گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد اپنے قیام سے تاحال ڈینز آف فیکلٹیز سے محروم
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
حیدرآباد:
حیدرآباد میں قائم واحد سرکاری یونیورسٹی "گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد اپنے قیام سے تاحال رئیس کلیات(ڈینز آف فیکلٹیز) کے بغیر کام کررہی ہیں اور گزشتہ 4 برس سے زائد عرصے میں اس یونیورسٹی کی تمام متعلقہ فیکلٹیز اکیڈمک سربراہوں سے محروم ہیں۔
واضح رہے کہ حیدرآباد شہر کے قدیمی تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج کالی موری کو اس کے قیام کے 100 برس پورے ہونے پر گزشتہ دور حکومت میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا اور اس کے قائم مقام وائس چانسلر کالج پرنسپل پروفیسر ناصر انصار تھے جو قریب دو برس اس کے وائس چانسلر رہے جس کے بعد حکومت سندھ نے اس یونیورسٹی کے لیے مستقل وائس چانسلر کے تقرر کے سلسلے میں اشتہار جاری کیا اور انٹرویوز کے بعد ڈاکٹر طیبہ ظریف اس کی پہلی مستقل وائس چانسلر مقرر کی گئی۔
انہوں نے حال ہی میں اپنی پہلی چار سالہ مدت پوری کی ہے اور اب ایک بار پھر آئندہ مدت کے لیے وائس چانسلر کی امیدوار بھی ہیں جبکہ ڈاکٹر امجد آرائیں کے پاس قائم مقام وائس چانسلر کا چارج ہے۔
حکومت سندھ کے ذرائع نے "ایکسپریس " کو بتایا کہ مستقل وائس چانسلر ڈاکٹر طیبہ ظریف کے پورے چار سالہ دور میں کسی بھی پروفیسر کو رئیس کلیہ مقرر کرنے کی سمری کنٹرولنگ اتھارٹی وزیر اعلیٰ سندھ کو بھجوائی ہی نہیں گئی اور پروفیسرز کی موجودگی کے باوجود یونیورسٹی کی تینوں فیکلٹیز اکیڈمک سربراہوں سے خالی رہیں اور شعبہ جات اور فیکلٹیز کے تمام اکیڈمک فیصلے بشمول بورڈ آف فیکلٹیز مستقل رئیس کلیات کے بغیر ہی ہوتے رہے۔
واضح رہے کہ یونیورسٹی میں فیکلٹی آف نیچرل سائنسز ، سوشل سائنسز اور فیکلٹی آف کمپیوٹنگ اینڈ آئی ٹی موجود ہے اور اس وقت تینوں فیکلٹیز میں کل 6 پروفیسرز موجود ہیں ان اساتذہ کو 2022 سے 2024 تک مختلف اوقات میں پروفیسر کی آسامی پر ترقی دی گئی تاہم کسی کو بھی متعلقہ فیکلٹی کا ڈین بنانے کی سمری بھجوائی نہیں گئی۔
ان پروفیسر میں ڈاکٹر عبدالمنان شیخ، ڈاکٹر الطاف احمد ،ڈاکٹر شکیل احمد، ڈاکٹر امجد علی ، ڈاکٹر ، ڈاکٹر عبدالرزاق لارک اور ڈاکٹر امتیاز علی بروہی شامل ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ ڈاکٹر ظریف کی سبکدوشی کے بعد اب یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ہیومن ریسورس نجم الدین سہو کی جانب سے ڈینز کی تقرری کے لیے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو سمری بھجوائی گئی ہے۔
دوسری جانب "ایکسپریس" نے اس معاملے پر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر طیبہ ظریف کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطے کی کوشش کی اور انہیں واٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائس چانسلر کے لیے
پڑھیں:
اساتذہ کا وقار
کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے ساتھ ایک جونیئر سرکاری اہلکار کی بدسلوکی کا واقعہ اساتذہ کے وقار کی پامالی کی مثال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفاق صدیقی کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم ہیں، ان کے گھر کے سامنے ایک اور افسر بھی رہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ڈاکٹر آفاق مغرب کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کچرا جلتے دیکھا،جس پر انھوں نے وہاں پر موجود افسر کے سیکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ وہ لکڑیوں کا کچرا نہ جلائے کیونکہ دھواں ان کے گھر میں آتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے،جس پر تلخ کلامی کے بعد گارڈ نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انھیں تھپڑ بھی مارا جس سے ان کا چشمہ ٹوٹ گیا اور آنکھ میں خون جمع ہوگیا۔ بعدازاں پروفیسر صاحب سے بدتمیزی کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل کرکے اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں کئی دفعہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ سینئر استاد و معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جب اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے تو ان کے بقول وہ علی الصبح اپنے گھر کے سامنے اس وجہ سے ورزش نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کے سامنے ایک بڑے صاحب رہتے تھے۔
ان بڑے صاحب کے سیکیورٹی گارڈز کا موقف تھا کہ گھر کی سیکیورٹی متاثر ہوتی تھی۔ یہ تمام مکانات کراچی یونیورسٹی کی ملکیت ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ایک سینئر استاد کے ساتھ بدسلوکی پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ ایک معزز استاد جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم و تحقیق کے لیے وقف کی ہے، انھیں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی مہذب ادارے یا معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ جامعہ کے اساتذہ علم ، تحقیق اور تہذیب کے نمایندے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ ادارہ جاتی روایت کا تقاضہ بھی ہے۔
80 کی دہائی میں کراچی بھر میں تشدد کے واقعات عام ہوگئے تھے، بوری بند لاشیں ملنے لگیں اور سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی تو اس کے اثرات کراچی یونیورسٹی پر بھی پڑے۔ 1980کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی اور اس سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی طالب علم جاں بحق بھی ہوئے اور دونوں یونیورسٹیوں میں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک تدریس کا سلسلہ معطل رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طلبہ گروہوں میں تصادم کے فوری فائدے نظر آئے۔ اسی بناء پر اس وقت کی حکومت نے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔
1988میں وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی وفاق اور سندھ میں حکومتوں میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو صدارت کا عہدہ سونپا اور جنرل مرزا اسلم بیگ سپہ سالار بن گئے۔
تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کے کچھ اور مقاصد تھے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی میدانِ جنگ بن گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی تھے مگر عملی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں میں مسلسل مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکن ایک تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت سندھ کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تھے، وہ پہلے گورنر تھے جو سندھ کی یونیورسٹیوں کے معاملات کو براہِ راست دیکھتے تھے۔
کراچی یونیورسٹی کے استاد کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعے پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی ہے۔ فی الحال یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا مگر مسئلے کا دائمی حل نہیں نکل سکا۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کی طرح کراچی کی یونیورسٹیوں میں بھی اپنی سیکیورٹی فورس ہونی چاہیے۔ اس فورس میں ایسے افراد کو بھرتی کیا جانا چاہیے جو اساتذہ اور طلبہ کے وقار کو ملحوظ رکھیں اور یونیورسٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