Daily Ausaf:
2025-06-06@01:04:34 GMT

غزہ: جنگ، جبر اور انصاف کی شکست

اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
اگر اسرائیل صرف طاقت کااستعمال کرے توحماس ہر قسم کے مذاکرات سے پیچھے ہٹ جائے گی۔ یرغمالیوں کی رہائی صرف مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے،اورمذاکرات کیلئے حماس کو کچھ یقین دہانیاں درکار ہیں،جیسیےاسرائیلی افواج کامکمل فوجی انخلااورقیدیوں کی رہائی؛ لیکن اب یہ دونوں اہداف بیک وقت حاصل کرناعملی طورپرناممکن لگتاہے۔
اسرائیل کےدوبڑے اہداف ہیں،اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی اورحماس کی مکمل شکست ،تاہم، یہ دونوں اہداف باہم متضادہیں۔ یرغمالیوں کی رہائی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل حماس کے ساتھ کچھ نہ کچھ مفاہمت پرآمادہ ہو،جیساکہ قیدیوں کے تبادلے یافوجی انخلاکے وعدے۔دوسری جانب اگراسرائیل مکمل عسکری فتح کے راستے پرچلتاہے تووہ حماس کومذاکرات کاکوئی محرک نہیں دیتا۔حماس کیلئے یرغمالی آخری سودے بازی کاپتہ ہیں اوروہ انہیں بغیرکسی بڑے فائدے کے چھوڑنے پرآمادہ نہیں ہوں گے۔
غزہ میں طبی عملے پراسرائیلی فوج نے قریب سے100سے زائدگولیاں چلائیں۔یہ عمل بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی اورسنگین خلاف خلاف ورزی ہے۔جنیوا کنونشن کے تحت طبی ٹیم، ایمبولینس، ہسپتال سب تحفظ یافتہ ہوتے ہیں۔ان پرحملہ نہ صرف اخلاقی طور پرقابل مذمت ہے بلکہ قانونی طورپربھی جنگی جرم ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعے کومذموم اورناقابل قبول قرار دیاہے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنربرائے انسانی حقوق کی جانب سے بھی اس پرتحقیقات کامطالبہ کیاگیا ہے۔طبی ٹیموں پرفائرنگ واضح جنگی جرم ہے۔
خوراک وادویات کی بندش اورطبی عملے پرحملے کی خبروں سے اب مغربی ممالک کے عوام میں انتہائی بے چینی پیداہوگئی ہے اوراسرائیل کے خلاف میڈیاپربھی شدیدتشویش اور اسرائیل کے خلاف اپنی حکومتوں سے فوری کارروائی کرنے کےمطالبات زورپکڑچکے ہیں۔ فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تفتیش پہلے سےجاری ہے۔
بین الاقوامی قانون کےکئی بنیادی اصول اسرائیل کی غزہ میں موجودہ پالیسی سے متصادم ہیں۔چوتھاجنیواکنونشن1949ء شہریوں کے تحفظ سےمتعلق ہے۔اس کےمطابق شہری آبادی پرحملے ممنوع ہیں۔طبی عملے،ہسپتالوں،خوراک اورپانی کی رسائی کوبندکرناجنگی جرم تصورہوتاہے کیونکہ اجتماعی سزاغیرقانونی ہے۔ آئی سی سی اس گھناؤنے جرم پربین الاقوامی فوجداری عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتی ہے۔
اقوام متحدہ بارہا غزہ کی صورتحال کو ’’انسانی بحران‘‘قراردے چکی ہے۔سیکریٹری جنرل نے فوری جنگ بندی کامطالبہ کرتے ہوئے کئی مرتبہ اسرائیل کو تنبیہ کی ہے۔اگراسرائیل غزہ میں مستقل کنٹرول قائم کرتاہے توفردِجرم عائدہوسکتی ہے۔ دیگرریاستوں پربھی ذمہ داری عائدہوتی ہےکہ وہ جنگی جرائم کی حمایت نہ کریں بلکہ انسانیت سوزمظالم پرسفارتی، اقتصادی یاقانونی اقدامات کریں۔
