہی تھی۔
محض 24گھنٹوں کے اندر، بغیر کسی ٹھوس ثبوت یا بین الاقوامی تحقیقات کے، بھارتی حکومت نے لائن آف کنٹرول کے پار یکطرفہ فضائی حملہ کیا، جسے اس نے ’’دہشت گردی کے ڈھانچے‘‘ پر کارروائی قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں 7 مئی 2025 ء کو پاکستان اور بھارت… جو دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں … کے درمیان ایک روزہ مگر انتہائی شدید جنگ چھڑ گئی۔ پاکستان نے فوری اور مناسب جواب دیا اور کئی بھارتی طیارے مار گرائے۔ دونوں اطراف درجنوں فوجی اور شہری جان سے گئے۔ خطے میں ایٹمی تباہی کے سائے منڈلانے لگے اور عالمی رہنمائوں نے تحمل کی اپیلیں کیں۔ مگر غیر جانب دار مبصرین نے پہلگام واقعے کی سچائی پر شکوک کا اظہار کیا۔
یو ایس ایس لبرٹی کے واقعے اور پہلگام 2025 ء کے درمیان مماثلتیں حیران کن ہیں:
دونوں میں ابتدائی واقعہ…چاہے وہ لبرٹی پر حملہ ہو یا مبینہ دہشت گرد سازش…ایک غیر متناسب فوجی ردعمل کا جواز بنایا گیا۔
دونوں میں عوام اور عالمی برادری کو جھوٹ یا گمراہ کن معلومات فراہم کی گئیں۔ لبرٹی کیس میں اسرائیل نے غلط شناخت کا دعویٰ کیا، حالانکہ ثبوت اس کے برعکس تھے۔ پہلگام کیس میں بھارت نے کوئی فرانزک یا آزاد تصدیق پیش نہ کی، بلکہ سرکاری میڈیا کے ذریعے جنگی جنون کو ہوا دی گئی۔
دونوں میں حکمت عملی کے واضح مقاصد تھے۔ 1967 ء میں اسرائیل نے گواہ ختم کرنا اور امریکہ کو جنگ میں گھسیٹنا چاہا، جبکہ 2025 ء میں بھارتی حکومت نے اندرونی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
دونوں حملے ان ملکوں پر کیے گئے جو یا تو اتحادی تھے یا براہِ راست حالتِ جنگ میں نہ تھے۔ یو ایس ایس لبرٹی امریکی جہاز تھا، اسرائیل کے اتحادی امریکہ کا۔ پاکستان، 2025 ء میں، خطے میں امن کا خواہاں تھا اور متعدد اعتماد سازی کے اقدامات کر چکا تھا، مگر پھر بھی بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے نشانہ بنایا گیا۔
آخر میں، دونوں واقعات میں سچ کو سفارتی خاموشی، میڈیا کنٹرول اور اسٹریٹجک پردہ پوشی کے نیچے دفن کر دیا گیا۔ لبرٹی حملے کے متاثرین آج تک انصاف کے متلاشی رہے، مگر امریکی حکومتوں نے اسرائیل سے تعلقات کو سچائی پر ترجیح دی۔ آج بھی عالمی طاقتیں بھارت کے بیانیے پر سوال اٹھانے سے گریز کرتی ہیں، کہیں تجارتی و تزویراتی تعلقات متاثر نہ ہوں۔
مگر یہ مماثلتیں ایک تنبیہ بھی ہیں۔ کتنی ہی مہارت سے تیار کیا گیا بحران ہو، وہ بالآخر عدم استحکام کو جنم دیتا ہے۔ یو ایس ایس لبرٹی پر حملے نے امریکی فوجیوں اور ان کی قیادت کے درمیان اعتماد کو مجروح کیا، جبکہ 2025 ء میں پاکستان پر حملے نے خطے میں پھر سے کشیدگی کو بھڑکا دیا، جو شاید اتنی آسانی سے کم نہ ہو سکے۔
یو ایس ایس لبرٹی اور پہلگام کا واقعہ… دونوں اس تلخ حقیقت کی علامت ہیں کہ جب اسٹریٹجک فریب کاری میں سچ سب سے پہلا شکار بن جائے، تو انجام بہت بھیانک ہوتا ہے۔ خاص طور پر جنوبی ایشیاء جیسے خطے میں ضروری ہے کہ اقوام شفاف تنازعہ حل کرنے کے طریقوں پر سرمایہ کاری کریں اور جنگ کو داخلی سیاسی فوائد کے لیے استعمال کرنے کی روش کو ترک کریں۔ ورنہ تاریخ خود کو دہراتی رہے گی… ہر بار زیادہ المناک نتائج کے ساتھ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: یو ایس ایس لبرٹی کے درمیان کے ساتھ

