Express News:
2025-06-06@17:30:45 GMT

پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا ایجنڈا

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

جنگ ،تنازعات اور نفرت کا ماحول کبھی دو ملکوں کے درمیان مسائل کا حل نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص اگر دونوں ممالک کو ایٹمی قوت کا درجہ حاصل ہو تو ان میں جنگ کا ہونا سوائے تباہی کے اور کچھ نہیںہو سکتا۔ پاک بھارت تنازعات کی طویل کہانی ہے اور جنگیں بھی ان کے مسائل کا حل ثابت نہیں ہوسکیں۔

حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر اس نقطہ کی اہمیت کو بڑھایا ہے کہ دونوں ملکوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے مسائل کا حل جنگ میں نہیں بلکہ بات چیت کے اندر تلاش کریں ۔ یہ ہی حکمت عملی دونوں ملکوں سمیت خطے اور عالمی دنیا کے مفاد میں ہے۔کیونکہ اگر پاک بھارت کشیدگی کسی جنگ میں تبدیل ہوتی ہے تو یہ عالمی دنیا کے لیے بھی نئے خطرات کو جنم دے گی۔اس لیے دونوں ملکوں کے لیے جنگ یا کشیدگی سے بچنا اور پرامن سیاسی حل کی مدد سے آگے بڑھنے کی حکمت عملی کو ہی بالادستی ہونی چاہیے۔

دونوں ممالک کے درمیان جتنی بھی بداعتمادی ہو اس کا علاج مذاکرات کی میز پر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ کیونکہ سیاست اور جمہوریت میں مذاکرات ہی وہ واحد آپشن ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر سیاسی فریقین ایک دوسرے کے لیے سیاسی گنجائش پیدا کرتے ہیں ۔مگر اس کے برعکس جب ہم اپنے سیاسی اختلافات کو دشمنی یا نفرت کا رنگ دیتے ہیں تو پھر مذاکرات کے مقابلے میں ڈیڈ لاک اور بداعتمادی کو برتری حاصل ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان مزید انتشار اور جنگ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔حالیہ دنوں میں پاک بھارت کشیدگی کوئی اچھا پہلو نہیں۔ یہ عمل دونوں ممالک میں امن کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے سیاسی دھچکہ ہے اور ان کو لگتا ہے کہ ہم پرامن راستے کو چھوڑ کر خود کو جنگ کے حالات میں دھکیل رہے ہیں۔

بھارت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان پہلے ہی حالت جنگ میں ہے اور کئی دہائیوں سے اسے اپنے ہی ملک میں سنگین سیکیورٹی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ پاکستان بطور ریاست بھارت میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے یا اس کا ذمے دار ہے درست بات نہیں ہے ۔ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کو نظرانداز کرکے بھارت کی سیاسی ڈھٹائی آگے نہیں بڑھ سکے گی اور دنیا کو بھی احساس ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی۔

پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں رہنے والے لوگوں کے حقیقی مسائل پر حکومت کو ذمے دار کردار ادا کرنا چاہیے۔اصل جنگ اسلحہ کی بنیاد پر یا ایک دوسرے کے ملک کو فتح کرنے یا توڑنے کی بجائے پس ماندگی، غربت، خوراک کی کمی ،پانی کی کمی، روزگار کی فراہمی جیسے مسائل کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔دونوں ممالک کے لوگ اپنی حکومت سے اپنے مسائل کا حل اور بنیادی حقوق کی فراہمی چاہتے ہیں۔

دشمنی کسی کے حق میں نہیں ہے اور یہ عمل دونوں ملکوں کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔ بھارت کا رویہ پاکستان کی مخالفت میں بہت سخت اور نفرت پر مبنی ہے اور اسی بنیاد پر بھارت نے پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر بات چیت کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔حالانکہ علاقائی ممالک میں موجود تمام فورمز کو فعال کرنا یا اسے سرگرم انداز میں چلانا تاکہ تمام ممالک ایک دوسرے کے قریب آسکیں اس کی بڑی ذمے داری بھی بھارت ہی کی بنتی ہے۔ کیونکہ وہ ایک بڑا ملک ہے اور اس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے علاقائی فورمز جہاں مشترکہ مسائل پر بات چیت ہوسکتی ہے عدم فعالیت کا شکار ہیں۔بھارت کو لگتا ہے کہ اگر علاقائی فورمز فعال ہوتے ہیں تو اس کا براہ راست فائدہ پاکستان کو ہوگا اور اسی بنیاد پر بھارت نے اس پر بھی ڈیڈ لاک کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔

بھارت میں ہندواتہ یا مسلم دشمنی کی سیاست ہو یا پاکستان میں انتہا پسندی اس سے باہر نکلنا ہی علاقائی استحکام کے حل میں اہم ہے ۔اگر ہم انتہا پسندی کے خلاف ہیں تو اسی طرح سیاسی انتہا پسندی بھی اچھا فعل نہیں ہے اور اس کا نتیجہ سیاسی شدت پسندی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی سیاست اور اس سے جڑے فیصلہ سازوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ دونوں اہم ممالک کے درمیان بات چیت کا دروازہ کس نے بند کیا ہوا ہے اور کون بات چیت کا راستہ نکالنا چاہتا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت کو نئی جہتوں اور بہتر ترقی اور آپس میں بہتر تعلقات کے نئے راستے تلاش کرنے ہونگے۔دونوں ملکوں کے عوام اپنی اپنی سیاسی قیادت سے یہ ہی توقع کرتی ہے کہ ان کی ترجیحات جنگ اور کشیدگی نہیں بلکہ تعمیر کا راستہ ہونا چاہیے۔اب بھی ہمیں بھارت سے پاکستان کی مخالفت یا نریندر مودی کے عزائم کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ کسی بھی طور پرپرامن تعلقات کے حق میں نہیں ہیں۔ بھارت کی سیاست پاکستان کے تناظر میں شدت پسندی کی ہے اور اس میں یقینی طور پر کمی آنا چاہیے۔

