Daily Ausaf:
2025-07-25@02:49:31 GMT

غزہ: جنگ، جبر اور انصاف کی شکست

اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
اگر اسرائیل صرف طاقت کااستعمال کرے توحماس ہر قسم کے مذاکرات سے پیچھے ہٹ جائے گی۔ یرغمالیوں کی رہائی صرف مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے،اورمذاکرات کیلئے حماس کو کچھ یقین دہانیاں درکار ہیں،جیسیےاسرائیلی افواج کامکمل فوجی انخلااورقیدیوں کی رہائی؛ لیکن اب یہ دونوں اہداف بیک وقت حاصل کرناعملی طورپرناممکن لگتاہے۔
اسرائیل کےدوبڑے اہداف ہیں،اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی اورحماس کی مکمل شکست ،تاہم، یہ دونوں اہداف باہم متضادہیں۔ یرغمالیوں کی رہائی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل حماس کے ساتھ کچھ نہ کچھ مفاہمت پرآمادہ ہو،جیساکہ قیدیوں کے تبادلے یافوجی انخلاکے وعدے۔دوسری جانب اگراسرائیل مکمل عسکری فتح کے راستے پرچلتاہے تووہ حماس کومذاکرات کاکوئی محرک نہیں دیتا۔حماس کیلئے یرغمالی آخری سودے بازی کاپتہ ہیں اوروہ انہیں بغیرکسی بڑے فائدے کے چھوڑنے پرآمادہ نہیں ہوں گے۔
غزہ میں طبی عملے پراسرائیلی فوج نے قریب سے100سے زائدگولیاں چلائیں۔یہ عمل بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی اورسنگین خلاف خلاف ورزی ہے۔جنیوا کنونشن کے تحت طبی ٹیم، ایمبولینس، ہسپتال سب تحفظ یافتہ ہوتے ہیں۔ان پرحملہ نہ صرف اخلاقی طور پرقابل مذمت ہے بلکہ قانونی طورپربھی جنگی جرم ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعے کومذموم اورناقابل قبول قرار دیاہے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنربرائے انسانی حقوق کی جانب سے بھی اس پرتحقیقات کامطالبہ کیاگیا ہے۔طبی ٹیموں پرفائرنگ واضح جنگی جرم ہے۔
خوراک وادویات کی بندش اورطبی عملے پرحملے کی خبروں سے اب مغربی ممالک کے عوام میں انتہائی بے چینی پیداہوگئی ہے اوراسرائیل کے خلاف میڈیاپربھی شدیدتشویش اور اسرائیل کے خلاف اپنی حکومتوں سے فوری کارروائی کرنے کےمطالبات زورپکڑچکے ہیں۔ فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تفتیش پہلے سےجاری ہے۔
بین الاقوامی قانون کےکئی بنیادی اصول اسرائیل کی غزہ میں موجودہ پالیسی سے متصادم ہیں۔چوتھاجنیواکنونشن1949ء شہریوں کے تحفظ سےمتعلق ہے۔اس کےمطابق شہری آبادی پرحملے ممنوع ہیں۔طبی عملے،ہسپتالوں،خوراک اورپانی کی رسائی کوبندکرناجنگی جرم تصورہوتاہے کیونکہ اجتماعی سزاغیرقانونی ہے۔ آئی سی سی اس گھناؤنے جرم پربین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتی ہے۔
اقوام متحدہ بارہا غزہ کی صورتحال کو ’’انسانی بحران‘‘قراردے چکی ہے۔سیکریٹری جنرل نے فوری جنگ بندی کامطالبہ کرتے ہوئے کئی مرتبہ اسرائیل کو تنبیہ کی ہے۔اگراسرائیل غزہ میں مستقل کنٹرول قائم کرتاہے توفردِجرم عائدہوسکتی ہے۔ دیگرریاستوں پربھی ذمہ داری عائدہوتی ہےکہ وہ جنگی جرائم کی حمایت نہ کریں بلکہ انسانیت سوزمظالم پرسفارتی، اقتصادی یاقانونی اقدامات کریں۔