اسرائیل کے مسلسل انسانیت کےخلاف جرائم پربالخصوص اس کے اتحادیوں کاردعمل بھی سامنے آناشروع ہوگیاہے۔برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے اسرائیل کی حکمت عملی کوشدید تنقیدکانشانہ بناتے ہوئےجنگ بندی کامطالبہ کیاہے۔ان ممالک کا کہنا ہے کہ خوراک کی محدود فراہمی اور فوجی کارروائیوں کاپھیلاناقابل قبول ہے۔ روایتی اتحادیوں کی مخالفت سے ظاہرہوتاہےکہ اسرائیل بین الاقوامی برادری میں سفارتی طورپر تنہا ہوتاجارہا ہے۔تینوں ممالک نے اپنے مشترکہ بیان میں بنیادی پیغام جاری کرتے ہوئے اسرائیلی فوجی آپریشنز کے پھیلاؤکی شدیدمخالفت کی ہے، جس سے مرادغزہ کے مزیدعلاقوں پرقبضہ یافوجی کارروائیوں کی شدت میں اضافہ ہے۔ان کا اصرارہے کہ انسانی المیے کی شدت ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے،جس میں شہری اموات،طبی سہولیات کاتباہ ہونا،اوربے گھرہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعدادشامل ہے۔
تینوں ممالک نے نیتن یاہوحکومت کی جانب سے غزہ میں خوراک کی فراہمی کوناکافی اور انتہائی محدودقراردیاہے۔بین الاقوامی اداروں کے مطابق،غزہ کی22لاکھ آبادی غذائی قلت،صاف پانی کی کمی،اورادویات کے بحران کا شکار ہے۔ عالمی فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط نماحالات پیداہوچکے ہیں۔اسرائیل کامحاصرہ اور امدادی ٹرکوں کو روکنا جنیواکنونشنزکی خلاف ورزی ہے،جوفوجی تنازعات کے دوران شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ضمانت دیتاہے۔
برطانیہ،فرانس،اورکینیڈا جیسے اتحادی ممالک نے اسرائیلی حکمت عملی کی مخالفت کی ہے اورجنگ بندی کامطالبہ کیاہے۔یہ ممالک اس بات کی نشاندہی کررہےہیں کہ اسرائیلی اقدامات انسانی المیے کوبڑھارہے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اسرائیل کے خلاف قراردادیں پیش کی گئی ہیں،لیکن امریکاکی ویٹوپاورنے انہیں روک دیا ہے۔ برطانیہ ،فرانس اورکینیڈانے اسرائیل کی نئی حکمت عملی کوواضح طور پر مسترد کیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اپنےاپنے ممالک کے عوام کے شدیددباؤ کے بعد، اسرائیل کے تین قریبی اتحادیوں برطانیہ ،فرانس اورکینیڈاکا مشترکہ ردعمل اوربین الاقوامی سفارتی دبائوسامنے آیاہےجس میں انہوں نے عالمی میڈیاکوایک بیان جاری کیاہے: ’’ہم غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشنز کے پھیلاؤ کی شدید مخالفت کرتےہیں۔وہاں انسانی المیے کی شدت ناقابل برداشت ہوچکی ہے‘‘۔یہ عالمی دباؤ اسرائیل کوسفارتی سطح پرمزیدتنہاکرسکتا ہے۔ یہ تین ممالک اسرائیل کے روایتی اتحادی ہیں۔ ان کی مخالفت ظاہرکرتی ہے کہ اسرائیلی پالیسی کواب مغربی حمایت حاصل نہیں رہی۔یہ ایک سفارتی تنہائی کی علامت ہے۔
اسرائیل کی غزہ پرمکمل قبضے کی کوشش بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کےسنگین نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔ اسرائیل کوحماس کی شکست اوریرغمالیوں کی واپسی میں توازن پیداکرنا ہوگاکیونکہ دونوں اہداف بیک وقت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اسرائیل کی موجودہ پالیسی نہ صرف سیاسی طورپرمتنازع ہے بلکہ قانونی اوراخلاقی لحاظ سے بھی خطرناک ہے۔حماس کوکمزور کرنےکی آڑمیں اگرعام شہریوں کونشانہ بنایاجائے،تویہ عالمی سطح پرناقابل قبول ہوگا۔
اقوام متحدہ،یورپی یونین،اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوچاہیے کہ وہ صرف مذمت پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں جیسے اسلحے کی فراہمی پر پابندی،تحقیقات کیلئے خصوصی کمیشن ، آئی سی سی میں مقدمات کی شروعات سے آغاز ہونا چاہئے۔ عالمی برادری،خاص طورپرمغربی ممالک کو چاہیےکہ وہ صرف زبانی مذمت کی بجائے ٹھوس سفارتی دبائو ڈالیں۔انسانی امدادکی فراہمی فوری طورپربڑھائی جانی چاہیے تاکہ قحط اورطبی بحران سے بچاجاسکے۔ ( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی اقوام متحدہ اسرائیل کی فرانس اور ہے اور

