گلگت میں بین المسالک ہم آہنگی کانفرنس کی ویڈیو رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کانفرنس میں شریک علمائے کرام میں اسماعیلی ریجنل کونسل کے الواعظ کریم خان، مولانا سرور شاہ، مولوی توفیق مدنی، مولانا خلیل قاسمی، شیخ مرزا علی و دیگر نے اپنے اپنے خطاب میں امن، اتحاد اور بین المسالک ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ نبی کریم (ص) کی تعلیمات کی روشنی میں علاقائی امن کے قیام کے لیے متحد رہیں۔ متعلقہ فائیلیںرپورٹ: لیاقت علی انجم
گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کی جانب سے گلگت میں بین المسالک ہم آہنگی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علمائے کرام، حکومتی عہدیداران اور سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس کا مقصد مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے درمیان رواداری، برداشت اور مکالمے کو فروغ دینا تھا، تاکہ ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی کو مزید تقویت دی جا سکے۔ اس موقع پر گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے بحیثیت مہمان خصوصی اپنے خطاب میں بین المذاہب ہم آہنگی کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا اور علماء کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ مذہبی رہنماء معاشرے کو امن، برداشت اور بھائی چارے کے پیغام سے منور کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دین اسلام امن، محبت اور انسانیت کا درس دیتا ہے اور تمام مکاتب فکر کے درمیان اتحاد و یگانگت ہی قومی ترقی کی بنیاد ہے۔ گورنر سید مہدی شاہ نے کہا فرقہ وارانہ اختلافات سے بالاتر ہو کر ہمیں ایک پرامن اور خوشحال معاشرے کے قیام کے لیے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔
کانفرنس میں شریک علمائے کرام میں اسماعیلی ریجنل کونسل کے الواعظ کریم خان، مولانا سرور شاہ، مولوی توفیق مدنی، مولانا خلیل قاسمی، شیخ مرزا علی و دیگر نے اپنے اپنے خطاب میں امن، اتحاد اور بین المسالک ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ نبی کریم (ص) کی تعلیمات کی روشنی میں علاقائی امن کے قیام کے لیے متحد رہیں اور آپس کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر یگانگت اور بھائی چارے کو فروغ دیں۔ انہوں نے مذید کہا کہ یہ کانفرنس نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کی جانب ایک مثبت قدم ثابت ہوگی۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.
youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین المسالک ہم آہنگی
پڑھیں:
چھموگڑھ واقعے کی جوڈیشل انکوائری کی جائے، انجمن امامیہ گلگت بلتستان کا مطالبہ
انجمن امامیہ کے قائدین نے کہا کہ یہاں کوہستان کے اْن نمائندگان کی گفتگو اور شر انگیز و دھمکی آمیز تقریروں کی روشنی میں یہ بتانا بھی ضروری محسوس کرتے ہیں کہ ان نمائندگان نے ایک اندھے قتل کو جس کی تحقیقات ہونا باقی ہے کو بنیاد بنا کر کوہستان اور مکتب تشیع گلگت بلتستان کو آمنے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اس غیر ذمہ دارانہطرز عمل نے گلگت بلتستان کے پرْ امن اور اتحاد امت کی فضاء کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ مرکزی انجمن امامیہ گلگت بلتستان نے چھموگڑھ واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ گلگت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انجمن امامیہ گلگت بلتستان قائدین نے کہا کہ چند ضروری گزارشات و حقائق آپ سب کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ 8 محرم الحرام چھموگڑھ واقعے کی اطلاع جب مرکزی امامیہ جامع مسجد پہنچی تو آقائے سید راحت حسین الحسینی کے حکم پر مرکزی انجمن امامیہ کا 6 رکنی وفد فوری طور پر جلال آباد پہنچ گیا۔ 