روس پاکستان اسٹریٹیجک شراکت داری میں پیش رفت؛ بھارت سفارتی سطح پر ناکام
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
روس اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹیجک شراکت داری میں پیش رفت جاری ہے،جو کہ بھارت کی سفارتی سطح پر بڑی ناکامی ہے۔
پاکستان کی مضبوط معاشی ساکھ سے متاثر روس نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے، اور اس بدلتی ہوئی صورت حال کے نتیے میں خطے میں بھارت کا اثرورسوخ شدید خطرے میں پڑ چکا ہے۔
دہائیوں سے بھارت کے اسٹریٹیجک اتحادی روس کا پاکستان میں سرمایہ کاری کا معاہدہ بھارت کی سفارتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عرب نیوز کے مطابق پاکستان اور روس کے مابین ایک ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت ہوگی۔ اسی طرح پاکستان کا روس سے سستے تیل کی درآمد کا سلسلہ بھی کامیابی سے جاری ہے۔
دی ڈپلومیٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وسطی ایشیا سے روابط میں پاکستان کے اہم کردار کا روس معترف ہے اور اس کے پیش نظر پاکستان اور روس کے مابین بارٹر ٹریڈ کا نیا نظام بھی زیر غور ہے۔ روس سے رعایتی نرخوں پر تیل اور گیس کی درآمد پاکستان کے لیے اہم پیشرفت قرار دی جا رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کے 700 ایکڑ پر جدید روسی ٹیکنالوجی سے نیا پلانٹ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ روسی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ پلانٹ سے خام تیل کی نقل و حرکت کے اخراجات کم ہوں گے اور پاک روس معاہدے کے تحت پاکستان اسٹیل کی درآمدات میں 30 فیصد کمی اور 2.
بھارت پراپیگنڈا کے ذریعے پاک روس شراکت داری کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کرتا رہا ہے جب کہ سرمایہ کاری کے شعبے میں روس اور چین کا پاکستان پر اعتماد پاکستان کی کامیاب سفارتی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کمپیٹیشن کمیشن کی چین و بھارت کی طرز پر اسٹیل کی علیحدہ وزارت کے قیام کی سفارش
اسلام آباد:قومی اسٹیل پالیسی نہ ہونے سے صنعت غیر یقینی اور بے ضابطگیوں کا شکار ہے، جس کے باعث کمپیٹیشن کمیشن نے چین و بھارت کی طرز پر اسٹیل کی علیحدہ وزارت کے قیام کی سفارش کر دی۔
کمپیٹیشن کمیشن نے اسٹیل سیکٹر میں کمپٹیشن کی صورتحال پر رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ میں اسٹیل سیکٹر کو درپیش مسابقتی چیلنجز اور پالیسی خلا کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسٹیل اسکریپ کی درآمد 2.7 ملین میٹرک ٹن جبکہ مقامی پیداوار 8.4 ملین میٹرک ٹن رہی۔ پاکستان اسٹیل مل 2015 سے غیر فعال ہے اور اس پر 400 ارب روپے کے واجبات کا بوجھ ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیر معیاری اسٹیل کی پیداوار 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے جس سے صارفین کے مفادات متاثر ہو رہے ہیں۔ سابق فاٹا اور پاٹا سے بغیر ٹیکس اسٹیل کی منتقلی سے قومی خزانے کو 40 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
کمپیٹیشن کمیشن نے رپورٹ میں ٹیکس اصلاحات، معیار کے نفاذ اور گرین ٹیکنالوجی اپنانے کی سفارش کرتے ہوئے اسٹیل سیکٹر میں شفاف اور پائیدار اصلاحات پر زور دیا ہے۔