بنگلہ دیش کی عدالت میں شیخ حسینہ دور کے حکام کے خلاف پہلا مقدمہ شروع
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
بنگلہ دیش میں قائم انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل کے چیف پراسکیوٹر کا کہنا ہے کہ عدالت نے اتوار کے روز سابق اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف پہلا مقدمہ شروع کیا، جو معزول وزیرِاعظم شیخ حسینہ کی حکومت سے تعلق رکھتے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق دارالحکومت ڈھاکہ میں قائم عدالت نے آٹھ پولیس اہلکاروں پر باضابطہ فردِ جرم عائد کر دیا، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال 5 اگست کو چھ مظاہرین کو قتل کیا۔
یہ وہی دن تھا جب حسینہ ملک سے فرار ہو گئیں، کیونکہ مظاہرین نے ان کے محل پر دھاوا بول دیا تھا ان آٹھ افراد پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام ہے۔ ان میں سے چار زیرِ حراست ہیں جبکہ باقی چار کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
چیف پراسکیوٹر تاج الاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ باقاعدہ مقدمے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ استغاثہ کو یقین ہے کہ یہ مقدمہ ملزمان کے کیے گئے جرائم کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوگا۔
یہ گذشتہ سال کے طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے دوران ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق کسی بھی مقدمے میں پہلی باقاعدہ فردِ جرم ہے۔ طلبہ تحریک کے نتیجے میں حسینہ کے 15 سالہ آمرانہ دور کا خاتمہ ہوا۔ اقوام متحدہ کے مطابق، جولائی سے اگست 2024 کے دوران حسینہ حکومت کی جانب سے مظاہرین کو دبانے کے لیے شروع کی گئی پرتشدد کارروائیوں میں تقریباً 1,400 افراد مارے گئے۔
جن افراد پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے، ان میں ڈھاکہ کے سابق پولیس کمشنر حبیب الرحمٰن بھی شامل ہیں جو کہ غیر حاضر ملزمان میں سے ایک ہیں۔ شیخ حسینہ بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا فرار ہو گئی تھیں۔
وہ اب بھی انڈیا میں خود ساختہ جلاوطنی گزار رہی ہیں اور ڈھاکہ کی حوالگی کی درخواست کے باوجود انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے سے انکاری ہیں۔
حسینہ حکومت کے اعلیٰ حکام کے خلاف مقدمات کا آغاز ان اہم مطالبات میں سے ایک ہے، جو ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے کیے جا رہے ہیں جو اقتدار کے حصول کی دوڑ میں شامل ہیں، جبکہ عبوری حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ ملک میں جون 2026 سے پہلے انتخابات کروائے جائیں گے۔
اسلام نے کہا کہ ان آٹھ افراد پر مختلف سطح پر ذمہ داری کا الزام ہے، جن میں کچھ پر ’اعلیٰ کمانڈ کی ذمہ داری‘، کچھ پر ’براہ راست احکامات دینے،‘ اور کچھ پر ’براہ راست شرکت‘ کے الزامات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں مقدمے کی کامیابی کا مکمل یقین ہے۔ ہم نے اتنے شواہد جمع کیے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی معیار پر انسانیت کے خلاف جرائم کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان شواہد میں تشدد کی ویڈیو فوٹیج، اور شیخ حسینہ کی مختلف افراد سے گفتگو کی صوتی ریکارڈنگز شامل ہیں، جن میں وہ مظاہرین کے خلاف طاقت اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے احکامات دیتی سنائی دیتی ہیں۔
انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) کو حسینہ نے 2009 میں قائم کیا تھا تاکہ 1971 میں پاکستان آرمی کی طرف سے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران کیے گئے جرائم کی تحقیقات کی جا سکیں۔
اس عدالت نے بعد کے برسوں میں کئی نمایاں سیاسی مخالفین کو سزائے موت سنائی، اور اسے حسینہ کے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کے ایک ذریعے کے طور پر بھی دیکھا جاتا رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے شامل ہیں کے خلاف
پڑھیں:
اسپین میں بھی اسرائیلی وزیر اعظم کیخلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز
اسپین کی قومی عدالت نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو، وزیر خارجہ اور متعدد اعلیٰ افسران کے خلاف جنگی جرائم کے تحت تحقیقات کا باضابطہ آغاز کر دیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسپین کی عدالت نے یہ تحقیقات میڈلین نامی کشتی پر ہونے والے حملے کے تناظر میں کی جا رہی ہیں۔
یہ کشتی "فریڈم فلوٹیلا کولیشن" نامی انسانی حقوق کی تنظیم کی تھی جو جون میں اطالوی بندرگاہ سے امدادی سامان لیکر غزہ جا رہی تھی۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فورسز نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور امدادی سامان کو بھی محصور علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے امدادی کشتی میڈلین کو غزہ آنے سے روکنے کے لیے دھمکی بھی دی لیکن انسانی حقوق کے کارکن اسے خاطر میں نہیں لائے۔
جس پر اسرائیلی فورسز نے ڈرونز، آنسو گیس، اور طاقت کا استعمال کیا گیا۔ کشتی پر سوار انسانی حقوق کے 12 کارکنوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔
جسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے رکن اور وکیل جاؤمے آسنز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے یہ مقدمہ اسپین کی نیشنل کورٹ میں سرجیو توربیو نامی ہسپانوی کارکن اور "کمیٹی برائے عرب کاز کے ساتھ یکجہتی" کی جانب سے دائر کیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ عدالت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ امدادی کشتی پر حملہ ایک جرم ہے اور اس کی تحقیقات کی جائیں گی کہ آیا حملے میں طاقت کا بے جا استعمال کیا گیا، غیر قانونی حراست عمل میں لائی گئی اور اسرائیلی حکام کی ذمہ داری کیا بنتی ہے۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی یورپی عدالت نے اسرائیلی اعلیٰ قیادت کے خلاف براہِ راست جنگی جرائم کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
اگر تحقیقات میں الزامات ثابت ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری ہو سکتے ہیں، اور متاثرہ افراد عالمی فوجداری عدالت (ICC) میں مزید کارروائی کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔
تاحال اسرائیل کی جانب سے اس معاملے پر کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا تاہم ماضی میں اسرائیل بین الاقوامی عدالتوں کی جانب سے اس نوعیت کی تحقیقات کو مسترد کرتا آیا ہے۔
واضح رہے کہ عالمی فوجداری کی عدالت بھی غزہ میں جنگی جرائم کے مرتکب ہونے پر اسرائیلی وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے۔