بنگلہ دیش کے کرنسی نوٹوں سے شیخ مجیب الرحمٰن کی تصویر ہٹادی گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 2 June, 2025 سب نیوز

ڈھاکہ (آئی پی ایس) بنگلہ دیش نے اتوار کو نئے کرنسی نوٹوں کا اجرا کیا ہے جن میں ملک کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمٰن کی تصاویر کو ہٹا دیا گیا ہے، وہ معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے والد تھے جن کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کی سازش کے الزامات پر ان کی عدم موجودگی میں مقدمہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق جنوری 2024 میں ملک سے فرار ہونے کے بعد سے جنوبی ایشیا کے اس تقریباً 17 کروڑ آبادی والے ملک کا نظم و نسق عبوری حکومت کے پاس ہے، جو اس وقت ایک غیر یقینی سیاسی ماحول میں کرنسی میں یہ تبدیلیاں متعارف کروا رہی ہے۔

77 سالہ شیخ حسینہ کو اگست 2024 میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والی عوامی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش بینک کے ترجمان عارف حسین خان نے کہا کہ ’نئے سیریل اور ڈیزائن کے تحت کرنسی نوٹوں پر کسی انسانی چہرے کی تصویر شامل نہیں ہوگی، بلکہ ان پر قدرتی مناظر اور روایتی و تاریخی مقامات دکھائے جائیں گے‘۔

اب تک کے تمام نوٹوں پر شیخ مجیب الرحمٰن کی تصویر ہوتی تھی، جنہوں نے 1971 میں پاکستان سے آزادی کی قیادت کی تھی اور 1975 میں ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیے گئے تھے۔

مسلم اکثریتی شناخت رکھنے والے ملک کے نئے کرنسی نوٹوں کے ڈیزائن میں ہندو اور بدھ مت کے مندروں، تاریخی محلات، مشہور مصور زین العابدین کے بنگال کے قحط پر مبنی فن پارے اور قومی شہدا کی یادگار کی تصاویر شامل ہیں۔

اتوار کو 9 میں سے 3 مالیت کے نوٹ جاری کیے گئے، عارف حسین خان نے بتایا کہ ’نئے نوٹ مرکزی بینک کے ہیڈکوارٹرز سے جاری کیے جائیں گے اور بعد میں ملک بھر میں دیگر دفاتر سے بھی دستیاب ہوں گے‘، انہوں نے مزید کہا کہ ’باقی مالیت کے نوٹ بھی مرحلہ وار جاری کیے جائیں گے‘، موجودہ نوٹ اور سکے بدستور قانونی حیثیت رکھیں گے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کرنسی نوٹوں کے ڈیزائن سیاسی تبدیلیوں کی عکاسی کر رہے ہوں۔

1972 کے ابتدائی نوٹوں پر ملک کا نقشہ موجود تھا جسے بعد میں عوامی لیگ کے ادوارِ حکومت میں شیخ مجیب کی تصویر سے بدل دیا گیا، جب حریف جماعت، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اقتدار میں آئی تو کرنسی نوٹوں پر تاریخی مقامات کی تصاویر شائع کردی گئی تھی۔

منظم حملہ
دوسری طرف شیخ حسینہ کے مقدمے کے آغاز پر استغاثہ نے الزام لگایا کہ انہوں نے اپنے خلاف اٹھنے والی بغاوت کو کچلنے کے لیے منظم حملے کی منصوبہ بندی کی۔

اقوام متحدہ کے مطابق جولائی سے اگست 2024 کے دوران ان کی حکومت کی کارروائیوں میں تقریباً 1400 افراد مارے گئے تھے۔

شیخ حسینہ اس وقت بھارت میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں، انہوں نے حوالگی کے احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور الزامات کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔

بنگلہ دیش کی انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل (آئی سی ٹی) شیخ حسینہ کی معزول حکومت اور ان کی پابندی کا شکار جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق اعلیٰ عہدیداروں پر مقدمات چلا رہی ہے۔

آئی سی ٹی کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے عدالت میں کہا کہ ’ثبوتوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ایک مربوط، وسیع اور منظم حملہ تھا‘۔