اگر بھارت کو اس بات پر مسئلہ ہے کہ پاکستان اس کے ملک میں دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے تو تمام ثبوت کو پاکستان کے ساتھ یا عالمی فورمزپر پیش کرنا چاہیے تاکہ اس اہم مسئلہ پر بھی پیش رفت ہو سکے۔پہلگام واقعہ پر اگر بھارت کے پاس پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں تو ان کو ثبوت کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔محض الزام تراشیوں یا ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکورنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہیں اور ہمیں جنگوں اور تنازعات سے باہر نکل کر سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔یہ دنیا اس وقت معیشت اور سیاسی و جمہوری نظام کی مضبوطی کی دنیا ہے جب کہ ہم جنگوں اور تنازعات میں الجھ کر اپنے وسائل بھی دشمنی میں ضایع کررہے ہیں ۔

دونوں اطراف میں موجود سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا اور اہل دانش کوترقی اور امن کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے اپنی اپنی حکومتوں پر ہی دباؤ بڑھانا ہوگا کہ ریاستیں درست سمت کا تعین کریں۔

اسی طرح جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی،سماجی ،ثقافتی اور کھیل یا کلچرل سمیت معاشی تبادلوں کے امکانات کو آگے نہیں بڑھایا جائے گا تب تک بہتری کا راستہ بھی نہیں نکل سکے گا۔اصل چیلنج ایک دوسرے کے بارے میں سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہے۔جو لوگ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں خرابی پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کا راستہ روکنا ہی دونوں ملکوں کی اہم ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ دونوں ممالک میں موجود تنازعات اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہونگے ہمیں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرات کا سامنا رہے گا جو ان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ملکوں کے درمیان دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے دونوں ممالک مسائل کا حل پاکستان کے ممالک میں پاک بھارت ہے اور اس بنیاد پر میں نہیں کا راستہ نہیں ہے بات چیت ہیں تو کے لیے

پڑھیں:

پاک بھارت جنگ بندی سے ٹرمپ نے ثابت کیا امن کے پیامبر ہیں، شہباز شریف

امریکا کی آزادی کی 249ویں سالگرہ کی تقریب پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امریکا کی آزادی پرامریکی صدر اور امریکی عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، پاکستان امریکا تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت, سفارت خانے کے عملے کو 249ویں یوم آزادی پر مبارک دیتا ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی سے ٹرمپ نے ثابت کیا کہ وہ امن کے پیامبر ہیں۔ امریکا کی آزادی کی 249ویں سالگرہ کی تقریب پر خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ امریکا کی آزادی پر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، پاکستان امریکا تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت, سفارت خانے کے عملے کو 249ویں یوم آزادی پر مبارک دیتا ہوں، دونوں ممالک جمہوری روایات اور آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں، امریکا پاکستان کو تسلیم کرنے میں ابتدائی ممالک میں شامل ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2018ء میں ہم نے ملک سے مکمل دہشت گردی کا خاتمہ کردیا تھا، دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے بھاری نقصان اٹھایا ہے، دہشتگردی کی جنگ میں ہماری 90 ہزار جانیں قربان ہوئیں، دنیا کے مختلف خطوں میں دہشتگردی تباہی پھیلا رہی ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پہلگام واقعہ میں ہماری شفاف تحقیقات کو رد کیا گیا، ٹھوس شواہد دینے کے بجائے انڈیا نے الزامات کا سہارا لیا اور تحقیقات کے بجائے جارحیت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ امن، استحکام اور خوشحالی کا داعی رہا ہے، نائن الیون کے بعد عالمی سطح پر دہشتگردی کی جنگ کا آغازہوا۔وزیراعظم نے مزید کہ پاک بھارت جنگ بندی پر صدر ٹرمپ کے اقدامات کو سراہتے ہیں، انہوں نے ثابت کردیا کہ بغیر کسی شبہ کے امن کے پیامبر ہیں، پاکستان کی ترقی کے لیے امریکہ کے مختلف منصوبے ہمارے دیرینہ تعلقات کے عکاس ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چین امریکہ تعلقات ایک اہم تاریخی موڑ پر ہیں، چینی نائب صدر
  • اب سیاسی استحکام،معاشی ترقی ممکن
  • پاکستان کی جیت مودی کی سیاسی موت ثابت ہوئی، گرپتونت سنگھ
  • شملہ معاہدہ ختم ،دونوں ممالک1948 کی پوزیشن پرآگئے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • پاک بھارت جنگ بندی سے ٹرمپ نے ثابت کیا امن کے پیامبر ہیں، شہباز شریف
  • امریکا کو 249 یوم آزادی کی مبارکباد پیش کرتاہوں؛ وزیراعظم
  • پاکستان اور امریکا کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں، وزیراعظم
  •  پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور ترقی کیلئے تیار ہیں، چین
  • پاکستان اور امریکا کے تعلقات نئے دور میں داخل ہورہے ہیں، وزیراعظم