اسرائیل کے مسلسل انسانیت کےخلاف جرائم پربالخصوص اس کے اتحادیوں کاردعمل بھی سامنے آناشروع ہوگیاہے۔برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے اسرائیل کی حکمت عملی کوشدید تنقیدکانشانہ بناتے ہوئےجنگ بندی کامطالبہ کیاہے۔ان ممالک کا کہنا ہے کہ خوراک کی محدود فراہمی اور فوجی کارروائیوں کاپھیلاناقابل قبول ہے۔ روایتی اتحادیوں کی مخالفت سے ظاہرہوتاہےکہ اسرائیل بین الاقوامی برادری میں سفارتی طورپر تنہا ہوتاجارہا ہے۔تینوں ممالک نے اپنے مشترکہ بیان میں بنیادی پیغام جاری کرتے ہوئے اسرائیلی فوجی آپریشنز کے پھیلاؤکی شدیدمخالفت کی ہے، جس سے مرادغزہ کے مزیدعلاقوں پرقبضہ یافوجی کارروائیوں کی شدت میں اضافہ ہے۔ان کا اصرارہے کہ انسانی المیے کی شدت ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے،جس میں شہری اموات،طبی سہولیات کاتباہ ہونا،اوربے گھرہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعدادشامل ہے۔
تینوں ممالک نے نیتن یاہوحکومت کی جانب سے غزہ میں خوراک کی فراہمی کوناکافی اور انتہائی محدودقراردیاہے۔بین الاقوامی اداروں کے مطابق،غزہ کی22لاکھ آبادی غذائی قلت،صاف پانی کی کمی،اورادویات کے بحران کا شکار ہے۔ عالمی فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط نماحالات پیداہوچکے ہیں۔اسرائیل کامحاصرہ اور امدادی ٹرکوں کو روکنا جنیواکنونشنزکی خلاف ورزی ہے،جوفوجی تنازعات کے دوران شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ضمانت دیتاہے۔
برطانیہ،فرانس،اورکینیڈا جیسے اتحادی ممالک نے اسرائیلی حکمت عملی کی مخالفت کی ہے اورجنگ بندی کامطالبہ کیاہے۔یہ ممالک اس بات کی نشاندہی کررہےہیں کہ اسرائیلی اقدامات انسانی المیے کوبڑھارہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اسرائیل کے خلاف قراردادیں پیش کی گئی ہیں،لیکن امریکاکی ویٹوپاورنے انہیں روک دیا ہے۔ برطانیہ ،فرانس اورکینیڈانے اسرائیل کی نئی حکمت عملی کوواضح طور پر مسترد کیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اپنےاپنے ممالک کے عوام کے شدیددباؤ کے بعد، اسرائیل کے تین قریبی اتحادیوں برطانیہ ،فرانس اورکینیڈاکا مشترکہ ردعمل اوربین الاقوامی سفارتی دبائوسامنے آیاہےجس میں انہوں نے عالمی میڈیاکوایک بیان جاری کیاہے: ’’ہم غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشنز کے پھیلاؤ کی شدید مخالفت کرتےہیں۔وہاں انسانی المیے کی شدت ناقابل برداشت ہوچکی ہے‘‘۔یہ عالمی دباؤ اسرائیل کوسفارتی سطح پرمزیدتنہاکرسکتا ہے۔ یہ تین ممالک اسرائیل کے روایتی اتحادی ہیں۔ ان کی مخالفت ظاہرکرتی ہے کہ اسرائیلی پالیسی کواب مغربی حمایت حاصل نہیں رہی۔یہ ایک سفارتی تنہائی کی علامت ہے۔
اسرائیل کی غزہ پرمکمل قبضے کی کوشش بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کےسنگین نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔ اسرائیل کوحماس کی شکست اوریرغمالیوں کی واپسی میں توازن پیداکرنا ہوگاکیونکہ دونوں اہداف بیک وقت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اسرائیل کی موجودہ پالیسی نہ صرف سیاسی طورپرمتنازع ہے بلکہ قانونی اوراخلاقی لحاظ سے بھی خطرناک ہے۔حماس کوکمزور کرنےکی آڑمیں اگرعام شہریوں کونشانہ بنایاجائے،تویہ عالمی سطح پرناقابل قبول ہوگا۔
اقوام متحدہ،یورپی یونین،اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوچاہیے کہ وہ صرف مذمت پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں جیسے اسلحے کی فراہمی پر پابندی،تحقیقات کیلئے خصوصی کمیشن ، آئی سی سی میں مقدمات کی شروعات سے آغاز ہونا چاہئے۔ عالمی برادری،خاص طورپرمغربی ممالک کو چاہیےکہ وہ صرف زبانی مذمت کی بجائے ٹھوس سفارتی دبائو ڈالیں۔انسانی امدادکی فراہمی فوری طورپربڑھائی جانی چاہیے تاکہ قحط اورطبی بحران سے بچاجاسکے۔ ( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی اقوام متحدہ اسرائیل کی فرانس اور ہے اور