انہوں نے شیخ حسینہ، سابق پولیس چیف چوہدری عبداللہ المامون (زیرحراست) اور سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال (مفرور) پر 5،5 الزامات عائد کیے، جن میں اکسانا، ساز باز، معاونت، سہولت کاری، سازش اور قتل عام کو روکنے میں ناکامی شامل ہیں۔

’انتقامی کارروائی نہیں‘
پراسیکیوشن نے غیر جانبداری کا وعدہ کرتے ہوئے کہ اکہ ’یہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں بلکہ جمہوری ملک میں انسانیت کے خلاف جرائم کی گنجائش نہ ہونے کے اصول پر مبنی عزم ہے‘۔

تحقیقات کرنے والوں نے مبینہ طور پر ویڈیو فوٹیجز اور شیخ حسینہ کی فون کالز سمیت وسیع شواہد جمع کیے ہیں، پراسیکیوشن نے الزام لگایا کہ شیخ حسینہ نے سیکیورٹی فورسز کو مظاہرین کو کچلنے کا حکم دیا، حتیٰ کہ انہیں ہیلی کاپٹرز سے فائرنگ کرنے کی ہدایت دی اور خاص طور پر ایک طالب علم مظاہر ابو سعید کو ہلاک کرنے کا حکم دیا۔ ان کے مطابق یہ اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔

25 مئی کو آئی سی ٹی نے شیخ حسینہ کی حکومت سے متعلق پہلا مقدمہ سنا، جس میں 8 پولیس اہلکاروں پر 5 اگست کو چھ مظاہرین کو قتل کرنے کے الزام میں انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے، یہ وہی دن ہے جب شیخ حسینہ ملک چھوڑ کر چلی گئی تھیں، ان میں سے چار اہلکار زیر حراست ہیں اور چار کو عدم موجودگی میں مقدمے کا سامنا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمسلم لیگ ن نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور میزائل ٹیکنالوجی دی: نوازشریف مسلم لیگ ن نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور میزائل ٹیکنالوجی دی: نوازشریف اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایم سی آئی کو پراپرٹی ٹیکس بڑھانے سے روک دیا ایران میں انسانی اسمگلرز کے شکنجے سے 10 پاکستانی شہری بازیاب غزہ میں امداد لینے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے، اقوام متحدہ کی شدید مذمت امریکی ریاست کولوراڈو میں اسرائیل کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر حملہ، 6 افراد زخمی سابق فوجی افسرکا بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: شیخ مجیب الرحم ن کی کرنسی نوٹوں بنگلہ دیش کی تصویر

پڑھیں:

بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔

اہم جماعتیں کون سی ہیں؟

شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔

ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

(جاری ہے)

آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یونس کی پوزیشن کیا ہے؟

ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔

‘‘

یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔

فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔

گروپ کیوں منقسم ہیں؟

اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔

یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔

سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔

نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔

‘‘

بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔

دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔

جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔

‘‘

این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔

انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘

جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟

شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔

جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔

بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔

بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

‘‘

یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔

آگے کیا چیلنجز ہیں؟

عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔

انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • کراچی اور حیدر آباد میں حوالہ ہنڈی کیخلاف کریک ڈاؤن، 4 ملزمان گرفتار
  • چیئرمین پی ٹی اے کی عہدے سے ہٹانے کیخلاف اپیل کل سماعت کیلئے مقرر
  • ملک کے حالات بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی طرف جارہے ہیں،عمران خان
  • عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں
  • ٹی 20 ایشیاکپ: بنگلہ دیش نے افغانستان کو جیت کے لئے 155 رنز کا ہدف دیدیا
  • حفیظ الرحمٰن کی چیئرمین پی ٹی اے کے عہدے سے ہٹانے پر انٹرا کورٹ اپیل دائر
  • ایشیا کپ 2025: بنگلہ دیش کا افغانستان کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • پاکستان کا کرپٹو کرنسی میں ابھرتا ہوا عالمی مقام، بھارتی ماہرین بھی معترف
  • کرنسی مارکیٹوں میں امریکی ڈالر کی نسبت پاکستانی روپے کی پرواز جاری