پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا ایجنڈا
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
جنگ ،تنازعات اور نفرت کا ماحول کبھی دو ملکوں کے درمیان مسائل کا حل نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص اگر دونوں ممالک کو ایٹمی قوت کا درجہ حاصل ہو تو ان میں جنگ کا ہونا سوائے تباہی کے اور کچھ نہیںہو سکتا۔ پاک بھارت تنازعات کی طویل کہانی ہے اور جنگیں بھی ان کے مسائل کا حل ثابت نہیں ہوسکیں۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر اس نقطہ کی اہمیت کو بڑھایا ہے کہ دونوں ملکوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے مسائل کا حل جنگ میں نہیں بلکہ بات چیت کے اندر تلاش کریں ۔ یہ ہی حکمت عملی دونوں ملکوں سمیت خطے اور عالمی دنیا کے مفاد میں ہے۔کیونکہ اگر پاک بھارت کشیدگی کسی جنگ میں تبدیل ہوتی ہے تو یہ عالمی دنیا کے لیے بھی نئے خطرات کو جنم دے گی۔اس لیے دونوں ملکوں کے لیے جنگ یا کشیدگی سے بچنا اور پرامن سیاسی حل کی مدد سے آگے بڑھنے کی حکمت عملی کو ہی بالادستی ہونی چاہیے۔
دونوں ممالک کے درمیان جتنی بھی بداعتمادی ہو اس کا علاج مذاکرات کی میز پر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ کیونکہ سیاست اور جمہوریت میں مذاکرات ہی وہ واحد آپشن ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر سیاسی فریقین ایک دوسرے کے لیے سیاسی گنجائش پیدا کرتے ہیں ۔مگر اس کے برعکس جب ہم اپنے سیاسی اختلافات کو دشمنی یا نفرت کا رنگ دیتے ہیں تو پھر مذاکرات کے مقابلے میں ڈیڈ لاک اور بداعتمادی کو برتری حاصل ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان مزید انتشار اور جنگ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔حالیہ دنوں میں پاک بھارت کشیدگی کوئی اچھا پہلو نہیں۔ یہ عمل دونوں ممالک میں امن کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے سیاسی دھچکہ ہے اور ان کو لگتا ہے کہ ہم پرامن راستے کو چھوڑ کر خود کو جنگ کے حالات میں دھکیل رہے ہیں۔
بھارت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان پہلے ہی حالت جنگ میں ہے اور کئی دہائیوں سے اسے اپنے ہی ملک میں سنگین سیکیورٹی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ پاکستان بطور ریاست بھارت میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے یا اس کا ذمے دار ہے درست بات نہیں ہے ۔ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کو نظرانداز کرکے بھارت کی سیاسی ڈھٹائی آگے نہیں بڑھ سکے گی اور دنیا کو بھی احساس ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی۔
پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں رہنے والے لوگوں کے حقیقی مسائل پر حکومت کو ذمے دار کردار ادا کرنا چاہیے۔اصل جنگ اسلحہ کی بنیاد پر یا ایک دوسرے کے ملک کو فتح کرنے یا توڑنے کی بجائے پس ماندگی، غربت، خوراک کی کمی ،پانی کی کمی، روزگار کی فراہمی جیسے مسائل کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔دونوں ممالک کے لوگ اپنی حکومت سے اپنے مسائل کا حل اور بنیادی حقوق کی فراہمی چاہتے ہیں۔
دشمنی کسی کے حق میں نہیں ہے اور یہ عمل دونوں ملکوں کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔ بھارت کا رویہ پاکستان کی مخالفت میں بہت سخت اور نفرت پر مبنی ہے اور اسی بنیاد پر بھارت نے پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر بات چیت کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔حالانکہ علاقائی ممالک میں موجود تمام فورمز کو فعال کرنا یا اسے سرگرم انداز میں چلانا تاکہ تمام ممالک ایک دوسرے کے قریب آسکیں اس کی بڑی ذمے داری بھی بھارت ہی کی بنتی ہے۔ کیونکہ وہ ایک بڑا ملک ہے اور اس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے علاقائی فورمز جہاں مشترکہ مسائل پر بات چیت ہوسکتی ہے عدم فعالیت کا شکار ہیں۔بھارت کو لگتا ہے کہ اگر علاقائی فورمز فعال ہوتے ہیں تو اس کا براہ راست فائدہ پاکستان کو ہوگا اور اسی بنیاد پر بھارت نے اس پر بھی ڈیڈ لاک کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔
بھارت میں ہندواتہ یا مسلم دشمنی کی سیاست ہو یا پاکستان میں انتہا پسندی اس سے باہر نکلنا ہی علاقائی استحکام کے حل میں اہم ہے ۔اگر ہم انتہا پسندی کے خلاف ہیں تو اسی طرح سیاسی انتہا پسندی بھی اچھا فعل نہیں ہے اور اس کا نتیجہ سیاسی شدت پسندی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی سیاست اور اس سے جڑے فیصلہ سازوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ دونوں اہم ممالک کے درمیان بات چیت کا دروازہ کس نے بند کیا ہوا ہے اور کون بات چیت کا راستہ نکالنا چاہتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت کو نئی جہتوں اور بہتر ترقی اور آپس میں بہتر تعلقات کے نئے راستے تلاش کرنے ہونگے۔دونوں ملکوں کے عوام اپنی اپنی سیاسی قیادت سے یہ ہی توقع کرتی ہے کہ ان کی ترجیحات جنگ اور کشیدگی نہیں بلکہ تعمیر کا راستہ ہونا چاہیے۔اب بھی ہمیں بھارت سے پاکستان کی مخالفت یا نریندر مودی کے عزائم کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ کسی بھی طور پرپرامن تعلقات کے حق میں نہیں ہیں۔ بھارت کی سیاست پاکستان کے تناظر میں شدت پسندی کی ہے اور اس میں یقینی طور پر کمی آنا چاہیے۔
اگر بھارت کو اس بات پر مسئلہ ہے کہ پاکستان اس کے ملک میں دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے تو تمام ثبوت کو پاکستان کے ساتھ یا عالمی فورمزپر پیش کرنا چاہیے تاکہ اس اہم مسئلہ پر بھی پیش رفت ہو سکے۔پہلگام واقعہ پر اگر بھارت کے پاس پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں تو ان کو ثبوت کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔محض الزام تراشیوں یا ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکورنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہیں اور ہمیں جنگوں اور تنازعات سے باہر نکل کر سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔یہ دنیا اس وقت معیشت اور سیاسی و جمہوری نظام کی مضبوطی کی دنیا ہے جب کہ ہم جنگوں اور تنازعات میں الجھ کر اپنے وسائل بھی دشمنی میں ضایع کررہے ہیں ۔
دونوں اطراف میں موجود سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا اور اہل دانش کوترقی اور امن کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے اپنی اپنی حکومتوں پر ہی دباؤ بڑھانا ہوگا کہ ریاستیں درست سمت کا تعین کریں۔
اسی طرح جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی،سماجی ،ثقافتی اور کھیل یا کلچرل سمیت معاشی تبادلوں کے امکانات کو آگے نہیں بڑھایا جائے گا تب تک بہتری کا راستہ بھی نہیں نکل سکے گا۔اصل چیلنج ایک دوسرے کے بارے میں سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہے۔جو لوگ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں خرابی پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کا راستہ روکنا ہی دونوں ملکوں کی اہم ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ دونوں ممالک میں موجود تنازعات اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہونگے ہمیں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرات کا سامنا رہے گا جو ان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملکوں کے درمیان دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے دونوں ممالک مسائل کا حل پاکستان کے ممالک میں پاک بھارت ہے اور اس بنیاد پر میں نہیں کا راستہ نہیں ہے بات چیت ہیں تو کے لیے
پڑھیں:
’’ سیاسی بیانات‘‘
پی ٹی آئی کی طرف سے بنائی گئی تحریک تحفظ آئین کے سربراہ، بلوچستان سے قومی اسمبلی کے رکن اور ماضی میں شریف فیملی سے نہایت قریبی تعلق رکھنے والے سیاستدان محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک میں آئین معطل ہو چکا، ہماری پارلیمنٹ کے اختیارات و بنیادی انسانی حقوق، جلسہ و جلوس، تحریر و تقریر اور احتجاج کرنے کی آزادی سب کچھ چھین لیے گئے ہیں اور ہمیں یہ خوف ہے کہ پاکستان ہماری اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ڈوب رہا ہے اور ملک کے تمام ادارے کرپشن میں مبتلا ہیں، جس کے خلاف ہر پاکستانی کو نکلنا ہوگا اور موجودہ حکومت کا خاتمہ بے حد ضروری ہو چکا ہے۔
حکومت مخالف سیاستدانوں کے ایسے بیانات آتے رہے ہیں تاہم جناب محمود اچکزئی نے نیا انکشاف یہ کیا ہے کہ ملک کا آئین معطل ہو چکا ہے لیکن دوسری طرف وہ اسی آئین کے تحت قائم قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور ایوان میں جا کر دھواں دھار تقریرکرتے اور موجودہ حکومت کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوام کو نظرانداز کر کے ارکان پارلیمنٹ کی بہت زیادہ تنخواہ اور مراعات بڑھائی ہیں جو تمام ارکان پارلیمنٹ باقاعدگی سے وصول کر رہے ہیں، ان ارکان میں وہ بھی شامل ہیں جو ایوان میں موجود رہنا گوارا نہیں کرتے۔ اگر آتے ہیں تو حاضری لگا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
سبسڈائز کیفے ٹیریا انجوائے کرتے ہیں، پارلیمنٹ لاجز میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اسمبلی میں کورم پورا کرنا اپنی آئینی ذمے داری نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسے ارکان پارلیمنت کی آمد کا واحد مقصد حاضری لگا کر تنخواہ اور مراعات وصول کرنا اور اسلام آباد کے آرام دہ ایم این اے ہاسٹلز میں رہنا اور ذاتی کام نمٹانا رہ گیا ہے اور اس ایوان میں بعض ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی ہیں جنھوں نے اسمبلی میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولا مگر ضرورت پر انھیں ڈیسک بجاتے ضرور دیکھا گیا ہے اور وہ کسی احتجاج کا حصہ بھی نہیں بنتے مگر آئین کے تحت وہ رکن پارلیمنٹ ہیں اور حکومت کی فراہم کردہ مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔
محمود اچکزئی آجکل پی ٹی آئی کے حامی ہیں اورموجودہ حکومت کو پی ٹی آئی کے بیانیے کی طرح خود بھی غیر قانونی اور فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ لیکن جہاں استحقاق اور مراعات وغیرہ کا معاملہ ہو تو سب ایک ہوتے ہیں اور یہی اسمبلیاں آئینی بھی ہوتی ہیں۔ تمام ارکان موجودہ حکومت کی بڑھائی گئی تمام مراعات سے مستفید بھی ہو رہے ہیں اور کسی ایک نے بھی مراعات لینے سے انکار نہیں کیا۔
سیاست میں دوستی اور دشمنی وقت کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی محمود خان اچکزئی پاکستان کے کوئی قومی لیڈر نہیں بلکہ اپنے بلوچستان کے بھی مسلمہ لیڈر نہیں ہیں، وہ بلوچستان میں بسنے والے پشتو بولنے والوں کی نمایندگی کرتے ہیں،، بلوچستان کے سارے پختون بھی ان کے ووٹر نہیں ہیں۔وہ بلوچستان کے ضلع پشین میں زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے پختون لیڈر شمار ہوتے ہیں مگر اپنا اظہار خیال وہ خود کو قومی رہنما سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ آئین نے انھیں ہر قسم کی تقریر کا حق دیا ہوا ہے۔
ملک کے 1973 کے متفقہ آئین نے پاکستان کے ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی دے رکھی ہے۔ کیا کسی اور ملک میں اپنے ہی ملک کے بارے میں متنازع اور غیر محتاط تقریریں ہوتی ہیں؟ بلوچستان میں ہے جہاں آئے دن دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی ہیں، مگرقوم پرست لیڈر بولیں گے تو وفاق کے خلاف یا بھی پنجاب کے بارے میں اشتعال تقاریر کریں گے۔سیکیورٹی اداروں کو برا بھلا کہیں گے لیکن دہشت گردوں کے خلاف بات نہیں کریں اور نہ ان کے سہولت کاروں کا کوئی ذکر ہوگا، اگر کوئی بات ہوگی تو وہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے انداز میں ہوگی۔ بلوچستان کے سماجی نظام میں اصلاحات لانے کا مطالبہ نہیں کریں گے بلکہ اس کے تحفظ کی بات کریں گے۔
صوبہ سندھ میں پاکستان کھپے کا نعرہ بھی لگا ، سندھ میں پی پی کی 17 سال سے حکومت ہے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت بھی قوم پرستوں کو نہ سمجھا پائی ہو کہ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ سندھ کا امن برقرار رکھیں۔ سیاستدان حکومتی مراعات کا بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور حکومت کے خاتمے کو ضروری سمجھتے ہوں۔ ملک کی عدالتوں سے حکومت مخالفین کو آئین کے مطابق سہولیات بھی مل رہیہیں لیکن وہ کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ آئین معطل ہو چکا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کس قسم کی سیاست ہے اور کس نظریے کی نمایندگی کرتی ہے؟