تنخواہ دار طبقہ نے رواں سال 11 ماہ میں 499 ارب روپے ٹیکس دیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
— فائل فوٹو
مختلف شعبوں سے ٹیکس وصولی کے اعداد و شمار سامنے آگئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق تنخواہ دار طبقہ نے ٹیکس دینے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال کے 11 ماہ میں 499 ارب روپے ٹیکس دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس کسی بھی شعبے سے وصول ٹیکس سے زیادہ ہے۔
ذرائع کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ برآمدات کے شعبے سے 96 ارب 36 کروڑ روپے جبکہ جائیداد کی فروخت سے 110 ارب 18 کروڑ روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ کی وصولیوں کے حتمی اعداد و شمار جاری کر دیے۔
جائیداد کی خریداری سے 109 ارب 68 کروڑ روپے ٹیکس وصول ہوا۔ تھوک کے کاروبار سے 11 ماہ میں 22 ارب 36 کروڑ روپے ٹیکس حاصل کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پرچون کے کاروبار سے 11 ماہ میں 33 ارب 30 کروڑ روپے ٹیکس اکٹھا ہوا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: رواں مالی سال کے کروڑ روپے ٹیکس تنخواہ دار ماہ میں
پڑھیں:
سیلاب متاثرین کی بحالی اور ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کا امکان
اسلام آباد/لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء)سیلاب متاثرین کی بحالی اور ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کا امکان ہے،مجوزہ منی بجٹ لگژری گاڑیوں، سگریٹس اور الیکٹرانک سامان پر اضافی ٹیکس کی تجویز ہے، درآمدی اشیا ء پر جون میں کم کی گئی ریگولیٹری ڈیوٹی کے برابر لیوی لگائی جاسکتی ہے۔(جاری ہے)
نجی ٹی وی کے مطابق حکام ایف بی آر کے مطابق الیکٹرانکس اشیا ء پر 5 فیصد لیوی زیرغور ہے،قیمت کی حد طے ہونا باقی ہے، منی بجٹ میں 1800 سی سی اور اس سے زائد انجن والی لگژری گاڑیوں پر لیوی کی تجویز تاہم اضافی ٹیکس لگانے کیلئے آئی ایم ایف سے اجازت درکار ہوگی۔
مجوزہ منی بجٹ سے کم از کم 50 ارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف ہے۔سگریٹ کے ہر پیکٹ پر 50 روپے لیوی عائد کرنے کی بھی تجویز ہے۔ لیوی صوبوں کے ساتھ شیئر نہیں ہوگی، آمدن براہ راست مرکز کو ملے گی۔ایف بی آر کے مطابق اگست میں ٹیکس وصولی میں 50 ارب روپے شارٹ فال ہوا، اگست میں 951 ارب ہدف کے مقابلے 901 ارب روپے ٹیکس جمع ہوا، جولائی تا اگست ٹیکس ریونیو میں قریبا 40 ارب روپے کمی آئی۔رواں سال ٹیکس وصولی کا مجموعی ہدف 14 ہزار 131 ارب روپے مقرر ہے تاہم سیلاب، بجلی و گیس کا کم استعمال اور کاروباری سرگرمیوں میں سستی کی وجہ سے ایف بی آر کو ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