پڑھیں:

کیا ٹرمپ اسرائیل سے اکتا چکے ہیں؟

ان دنوں ہمارے کچھ دوست اس امکان پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تین خلیجی ریاستوں کے پانچ روزہ دورے میں اسلحہ کی فروخت اور امریکا میں سرمایہ کاری کے لیے ساڑھے تین ٹریلین ڈالر کے جو سمجھوتے کیے ہیں ان کے سبب اب خطے سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی میں ’’ سب سے پہلے اسرائیل ‘‘ کا اصول بدل گیا ہے۔

ہمارے دوست مشرقِ وسطی سے متعلق امریکی پالیسی میں بتدریج یو ٹرن کا اشارہ دینے کے لیے یہ دلیل استعمال کر رہے ہیں کہ ایک ڈونلڈ ٹرمپ وہ تھے جنھوں نے پہلی مدتِ صدارت کے دوران مشرقِ وسطی کے پہلے سرکاری دورے میں سب سے پہلے اسرائیل کو چنا اور وہاں تل ابیب سے یروشلم منتقل ہونے والے امریکی سفارت خانے کا افتتاح کیا اور گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا۔اس کے بعد ہی ٹرمپ صاحب سعودی عرب پہنچے۔

اور دوسری مدتِ صدارت شروع ہوتے ہی ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جس پہلے مہمان کا استقبال کیا وہ بنجمن نیتن یاہو تھے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ٹرمپ اب تک کے تمام امریکی صدور میں اسرائیل کے دل کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔مگر پھر اچانک ٹرمپ کا نیتن یاہو سے دل اچاٹ ہوتا چلا گیا اور اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ ٹرمپ نے اس بار اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں اسرائیل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سعودی عرب ، قطر اور متحدہ عرب امارات میں اترنا پسند کیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب معاشی مفاد امریکی خارجہ پالیسی کا تعین کرے گا نہ کہ خارجہ پالیسی معاشی ترجیحات طے کرے گی۔

ٹرمپ کے منقلب ہونے کے بارے میں مزید دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ انھوں نے ایک امریکی نژاد اسرائیلی فوجی کی رہائی کے لیے حماس سے بالا بالا سمجھوتہ کیا۔انھوں نے یمن کے ہوثیوں سے جنگ بندی کے عوض یقین دہانی حاصل کر لی کہ آیندہ امریکی جہازوں کو بحیرہ قلزم اور باب المندب سے گذرتے ہوئے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ٹرمپ انتظامیہ نے ہوثیوں سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ اسرائیل کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو ہفتے میں کسی امریکی جہاز کو نشانہ نہیں بنایا گیا جب کہ تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر اس عرصے میں دو بار میزائل گرے۔

یہی نہیں بلکہ اس وقت امریکا اور ایران کے مابین جوہری سمجھوتے کے بارے میں جو بات چیت ہو رہی ہے اس میں امریکا نے اسرائیل سے پیشگی مشاورت گوارا نہیں کی۔اس کے علاوہ ٹرمپ نے اسرائیل کے شدید تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے شام کے صدر احمد الشرع سے نہ صرف ریاض میں ملاقات کی بلکہ شام پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹانے کا اعلان بھی کر دیا اور اسرائیل منہ دیکھتا رہ گیا۔

