غلط زمین، غلط موسم اورغلط کاشت (حصہ اول)
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
اگر ہم غلط زمین پر یا غلط موسم میں کوئی فصل کاشت کریں گے تو چاہے زمین اوربیج کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں اورکاشتکار کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے، کھاد،پانی وغیرہ کتنے ہی زیادہ نہ دیے جائیں، وہ فصل ناکام ہی ثابت ہوگی جیسے ہم گرمیوں میں سردی کی فصلیں بوئیں اورسردیوں میں گرمی کی تو نتیجہ سوائے ناکامی کے اورکچھ نہیں نکلے گا، ساری محنت اورخرچہ عبث چلاجائے گا ، اسی طرح اگر غلط زمین میں بھی غلط زمین کی فصل بوئی جائے تو نقصان کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
افغانستان میں دو مرتبہ ایسی غلط کوشش کی گئی تھی، غلط زمین میں غلط وقت پر اورغلط فصل بونے کی کوشش کی گئی جوہرہر لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہوئیں اوربہت زیادہ نقصان دہ بلکہ تباہ کن ثابت ہوئیں ، ایک وہ جب امان اللہ خان نے افغانستان کو کچھ سمجھے بغیر ایک دم ماڈرن کرنا چاہا تھا اوریہ بھول گیا کہ ترقی بتدریج قدم قدم اورزینہ بہ زینہ ہوتی ہے، چھلانگوں سے نہیں۔ ایک دم افغانستان کے پس ماندہ فرسودہ اورملا کی گرفت میں گرفتارافغانستان میں مرد وزن کو تعلیم کے لیے نکالا ، کوٹ پتلون اورٹائی کو مروج کرناچاہا ۔
اس کی سوچ اس کے ارادے اس کی خواہش اورتمنائیں غلط نہ تھیں، اپنے ملک سے اسے شدید محبت تھی اوراس کی بہت نہایت نیک اور کوشیشیں مخلصانہ ، حب الوطنی سے بھرپور تھیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھ پایا کہ اس کے پاس جو بیج تھا وہ اچھا تھا لیکن اس کے لیے موسم اورزمین دونوں سازگار نہ تھے چنانچہ اس کانتیجہ اس کی اپنی اورملک کی بربادی کے سوا کچھ نہیںنکلا زمین اورزیادہ بنجرہوگئی ۔
دوسری مرتبہ سوشلسٹوں اورنورمحمد ترکئی کی ٹیم نے بھی قبائلی اورملائی گرفت میں گرفتار افغانستان کو سیڑھیوں کے بغیر بام عروج پر چڑھاناچاہا تو افغانستان ایسی تباہی اوربربادی میں گرفتار ہوا جو ابھی تک جاری ہے اورنہ جانے کب تک جاری رہے گی۔
لوگ اس کی طرح طرح کی توجیحات کرتے ہیں، کرتے رہیں گے لیکن وجہ وہی ہے غلط موسم میں غلط زمین غلط بیج کاشت کرنے کی غلطیاں۔ یہی کچھ پاکستان میں بھی ہورہا ہے لیکن ذرا مختلف انداز میں۔ آپ نے اکثر تعلیم نسواں، اعلیٰ تعلیم ، لٹریسی جیسے عامی لوگ تعلیم کہتے ہیں ذرا اونچے لوگ ایجوکیشن اوران سے بھی اونچے لوگ لٹریسی کانام دیتے ہیں اورسب کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ ’’علم‘‘ ہے جب کہ علم قطعی الگ چیز ہے۔
علم انسان کو انسان بناتا ہے اورتعلیم انسان کو صرف نوکر بننا، نوکر ہونا اورنوکری کرنا سکھاتی ہے یہ بھی دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشہ ہی ہے جیسے لوہاری کا پیشہ، ترکھانی کاپیشہ ، جولاہے کاپیشہ، مستریوں کاپیشہ ، ڈرائیور، راج معماری ، موچی گیری، ویلڈنگ وغیرہ کے پیشے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ اس میں چھوٹائی بڑائی ہوتی ہے، اونچی یااعلیٰ نوکری اورعام یامعمولی نوکری اور وہ تو دوسرے پیشوں میں ہوتا ہے کہ ماہراورتجربہ کار زیادہ کماتے ہیں جب کہ مبتدی اورنالائق کم کماتے ہیں ۔دراصل یہ بھی اشرافیہ کے بہت سارے ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے ،عوامیہ کو اپنا غلام یاتابعدار بنانے کا ، اس مروجہ تعلیم کی ایجاد اورمروج کرنے کاسہرا ایک انگریز لارڈ میکالے کے سرہے ۔
