حکومتی پالیسیوں پر پاکستانیوں کے اعتماد میں واضح اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن ) حکومتی پالیسیز پرپاکستانیوں کے اعتماد میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق اپسوس پاکستان نے نیا سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق ملکی سمت اور معیشت پربھروسہ کرنے والے پاکستانیوں کی شرح 6 سال کی بلند ترین سطح پر آگئی۔42 فیصد پاکستانیوں نے ملکی سمت کو درست کہا جبکہ سمت کو غلط کہنے والوں کی شرح 21 فیصد کمی کے بعد 58 فیصد ہوگئی۔
اپسوس پاکستان نے سروے میں بتایا کہ ملکی سمت پر سب سے زیادہ اعتماد خیبرپختونخوا سے 48 فیصد افراد نے کیا۔سروے میں ملکی معیشت کو مضبوط کہنے والوں کی شرح بھی 9 فیصد اضافے کے بعد 29 فیصد ہوگئی جبکہ ملکی معاشی مستقبل سے پ±رامید پاکستانیوں کی شرح پہلی بار مایوس افراد سے بڑھ گئی۔
سروے میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت پر پریشانی کا اظہارکرنے والوں کی شرح میں کمی آئی، البتہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور ٹیکسوں میں اضافے پر پاکستانیوں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب میں دفعہ 144 نافذ
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کی شرح
پڑھیں:
صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد قومی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس تیزی سے بڑھتا ہوا قرض ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرے کی علامت بن چکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمے قرضوں کا تناسب اگلے 3 سال میں 70.8 فیصد سے کم ہوکر 60.8 فیصد تک لانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ہے، تاہم خطرات اب بھی موجود ہیں۔
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جون 2025ء تک مجموعی قرض 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا، جب کہ صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا جب کہ فنانسنگ کی ضروریات آئندہ برسوں میں 18.1 فیصد کی بلند سطح پر برقرار رہیں گی۔
وزارت خزانہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی، تاہم قرضوں کا حجم اب بھی تشویشناک حد تک بلند ہے۔
رپورٹ میں قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی تفصیلی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے جب کہ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاؤ اور شرح سود میں تبدیلی کو قرض کے بوجھ میں اضافے کی بنیادی وجوہات بتایا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد اندرونی جب کہ 32.3 فیصد بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، جس سے شرح سود کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کا دباؤ بڑھا ہوا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں، جو دوطرفہ اور کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ ریٹ والے بیرونی قرضوں کی شرح 41 فیصد ہے، جو درمیانی سطح کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