تو یہ ہیں وہ نشانیاں جن سے ہمارے رجائیت پسند دانشوروں کو اندازہ ہوا کہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور اسرائیل رفتہ رفتہ امریکا کی ؟ ڈارلنگ فہرست ‘‘ سے نکالا جا رہا ہے۔

بارش کے بعد گھڑے پھوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر بادل دیکھ کے گھڑے پھوڑنا کس قدر عاقبت اندیشی ہے۔اس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

کیا یہ وہی امریکا نہیں جس کی ٹرومین انتظامیہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی قرار داد منظور کروانے کے لیے کمزور ممالک کی کلائی مروڑ کے اس قرار داد کے حق میں ووٹ ڈلوایا تھا۔یوں اسرائیل کی پیدائش ممکن ہوئی۔

اور پھر اسی امریکا کے صدر آئزن ہاور نے اکتوبر انیس سو چھپن میں مصر پر برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل کے مشترکہ حملے پر شدید خفگی ظاہر کرتے ہوئے یہ جنگ فوری طور پر روکنے کے لیے دوٹوک موقف اختیار کیا۔اس کے بعد کینیڈی انتظامیہ نے اسرائیل اور فرانس کے درمیان جوہری تعاون پر مسلسل ناخوشی اور تحفظات ظاہر کیے۔تب بھی کچھ لوگوں کو امید ہو چلی تھی کہ امریکا اب اسرائیل کے معاملے میں غیر جانبدار رہے گا۔

مگر جون انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد امریکا نے مشرقِ وسطی میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے مستقل تحفظ کے لیے یہ طے کیا کہ اسرائیل علاقے میں عسکری اعتبار سے امریکا کا وفادار پولیس مین رہے گا اور عرب ممالک کو کسی بھی صورت میں فوجی اعتبار سے اسرائیل سے زیادہ طاقت ور نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اس کا پہلا ثبوت اکتوبر انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ میں ملا۔سوویت اسلحے سے لیس شام اور مصر کی افواج نے قلعہ بندیاں توڑ کے اسرائیل کو ابتدائی طور پر بھونچکا کر دیا تو وزیرِ اعظم گولڈا مائر نے نکسن انتظامیہ کو ایس او ایس بھیجا اور یہ پوشیدہ دھمکی بھی دی کہ اگر بروقت امداد نہیں پہنچی تو اسرائیل اپنی بقا کے لیے کوئی بھی انتہائی اقدام ( نیوکلیئر آپشن ) کر سکتا ہے۔

چنانچہ جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد جب اسرائیل تقریباً نڈھال ہو چکا تھا تب امریکی فضائیہ نے ’’ آپریشن نکل گراس ‘‘ شروع کیا اور ہر ایک گھنٹے بعد اسلحے سے لدا طیارہ اسرائیل میں اترنے لگا۔جب تیس اکتوبر کو باقاعدہ جنگ بندی ہوئی تو امریکا اسرائیل کو اس سے دوگنا اسلحہ پہنچا چکا تھا جتنا جنگ میں تباہ ہوا تھا۔

وہ دن اور آج کا دن امریکا میں کوئی بھی انتظامیہ کانگریس کے اسرائیل نواز قلعے میں شگاف نہیں ڈال سکی۔اقوامِ متحدہ میں امریکا اسرائیل کی غیر مشروط ڈھال بن گیا۔

عربوں میں صرف مصر کو اتنی رعائیت دی گئی کہ اگر وہ امریکی کیمپ کا حصہ بن جائے اور اسرائیل کے خلاف آیندہ کسی بھی مہم جوئی سے باز رہے تو اسے نہ صرف اسرائیل کے مساوی سالانہ اقتصادی امداد ملے گی بلکہ مقبوضہ جزیرہ نما سینائی بھی واپس کر دیا جائے گا۔