3 نوجوانوں کے زخمی ہونے، سرکاری سڑک بلاک کرنے، جلال آباد کے عزاداروں کو واپسی کا راستہ روکنے کی دھمکی آمیز تقریروں کی وجہ سے جلال آباد کا ماحول بہت کشیدہ تھا۔ انجمن امامیہ کے وفد نے علمائے کرام، عمائدین اور ضلعی انتظامیہ کے موقع پر موجود ڈپٹی کمشنر گلگت کی قیادت میں دیگر مجاز آفیسروں کو اعتماد میں لیکر انجمن امامیہ جلال آباد کے صدر و کابینہ کے ہمراہ عالم برج میں پھنسے ہوئے عزاداروں کو واپس جلال آباد لانے کے لئے چھموگڑھ کے مقام پر پہنچے تو خواتین کی کثیر تعداد نے راستہ بند کر کے آگے جانے سے روک دیا۔ موقع پر موجود تمام فورسز کا تماشہ بین کی شکل میں موجودگی اور اپنے فرائض سے غفلت نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لہذا مجبوراً واپس ہو کر مناور کے راستے جب موضع پڑی پہنچے تو وہاں پر بھی سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین نے راستہ بند کر رکھا تھا۔ بالاخر اگلے دن ضلعی انتظامیہ اور انجمن امامیہ جلال آباد کے ذمہ داران اور علمائے کرام کی کوششوں سے عالم برچ پر پھنسے ہوئے سینکڑوں عزاداروں کو واپس جلال آباد لانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چھموگڑھ اور پڑی میں شرپسندوں کے ذریعے راستہ روکنے کے احکامات کس نے دئیے؟ شرانگیز تقاریر اور تکفیر کے نعرے کس کے کہنے پر لگائے گئے؟ جبکہ مرکزی انجمن امامیہ کا وفد امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے سرگرم عمل تھا، اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما ہیں؟ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے 4 جولائی 2025ء بمطابق 8 محرم الحرام 1447ھ چھموگڑھ کے مقام پر مقپون داس مجلس عزاء سے واپسی پر عزاداران جلال آباد معاہدہ 2023ء مابین معتبران جلال آباد اور چھموگڑھ ضابطہ اخلاق کے مطابق واپس جلال آباد آرہے تھے کہ 3 نوجوان جو کہ موٹر سائیکلوں پر سوار تھے شرپسندوں نے گھیر کر شدید زخمی کر دیا، جن کو پولیس نے ہسپتال منتقل کر دیا۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ یہ خبر جنگل کی آگ کی طر ح پھیل گئی اور ہر امن پسند شخص مضطرب نظر آیا کہ عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اس ماحول کو آخر کس کی نظر لگ گئی؟ مرکزی انجمن امامیہ اس پوری صورت حال کا بغور جائزہ لے رہی تھی چوں کہ مجالس و عاشورہ حسینی کے انتظامات میں مصروف ہونے کی وجہ سے فوری موقف نہ دے سکے۔ لہذا اس واقعے سے متعلق چند حقائق و محرکات حکومت گلگت بلتستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور گلگت بلتستان کے امن و امان سے محبت رکھنے والے ہر محب وطن اور عوام الناس کی خدمت میں چند ضروری حقائق پیش خدمت ہیں۔
1۔ 4 جولائی 2023ء کو جلال آباد اور چھموگڑھ کے معتبران و نمبرداران کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا ہے، جس میں ضابطہ اخلاق درج ہے مگر بدقسمتی سے 2 ستمبر 2024ء چھموگڑھ کے مذکورہ معاہدے کے دستخط کنندہ گان انسپکٹر جنرل آف پولیس گلگت بلتستان کو ایک درخواست دیتے ہیں جس میں معاہدہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یکم محرم الحرام 27 جون 2025ء بمطابق یکم محرم الحرام چھموگڑھ علماء و معتبران کی طرف سے انسپکٹر جنرل آف پولیس کے نام ایک دوسری درخواست بابت منسوخی معاہدہ دی جاتی ہے، جس میں دھمکی بھی دی گئی ہے۔
