WE News:
2025-09-18@20:59:43 GMT

پاکستان کا افغان پرابلم ہمارا مائنڈ سیٹ ہے

اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT

افغان کہاوت ہے کہ جس کا قندھار اسی کا کابل۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس قندھار میں اقتدار ہوگا اسی کا سکہ کابل میں چلے گا۔ ہم جب کابل سے معاملہ کرنے لگتے ہیں تو ہم قندھار فیکٹر کو زیادہ تر نظرانداز کرتے ہیں۔ اسلام آباد کو خیبر پختون خوا نزدیک پڑتا ہے۔ قندھار کا مزاج بلوچستان کی پشتون بیلٹ سے ملتا ہے۔

خیبرپختون خوا میں طاقت کا مرکز پشاور ویلی میں گھومتا رہتا ہے۔ پشاور ویلی کے 5 اضلاع ہیں۔ پشاور، مردان، چارسدہ، نوشہرہ اور صوابی۔ اس پشاور ویلی میں سیاست کی امامت باچا خان کی فکر کے پاس رہی ہے۔ پشتو ادب پر بھی اس کے اثرات گہرے ہیں۔ اس اکثریتی سوچ کی مخالفت کرنے والے بھی کبھی کمزور نہیں رہے۔ اقتدار ان کے پاس زیادہ عرصہ رہا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اسی پشاور ویلی کو لاڑکانہ بنائے رکھا۔

آگے بڑھنے سے پہلے ایک اور بات بتانا بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ، پنڈی یا فوج کا ذکر بھی سیاست کے ساتھ لازمی ہوتا ہے۔ اگر آپ اٹک پل پر کھڑے ہو کر ایک بڑا گول دائرہ لگائیں تو اٹک، پنڈی، جہلم اور چکوال یعنی پرانا پنڈی ڈویژن، پشاور ویلی اور اس کے ساتھ کوہاٹ کا ضلع اس دائرے میں آ جائیں گے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے فوج کی رولنگ ایلیٹ اور فٹ سولجر آتا رہا ہے۔ اگر آپ کو فوج کی سیاست میں مداخت پر سوال اٹھانے ہیں تو پھر جہاں سے فوج کی رولنگ ایلیٹ آتی ہے، اس علاقے کو بھی جان لیں۔

سابق فاٹا 7 ایجنسیوں اور 6 ایف آر پر مشتمل علاقہ تھا۔ فاٹا کی 6 ایجنسیاں افغانستان باڈر (ڈیورنڈ لائن ) کے ساتھ لگتی ہیں۔ باجوڑ ، مہمند، خیبر، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پہلے ایجنسیاں کہلاتے تھے اب اضلاع کا درجہ پا گئے ہیں۔

آپ صرف اجتماعی ذمہ داری کے قانون ایف سی آر وغیرہ سے ہی واقف ہوں گے۔ ٖفاٹا کے زیر انتظام تمام ایجنسیاں وفاق کے ماتحت تھیں اور وفاق کی جانب ہی دیکھتی تھیں۔ امریکا اور اتحادیوں کی افغانستان آمد تک سارا فاٹا ہی اس طرف چلتا تھا جدھر وفاقی حکومت یا ریاست جا رہی ہوتی تھی۔ جو ریاست کی کشمیر پالیسی ہوتی تھی وہی فاٹا والوں کا ایمان قرار پاتی تھی۔ جو روس کے خلاف افغان پالیسی تھی اس کو بھی فاٹا کے اضلاع سے ہی بھرپور حمایت ملی۔ ہمارا اب اس میں کمال دیکھیں کہ ہم نے ان فاٹا والوں کے ساتھ کیا کیا۔

فاٹا والوں کو ہم نے افغانوں کے دستر خوان پر بٹھائے رکھا۔ یہ سخت بات کہے بغیر آپ کو بات سمجھ نہیں آئے گی۔ ٹرانزٹ ٹریڈ پر فاٹا والوں کی آمدن کا انحصار تھا۔ یہ وہ سہولت تھی جو اٖفغانستان کو فراہم کی گئی تھی۔ اس کی وجہ سے ہمارے فاٹا والوں کے کچن کا انحصار افغان حکومت کی امپورٹ پالیسی ریوینیو اور ٹیکس پر تھا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ افغان بزنس مین کے لیے پاکستان بزنس آپشن بنتا۔ الٹا ہمارے فاٹا کا قبائلی اپنی کمائی روزگار کے لیے افغان حکومت کی طرف دیکھتا رہا۔

باچا خان اپنی وصیت کے مطابق جلال آباد میں دفن ہوئے۔ ہماری لاہوری پنجابی سوچ نے اس کو غداری سے جوڑ کر دیکھا۔ ایک بلاوجہ کے پریشر میں آئے، افغانستان سے زیادہ پختون پاکستان میں ہیں۔ جو زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ہمیں شک رہتا ہے کہ افغانستان کے ہاتھوں یہ استعمال نہ ہو جائیں۔ ایسا سوچتے ہم کو شرم بھی نہیں آتی۔ ہم ابھی نہیں تو کبھی سمجھ ہی جائیں گے کہ باچا خان نے جلال آباد میں دفن ہو کر پختونوں کو بھی ایک کر دیا تھا اور پاکستان افغانستان کو بھی بھائی بندی میں باندھ دیا تھا۔

سکندر اعظم تو گجرات میں ہاتھ کھڑے کر گیا تھا۔ افغان یا پختون نان سٹاپ دہلی پہنچتے رہے۔ وجہ اس کے علاوہ کیا ہے کہ دہلی سے پہلے موجودہ پاکستان کے علاقے میں بسنے والی اقوام کے ساتھ اتحاد سے ہی یہ باہرو باہر دہلی پہنچے۔ آج کی تاریخ میں اگر افغانستان آ کر روس امریکا ٹک نہیں سکے تو اس کی وجہ بھی پاکستان سے ملی حمایت ہی تھی۔

ہم افغانستان کو اپنے خوف اور وہم کے زیر اثر بنائی پالیسیوں سے ڈیل کرتے ہیں۔ فاٹا والوں کو باعزت روزگار، کمائی اور شہری حقوق کا ذمہ ہمارا ہے۔ جب وہ وفاق سے راضی تھے تو فوج کی تعیناتی کے بغیر روس کی موجودگی میں ڈیورنڈ لائن پرسکون رہی۔ جبکہ ہم واضح طور پر روس کے خلاف جنگ میں اترے ہوئے تھے۔
امریکا اور اتحادیوں کی موجودگی اور روانگی میں افغانستان کی ڈائنامکس بھی بدلی ہیں۔ لویا پکتیا (خوست، پکتیا، پکتیکا) والوں نے جنگ میں اپنا آپ منوایا ہے۔ حقانیوں نے لویا پکتیا کی قیادت کی ہے۔ اس ایریا کے ہمارے فاٹا سے گہرے قبائلی سماجی تعلقات ہیں۔ ہم کابل سے بات کرتے ان تعلقات پر زیادہ انحصار کرنے کی غلطی کر رہے ہیں۔

2012 میں پاکستان اور افغانستان نے جے سی سی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی بنائی تھی۔ اس کے اب تک 7 اجلاس ہو چکے ہیں۔ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کمیٹی کے 2 اجلاس ہوئے ہیں۔ دونوں بار اس افغان سائیڈ سے اس کمیٹی کی سربراہی قندھاری ہیوی ویٹس نے کی ہے۔ اپریل میں ہونے والے اجلاس کی صدارت ڈپٹی وزیر دفاع عبدالقیوم ذاکر نے کی۔ 17 ماہ پہلے ہونے والے اجلاس کی صدارت گورنر قندھار ملا شیریں نے کی تھی۔

اگر ہم افغانستان کے حوالے سے اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کر لیں، وہم کرنا چھوڑیں، اس تازہ اعتماد کو ہی کام میں لے آئیں جو حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد ہم میں آیا ہے تو ہم فاٹا کو بھی مطمئین کرنے کے طریقے ڈھونڈ سکتے ہیں، بلوچستان میں وہ غلطیاں دہرانے سے گریز کر سکتے ہیں۔ اور افغانوں سے زیادہ اچھے اور بہتر تعلقات کار قائم کر سکتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

افغانستان پاکستان وسی بابا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان پاکستان پشاور ویلی کے ساتھ فوج کی کے لیے کو بھی

پڑھیں:

پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف

اسلام آباد(صغیر چوہدری )پاکستان سے افغان مہاجرین واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ اپریل سے ستمبر تک 554000 مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے اور اگست 2025 میں 143000افغان پناہ گزین واپس بھیجے گئے
جبکہ صرف ستمبر 2025 کے پہلے ہفتے میں ایک لاکھ افغانیوں کو واپس بھجوایا گیا ہے ۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے واضح اور سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔دوسری جانب مجموعی طور پر 2023 سے اب تک تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ حکومت اس فیصلے کو قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیتی ہے،جبکہ پی او آر کارڈز کے حامل افغان مہاجرین کی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے جن کی واپسی کا عمل جاری ہے لیکن سیکیورٹی ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس،وقت غیر رجسٹرڈ افغانیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور وہ ملکی سلامتی کے لئے زیادہ خطرہ ہیں تاہم رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ تمام افغان مہاجرین کی واپسی اب ناگزیر ہے اور انہیں ہر حال میں واپس جانا ہے دوسری جانب ریاستی ادارے ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور حکومت کا یہ ٹارگٹ ہے کہ رواں برس کے آخر تک تمام افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل مکمل کرلیا جائے ۔ تاہم ناقدین کے مطابق یہ اجتماعی سزا کے مترادف ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر دہائیوں سے پاکستان میں آباد تھے۔دوسری جانب
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) نے افغانستان میں اپنے آٹھ امدادی مراکز بند کر دیے ہیں۔ ان مراکز کا بنیادی کام واپس آنے والے افغان مہاجرین کو رجسٹریشن، بایومیٹرک تصدیق اور فوری مالی امداد فراہم کرنا تھا۔ ان مراکز کی۔بندش کی وجہ طالبان حکومت کی خواتین عملے پر ان مراکز میں کام کرنے پر پابندی بتائی گئی ہے جس کے باعث UNHCR نے کہا کہ وہ اپنی خدمات جاری نہیں رکھ سکتا۔ ان مراکز میں روزانہ سات ہزار افراد مدد کے لیے رجوع کرتے تھے، لیکن اب یہ سہولت دستیاب نہیں رہی۔ اس کے علاوہ مالی امداد اور فنڈز کے بحران کو بھی جواز بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ واپسی کرنے والے مہاجرین کو سب سے بڑا مسئلہ نقد امداد کی معطلی ہے۔ان تمام جواز کو بنیاد بنا کر UNHCR نے اعلان کیا ہے کہ فنڈز کی کمی اور طالبان کی سخت عدم تعاون کی پالیسی کی وجہ سے اب وہ لاکھوں افراد کو کیش اسسٹنس یعنی نقد رقم فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ مختلف ڈونر ممالک نے بھی فنڈز روک دیے ہیں، جس کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ اگر اضافی وسائل فراہم نہ کیے گئے تو افغان مہاجرین کو بنیادی سہولیات دینا ناممکن ہو جائے گا۔ یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ جو لوگ پاکستان اور ایران سے واپس جا رہے ہیں، ان کی اکثریت ایسے علاقوں میں آباد ہو رہی ہے جو حالیہ زلزلے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں پہلے ہی رہائش، خوراک، صحت اور روزگار کی سہولیات محدود ہیں۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، کیونکہ طالبان حکومت نے خواتین کی نقل و حرکت اور بنیادی خدمات تک رسائی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دوسری جانب مہاجرین کی واپسی کا یہ معاملہ صرف پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ یورپی ممالک بھی اپنے افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے لیے طالبان حکومت سے براہِ راست رابطے کر رہے ہیں جس میں جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک شامل ہیں ۔ اس تمام تر صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ افغان مہاجرین کا بحران عالمی سطح پر نئی سفارتی اور سیاسی صف بندی پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان کی زیرو ٹالرنس پالیسی، طالبان حکومت کی سختیاں اور عدم تعاون ۔ اقوام متحدہ کے ہاتھ کھڑے کر دینا اور فنڈز کا بحران یہ سب عوامل مل کر افغان مہاجرین کے لیے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہے ہیں نتیجتا لاکھوں افراد غیر یقینی صورتحال، بنیادی سہولیات کی کمی اور سخت پالیسیوں کا شکار ہو کر مشکلات سے دوچار ہیں تاہم اسکی تمام تر ذمہ داری اب افغان حکومت اور اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دہائیوں تک لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی میزبانی پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لئے ممکن نہیں رہی

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • اڑان پاکستان کے تحت ٹیکنالوجی میں مہارت ہمارا ہدف ہے، احسن اقبال
  • ایشیا کپ: بنگال ٹائیگرز آگے جائیں گے یا افغانستان، فیصلہ سری لنکا افغان میچ پر منحصر
  • طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • آپریشن بنیان مرصوص کے بعد ہمارا ملک ابھر کر سامنے آیا ہے: شیری رحمان
  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام