سمبڑیال: پی پی 52 ضمنی الیکشن، (ن) لیگ کی حنا ارشد کامیاب، الیکشن کمشنر نے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 52 سیالکوٹ سمبڑیال کے ضمنی الیکشن میں پولنگ کا آغاز صبح 8 بجے ہوا، شام 5 بجے تک جاری رہی۔تمام 185 پولنگ سٹیشنوں کے غیرحتمی اور غیر سرکاری نتیجے کے مطابق ن لیگ کی حنا ارشد وڑائچ 78419 ووٹ لے کر کامیاب رہیں۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار فاخر نشاط گھمن ٰ40037 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دھاندلی کے لیے کل رات سے ہی آر او آفس کے باہر کنٹینرز کی دیواریں بنا دی گئی تھیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سمبڑیال میں ہر جگہ پولنگ سٹیشنز سے ہمارے نمائندوں کو نکالا گیا، پی ٹی آئی کے پولنگ ایجنٹوں کو مارا گیا اور تشدد کیا گیا، پولنگ سٹیشن میں ن لیگ والے رہے، ہمارے ایجنٹس کو اندر جانے نہیں دیا جا رہا۔ چیف الیکشن کمشنر مدت مکمل ہونے کے باوجود بیٹھے ہیں تو کیا کر رہے ہیں؟ جو ہیلپ لائنز ان لوگوں نے بنائی ہیں وہ کل سے مصروف رکھی گئی ہیں، صبح سے کسی بھی سٹیشن پر کوئی چیک اینڈ بیلنس پالیسی نظر نہیں آئی۔ الیکشن کمشنر نے پی پی 52 سیالکوٹ میں ضمنی انتخاب کے دوران پیپلز پارٹی کے امیدوار کی جانب سے ویڈیو پیغام کے ذریعے لگائے گئے الزامات کا نوٹس لے لیا۔ متعلقہ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر کو حقائق دریافت کر کے رپورٹ جمع کروانے کے احکامات جاری کر دئیے۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار کی جانب سے کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار نے الزامات سے متعلق کوئی شواہد بھی پیش نہیں کئے۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر کے مطابق امیدوار کی جانب سے الزامات بے بنیاد ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حسن مرتضیٰ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن سرکاری مشینری کے بغیر کبھی الیکشن نہیں جیت سکتی۔ مسلم لیگ ن کے پاس کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی، مسلم لیگ ن والے فارم 47 تیار کرنے کے ماسٹر ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں کارکنوں سے خطاب میں کہا ہے کہ پنجاب بھر سے انتخابی مہم میں حصہ ڈالنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ جیت ان تمام کارکنوں کے نام جنہوںنے گلی محلے میں الیکشن مہم چلائی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی حقدار ہے۔ اسی طرح الیکشن لڑتے رہے تو کوئی طاقت ہمیں ہرا نہیں سکتی۔ بھارت سے فتح حاصل کی‘ جیت میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔اس موقع پر کارکنوں نے جشن بھی منایا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔
صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔
پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔
بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔
سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔
اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔
پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