Express News:
2025-07-07@17:49:09 GMT

گوگل کا ویو 3: فلم سازی کا نیا باب یا AI کا کمال؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

گوگل نے ویو 3 (Veo 3) نامی اپنی نئی AI ویڈیو جنریٹر ٹیکنالوجی متعارف کرا دی ہے، جس نے لانچ ہوتے ہی سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔

ویو 3 صرف خوبصورت اور حقیقت سے قریب ترین ویژولز تخلیق نہیں کرتا، بلکہ اس میں حقیقت سے ہم آہنگ آوازیں، جیسے کہ کرداروں کی گفتگو اور جانوروں کی آوازیں، بھی قدرتی انداز میں شامل ہوتی ہیں، جس سے یہ اپنے طرز کی ایک منفرد AI ٹیکنالوجی بن چکی ہے۔

جہاں دیگر پلیٹ فارمز، جیسے کہ OpenAI کا Sora، صرف ویڈیوز کی تخلیق پر توجہ دیتے ہیں، وہیں گوگل کا ویو 3 سِنکرونائزڈ آڈیو کو براہ راست ویڈیو کے ساتھ ضم کر کے AI ویڈیو جنریشن کو ایک نئی سطح پر لے گیا ہے۔

Created in Google Flow ( Veo3 ) AI????

Even Sfx, Sound design, Music, Camera placements, also promoted in AI.

This is Next level of Filmmaking???? It looks scary and also excited????????#GoogleFlow #Veo3pic.twitter.com/TNlNbZy17R

— World Filmology (@WorldFilmology) May 22, 2025

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی متعدد ویڈیوز میں صارفین نے اس ٹول کی حیران کن خصوصیات پر خوشی اور حیرت کا اظہار کیا ہے۔ AI ماہرین نے ویو 3 کے حقیقت سے قریب تر مناظر، ہموار حرکات اور بالکل درست لبوں کی ہم آہنگی (Lip-sync) کو AI مواد کی تیاری میں ایک انقلابی قدم قرار دیا ہے۔

بیشتر صارفین کا کہنا ہے کہ ویو 3 کی ویڈیو کوالٹی اتنی بہترین ہے کہ یہ وی ایف ایکس (VFX) سے بھی بہتر محسوس ہوتی ہے۔

ایک صارف نے ویو 3 سے تیار کی گئی ایک ایکشن ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا:

’’صرف ویژولز ہی نہیں، بلکہ SFX، ساؤنڈ ڈیزائن، میوزک، اور کیمرہ اینگلز تک AI سے بنائے گئے ہیں۔ یہ فلم سازی کا اگلا مرحلہ ہے، سو فیصد! ایک طرف حیرت زدہ کر دینے والا، تو دوسری طرف تھوڑا ڈراؤنا بھی۔‘‘

فی الحال یہ ٹیکنالوجی امریکا میں Gemini ایپ کے ذریعے پریمیم صارفین کے لیے دستیاب ہے، مگر اس کے تخلیقی امکانات نے پہلے ہی تفریح، مارکیٹنگ اور میڈیا انڈسٹری کو نئی راہوں کی نوید دے دی ہے۔

Did someone say 100 men vs a gorilla at a rave dance off? #veo3 pic.twitter.com/CDBmIo0TIG

— Ruben Villegas (@RubenEVillegas) May 20, 2025

گوگل ویو 3 صرف ایک ویڈیو جنریٹر نہیں، بلکہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ فلم سازی کا پورا عمل ایک بٹن میں سمو کر رکھ دیتا ہے۔

AI کی دنیا میں یہ ٹول نہ صرف ایک پیش رفت ہے بلکہ فلم اور میڈیا کی مستقبل کی جھلک بھی!