جب دنیا کے بیشتر ممالک پر انگریزی راج قائم یامسلط ہوگیا تو ہمیشہ کی طرح حکمرانوں کی تعداد کم اورمحکوموں کی زیادہ تھی ، اگلے زمانوں میں تو اقلیتی حکمران صرف ہتھیار لہرا کر حکمرانی کرتے تھے جس سے صرف جسم کو قابو کیاجاسکتا تھا لیکن اس جسم میں ایک اورغیر مادی چیزذہن بھی پیداہورہا تھا جسے قابو میں کرنے کے لیے کسی اورغیر مادی ہتھیار کی ضرورت تھی، پرانے وقتوں میں تو اس غرض کے لیے حکمران نے مذہبی پروہیت کو ساجھے دار بنایا ، صدیوں تک محل اورمندر، تاج پر ساجھے داری چلتی رہی ، لیکن وہ ہتھیار اتناموثر نہیں رہا تھا کہ لوگوں پر مذہبی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی تھی اس لیے اس ہتھیار کو مزید تیز کرنے کی ضرورت تھی ، حکمرانیہ کو مزید ساجھے داروں اورتابعداروں کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ لارڈ میکالے نے یہ تعلیم اورایجوکشن کانسخہ ایجاد کیا جس کے ذریعے غلاموں کو اپنے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا، غلاموں ہی سے اپنے مددگار پیدا کرناتھے اور پیداکرلیے گئے۔
اس تعلیم کے ذریعے نوکر بنائے جانے لگے ، نوکروں میں درجہ بندی ضروری تھی، کچھ کو افسر بھی بنایا جاتا تھا ، درجے بنائے گئے ،گروپ اور گریڈ بنائے گئے لیکن نوکر تو سب ہوتے تھے اور ہوتے ہیں ، سر کے اوپر سرکاسلسلہ ہے لیکن سب سے اوپر کاسر بھی کسی اورسر کے نیچے ہوتا ہے پابند ہوتا ہے، محدود ہوتا ہے کیوں کہ حکمران نہیں ہوتا ۔وہ تو چلے گئے لیکن تعلیم چھوڑگئے جو صرف نوکری سکھاتی اورجو علم نہیں ایک پیشہ ہے جسے دوسری چیزوں کی طرح جوں کا توں اپنایا گیا ۔
(جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتا ہے کے لیے کی طرح
پڑھیں:
بری خبر ، بیرون ملک نوکریاں ملنا بند ہو گئیں
بھارت کے گڑگاؤں کے معروف کاروباری شخصیت راجیش ساونی نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواب دیکھنے والے بھارتی طلباء اور ان کے والدین کو ایک سخت وارننگ دی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں بین الاقوامی طلباء کے لیے ملازمت کے مواقع تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور ان ممالک کے امیگریشن قوانین اب پہلے سے کہیں زیادہ سخت ہو چکے ہیں۔
راجیش ساونی جو جی ایس ایف ایکسیلیریٹر کے بانی اور سی ای او ہیں، خود ہارورڈ بزنس اسکول اور لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں لکھا: امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں بین الاقوامی طلباء کے لیے نوکریاں نہیں ہیں۔ ہنی مون ختم ہو چکا ہے، والدین کو مہنگی تعلیم پر کروڑوں خرچ کرنے سے پہلے دو بار سوچنا چاہیے۔“
انہوں نے خاص طور پر انجینئرنگ کے طلباء، خاص کر آئی آئی ٹی سے فارغ التحصیل طلباء کے بارے میں کہا کہ پہلے ان کے لیے ایک ”آسان ہیک“ تھا امریکہ جا کر ماسٹرز کرنا اور فوری طور پر 2 لاکھ ڈالر کی نوکری حاصل کرنا لیکن اب یہ طریقہ کار مزید کارگر نہیں رہا۔
ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو گیا اور صارفین کی بڑی تعداد نے اس پر تبصرے کیے۔ ایک صارف نے لکھا: ”سچ ہے! میں 2017 میں وہاں تھا، لوگ تعلیم کے پہلے کوارٹر میں ہی ڈیدھ لاکھ ڈالر کی آفر حاصل کر رہے تھے۔ اب وہی شخص گوگل میں ہے اور خوفزدہ ہے کہ کہیں نوکری نہ چلی جائے!“
ایک اور صارف نے اُمید افزا رویہ اپناتے ہوئے کہا: ”میں ان انجینئرز کے لیے زیادہ پر امید ہوں جو واپس بھارت آئیں گے اور اربوں ڈالر کی اسٹارٹ اپ کمپنیاں بنائیں گے۔ سوچیں ان تمام YC اسٹارٹ اپس کا جو بھارتی ہیں اور بھارت سے دنیا کے لیے بنا رہے ہیں یہ واقعی لیجنڈری ہو گا!“