پڑھیں:

عالمی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرائیں, ڈی ایف پی

ترجمان نے کہا کہ علیل قیدیوں کو مناسب طبی سہولیات اور علاج معالجے کے حق سے محروم رکھنا نہ صرف غیر انسانی بلکہ جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے علاقے میں سیاسی اور انسانی حقوق کی سنگین صورتحال بالخصوص بھارت اور مقبوضہ علاقے کی جیلوں میں نظر بند کشمیریوں کی حالت زار پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈوکیٹ ارشد اقبال نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ حق خودارادیت کے لیے کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کو کچلنے کے لیے تشدد کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ علاقے میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور بھارت پر دبائو ڈالیں کہ وہ متنازعہ علاقے میں ظلم و جبر کا سلسلہ بند کرے۔ ترجمان نے 5 اگست 2019ء سے پہلے اور اس کے بعد گرفتار حریت رہنمائوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کی مسلسل غیر قانونی نظربندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ظالمانہ کارروائیاں بھارت کی آمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔

انہوں نے ڈی ایف پی چیئرمین شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت رہنمائوں بشمول محمد یاسین ملک، ڈاکٹر حمید فیاض اور بلال صدیقی کی بگڑتی ہوئی صحت پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ ترجمان نے کہا کہ علیل قیدیوں کو مناسب طبی سہولیات اور علاج معالجے کے حق سے محروم رکھنا نہ صرف غیر انسانی بلکہ جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ ڈی ایف پی نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ غیر قانونی طور پر نظربند تمام کشمیریوں خاص طور پر جان لیوا عارضوں میں مبتلا افراد کی رہائی کے لیے عملی اقدامات کریں۔

متعلقہ مضامین

  • احتساب کے بغیر مختلف ممالک کے علاقوں پر قبضے جاری ہیں، انسانی بحران ہر گزرتے لمحے بڑھ رہا ہے :اسحاق ڈار
  • ’صحت مند ماحول انسانی حق ہے‘،بین الاقوامی عدالت انصاف
  • اسرائیل کے مغربی کنارے پر خودساختہ خودمختاری کے اعلان کی عرب واسلامی ممالک کی شدید مذمت
  • عالمی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرائیں, ڈی ایف پی
  • جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، عثمان جدون
  • فلسطین کی صورتحال پرمسلم ممالک اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں(حافظ نعیم )
  • غزہ سے یوکرین تک تنازعات کے پرامن حل میں سفارتکاری کو موقع دیں، گوتیرش
  • فلسطین کی صورتحال پر مسلم ممالک اپنی خاموشی سے اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، حافظ نعیم
  • بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو
  • شام کی دہلیز سے عرب ممالک کو تقسیم کرنے کا خطرناک اسرائیلی منصوبہ