شام چونکہ اس دام میں نہیں آیا لہٰذا اسے گولان کی پہاڑیوں سے مستقل ہاتھ دھونا پڑا۔اردن کسی گنتی شمار میں کبھی بھی نہیں تھا اور لبنان تو ہمیشہ غریب کی جورو سب کی بھابھی بنا رہا۔فلسطینیوں کو کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو سمجھوتے کے جال میں پھنسا کر انھیں دو ریاستی حل کا لالی پاپ دے کر فلسطینی اتھارٹی نامی ایک ڈھانچہ تھما دیا گیا جسے اب فلسطینی بھی اسرائیل کی بی ٹیم سمجھتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اوباما کے دونوں ادوار میں اسرائیل اور امریکا کے تعلقات میں قدرے ’’ سرد مہری ‘‘ دیکھنے میں آئی۔نیتن یاہو اور اوباما میں بات چیت بند رہی۔مگر یہ کیسی سرد مہری تھی جس کے ہوتے اسرائیل کی فوجی امداد کے جتنے سمجھوتے اوباما دور میں منظور ہوئے ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

جو دانشور ٹرمپ کی ’’ کایا کلپ ‘‘ اور اسرائیل سے اکتاہٹ محسوس کر رہے ہیں کیا وہ بتا سکیں گے کہ خلیج کے پانچ روزہ دورے میں ٹرمپ نے ہر مدعے پر بات کی مگر غزہ کے بارے میں ایک بھی واضح جملہ منہ سے نہ نکلا سوائے اس کے کہ وہاں جو ہو رہا ہے افسوس ناک ہے اور ہم غزہ کو ایک ساحلی جنت دیکھنا چاہتے ہیں ( یعنی ٹرمپ اپنے اس اوریجنل خیال پر قائم ہیں کہ غزہ کو خالی کروا کے اسے ’’ جنت ‘‘ بنایا جائے )۔

کیا میزبانوں میں سے کسی نے ٹریلین ڈالرز کے سمجھوتوں کو غزہ میں جنگ بندی سے مشروط کرنے کی کوشش کی ؟ ٹرمپ کا طیارہ ایرفورس ون فضا میں بلند ہوتے ہی اسرائیل نے غزہ پر مستقل فوجی قبضے کا اعلان کرتے ہوئے اس پر زمین ، فضا اور سمندر سے قیامت برسا دی۔

تب سے اب تک وائٹ ہاؤس پر ایک معنی خیز خاموشی طاری ہے۔مگر آپ یہی سوچ کے خوش رہئیے کہ ٹرمپ نے مشرقِ وسطی کے دورے میں روائیت کے برعکس اسرائیل کو نظرانداز کر کے گویا ہتھنی کی پشت پر بھالا مار دیا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • ایشیائی ممالک کے ’دھوکہ دہی مراکز‘ انسانی استحصال کی آماجگاہ، ماہرین
  • معصوم بچوں کا قتل ناقابلِ فہم ،خضدار سکول بس پر حملے پر امریکی سفارتخانہ کی جانب سےسخت مذمت
  • قائم مقام امریکی سفیر کی بلوچستان میں اسکول بس پر حملے کی مذمت
  • اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پرحملے کی تیاری کررہا ہے، امریکی حکام کا دعویٰ
  • اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پرحملے کی تیاری کررہا ہے، امریکی حکام
  • اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے ، امریکا کا دعویٰ
  • اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے، امریکی حکام کا دعویٰ
  • دھوکہ دہی کی بازگشت: یو ایس ایس لبرٹی 1967 سے پہلگام 2025 تک
  • کیا ٹرمپ اسرائیل سے اکتا چکے ہیں؟