جس کے مندرجات کچھ یوں ہیں، آپ (IGP) سے اپیل کی جاتی ہے کہ جلال آباد ماتمی جلوس چھموگڑھ کے راستے سے سنجا برانسہ /چھوپہ داس تک نہیں جانے کا حکم صادر کیا جائے اور اگر جانے کا حکم صادر کیا تو چھموگڑھ اور جلال آباد کے درمیان بڑا تصادم ہو جائے گا اور اس تصادم کی دوران جتنی انسانی جانیں ضائع ہونگی اس کے بارے میں ہم اہلیان چھموگڑھ والے ذمہ دار نہیں ہونگے اس کی ذمہ داری آپ (IGP ٰ) پر عائد ہو جائے گی " مذکورہ درخواستوں کے متن اور دھمکی آمیز لہجے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ درخواست دہندہگان پہلے سے ہی شر و فساد و قتل غارت گری کا منصوبہ بنا چکے تھے صرف عملی جامہ پہنانا باقی تھا جس کی تکمیل 8 محرم الحرام کو مکمل ہو گئی۔
2۔ سرکار کی مدعیت میں درج ہونے والی FIR میں بھی واضح طور پر درج ہے کہ مقپون داس سے عزاداروں کی واپسی پر چھموگڑھ نماز جمعہ کے بعد مسجد سے 200/250 کے ہجوم نے راستہ بلاک کر کے عزاداران مسمی مصدق، میثم عباس اور محمد صادق پر ہلہ بول دیا اورسیکورٹی فورسز پر بھی پتھراؤ کیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پہل کرنے والے جلال آباد کے عزادار نہیں بلکہ چھموگڑھ کے مخصوص شرپسند اور سازش کار و ہ افراد ہیں جن کی نشاندہی وقوع سے پہلے IGP کے نام درخواست دہند گان کے طور پر سامنے آچکے ہیں۔
3۔ 8 محرم الحرام کو جمعتہ المبارک تھا اس دن جمعہ کے اجتماع سے سوء استفادہ کرتے ہوئے مسجد کے لوڈ اسپیکر سے اعلان ہوا کہ جلال آباد والوں کو واپس نہیں جانے دینا، اس اعلان پر عمل ہوا مسجد سے نکل کر سرکاری سڑک پر پتھر ڈال کر روڈ بلاک کر دیا گیا اور شر انگیز تقاریر ہوئیں اور تکفیر کے نعرے لگائے جن کے سرکردہ گان سعید الرحمن، قاری مقصود، ساجد الرحمن، قاری عنایت اور سلطان نامی اشخاص کے ساتھ ساتھ درجنوں سرکردہ گان پیش پیش تھے۔ لہذا اس عمل سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ شر پسندی کا آغاز چھموگڑھ کے شرپسندوں کی جانب سے ہوا۔
4۔ چوں کہ چھموگڑھ کی ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں پشتنی باشندہ گان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں غیر مقامی افراد آباد ہو گئے ہیں، جن کی آپس میں دشمنیاں چلتی رہتی ہیں اور درجنوں افراد کا قتل ہو چکا ہے مگر بدقسمتی سے ذاتی دشمنیوں کا ملبہ جلال آباد کے عوام پر ڈالا جاتا رہا ہے۔ کئی واقعات میں لاشیں جلال آباد کی حدود میں پھینک کر رفو چکر ہو گئے ہیں اور الزام جلال آباد کے عوام کے سر تھوپ دیا جاتا رہا ہے تاکہ فرقہ وارانہ رنگ دے کر قاتل محفوظ ہو سکیں۔ ان واقعات کے دوران پولیس اہلیان جلال آباد کو مسلسل تنگ کرتی رہی اور قاتلوں کو جلال آباد میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، مگر بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان تمام واقعات کے قاتلان چھموگڑھ سے ہی بر آمد ہوئے جنہوں نے اعتراف جرم بھی کیا۔ جن واقعات میں سخی نامی ہیوی ٹریکٹر ڈرائیور، ایک پٹھان کا قتل، چھموگڑھ کے ایک بندے کو قتل کر کے دریا برد کرنے، سیکرٹری سبطین کے ایک ملازم کا قتل وغیر وغیرہ شامل ہے۔ ان مذکورہ مثالوں کی موجودگی میں یہ امکان بھی موجود ہے مقتول عبد المالک کا قتل بھی ذاتی دشمنی کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ جلال آباد والے عزاداروں کا جلوس واپسی پر چھموگڑھ داخل ہی نہیں ہوا تو ان کے ہاتھوں مقتول کا قتل کیسے ہوا؟ لہذا تفتیش کرنے والے ادارے اس بنیاد کو بھی مد ظر رکھیں۔
5۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ مقتول کے جسم پر لگنے والی گولی کا رخ نیچے سے اوپر کی سمت ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گولی چھموگڑھ کی طرف سے اور قریب سے لگی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس موقعے پر جلال آباد کا کوئی بھی عزادار موجود نہیں تھا تو قتل کا الزام جلال آبادکے عزاداروں پر کیسے لگایا جاسکتا ہے؟ اب ہمیں یہ خدشہ ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ردّ و بدل کے لیے خفیہ ہاتھ سر گرم ہو گئے ہیں، اگر پوسٹ مارٹم رپورٹ کسی دباؤ کے تحت تیار کروائی گئی تو ملت جعفریہ کبھی بھی قبول نہیں کرے گی۔
انجمن امامیہ کے قائدین نے کہا کہ یہاں کوہستان کے اْن نمائندگان کی گفتگو اور شر انگیز و دھمکی آمیز تقریروں کی روشنی میں یہ بتانا بھی ضروری محسوس کرتے ہیں کہ ان نمائندگان نے ایک اندھے قتل کو جس کی تحقیقات ہونا باقی ہے کو بنیاد بنا کر کوہستان اور مکتب تشیع گلگت بلتستان کو آمنے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اس غیر ذمہ دارانہطرز عمل نے گلگت بلتستان کے پرْ امن اور اتحاد امت کی فضاء کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جس کی اہلسنت کے با بصیرت طبقوں نے بھی حمایت نہیں کی جس کا ثبوت اْن کے اجتماعات میں عدم شرکت سے واضح ہوتا ہے۔ کوہستان کے مذکورہ قائدین یہ بات بھول گئے کہ 28 فروری 2012ء کے سانحہ کوہستان میں 18 شیعہ افراد کو بے دردی سے شناختی کار ڈ چیک کرکے شہید کیا گیا جن کے جنازوں کے اجتماعات میں مکتب تشیع نے شر انگیز تقریریں کی اور نہ ہی اہل کوہستان کو اس دلخراش سانحے کا ذمہ دارقرار دیا بلکہ قاتلوں کی گرفتاری ریاست کی صوابدید پر چھوڑا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سانحہ کے کسی ایک قاتل کو بھی اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دلخراش واقعے میں قائد ملت جعفریہ گلگت لتستان آغا سید راحت حسین الحسینی و مکتب تشیع کے تمام علمائے کرام نے کمال بصیر ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی امن و امان کی فضاء کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مکتب تشیع گلگت بلتستان کوہستان کی ہرگز محتاج نہیں KKH کی بندش سے نہ صرف کوہستان کے عوام خود متاثر ہونگے بلکہ گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں محنت مزدوری کرنے والے کوہستانی مزدور، دیہاڑی دار طبقہ و کاروبای حضرات بھی متاثر ہونگے، روڈ بند کرنے کی دھمکیوں سے ملت جعفریہ ہرگز مرعوب نہیں ہو سکتی اور یہ قانون فطرت ہے جہاں ایک راستہ بند ہوگا وہاں کئی راستے کھل جائینگے، لہذا مرکزی انجمن امامیہ گلگت میں مقیم کوہستانی عوام اور کوہستان میں مقیم پر امن اور باشعور عوام سے اپیل کرتی ہے کہ ایسے شرپسند اور نام نہاد راہنماؤں کو ہرگز کوئی پلیٹ فارم مہیا نہ کرے۔
مطالبات
1۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مکتب تشیع کسی بھی قیمت پر مراسم عزاداری کی ادائیگی میں قدغن برداشت نہیں کرتی لہٰذا آئندہ سال مزید حسّاس ہونے کے پیش نظر 8 محرم الحرام مقپون داس مجلس عزاء میں براستہ چھموگڑھ جانے والے عزاداروں کے روٹ کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل تلاش کیا جائے۔
2۔ سانحہ چھموگڑھ کے واقعے کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائے اور اس واقعے کا سبب بننے والے تمام کرداروں کو شامل تفتیش کرتے ہوئے قرار واقعی سزا دی جائے۔
3۔ پولیس جوان تذکیر حسین جو دوران ڈیوٹی گولی لگنے سے شدید زخمی ہو کر ایک ٹانگ سے محروم ہو چکا ہے، خدمات کے اعتراف میں سول اعزاز سے نوازا جائے۔ مصنوعی ٹانگ لگانے اور علاج معالجے کی تمام تر سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مالی پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ زندگی بھر کیلئے معذور ہونے والے اس پولیس جوان کے دکھ درد کا کچھ نہ کچھ مداوا ہو سکے۔ علاوہ ازیں تمام زخمی عزاداروں کی علاج معالجے کے علاوہ مالی پیکیچ سمیت نذر آتش ہونی والی موٹرسائیکلوں اورگاڑیوں کا معاوضہ فوری ادا کیا جائے۔