 

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

حق کی تلوار اور ظلم کا تخت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انسانی تاریخ میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جنہوں نے اپنے کردار، قربانی، فضیلت اور غیر متزلزل اصولوں کی بدولت ایسا ابدی مقام حاصل کیا ہے کہ ان کی بازگشت صرف وقت کے گزرنے سے نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر میں گہرائی تک سنائی دیتی ہے۔ ان نادر اور عظیم ہستیوں میں سیدنا امام حسینؓ کا نام نمایاں ہے، جو نبی کریمؐ کے پیارے نواسے ہیں۔ ان کا نام نہ صرف تاریخ ِ اسلام کے اوراق پر سنہری حروف میں لکھا گیا ہے بلکہ انسانیت کے ضمیر پر سچائی، مزاحمت اور اخلاقی جرأت کی علامت کے طور پر نقش ہو چکا ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کی قربانی کربلا کا واقعہ صرف تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ یہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی ایک لازوال گواہی ہے، جو زندگی کی قربانی دے کر بھی سچائی پر قائم رہنے کا درس دیتی ہے۔ آپ نے یزید کی ظالمانہ حکومت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا، نہ ہی وقتی مصلحتوں کو اپنے اخلاقی نظریے پر حاوی ہونے دیا۔ آپ کا موقف کسی اقتدار یا دنیاوی خواہش کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مقدس امانت کا تقاضا تھا۔ حق کا علم بلند رکھنا، اپنے نانا سیدنا محمدؐ کی میراث کا تحفظ کرنا اور اسلام کو ایک ظالم حکمران کے ہاتھوں مسخ ہونے سے بچانا۔ جب ہر طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور تمام وسائل ختم ہو گئے، تب بھی سیدنا امام حسینؓ نے خوف کے آگے جھکنے کے بجائے سر بلند کیا۔ اسی استقامت کے صلے میں آپؓ کو شہادت کا عظیم رتبہ اور دائمی عزت نصیب ہوئی۔ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں، رزق دیے جا رہے ہیں‘‘۔ (سورہ آلِ عمران، 169)

یہ آیت سیدنا امام حسینؓ اور اْن کے ساتھیوں کی شہادت کو موت نہیں بلکہ ایک مقدس بلندی، ایک روحانی عروج قرار دیتی ہے۔ یہ شہادت ایک افسوسناک انجام نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جاں نثاری کا ابدی اعزاز ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کا لہو جو کربلا کی ریت پر بہا، وہ ہرگز رائیگاں نہیں گیا۔ یہ لہو ضمیر کی فتح، عزت کی سر بلندی اور ظلم کے مقابل ڈٹ جانے کی عظیم علامت بن گیا۔ اگرچہ اْس المناک دن کو صدیاں بیت چکی ہیں، مگر کربلا آج بھی زندہ ہے۔ مایوسی کی داستان کے طور پر نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف جرأت کی ایک بلند نشان کے طور پر۔

نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین جہاد وہ ہے جو ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہی جائے‘‘۔ اور اس قولِ مبارک کی سب سے روشن مثال کوئی ہے تو وہ سیدنا امام حسینؓ ہی ہیں۔ آپؓ کے پیارے نواسے، جنہوں نے سچائی کو جان سے عزیز رکھا۔ ظلم و جبر کے طریقے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، مگر ان کا اصل چہرہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ حالیہ دور میں، غزہ میں معصوم بچوں کا قتل ِ عام، کشمیر میں جاری بے رحمانہ ظلم، افغانستان اور شام میں عزتِ انسانی کا انکار اور روہنگیا مسلمانوں کا نسل کشی سے بچ کر دربدر ہونا، یہ سب کربلا کی روح کی بازگشت ہیں۔ تاریخ آج بھی یزیدیت کے نئے چہروں کی گواہی دیتی ہے۔ تاہم، سیدنا حسینؓ کا پیغام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔

