پاکستان سے شکست، بھارتی چیفس آف ڈیفنس سٹاف عوام کو کرکٹ کی مثالوں سے تسلیاں دینے لگے
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
پاکستان سے شکست، بھارتی چیفس آف ڈیفنس سٹاف عوام کو کرکٹ کی مثالوں سے تسلیاں دینے لگے.
لاہور پاکستان سے شکست کھانے اور جدید ترین رفال فائٹر طیاروں کی تباہی کے بارے میں بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف نے عوام کو کرکٹ کی مثالوں کے ساتھ تسلیاں دینا شروع کردی ہیں۔
جنرل انیل چوہان کا کہنا ہے کہ ٹیم جیت جاتی ہے تو وکٹیں گرنے کا سوال نہیں اٹھتا، پیشہ ور فوجیوں پر نقصانات کا اثر نہیں ہوتا۔
گزشتہ روز ایک خصوصی لیکچردیتے ہوئے جنرل انیل چوہان نے کہا کہ پیشہ ور فوج عارضی نقصانات سے متاثر نہیں ہوتی کیونکہ مجموعی نتائج اس طرح کے دھچکے سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
پونے کی ساوتری بائی پھولے یونیورسٹی کے زیر اہتمام ʼمستقبل کی جنگیںʼ پر ایک خصوصی لیکچر میں آپریشن سندور کے دوران بھارتی مسلح افواج کے نقصانات کے بارے میں پوچھے جانے پر جنرل چوہان نے کرکٹ میچ میں وکٹوں کے نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ٹیم کو کسی بھی طریقے سے جیتنا ہے تو اس بارے میں کوئی سوال نہیں ہے کہ کتنی وکٹیں گری ہیں۔
یاد رہے کہ بھارتی فوج کے چیف آف ڈیفنس سٹاف نے چند روز قبل امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں بھارتی طیارے گرنے کا اعتراف کیا تھا تاہم انہوں نے تباہ ہونے والے طیاروں کی تعداد بتانے سے گریز کیا تھا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ا ف ڈیفنس سٹاف
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