پاکستان کی معیشت ایک نازک مگر فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات اور ملکی مالی دباؤ کے پیشِ نظر برآمدات کو بڑھانا، درآمدات پر انحصار کم کرنا اور صنعتی ترقی کو فروغ دینا وقت کی اشد ضرورت بن چکی ہے۔

بزنس ریکارڈر میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوا سازی کی صنعت جو اکثر پالیسی سازوں کی توجہ سے محروم رہی ہے، محض صحت کی سہولت فراہم کرنے والی صنعت نہیں بلکہ ایک ممکنہ بڑی برآمداتی قوت بھی ہے۔ مگر اس صلاحیت کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ترقی پسند، مخصوص اور نمو کو فروغ دینے والی ٹیکس اصلاحات ضروری ہیں۔

بدقسمتی سے موجودہ ٹیکس نظام اس شعبے میں سرمایہ کاری، ازسرنو سرمایہ کاری اور وسعت کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ برآمدی دوا ساز ادارے بھاری ٹیکس بوجھ کا سامنا کر رہے ہیں۔ جہاں پہلے صرف برآمدی آمدن پر 1 فیصد ٹیکس تھا، اب ان کمپنیوں کو منافع پر 29 فیصد کم از کم ٹیکس اور بعض صورتوں میں سپر ٹیکس بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی منڈیاں سخت مسابقت کا شکار ہیں اور دیگر ممالک اپنی برآمدی صنعتوں کو بھرپور تعاون فراہم کر رہے ہیں۔

اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور دور اندیش ٹیکس ریلیف منصوبہ پیش کیا گیا ہے تاکہ دوا سازی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے اور اسے ایک تیز رفتار برآمدی صنعت میں بدلا جا سکے۔

اس منصوبے کا مرکزی نکتہ ان دوا ساز برآمدی یونٹس کے لیے ٹیکس کریڈٹ کی سہولت ہے جو سالانہ طور پر ترقی دکھائیں۔ یہ سہولت برآمد کنندگان پر مالی دباؤ کم کرے گی اور مصنوعات کی ترقی، قانونی تقاضوں کی تکمیل اور نئی منڈیوں میں داخلے کے لیے سرمایہ کاری کو ممکن بنائے گی۔

اس کے متبادل کے طور پر ایک درجہ بندی پر مبنی ٹیکس کریڈٹ سسٹم متعارف کروایا جا سکتا ہے جو بتدریج برآمدات میں اضافے سے منسلک ہو۔ مثال کے طور پر 5 تا 10 فیصد اضافہ کرنے والی کمپنیوں کو 5 فیصد ٹیکس ریلیف، 11 تا 15 فیصد والوں کو 10 فیصد، 16 تا 20 فیصد والوں کو 15 فیصد، اور 20 فیصد سے زائد اضافہ کرنے والی کمپنیوں کو 20 فیصد ٹیکس ریلیف دیا جائے۔

عالمی معیار پر پورا اترنے کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری کو بھی سہولت دی جانی چاہیے تاکہ پاکستانی کمپنیاں ترقی یافتہ ممالک کی دوا ساز منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ اس وقت تیز رفتار ڈیپریسی ایشن کی سہولت صرف مشینری تک محدود ہے۔ تجویز ہے کہ جو کمپنیاں برآمدی منڈیوں میں داخلے کے لیے پلانٹس کی اپ گریڈیشن میں سرمایہ کاری کریں، انہیں تیز رفتار ڈیپریسی ایشن یا مکمل سرمایہ کاری پر ٹیکس کریڈٹ دیا جائے۔

ایک اور اہم مسئلہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 4C کے تحت لاگو ”سپر ٹیکس“ ہے، جو ابتدائی طور پر عارضی قدم کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا لیکن اب یہ مستقل بوجھ بن چکا ہے۔ تجویز ہے کہ دوا ساز برآمدات سے حاصل شدہ آمدن کو اس ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

اسی طرح ایسی صنعتیں جو برآمدات کو فروغ دیتی ہیں یا درآمدی اشیاء کا متبادل فراہم کرتی ہیں، انہیں اس ٹیکس سے مکمل استثنیٰ یا خاطر خواہ ریلیف دیا جائے۔ ٹیکس میں ریلیف دے کر سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی صنعتی ترقی اور اختراع کے لیے ناگزیر ہے۔

پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ عالمی معیشت میں سرمایہ ان ممالک کا رخ کرتا ہے جہاں مالیاتی نظام مستحکم اور پرکشش ہو۔ اس تناظر میں تجویز ہے کہ مالی سال 2025-26 کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کو 28 فیصد تک کم کیا جائے اور آئندہ پانچ سالوں میں اسے سالانہ 1 فیصد کمی کے ساتھ 25 فیصد تک لایا جائے۔ اس سے نہ صرف علاقائی ہم پلہ ممالک سے ہم آہنگی پیدا ہوگی بلکہ سرمایہ کاروں کو اعتماد بھی ملے گا۔