ہر سال جب محرم کا مقدس مہینہ لوٹتا ہے، تو دنیا بھر کے مسلمان یومِ عاشورہ کو مایوسی یا بے بسی کے ساتھ نہیں، بلکہ ایک نئے عزم اور تجدید ِ وفا کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ یہ آنسو صرف غم نہیں ہوتے، یہ وفاداری کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ حسینؓ آج بھی زندہ ہیں۔ ہر اْس دل میں جو ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، ہر اْس روح میں جو اصول کو غلامی پر ترجیح دیتی ہے۔ حسینیت کی یہ روح نہ سرحدوں کی محتاج ہے، نہ مسلک کی، نہ زبان کی۔ یہ صرف شیعہ یا سنی، عرب یا عجم تک محدود نہیں۔ یہ ہر اْس جگہ زندہ ہے جہاں ظلم کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے۔ چاہے وہ فلسطینی بچے کی جرأت ہو، کشمیری ماں کی دعا ہو، یا کسی بھی مظلوم کی وہ پکار جو اقتدار کے ایوانوں کے سامنے حق کی بات کہنے کی جرأت رکھتی ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کا پیغام اْن سب کے اندر سانس لیتا ہے۔ وہ ماضی کی کوئی داستان نہیں، بلکہ ہر عدل و انصاف کی جدوجہد میں ایک زندہ و متحرک قوت ہیں۔ اور ایسے مواقع پر جو لوگ سچ کا ساتھ نہیں دیتے، مظلوموں کی حمایت نہیں کرتے، اور خاموش رہتے ہیں، وہ درحقیقت یزیدیت کے حامی شمار ہوتے ہیں۔ ظلم کے مقابلے میں غیر جانب داری، معصومیت نہیں بلکہ شراکتِ جرم ہے۔ جو حسینؓ کے ساتھ کھڑا ہونے سے انکار کرتا ہے، وہ یزید کے پہلو میں کھڑا ہوتا ہے۔ ظلم پر خاموشی خود ایک قسم کی غداری ہے۔ ہر اْس یزید کے مقابلے میں، جو خوف کے ذریعے سچ کو دبانا چاہتا ہے، وہاں ایک حسینؓ ضرور اْٹھے گا جو ایمان سے جواب دے گا۔ ہر اْس نظام کے مقابلے میں جو جھوٹ اور جبر پر قائم ہو، ایک ایسی آواز ضرور بلند ہوگی جو سمجھوتے کی خاموشی کے بجائے قربانی کی تلوار کو چن لے گی۔

حسینیت اور یزیدیت کی جاری اس جنگ میں غیر جانب داری دراصل شریک ِ جرم ہونا ہے۔ ہر انسان کو فیصلہ کرنا ہے۔ ایک باعزت زندگی کا، چاہے وہ میدانِ جنگ میں ختم ہو جائے، یا ایک آرام دہ زندگی کا جو ظلم کے قدموں میں زنجیروں سے بندھی ہو۔ سیدنا امام حسینؓ نے عزت کا راستہ چْنا، اور اس انتخاب کے ذریعے اْنہوں نے ہر اس شخص کے لیے راستہ روشن کر دیا جو وقار اور غیرت کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔ روحِ کربلا ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک شخص کا انکار بھی تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے۔ یہ کہ سچ جب جرأت سے جْڑ جائے تو تمام ظالموں سے زیادہ دیرپا ثابت ہوتا ہے۔ یہ جنگ کربلا میں ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہر اْس سرزمین میں جاری ہے جہاں ظلم پنپ رہا ہو۔ لیکن جب تک دل سچائی کے لیے دھڑکتے رہیں گے، جب تک مظلوم سر اْٹھاتے رہیں گے، اور جب تک انسانیت بزدلی کے بجائے اخلاقی بصیرت کو چنے گی۔ سیدنا امام حسینؓ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ غم کا نام نہیں بلکہ مزاحمت کا عَلَم بن کر۔ دکھ کی یاد نہیں بلکہ انصاف کا وعدہ بن کر۔ اور ایک شہید کے طور پر نہیں جو گر گیا ہو، بلکہ ایک ایسی روح کے طور پر جو ہمیشہ کے لیے بلند ہو چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  •  پاکستان میں تیل اور گیس کی پیداوار میں اضافہ
  • اسلامی دنیا کو جوہری ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کیلئے مغرب کی تہذیبی جنگ
  • جنگ زدہ فلسطینی بچوں کے لیے پاکستانی ٹیکنالوجی امید کی کرن کیسے بن گئی؟
  • ٹیکنالوجی کے اُجالے میں تنہائی کا اندھیرا؟
  • حق کی تلوار اور ظلم کا تخت
  • ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے، ساقی!
  • لیاری، ملبے تلے دبے افراد کی نشاندہی کیلیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
  • ملبے کے نیچے پھنسے انسان کی حرکت کا پتا لگانے والی نئی ٹیکنالوجی تیار
  • فاسٹ بولر شاہنواز دھانی کی ماتم کرتے ہوئے ویڈیو وائرل
  • فرانس : گوگل کو جی میل اشتہارات پر بھاری جرمانہ