چین امریکا کی جانب سے بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے، چینی وزارت تجارت
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
بیجنگ :چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے امریکا کے بعض حالیہ بیانات کے حوالے سے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے۔ ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ حالیہ دنوں میں امریکی فریق کی جانب سے مسلسل یہ معلومات گردش کر رہی ہیں کہ چینی فریق چین-امریکہ جنیوا اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس بارے میں وزارت تجارت کا کیا تبصرہ ہے؟ پیر کے روز چینی میڈیا نے بتا یا کہ چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے جواب دیا کہ چین اور امریکہ نے “چین-امریکہ جنیوا اقتصادی و تجارتی مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ” جاری کیا تھا۔ اس کے بعد چینی فریق نے مشترکہ اعلامیے میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکہ کے “مساوی محصولات” کے خلاف اٹھائے گئے متعلقہ اقدامات کو منسوخ یا معطل کر دیا۔ چینی فریق نے ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہوئے جنیوا اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے معاہدے کو سنجیدگی سے لاگو کیا اور اس کا تحفظ کیا۔ چین اپنے حقوق کے تحفظ میں پختہ ہے اور معاہدے پر عملدرآمد میں مخلص ہے۔ دوسری جانب امریکی فریق نے جنیوا مذاکرات کے بعد مسلسل چین کے خلاف متعدد امتیازی پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں اے آئی چپس کی برآمدات پر کنٹرول گائیڈ لائنز جاری کرنا، چپ ڈیزائن سافٹ ویئر (ای ڈی اے) کی چین کو فروخت بند کرنا، اور چینی طلبہ کے ویزے منسوخ کرنے کا اعلان شامل ہے۔ یہ اقدامات دونوں ممالک کے رہنماؤں کے 17 جنوری کے ٹیلیفونک مذاکرات کے معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہیں، جنیوا اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے موجودہ معاہدے کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں، اور چین کے جائز حقوق کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ امریکہ یکطرفہ طور پر نئے اقتصادی و تجارتی تنازعات کو جنم دے رہا ہے، جو دونوں ممالک کے اقتصادی و تجارتی تعلقات میں غیر یقینی صورتحال اور عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ امریکہ نہ صرف اپنے اقدامات پر غور کرنے سے گریز کر رہا ہے بلکہ الٹا چین پر بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہا ہے، جو حقیقت سے یکسر متصادم ہے۔ چینی فریق ان بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔”چین-امریکہ جنیوا اقتصادی و تجارتی مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ” باہمی احترام اور مساوی مشاورت کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ایک اہم معاہدہ ہے، جس کے نتائج آسان نہیں تھے۔ ہم امریکی فریق پر زور دیتے ہیں کہ وہ چینی فریق کے ساتھ مل کر کام کرے، فوری طور پر اپنی غلط کارروائیوں کو درست کرے، جنیوا اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے معاہدے کا تحفظ کرے، اور چین-امریکہ اقتصادی و تجارتی تعلقات کو صحت مند، مستحکم اور پائیدار ترقی کی جانب گامزن کرے۔ اگر امریکی فریق اپنی ضد پر قائم رہا اور چین کے مفادات کو نقصان پہنچانا جاری رکھا، تو چینی فریق اپنے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے مزید سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوگا۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مذاکرات کے معاہدے امریکی فریق چین امریکہ چینی فریق اور چین رہا ہے
پڑھیں:
پاک ایران باہمی تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا اعادہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ پاکستان اورایران نے دوطرفہ تجارت کو10ارب ڈالرسالانہ کرنے کے عزم کااعادہ کرتے ہوئے تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں ٹیرف اور غیر ٹیرف رکاوٹوں کے خاتمے، بارڈر مارکیٹس کو فعال کرنے اور باقاعدہ کاروباری اجلاسوں کے فروغ پر زوردیا ہے، دونوں ممالک نے توانائی اور بنیادی ڈھانچہ کے شعبے میں بجلی کے تبادلے کو بڑھانے، گوادر کے لئے 220 کے وی ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر دوبارہ شروع کرنے اور قابلِ تجدید توانائی منصوبوں کی تلاش پربھی اتفاق کیاہے۔
وزارت اقتصادی امورکی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان اور ایران کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کا 22واں اجلاس 15 تا 16 ستمبر اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی جانب اہم قدم ثابت ہوا جس نے باہمی خوشحالی اور دوطرفہ تعاون کے فروغ کے عزم کو اجاگر کیا۔
پاکستانی وفد کی قیادت وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان جبکہ ایرانی وفد کی سربراہی وزیر برائے سڑکیں و شہری ترقی فرزانہ صادق نے کی۔ اجلاس میں دوطرفہ تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور مستقبل کے تعاون کے لئے جامع فریم ورک پر اتفاق کیا گیا۔ اس موقع پر دونوں وزرا نے اپنی اپنی حکومتوں کی جانب سے پروٹوکولز پر دستخط کئے۔
دونوں ممالک کے درمیان زراعت اور ماحول کے میدان میں ویٹرنری صحت، کیڑوں پر قابو پانے، زرعی بیج و آلات میں تعاون کے معاہدوں پر عملدرآمد، ریت و گرد کے طوفانوں اور مینگرووز کے تحفظ جیسے ماحولیاتی چیلنجز کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر بھی اتفاق کیا گیا اور ٹرانسپورٹ اور رابطہ کاری کے شعبے میں سڑک، ریل، فضائی اور بحری روابط کو مزید بہتر بنانے پر زور دیا گیا۔ اس میں ریلوے کارگو کی مقدار بڑھانے، فضائی نیوی گیشن خدمات کو بہتر بنانے اور زائرین کے لیے بحری جہازوں کے ذریعے سفر کی سہولت پر غور شامل ہے۔