اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ میں نے سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کا جواب دیا، میں نے کہا کہ شملہ معاہدہ پر وہی کچھ اپلائی ہوگا جو سندھ طاس معاہدے پر ہوگا۔

 ’’جیو نیوز‘‘ کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے  خواجہ آصف نے کہا کہ بھارت نے جو سندھ طاس معاہدہ کے ساتھ کیا اس پر جواب دیا، کہا تھا سندھ طاس معاہدہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے تو شملہ معاہدہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ وزارت خارجہ کا میرے بیان سے کوئی تعلق نہیں، میرا ذاتی بیان تھا، میں سمجھتا ہوں کہ میرا مؤقف بالکل ٹھیک ہے۔  چناب میں روز خود پانی کی سطح چیک کر رہا ہوں، ایک دن 6 ہزار کیوسک پانی آتا ہے دوسرے دن پانی کی آمد زیادہ ہوجاتی ہے، چناب میں پانی کی آمد میں کمی اور زیادتی کچھ دن سے چل رہی ہے۔

مودی سرکار کی سفارتی ناکامیوں میں اضافہ ، بڑے بڑوں کے استعفوں کی مانگ ،اپوزیشن کی’ ’جارحانہ بیٹنگ جاری“بھارتی میڈیا بھی ”جاگنے “لگا 

خواجہ آصف نے کہا کہ بھارت نے نہ صرف جنگ ہاری بلکہ کشمیر پر ہمارا مؤقف بھی مضبوط ہوا۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

یہ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے

ہر بچے کی شخصیت سازی میں اُس کے اسکول کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کا درجہ حاصل ہے لیکن جدید دور کے بچے عمومی طور پر ماں کی گود والی درسگاہ سے محروم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

کوئی بچہ بڑے ہوکر کیسا انسان بنے گا، اس بات کا تعین دراصل اُس کے تعلیمی ادارے کا معیار کرتا ہے۔معاشرے کو مہذب بنانا اور وہاں بسنے والے افراد کی تعلیم و ترتیب کا خیال رکھنا ایک مکتب کا اولین فرض ہے لیکن پیسا فرائض کو بھلانے کی طاقت باخوبی رکھتا ہے۔

تعلیم فراہم کرنا ایک مقدس فعل ہے مگر علم کی سودے بازی ہرگز قابل ِ قبول عمل تصور نہیں کی جاسکتی ہے۔ ایک ماں کی نظر میں جس طرح اُس کے تمام بچے برابر ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی استاد کے لیے بھی اُس کے سارے طالبِ علم برابر ہونے چاہئیں کیونکہ کسی بھی استاد کی جانب سے طالب علموں کے درمیان بھید بھاؤ کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔

 دور حاضر میں تقریباً تمام اسکولوں کا ایک خاص چلن بن چکا ہے کہ اپنے ادارے کے ذہین بچوں پر خاص توجہ مرکوز کرنا اور اوسط درجے والے طالبِ علموں کو اپنے دست شفقت سے محروم رکھنا۔

یہ سارا کھیل دراصل نمبروں کا ہے، چھوٹی جماعتوں سے ہی تیز ذہن رکھنے والے طلباء و طالبات کی ایک فوج اس مقصد سے تیار کی جا رہی ہوتی ہے کہ وہ وقت آنے پر بورڈ کے امتحانات میں شاندار نمبروں سے کامیابی حاصل کرکے اپنے اسکول کو شہر کا بہترین تعلیمی ادارہ ہونے کا اعزاز دلوانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

 جس کو بھرپور طریقے سے استعمال کرکے ہمارے معاشرے کے اُن والدین کی توجہ اپنے ادارے کی جانب مبذول کروائی جاسکے جو اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے کافی فکرمند ہیں۔

جب والدین کسی تعلیمی ادارے کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن ہونگے تو اُن کا بچہ ظاہر ہے اُسی ادارے کا حصہ بنے گا اور پھر وہ بچہ اپنے ہمراہ کئی اور بچے لے کر آئے گا جس کے باعث اُس اسکول کی چاندنی ہو جائے گی اور اسکول کے مالکان پر پیسوں کی بارش۔

عقل و فہم کے حوالے سے مالا مال طالب علموں پر استاد کی تھوڑی توجہ بھی بہت کام کرتی ہے جب کہ اصل توجہ کی ضرورت کمزور ذہن والے بچوں کو ہوتی ہے مگر بڑوں کی لالچ نے بچوں کے ذہنوں کو چھوٹی عمر سے ہی برتری اور کمتری کے احساس سے متعارف کروا دیا ہے۔

 استاد کی شخصیت اُس کے شاگرد کے لیے مثالی ہوتی ہے اور جب وہی مثالی شخصیت اپنے مخصوص طالب علموں پر فریفتہ ہوگی تو خاص توجہ پانے والے طالبِ علم خود کو اعلیٰ تصور کرنے لگیں گے جب کہ نظر انداز ہونے والے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں گے اور یہ بات دونوں طرح کے بچوں کی تربیت کے عمل کو بری طرح متاثر کرنے کے لیے کافی ہے۔