پڑھیں:

تاریخ کے چوراہے  پر کھڑے  چین کی ترقی کی سمت

تاریخ کے چوراہے  پر کھڑے  چین کی ترقی کی سمت WhatsAppFacebookTwitter 0 4 June, 2025 سب نیوز

بیجنگ :تاریخ  اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں داخل ہوچکی ہے، دنیا ایک منظم تبدیلی سے گزر رہی ہے جو توقع سے کہیں زیادہ گہری ہے۔سنہ 2017 کے آخر میں شی جن پھنگ نے پہلی بار  یہ خیال ظاہر کیا کہ ہم دیکھ رہے ہیں دنیا میں بری تبدیلیاں رونما ہونے جا رہی ہیں، جو گذشتہ ایک صدی میں نظر نہیں آئیں  انہوں نے اس بڑِ ی تبدیلی کی وضاحت کے لیے   تین پہلووں سے  “بے مثال”  کے الفاظ کا استعمال کیا ۔ سب سے پہلا یہ کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے ممالک اور ترقی پذیر ممالک  کے احیاء کی  رفتار  بے مثال ہے  ۔

دوسرا یہ ہے کہ سائنسی اور تکنیکی انقلاب  سے پیدا ہونے والی صنعتی تبدیلی  اور مقابلے کی شدت  بے مثال ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ عالمی گورننس کے  نظام    اور   بین الاقوامی صورتحال میں ہونے والی تبدیلیوں  کے درمیان ناموافقت اور     غیر مساوی کی حالت بے مثال ہے ۔  اس وقت دنیا ایک چوراہے پر کھڑی ہے، اس تناظر میں شی جن پھنگ نے چین کو ایک ایسے راستے  پر لے  گئے  جو مغربی جدیدیت سے مختلف ہے، جس نے دنیا کے  مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک نیا نمونہ فراہم کیا ہے:

عالمی حکمرانی میں جیت جیت کی منطق کو ضم کرنا اور فائدہ مند  تعاون کے ساتھ  زیرو سم  کے کھیل کو ختم  کرنا۔150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ “بیلٹ اینڈ روڈ”  کی مشترکہ تعمیر   پر دستخط سے لے کر “انسانیت کے  ہم نصیب معاشرے  “کے تصور کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی دستاویزات میں کئی بار  شامل کیا  گیا ہے۔ چین کے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی دنیا کے لیے کھلے پن  سے لے کر ڈیپ سیک کے عالمی اوپن سورس تک؛

 شی جن پھنگ کے عالمی ترقی، سلامتی اور تہذیبی  انیشی ایٹوز  سے لے کر شنگھائی تعاون تنظیم، ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک، سلک روڈ فنڈ اور برکس ممالک کے نئے ترقیاتی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کی ترقی تک، چین نے بین الاقوامی سلامتی، معیشت اور تجارت، علاقائی تعاون اور عالمی امور کے شعبوں میں   زیادہ سے زیادہ اہم کردار ادا  کیاہے ۔ چین کی  پیش کردہ تجویز “تہذیبوں کے تصادم” کے نظریے سے آگے بڑھنے کا امکان پیش کرتی ہے۔

علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی)، جسے چین فعال طور پر فروغ دے رہا ہے، نے دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی علاقہ تعمیر کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی پیش گوئی کے مطابق 2023 سے 2029 تک آر سی ای پی عالمی اقتصادی ترقی میں 40 فیصد سے زیادہ کا حصہ ڈالے گا۔تاریخ کے چوراہے پر کھڑا چین ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کا معمار بن چکا ہے۔ چین کی طاقت نے دنیا میں تنازعات اور جنگ نہیں لائی ہے بلکہ تہذیب کی ایک نئی شکل متعارف کرائی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین اور امریکہ کا اختلافات کے خاتمے کیلئے کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق ٹریڈنگ آرٹسٹ”،جو کہے کچھ اور کرے کچھ ،وہ زمانے میں اپنی پوزیشن کھو دے گا پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے کھلتے ہی نئی تاریخ رقم کردی رواں مالی سال تنخواہ دار طبقے کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کا انکشاف وفاقی بجٹ 2025-26کی تیاریاں مکمل، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بجٹ اجلاس طلب تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس ریلیف میں اہم پیشرفت، آئی ایم ایف شرح کم کرنے پر آمادہ پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی عائد کیے جانے کا امکان، مہنگائی کا طوفان آنے کا خدشہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی گوتم اڈانی کے خلاف امریکی محکمہ انصاف نے نئی تحقیقات شروع کردیں
  • چین میں مجموعی طور پر 101 نئے بین الاقوامی فضائی کارگو روٹس  کا آغاز 
  • چینی اقتصادی پیش رفت کے خلاف ایٹمی جنگ کا بیانیہ
  • ایشیائی ممالک میں پاکستان کے کال سینٹرز پر سب سے بڑا کریک ڈاؤن
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، بلاول بھٹو
  • موسمیاتی تبدیلی کے خلاف تحریک میں انسانی حقوق اہم، وولکر ترک
  • سلامتی کونسل: غزہ میں مستقل فائر بندی قرارداد پرامریکی ویٹو کا امکان
  • تاریخ کے چوراہے  پر کھڑے  چین کی ترقی کی سمت
  • بھارت کی جانب سے پانی روکنا بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے؛پارلیمانی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو