پانی کا بحران علاقائی سلامتی کیلئے خطرہ ہے، مقررین کا کامسٹیک میں سیمینار سے خطاب
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
سندھ طاس معاہدے کو بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر معطل کیے جانے کے بعد نہ صرف علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ عالمی سطح پر بین الاقوامی معاہدوں کی ساکھ بھی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔
اسی تناظر میں بدھ کے روز پاکستان میں اسلامی تعاون تنظیم کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی (کامسٹیک) میں "پانی کا بحران اور سندھ طاس معاہدہ" پر ایک روز بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار کا انعقاد کامسٹیک، کراچی کونسل برائے امورِ خارجہ، حصار فاؤنڈیشن اور پنجوانی۔حصار واٹر انسٹیٹیوٹ نے مشترکہ طور پر کیا۔
سیمینار کا مقصد نہ صرف بھارت کے اس اقدام کے مضمرات پر روشنی ڈالنا تھا، بلکہ بین الاقوامی ثالثی کے تحت طے شدہ معاہدوں کی افادیت اور قانونی حیثیت کا جائزہ لینا بھی تھا۔
ابتدائی خطاب میں کراچی کونسل برائے امورِ خارجہ کی چیئرپرسن نادرہ پنجوانی نے معاہدے کی تاریخی حیثیت اور اس کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کی معطلی ایک نہایت سنگین پیش رفت ہے، جس کے اثرات محض پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہیں گے۔
حصار فاؤنڈیشن کے بورڈ آف گورنرز کے رُکن زوہیر عاشر نے سیمینار کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے زور دیا کہ یہ ایک ایسا نازک موقع ہے جہاں دو جوہری ممالک کے درمیان صرف پانی نہیں، بلکہ امن و امان داؤ پر لگا ہوا ہے۔
معروف جغرافیہ دان اور آبی امور کی ماہر سیمی کمال نے ہائیڈرولوجیکل زاویے سے بات کرتے ہوئے پانی کی منصفانہ تقسیم، ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور پاکستان کے لیے شواہد پر مبنی ہم آہنگ پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیا۔
ماحولیات کے قانونی ماہر رفیع عالم نے سندھ طاس معاہدے کی قانونی جہتوں کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کے بین الاقوامی قانونی حقوق اور ہیگ کی عالمی عدالتِ انصاف جیسے فورمز کے امکانات کا ذکر کیا۔
معروف تجزیہ نگار و سینئیر پارلیمیٹرین سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت کی یہ یکطرفہ کارروائی نہ صرف خطے میں کشیدگی بڑھا سکتی ہے بلکہ خود بھارت کی عالمی ساکھ کو بالخصوص چین جیسے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
ماحولیاتی ماہر علی توقیر شیخ نے موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کی معطلی کے بعد پاکستان کےلیے ایک جامع حکمت عملی اختیار کرنا ناگزیر ہے۔
دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل نے بھارت کی پاکستان مخالف پالیسیوں کی تاریخی جھلک پیش کی اور واضح کیا کہ اب روایتی جنگ نہیں، پانی کی جنگ کا خطرہ ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
اختتامی خطاب میں کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل ڈاکٹر اقبال چوہدری نے گفتگو کے تمام پہلوؤں کو سمیٹتے ہوئے پاکستان کے لیے سفارتی، قانونی اور کثیرالملکی محاذوں پر ممکنہ اقدامات کا خاکہ پیش کیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی پاکستان کے معاہدے کی کرتے ہوئے بھارت کی
پڑھیں:
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف تحریک میں انسانی حقوق اہم، وولکر ترک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 04 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے خبردار کیا ہے کہ صحت مند زمین کے بغیر انسان کی بقا ممکن نہیں۔ دنیا کو موسمیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے ہنگامی، منصفانہ اور حقوق کی بنیاد پر طریقے وضع کرنا ہوں گے۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ دنیا کو درپیش یہ بحران اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات نئی طرز کی سیاست اور مضبوط قیادت کا تقاضا کرتے ہیں۔
Tweet URLانہوں نے ماحولیاتی نظام کے استحصال پر افسوس اور تنقید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسان نے فطرت سے جھوٹی علیحدگی اختیار کر لی ہے اور اس دھوکے کا شکار ہے کہ وہ فطرت کو اپنی خواہش کے مطابق تبدیل کر سکتا ہے جبکہ ایسا ممکن نہیں۔
(جاری ہے)
ہائی کمشنر نے ماحولیاتی انحطاط کو بنیادی ناانصافی سے جوڑتے ہوئے کہا کہ دنیا کے امیر ترین ایک فیصد لوگ غریب ترین دو تہائی آبادی سے زیادہ کاربن خارج کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ جن لوگوں پر موسمیاتی بحران کی بہت کم ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہی اس کے بدترین اثرات جھیل رہے ہیں۔
تبدیلی کی عالمگیر تحریکانہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حسب ضرورت مالی وسائل کی قلت پر تشویش کا اظہار کیا اور بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات کے لیے زور دیتے ہوئے کہا کہ معدنی ایندھن کے استعمال کو روکنے کے لیے مجوزہ معاہدے کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسے معاہدے سے تیل، کوئلہ اور گیس نکالنے کے نئے منصوبوں کو روکنے میں مدد ملے گی۔ان کا کہنا تھا کہ دور حاضر اور مستقبل میں صحت مند زمین پر تحفظ، سلامتی اور مواقع کے ساتھ رہنا تمام ممالک کا حق ہے۔
وولکر ترک نے تمام حکومتوں، اداروں اور افراد پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے مثبت تبدیلی لانے کی عالمگیر تحریک شروع کریں جس کی بنیاد انسانی حقوق، موسمیاتی بحران پر قابو پانے اور مزید مساوی و مستحکم مستقبل کی تعمیر پر ہو۔