ایک اور اہم پہلو ”منی ٹیکس کیری فارورڈ“ کا طریقہ کار ہے۔ اس وقت سیکشن 113 کے تحت زائد ادا شدہ ٹیکس کو صرف تین سال کے لیے کیری فارورڈ کیا جا سکتا ہے، جو کہ پہلے پانچ سال تھا۔ اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر نئی صنعتوں، خصوصاً دوا سازی پر پڑا ہے جہاں تحقیق، ترقی اور قانونی منظوریوں میں طویل وقت لگتا ہے۔ تجویز ہے کہ پانچ سالہ مدت بحال کی جائے تاکہ ابتدائی مراحل میں کاروباری دباؤ کم ہو۔پہلے، جب ایڈوانس ٹیکس ادا کر دیا جاتا تھا تو کمپنیوں کو 100 فیصد وِد ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوتا تھا، مگر 2024 کے مالیاتی قانون کے بعد یہ سہولت 80 فیصد تک محدود کر دی گئی، جس سے کمپنیوں کی نقدی روانی متاثر ہوئی۔ تجویز ہے کہ مکمل استثنیٰ بحال کیا جائے تاکہ کاروباری سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔

او آئی سی سی آئی نے ڈریپ رجسٹرڈ دوا ساز مصنوعات کے لیے سیلز ٹیکس کی زیرو ریٹنگ کی بحالی، پیکنگ میٹریل اور تشخیصی کٹس کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کی بھی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ فاسٹر سسٹم کے تحت سیلز ٹیکس ریفنڈز میں تاخیر بھی صنعت کے لیے نقدی کے مسائل پیدا کر رہی ہے، جس پر فوری توجہ درکار ہے۔

او آئی سی سی آئی نے مزید تجویز دی ہے کہ درآمد شدہ تیار شدہ دوا ساز اور تشخیصی مصنوعات پر بارہویں شیڈول کے تحت لاگو 3 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ ٹیکس عملی طور پر 4 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، جو کہ آٹھویں شیڈول میں دیے گئے 1 فیصد فائنل ٹیکس کے اصول سے متصادم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چھٹے شیڈول کے اندراج نمبر 166 کے تحت دی گئی سیلز ٹیکس چھوٹ کو صرف خیراتی ہسپتالوں تک محدود رکھنے کے بجائے سرکاری اداروں، محکموں اور ہسپتالوں تک توسیع دی جائے۔

اس کے علاوہ سینٹرل ریسرچ فنڈ (CRF) کے ڈھانچے اور استعمال پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ برآمدی اہداف اور ریگولیٹری ترقی سے ہم آہنگ تحقیق کو فروغ دیا جا سکے۔ دوا ساز کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سی آر ایف فنڈز کو براہ راست ہائی امپیکٹ تحقیق پر خرچ کر سکیں تاکہ عالمی منڈیوں کے لیے درکار سخت معیارات پر پورا اترا جا سکے۔

اسی طرح ورکرز ویلفیئر فنڈ (2 فیصد) اور ورکرز پرافٹ پارٹیسپیشن فنڈ (5 فیصد) کا نظام بھی اصلاح طلب ہے۔ تجویز ہے کہ ان فنڈز کو سرکاری اداروں کے بجائے کمپنیوں کو خود ملازمین کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی اجازت دی جائے، تاکہ احتساب اور مؤثریت بڑھائی جا سکے۔

تجویز نہایت سادہ ہے: بااعتماد کمپنیوں کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ حکومت کی نگرانی میں اپنے ملازمین کی صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود پر یہ فنڈز براہ راست خرچ کر سکیں۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف امدادی اقدامات کو بہتر طریقے سے ہدف بنایا جا سکے گا بلکہ شفافیت اور جوابدہی میں بھی اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں ملازمین کی اطمینان اور پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔

دوا سازی کی صنعت صرف دوا بنانے کا شعبہ نہیں بلکہ یہ صحت عامہ کی ضمانت، جدت کا محرک، روزگار کی فراہمی اور زرمبادلہ کا ذریعہ ہے۔ ایک مضبوط، برآمدی دوا ساز صنعت پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو ترقی کی حوصلہ افزائی کریں، نہ کہ اسے سزا دیں۔

یہ تجاویز کوئی مطالبات نہیں بلکہ ایسی حکمت عملی ہے جو ایک مضبوط اور مسابقتی پاکستان کے قیام کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ کارکردگی پر مبنی، مراعاتی ٹیکس فریم ورک اپنا کر ہم اپنے دوا ساز شعبے کو ترقی کا موقع دے سکتے ہیں، جو نہ صرف برآمدات میں اضافہ کرے گا بلکہ معیشت کو وسعت دے گا، تجارتی خسارے کو کم کرے گا اور صحت کی سہولیات کو بہتر بنائے گا۔

اب وقت ہے کہ پاکستان دانشمندانہ اور دلیرانہ مالی اصلاحات کی جانب قدم بڑھائے۔ اپنی صنعتوں پر اعتماد کریں، ترقی کو انعام دیں اور اس صلاحیت کو بیدار کریں جو طویل عرصے سے سوئی ہوئی ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سرمایہ کاری تجویز ہے کہ میں سرمایہ کمپنیوں کو سیلز ٹیکس دوا سازی دیا جائے ٹیکس سے فیصد تک کو فروغ دوا ساز دیا جا کے تحت کیا جا کے لیے جا سکے

پڑھیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں

دنیا کی تاریخ اور معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقی ہمیشہ رسائی (Access) سے شروع ہوتی ہے اور رسائی کی پہلی شکل سڑک ہے یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ریاستوں تک ہر دور میں سب سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔

رومی سلطنت کے روڈ نیٹ ورک کو آج بھی انجینئرنگ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ نے صدیوں تک تجارت اور سفر کو آسان بنایا۔ جدید دور میں امریکہ کا انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم اور یورپ کی موٹرویز نے معیشتوں کی ترقی کو تیز رفتار بنایا۔ جبکہ چین نے اپنے ترقیاتی سفر کا آغاز سب سے پہلے سڑکوں سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔

دنیا نے ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے 2 ماڈلز اپنائے:

پہلا، شہروں کے درمیان محفوظ اور تیز رفتار رسائی کے لیے موٹرویز اور ایکسپریس ویز بنائے گئے، تاکہ تجارت اور سفر سہولت کے ساتھ ہو سکے۔

دوسرا، شہروں کے اندر سفر کے لیے جدید، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور آرام دہ بسیں اور میٹرو سسٹمز متعارف کرائے گئے، اس سے نہ صرف عوام کا وقت بچا بلکہ آلودگی اور ٹریفک کے مسائل بھی کم ہوئے۔

پاکستان میں بھی تیز رفتار ترقی کا یہی ماڈل اپنایا گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد–لاہور موٹروے سے اس سفر کا آغاز کیا، اس کے بعد لاہور میں میٹرو بس سسٹم بنایا گیا، تاکہ شہریوں کو اندرونِ شہر آرام دہ اور وقت پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میسر ہو۔

یہ دونوں منصوبے دنیا کے تسلیم شدہ ترقیاتی ماڈل کے عین مطابق ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں عمران خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں — قومیں واقعی سڑکوں سے ہی بنتی ہیں۔

ترقی کی کہانی صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں، اگر کہیں کان کنی شروع کرنی ہو تو سب سے پہلا کام وہاں تک سڑک کی تعمیر ہی ہوتا ہے، تاکہ بھاری مشینری اور نکالی گئی معدنیات آسانی سے منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ڈیم، صنعتی زون یا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہو — سب کی پہلی ضرورت رسائی ہے جس کے لئے سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔

یہی اصول معاشرتی شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر بہترین یونیورسٹی بنا دی جائے، لیکن وہاں جانے کے لیے سڑک نہیں ہو تو طلبہ اور اساتذہ نہیں پہنچ پائیں گے اور ادارہ بیکار ہو جائے گا۔

اگر جدید ہسپتال بنا دیا جائے، لیکن وہاں جانے کے لئے سڑک نا ہو تو ساری سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر شاندار صنعتی زون کھڑا کر دیا جائے لیکن وہاں ٹرک اور کنٹینر جانے کے لئے سڑک نہیں ہو تو صنعت بند ہو جائے گی۔ گویا، سڑک کے بغیر کوئی منصوبہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔

چین نے اپنی ترقی کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی، انہوں نے دور دراز پہاڑی اور کم آبادی والے علاقوں تک بھی سڑکیں پہنچائیں، تاکہ ریاستی نظم، تعلیم، صحت اور تجارت ہر جگہ یکساں انداز میں دستیاب ہو۔

نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور پورا ملک ایک مربوط معیشت میں ڈھل گیا۔

یہ تمام مثالیں ایک ہی نکتہ واضح کرتی ہیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں، کیونکہ سڑک صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ زندگی، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت اور ریاستی نظم و نسق کا پہلا قدم ہے جہاں سڑک ہے وہاں ترقی ہے اور جہاں سڑک نہیں ہو وہاں ترقی اور سہولیات مفقود ہو جاتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راحیل نواز سواتی

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ: 2026 کے مجوزہ بجٹ میں اصلاحات اور 500 ملین ڈالر کٹوتیاں
  • قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
  • پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
  • معیشت کی مضبوطی کےلیے ڈیجیٹائزیشن ناگزیر ہے،وزیراعظم شہباز شریف
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ، جام کمال خان
  • سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک
  • قدرتی وسائل اور توانائی سمٹ 2025 میں پاکستان کی صلاحیت اجاگر کیا جائے گا