افریقی ملک چاڈ کا ٹرمپ کی پابندی پر دوٹوک جواب: امریکیوں کے ویزے روک دیے
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
افریقی ملک چاڈ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے شہریوں پر امریکہ میں داخلے کی پابندی کے جواب میں امریکی شہریوں کو ویزے جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
گزشتہ روز ٹرمپ انتظامیہ نے ایران، افغانستان، چاڈ، کانگو، یمن، لیبیا سمیت 12 ممالک کے شہریوں پر یہ کہہ کر پابندی لگائی کہ یہ اقدام "امریکیوں کو دہشت گردی سے بچانے" کے لیے کیا گیا ہے۔
چاڈ کے صدر ماہمات ادریس نے اس پابندی کو مسترد کرتے ہوئے فیس بک پر بیان دیا: “چاڈ کے پاس دینے کے لیے نہ طیارے ہیں، نہ اربوں ڈالر، مگر ہمارے پاس وقار اور عزت نفس ضرور ہے۔”
ان کے مطابق یہ اقدام صرف ایک خوددار ریاست کا ردعمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جیسے طاقتور ملک کے سامنے بھی چاڈ اپنے قومی وقار پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
دوسری جانب جمہوریہ کانگو نے بھی امریکی فیصلے کو "غلط فہمی" پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کانگو دہشت گرد ریاست نہیں اور نہ ہی کسی دہشت گرد کو پناہ دیتا ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 12 ممالک پر سفری پابندی عائد کردی، کونسے ممالک شامل؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایک نیا صدارتی حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت 12 ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، ایران، یمن، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، ہیٹی، اریٹریا، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، اور ایکویٹوریل گنی شامل ہیں۔ اس پابندی کا اطلاق پیر سے ہو گا۔
صدر ٹرمپ نے اس اقدام کو کولوراڈو کے شہر بولڈر میں ایک یہودی احتجاج پر ہونے والے حملے کے بعد ضروری قرار دیا، جس میں مشتبہ حملہ آور محمد صبری سلیمان کو غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم قرار دیا گیا ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے ہجوم پر آتش گیر مواد اور پٹرول چھڑک کر حملہ کیا۔
اس کے علاوہ 7 ممالک پر جزوی سفری پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں، جن میں برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرالیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ بولڈر میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ غیر جانچے پرکھے غیر ملکی شہری ہمارے ملک کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ہم ایسے افراد کو یہاں نہیں چاہتے۔
انہوں نے نئی پابندیوں کا موازنہ اپنی 2017 کی پہلی مدتِ صدارت میں لگائی گئی ’طاقتور‘ سفری پابندیوں سے کیا، جنہیں اُس وقت دنیا بھر میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اُس وقت کی پابندیوں نے امریکہ کو ان دہشت گرد حملوں سے محفوظ رکھا جو یورپ میں ہوئے۔
صدر ٹرمپ کے مطابق یہ نئے اقدامات ان ممالک پر لاگو کیے گئے ہیں جو مناسب ویزہ چھان بین، شناختی معلومات کی فراہمی، یا پاسپورٹ تصدیق کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ خاص طور پر افغانستان، یمن، لیبیا، صومالیہ اور سوڈان کو اس فہرست میں “غیر مستحکم اور ناقابلِ اعتماد” قرار دیا گیا ہے۔
ایران کو “دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ریاستی ملک” قرار دیتے ہوئے بھی شامل کیا گیا ہے، باوجود اس کے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے پر بات چیت جاری ہے۔
وینزویلا کے وزیر داخلہ دیوسدادو کابیو نے امریکی اعلان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا:
“امریکہ میں موجودگی وینزویلا کے شہریوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔”
یہ نیا حکم نامہ اچانک جاری کیا گیا، جب ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران تقریباً 3,000 سیاسی مقرّرین سے خطاب کیا۔ حیران کن طور پر، اعلان کے وقت کوئی بھی صحافی موجود نہیں تھا، حالانکہ اس سے قبل ٹرمپ اکثر ایسی پالیسیوں کا اعلان صحافیوں کے سامنے کیا کرتے تھے۔
وائٹ ہاؤس کی نائب پریس سیکرٹری ایبیگیل جیکسن نے X (سابقہ ٹوئٹر) پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا:
“صدر ٹرمپ امریکی عوام کو ان غیر ملکی عناصر سے بچانے کے اپنے وعدے پر عمل پیرا ہیں جو ہمارے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔”
ٹرمپ نے علیحدہ طور پر ہارورڈ یونیورسٹی آنے والے غیر ملکی طلباء پر ویزہ پابندی کا بھی اعلان کیا ہے، جسے ناقدین نے “لبرل اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن” سے تعبیر کیا ہے۔
یہ نئی پابندیاں بھی ممکنہ طور پر قانونی چیلنجز کا سامنا کر سکتی ہیں، جیسا کہ ٹرمپ کی متعدد سابقہ پالیسیاں کر چکی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ڈونلڈ ٹرمپ