4۔ عینی شاہدین کے مطابق KKH پر ایک سیاہ رنگ کی گاڑی جو کہ مسلسل وقفے وقفے سے فائرنگ کرتے ہوئے نظر آتی رہی ہے لہٰذا اس گاڑی میں سوار افراد کی نشاندہی کر کے گرفتاری عمل میں لائی جائے۔ نیز اس سانحے کے دوران چھموگڑھ، پڑی اور کوہستان کے مختلف علاقوں میں شر انگیز تقریریں کرنے والے مقررین اور تکفیر کے نعروں کے ساتھ مظاہرے کرنے والوں (جن کی سوشل میڈیا پر ویڈیوز موجود ہیں) کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
5۔ اس واقعے کو آڑ بنا کر جلال آباد کے عمائدین اور نوجوانوں کی بیجا گرفتاریوں سے گریز کیا جائے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو 3 عزادار زخمی ہوئے ہیں پولیس اْن ہی کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لہذا قانون نا فذ کرنے والے ادارے ماہ محرم الحرام کے حرمت اور علاقے کے امن و امان کو مد نظرر کھتے ہوئے بے جا گرفتاریوں سے گریز کیا جائے۔
6۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت پورے گلگت بلتستان میں اسلحہ منشیات اور بالخصوص آئس کا کاروبار عروج پر ہے اور یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ چھموگڑھ اور پڑی اس گھناؤنے کاروبار کے مراکز بن چکے ہیں اور یہاں سے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں ایجنٹوں کے ذریعے ترسیل ہوتی ہے جس کے شر سے نہ صرف گلگت بلتستان کے دیگرعلاقے سمیت پڑی اور چھموگڑ ھ کی نئی نسل بھی محفوظ نہیں بلکہ پڑی اور چھموگڑھ کا چہرہ بھی بری طرح داغ دار ہو رہا ہے اور وہاں کے پر امن رہائشی اس عمل پر اپنی نسلوں کے بارے میں فکر مند بھی ہیں۔ یہ بات مشاہدے میں ہے کہ جہاں منشیات و اسلحہ کا کاروبار ہوتاہے وہاں لین دین کے معاملات کے نتیجے میں لڑائی جھگڑا اور قتل غارت گری رواج بن جاتے ہیں۔ لہذا اس واقعے میں مذکورہ محرکات کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کے ہاتھوں کو بھی تلاش کیا جائے۔
مرکزی انجمن امامیہ گلگ بلتستان، کوہستان و گلگت بلتستان کے اْن تمام علمائے کرام، عمائدین خصوصاً چھموگڑھ ضلع دیامر, ضلع کوہستان اور ضلع گلگت کے عمائدین و اکابرین، سیاسی و سماجی شحصیات جنہوں نے تعمیری کردار اداکرتے ہوئے امن و امان برقرار رکھنے کا پیغام دیا اور اس سانحے کے اثرات کو گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں پہنچنے سے روکا اور مرکزی انجمن امامیہ سے مسلسل رابطے میں رہے ہم ان تمام عمائدین, اکابرین، علماء اور تنظیمات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں، امیر اعظم ڈپٹی کمشنر گلگت تعیناتی سے تا ایندم امن و امان کی بحالی میں نمایاں کردار ادار کرتے رہے ہیں خصوصاً واقعہ چھموگڑھ میں بہترین حکمت عملی و فہم و فراست اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف سینکڑوں افراد کی زندگیوں کو بچانے اور پیدا شدہ کشیدہ صورت حال کو جی بی کے دیگر علاقوں تک پہنچنے سے روکنے میں بھی کامیاب ہو گئے بلکہ جی بی کے بہترین اتحاد امت کی فضاء کو سبوتاژ کر کے گلگت بلتستان کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ ماحول میں دھکیلنے کی گھناؤنی سازش کو بھی ناکام بنا دیا۔
ان کی اس پیشہ ورانہ صلاحیت اور خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے ڈپٹی کمشنر ضلع گلگت امیر اعظم اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن پر اعلیٰ حکام کی جانب سے ناکامی کا ملبہ ڈالنا انتہائی افسوس ناک ہے، ایسے قابل آفیسروں کو ایوارڈ دینے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کرنے سے تمام مقامی آفیسروں کے حوصلے بھی پست ہو جائیں گے۔ لہٰذا مرکزی انجمن امامیہ گلگت بلتستان ڈپٹی کمشنر ضلع گلگت کے میرٹ پر مبنی اقدامات کی مکمل حمایت کرتی ہے اور حکومت گلگت بلتستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ ایسے فرض شناس آفیسروں کا کسی شرپسند گروہ کے دباؤ میں آکر تبادلہ کرنے سے گریز کریں تاکہ مقامی اہل آفیسروں کی حوصلہ شکنی نہ ہو سکے۔