آج کی دنیا جہاں بیشمار مسائل سے دوچار ہے وہیں ذہنی بیماریوں کا وار بھی انسانوں پر تیزی سے جاری و ساری ہے۔ ہم یہ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمانہ حال بہت سارے حوالوں سے انسان کی ذہنی نشوونما کو متاثر کررہا ہے مگر ساتھ ہم اُن عوامل کو دیکھنے سے کیوں قاصر ہیں جو ہمارے ذہنوں پر مسلسل بوجھ بڑھا رہے ہیں۔

انسان کے اندر ذہنی الجھنوں کے بیج اُس کے بچپن کے ناقابلِ فراموش واقعات و حادثات پیدا کرتے ہیں جو اُس کے جسم میں عمر کے ساتھ ساتھ بیج سے پودے اور پودے سے تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

کسی فرد کی انجانے میں کی جانے والی معمولی حرکت سامنے والے کے لیے کتنی بڑی اذیت ثابت ہو رہی ہوتی ہے اس کا علم شاید ہی اُس فرد کو ہوتا ہو مگر سامنے والے کا کرب اُس کی زندگی میں آنے والی خوشیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ باآسانی بن سکتا ہے۔

تعلیم کا ذکر ہمیشہ تربیت کے ہمراہ ہوتا ہے کیونکہ ایک کے بغیر دوسرا بالکل ادھورا سمجھا جاتا ہے، موجودہ دور کی تعلیم ہر لحاظ سے ماضی کے مقابلے میں جدید اور بہترین ہے مگر تربیت کا اس میں شدید فقدان پایا جاتا ہے جو اس کی شان کو گھٹا کر بے مول کر دیتا ہے۔

یہ کوئی پچھلی صدی کی بات نہیں ہے جب درسگاہیں اپنے طالبِ علموں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ اُنھیں معاشرے میں اٹھنے، بیٹھنے اور بول چال کے آداب سکھانے کے علاؤہ ہنرمند بھی بناتی تھیں۔

آج کے ماڈرن والدین اپنے بچوں کو بااخلاق بنانے کی ذمے داری مہنگے اور اعلٰی معیار والے اسکولوں پر لگا کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں اور اسکول والوں کی نظر میں بچے کا باآدب ہونا ثانوی حیثیت رکھتا ہے اُن کو مطلب صرف اپنے ادارے میں زیرِ تعلیم بچوں کے قابلِ تحسین رزلٹ اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے مختلف طریقے ایجاد کرنے سے ہے۔

بچہ اگر اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑ رہا ہو اور فرفر انگریزی بول رہا ہو تو پھر وہ تمیز دار ہو یا بدتمیز اُس کے والدین اور اسکول کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے مگر معاشرے کو اُس کی تربیت سے بے انتہا فرق پڑتا ہے۔

بچپن میں سیکھی ہوئی اچھی، بری باتیں انسان کی شخصیت کے مثبت یا منفی ہونے پر مختص ہوتی ہیں۔ وقت رہتے اگر بچوں کو سیدھی راہ نہ دکھائی جائے اور اُن کو اچھے، برے کی پہچان نہ کروائی جائے تو اس کا خمیازہ صرف ایک فرد یا گھرانے کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے۔

آج کل ہم اپنے اردگرد جس طرح پڑھے، لکھے گھرانوں کے ہونہار سپوتوں کو عجیب و غریب قسم کی کوئی مخلوق بنتے دیکھ رہے ہیں اُس کی واحد وجہ تربیت کے بغیر تعلیم کا حصول ہے۔ کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کا دارومدار اُس کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر مبنی ہوتا ہے۔

جس قوم کی درسگاہیں بِنا تفریق اپنا کام سچی لگن سے انجام دیں گی وہاں کے معاشروں کی باگ ڈور تعلیم و تربیت کی چاشنی سے تیار نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہوگی جو کہ دنیا کے ہر کونے میں لازوال ترقی کی شرط تصور کی جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • یہ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا خطرناک، فیصلہ واپس لیا جائے: اسحاق ڈار
  • بھارت کو پڑنے والی مار سے پراکسی وار میں شدت آئی، امریکہ ہماری فتح کا اعلان کر رہا ہے: خواجہ آصف
  • کوٹ ادو، مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف یوم سیاہ 
  • افغان رہنما کی 4 ہزار خود کش حملہ آور بھیجنے کی دھمکی ہمارے مؤقف کی سچائی کو ثابت کرتی ہے، دفتر خارجہ
  • بھارت کے ساتھ جنگ کا خطرہ آج بھی موجود ہے، خواجہ آصف
  • پاکستان اور جمہوریہ سلووینیا کے مابین علاقائی مسائل کے حل بارے معاہدہ
  • وزیراعظم کے حکم پر سیاحتی مقام میں پانی کے راستے میں کوئی ہوٹل نہیں بنے گا؛ مصدق ملک
  • بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا کوئی معاہدہ نہیں دیکھا، رہنما ن لیگ سلیم کھوسہ
  • ماہرہ خان کا صبا قمر سے متعلق افواہوں پر مؤقف